گستاخانہ مواد کیس پاکستان میں ڈنمارک یا ناروے کا آئین نہیں چل سکتا اسلام آباد ہائی کورٹ
ایف آئی اے اپنا کام سرانجام دینے میں ناکام ہو چکی ہے، جسٹس شوکت عزیز صدیقی
سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر سے متعلق کیس کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ پاکستان کا اپنا آئین موجود ہے یہاں ڈنمارک یا ناروے کا آئین نہیں چل سکتا۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں گستاخانہ مواد کیس کی سماعت ہوئی۔ اس موقع پر عدالت نے ایف آئی اے حکام سے کیس میں ہونے والی پیش رفت سے متعلق تفصیلات طلب کیں جس پر ڈائریکٹر ایف آئی اے نے جواب دیا کہ متنازع پیجز کے حوالے سے 70 افراد کی نشاندہی کی گئی ہے، فیس بک انتظامیہ کے جواب کا انتظار ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: فیس بک گستاخانہ مواد کی روک تھام کیلیے وفد پاکستان بھیجنے پر رضامند
ایف آئی اے حکام نے مزید بتایا کہ امریکا میں ہرجانے کا دعویٰ دائر کرنے کے لیے وکیل سے مشورہ کیا گیا ہے جب کہ انٹرپول سائبر ونگ سے اس حوالے سے رابطہ کیا ہے، اس کے علاوہ واشنگٹن میں ایک افسر کو بھی مقرر کیا گیا ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ کہانیاں نہ سنائیں، حساس معاملہ ہے، پیش رفت سے آگاہ کریں۔ پاکستان کا اپنا آئین موجود ہے یہاں ڈنمارک یا ناروے کا آئین نہیں چلے گا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: توہین رسالت کرنے والوں کے خلاف آخری حد تک جائیں گے
عدالت نے ایف آئی اے حکام سے استفسار کیا کہ نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کا مقصد کیا ہے، جس پر ایف آئی اے حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ اس کا مقصد پاکستان میں انتشار پھیلانا ہے۔ عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ سائبر کرائم بل 2016 میں گستاخی سے متعلق کوئی قانون شامل نہیں کیا گیا، کون سی این جی اوز پاکستان کو سیکس فری سوسائٹی بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے اپنا کام سرانجام دینے میں ناکام ہو چکی ہے، حساس اداروں کے افسران کو بھی تحقیقات کےعمل میں شامل کیا جائے، ہم ویلنٹائن کو رکوا سکتے ہیں تو کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ اسلام آباد میں موجود ایک شخص ناصر سلطان نبوت کا دعویٰدار ہے، جس پر عدالت نے کہا کہ ہمارے سامنے ابھی صرف ملزم ہیں جن پر الزامات ہیں۔ عدالت نے کیس کی سماعت 22 مارچ تک ملتوی کردی۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں گستاخانہ مواد کیس کی سماعت ہوئی۔ اس موقع پر عدالت نے ایف آئی اے حکام سے کیس میں ہونے والی پیش رفت سے متعلق تفصیلات طلب کیں جس پر ڈائریکٹر ایف آئی اے نے جواب دیا کہ متنازع پیجز کے حوالے سے 70 افراد کی نشاندہی کی گئی ہے، فیس بک انتظامیہ کے جواب کا انتظار ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: فیس بک گستاخانہ مواد کی روک تھام کیلیے وفد پاکستان بھیجنے پر رضامند
ایف آئی اے حکام نے مزید بتایا کہ امریکا میں ہرجانے کا دعویٰ دائر کرنے کے لیے وکیل سے مشورہ کیا گیا ہے جب کہ انٹرپول سائبر ونگ سے اس حوالے سے رابطہ کیا ہے، اس کے علاوہ واشنگٹن میں ایک افسر کو بھی مقرر کیا گیا ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ کہانیاں نہ سنائیں، حساس معاملہ ہے، پیش رفت سے آگاہ کریں۔ پاکستان کا اپنا آئین موجود ہے یہاں ڈنمارک یا ناروے کا آئین نہیں چلے گا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: توہین رسالت کرنے والوں کے خلاف آخری حد تک جائیں گے
عدالت نے ایف آئی اے حکام سے استفسار کیا کہ نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کا مقصد کیا ہے، جس پر ایف آئی اے حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ اس کا مقصد پاکستان میں انتشار پھیلانا ہے۔ عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ سائبر کرائم بل 2016 میں گستاخی سے متعلق کوئی قانون شامل نہیں کیا گیا، کون سی این جی اوز پاکستان کو سیکس فری سوسائٹی بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے اپنا کام سرانجام دینے میں ناکام ہو چکی ہے، حساس اداروں کے افسران کو بھی تحقیقات کےعمل میں شامل کیا جائے، ہم ویلنٹائن کو رکوا سکتے ہیں تو کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ اسلام آباد میں موجود ایک شخص ناصر سلطان نبوت کا دعویٰدار ہے، جس پر عدالت نے کہا کہ ہمارے سامنے ابھی صرف ملزم ہیں جن پر الزامات ہیں۔ عدالت نے کیس کی سماعت 22 مارچ تک ملتوی کردی۔