سیاست خاموش نہیں رہنی چاہیے
میں چشم تصور میں ہی چند دنوں کے لیے گاؤں چلا گیا جہاں کے سرسبز پہاڑوں اور نوکیلے پتھروں پر پاؤں زخمی کرتا رہا
KARACHI:
میں چشم تصور میں ہی چند دنوں کے لیے گاؤں چلا گیا جہاں کے سرسبز پہاڑوں اور نوکیلے پتھروں پر پاؤں زخمی کرتا رہا مگر اس میں جو مزا تھا وہ دنیا کی کسی دوسری پتھریلی وادی کی سیر میں پیش نہیں آیا۔ میں نے جب اس کا ذکر ایک دوست سے کیا تو اس نے جواب میں کہا کہ راستے بھی ناہموار اور پتھریلے تھے اور عمر بھی اب ناہموار راستوں پر سیر کی نہیں رہی لیکن پھر بھی جو لطف آیا وہ جنم بھومی کا تھا جہاں کے ناہموار اور پتھریلے راستوں پر چلنے کے لیے پاؤں بچپن سے ہی عادی ہیں، ان کو پتھریلی عادت پڑ چکی ہے۔
جب بھی گاؤں کے پہاڑوں پر عادت تازہ کرتے ہیں اور ان کے راستے بھی اپنے پُرانے راہ خورد کو یاد کرتے ہیں تو ماضی کی بھولی ہوئی ٹھوکریں یاد آ جاتی ہیں اور ان پتھریلی ٹھوکروں میں جو لُطف ہے وہ ہموار راستوں میں کہاں اور نہ ہی قیمتی قالینوں پر چلنے میں ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ راحت و غم اور تکلیف یا آرام انسان کے اندر ہوتا ہے انسان کی اصل زندگی باہر کی فضاء میں نہیں اندر کی فضاء میں باقی اور زندہ رہتی ہے اور جب اس زندگی میں کوئی خوشی اور راحت داخل ہوتی ہے تو اس کا باطنی وجود اسے بڑی شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہے، یہی احساس ہے جو کسی شاعر کے شعر میں ڈھل جاتا ہے یا کسی موسیقار کی موسیقی میں گنگنا اٹھتاہے۔
اچھا کھانے پینے والا انسان شاید جسمانی اعتبار سے تو صحت مند رہتا ہے لیکن وہ خوشی جو کبھی انسان کے اندر جگمگا اٹھتی ہے وہ اس کے جسم کی نہیں اس کی روح کی خوشی ہوتی ہے یہی خوشی اسے زندہ رکھتی ہے اور یہی غمی اسے پریشان اور زندگی سے بیزار کر دیتی ہے۔ صوفیوں نے درست کہا ہے کہ انسان کی اصل زندگی اس کے اندر ہوتی ہے باہر سے وہ جو دکھائی دیتا ہے ضروری نہیں کہ وہ ایسا ہی ہو اس کے اندر کوئی دوسرا انسان زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے، زندگی کے ان رازوں سے ہمیں اپنے صوفیوں نے آگاہ کیا ہے بلکہ خبردار کیا ہے کہ انسانوں کو صرف چہروں مہروں سے ہی مت جانو اگر توفیق ملے تو ان کے اندر جھانکو جہاں آپ کی اصل انسان سے ملاقات ہو گی جو آپ کو مطلوب ہے یا مطلوب ہونی چاہیے۔
چلتا پھرتا بنا سنورا انسان ہو سکتا ہے کہ اپنے اندر کوئی دوسرا انسان چھپائے پھرتا ہو اپنی جان بچانے کے لیے، اپنے وجود کو خلقِ خدا کے آزار سے محفوظ رکھنے کے لیے۔ اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ صوفی جو گمنامی کی زندگی کو ترجیح دیتے تھے یا خلق ِخدا کا سامنا کرنے سے کتراتے تھے وہ مغرور نہیں ہوتے تھے بلکہ خوفزدہ جو عام انسانوں سے بچ کر زندگی بسر کرنا چاہتے تھے ۔ وہ دوسروں سے خوفزدہ تھے یا پھر اپنی اندر کی کمزوریوں سے آگاہ تھے اور دنیا کا سامنا کرنے سے کتراتے تھے بہرحال جو بھی تھا یہ غلط آدمی نہیں تھے بلکہ اتنے بہادر تھے کہ عام انسانوں سے دور تنہا زندگی بسر کرنے کی ہمت اور جرات رکھتے تھے اور اپنی محتاجیوں کو اپنی ذات تک محدود رکھتے تھے یا انھیں محدود کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
انسانوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کی اس زندگی میں تنہائی کی زندگی ایک بڑا معرکہ ہے جس کسی نے یہ معرکہ سر کر لیا وہ خدا رسیدہ اور نہ جانے کیا کچھ کہلایا۔ ایسا معرکہ سر کرنے والے کو آپ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں کسی خطاب اور کسی لقب سے یاد کرسکتے ہیں۔ ایسی باتیں مجھے ایک مہربان نے یاد دلائی ہیں جو ان دنوں اپنے اندر برپا کئی معرکوں سے گزر رہے ہیں مجھ ایسے دنیا دار سے انھوں نے جب ایسی باتیں کہیں تو مجھے ان کی کایا پلٹ پر کچھ تعجب ہوا۔ انھوں نے کسی پیر فقیر کی مجلس سے یہ سب نہیں سیکھا انھوں نے جو کچھ کہا ہے وہ ان کتابوں کا فیض ہے جو ان دنوں وہ پڑھ رہے ہیں اور پڑھ چکے ہیں۔
ان کے خیال میں صوفیوں کی مجلس میں یہ سب نہیں ملتا بلکہ ان کی کتابوں سے ملتا ہے جن کے مضامین انھوں نے اپنے مجاہدوں کے نتیجے سے حاصل تجربوں سے اخذ کیے ہیں اور انھیں قلمبند کر دیا ہے ۔ لاہور میں مدفون حضرت داتا گنج بخش ؒ نے اپنی کتاب ''کشف المعجوب'' میں صوفی مصنفین کی یہ حالت اور کیفیت بیان کر دی ہے اور وہ بھی جو خود ان پر گزری ہے۔ صوفیا کو سمجھنے کے لیے حضرت داتا صاحب کی یہ تصنیف گویا پہلی کتاب ہے جس سے آپ پر تصوف کے مطالعہ کے راستے کھلتے ہیں۔
میں نے اپنے سیاسی قارئین سے چند دنوں کی چھٹی لے کر یہ غیر سیاسی کالم لکھ دیے ہیں جب کہ بعض سیاستدانوں نے شکوہ کیا ہے کہ وہ کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن ان سیاستدانوں جو کسی صحافی کی کیا مجبوری ہے ان کی باتیں تو صبح کے اخبار اپنے لاکھوں قارئین تک پہنچا دیتے ہیں بلکہ کچھ نمک مرچ لگا کر بھی بلکہ مجھے یاد آ رہا ہے کہ ایک سیاستدان کو جب میں نے کئی روز تک چپ دیکھا اور اخباروں کو ان کے بیان سے خالی پایا تو ان کی خیریت دریافت کی ان کا جواب ذاتی نوعیت کا ہے لیکن اس کا مطلب یہ تھا کہ ان کی پسند کا صحافی بھی تو ان دنوں خاموش ہے۔
اب میں اس سیاستدان کو کیا جواب دیتا کہ انھوں نے اتنے دن صبر کیسے کیا۔ ہمارے سیاستدان دن ختم ہونے پر لوگوں سے پوچھتے ہیں آج سیاست کی دنیا میں کیا ہوا اور عوام نے کس مسئلے پر زیادہ غور و فکر کیا یا خوشی اور احتجاج کیا بس جو مسئلہ سیاست میں زیادہ موزوں ہوتا ہے اس پر لیڈر کا بیان آ جاتا ہے۔ لیڈر چونکہ عوام کے پاس نہیں جاتے بس سنی سنائی سے کام چلاتے ہیں اس لیے ان کی سیاست کا تازہ مواد انھیں دوست احباب یا اخباروں سے ملتا ہے۔ جس دن ملاقاتیں کم ہوں یا خیریت والی نہ ہوں اور اخبارات بھی خاموش ہو ں تو وہ دن سیاستدانوں کے لیے بُرا ہوتا ہے اسے ناغہ کرنا پڑتا ہے یا دوسرے دن دوست احباب کو اپنی خیریت کی اطلاع دینی ہوتی ہے کہ میں ٹھیک تھا بس ناغہ ہو گیا لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ یہ ناغہ کیوں ہوا کیا گوشت کی طرح یہ بھی ناغہ تھا جس کی مجبوری تھی۔
جس سیاستدان کو کسی دن کوئی ایسا موضوع نہ ملے جس پر قوم سے اظہارِ خیال کر سکے تو یہ دن اگر ملازمت کا تھا تو اسے غیر حاضری یا ناغہ کہا جا سکتا تھا لیکن سیاست دان کسی کی ملازمت نہیں کرتے بلکہ قوم کو اپنا ملازم سمجھتے ہیں جو صرف ان کے وعدوں پر زندہ رہتی ہے لیکن سیاستدان قوم کے نام پر ہی زندگی بسر کرتے ہیں اور اس کے سامنے جوابدہی میں اپنی ڈیوٹی اور حاضری سمجھتے ہیں۔ یہ ڈیوٹی سال بھر چلتی ہے البتہ کبھی اس میں خاصی تیزی بھی آ جاتی ہے جیسے الیکشن وغیرہ کا موقع، سیاست کی سب سے بڑی مصروفیت یہ الیکشن ہوتے ہیں ان کی آمد سے پہلے اور ان کے بعد سیاسی زندگی میں ہل چل مچی رہتی ہے۔ سیاستدان اور ان کے عوام اسی ہل چل پہ زندگی بسر کر لیتے ہیں اور یہ ہل چل عموماً مچی ہی رہتی ہے۔ سیاستدانوں کو ایسی خاموش سیاست کبھی قبول نہیں ہوتی اور اسے ناخوش ہونا بھی نہیں چاہیے یہی تو زندگی ہے عوام کی اور ان کی قیادت کی۔
میں چشم تصور میں ہی چند دنوں کے لیے گاؤں چلا گیا جہاں کے سرسبز پہاڑوں اور نوکیلے پتھروں پر پاؤں زخمی کرتا رہا مگر اس میں جو مزا تھا وہ دنیا کی کسی دوسری پتھریلی وادی کی سیر میں پیش نہیں آیا۔ میں نے جب اس کا ذکر ایک دوست سے کیا تو اس نے جواب میں کہا کہ راستے بھی ناہموار اور پتھریلے تھے اور عمر بھی اب ناہموار راستوں پر سیر کی نہیں رہی لیکن پھر بھی جو لطف آیا وہ جنم بھومی کا تھا جہاں کے ناہموار اور پتھریلے راستوں پر چلنے کے لیے پاؤں بچپن سے ہی عادی ہیں، ان کو پتھریلی عادت پڑ چکی ہے۔
جب بھی گاؤں کے پہاڑوں پر عادت تازہ کرتے ہیں اور ان کے راستے بھی اپنے پُرانے راہ خورد کو یاد کرتے ہیں تو ماضی کی بھولی ہوئی ٹھوکریں یاد آ جاتی ہیں اور ان پتھریلی ٹھوکروں میں جو لُطف ہے وہ ہموار راستوں میں کہاں اور نہ ہی قیمتی قالینوں پر چلنے میں ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ راحت و غم اور تکلیف یا آرام انسان کے اندر ہوتا ہے انسان کی اصل زندگی باہر کی فضاء میں نہیں اندر کی فضاء میں باقی اور زندہ رہتی ہے اور جب اس زندگی میں کوئی خوشی اور راحت داخل ہوتی ہے تو اس کا باطنی وجود اسے بڑی شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہے، یہی احساس ہے جو کسی شاعر کے شعر میں ڈھل جاتا ہے یا کسی موسیقار کی موسیقی میں گنگنا اٹھتاہے۔
اچھا کھانے پینے والا انسان شاید جسمانی اعتبار سے تو صحت مند رہتا ہے لیکن وہ خوشی جو کبھی انسان کے اندر جگمگا اٹھتی ہے وہ اس کے جسم کی نہیں اس کی روح کی خوشی ہوتی ہے یہی خوشی اسے زندہ رکھتی ہے اور یہی غمی اسے پریشان اور زندگی سے بیزار کر دیتی ہے۔ صوفیوں نے درست کہا ہے کہ انسان کی اصل زندگی اس کے اندر ہوتی ہے باہر سے وہ جو دکھائی دیتا ہے ضروری نہیں کہ وہ ایسا ہی ہو اس کے اندر کوئی دوسرا انسان زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے، زندگی کے ان رازوں سے ہمیں اپنے صوفیوں نے آگاہ کیا ہے بلکہ خبردار کیا ہے کہ انسانوں کو صرف چہروں مہروں سے ہی مت جانو اگر توفیق ملے تو ان کے اندر جھانکو جہاں آپ کی اصل انسان سے ملاقات ہو گی جو آپ کو مطلوب ہے یا مطلوب ہونی چاہیے۔
چلتا پھرتا بنا سنورا انسان ہو سکتا ہے کہ اپنے اندر کوئی دوسرا انسان چھپائے پھرتا ہو اپنی جان بچانے کے لیے، اپنے وجود کو خلقِ خدا کے آزار سے محفوظ رکھنے کے لیے۔ اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ صوفی جو گمنامی کی زندگی کو ترجیح دیتے تھے یا خلق ِخدا کا سامنا کرنے سے کتراتے تھے وہ مغرور نہیں ہوتے تھے بلکہ خوفزدہ جو عام انسانوں سے بچ کر زندگی بسر کرنا چاہتے تھے ۔ وہ دوسروں سے خوفزدہ تھے یا پھر اپنی اندر کی کمزوریوں سے آگاہ تھے اور دنیا کا سامنا کرنے سے کتراتے تھے بہرحال جو بھی تھا یہ غلط آدمی نہیں تھے بلکہ اتنے بہادر تھے کہ عام انسانوں سے دور تنہا زندگی بسر کرنے کی ہمت اور جرات رکھتے تھے اور اپنی محتاجیوں کو اپنی ذات تک محدود رکھتے تھے یا انھیں محدود کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
انسانوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کی اس زندگی میں تنہائی کی زندگی ایک بڑا معرکہ ہے جس کسی نے یہ معرکہ سر کر لیا وہ خدا رسیدہ اور نہ جانے کیا کچھ کہلایا۔ ایسا معرکہ سر کرنے والے کو آپ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں کسی خطاب اور کسی لقب سے یاد کرسکتے ہیں۔ ایسی باتیں مجھے ایک مہربان نے یاد دلائی ہیں جو ان دنوں اپنے اندر برپا کئی معرکوں سے گزر رہے ہیں مجھ ایسے دنیا دار سے انھوں نے جب ایسی باتیں کہیں تو مجھے ان کی کایا پلٹ پر کچھ تعجب ہوا۔ انھوں نے کسی پیر فقیر کی مجلس سے یہ سب نہیں سیکھا انھوں نے جو کچھ کہا ہے وہ ان کتابوں کا فیض ہے جو ان دنوں وہ پڑھ رہے ہیں اور پڑھ چکے ہیں۔
ان کے خیال میں صوفیوں کی مجلس میں یہ سب نہیں ملتا بلکہ ان کی کتابوں سے ملتا ہے جن کے مضامین انھوں نے اپنے مجاہدوں کے نتیجے سے حاصل تجربوں سے اخذ کیے ہیں اور انھیں قلمبند کر دیا ہے ۔ لاہور میں مدفون حضرت داتا گنج بخش ؒ نے اپنی کتاب ''کشف المعجوب'' میں صوفی مصنفین کی یہ حالت اور کیفیت بیان کر دی ہے اور وہ بھی جو خود ان پر گزری ہے۔ صوفیا کو سمجھنے کے لیے حضرت داتا صاحب کی یہ تصنیف گویا پہلی کتاب ہے جس سے آپ پر تصوف کے مطالعہ کے راستے کھلتے ہیں۔
میں نے اپنے سیاسی قارئین سے چند دنوں کی چھٹی لے کر یہ غیر سیاسی کالم لکھ دیے ہیں جب کہ بعض سیاستدانوں نے شکوہ کیا ہے کہ وہ کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن ان سیاستدانوں جو کسی صحافی کی کیا مجبوری ہے ان کی باتیں تو صبح کے اخبار اپنے لاکھوں قارئین تک پہنچا دیتے ہیں بلکہ کچھ نمک مرچ لگا کر بھی بلکہ مجھے یاد آ رہا ہے کہ ایک سیاستدان کو جب میں نے کئی روز تک چپ دیکھا اور اخباروں کو ان کے بیان سے خالی پایا تو ان کی خیریت دریافت کی ان کا جواب ذاتی نوعیت کا ہے لیکن اس کا مطلب یہ تھا کہ ان کی پسند کا صحافی بھی تو ان دنوں خاموش ہے۔
اب میں اس سیاستدان کو کیا جواب دیتا کہ انھوں نے اتنے دن صبر کیسے کیا۔ ہمارے سیاستدان دن ختم ہونے پر لوگوں سے پوچھتے ہیں آج سیاست کی دنیا میں کیا ہوا اور عوام نے کس مسئلے پر زیادہ غور و فکر کیا یا خوشی اور احتجاج کیا بس جو مسئلہ سیاست میں زیادہ موزوں ہوتا ہے اس پر لیڈر کا بیان آ جاتا ہے۔ لیڈر چونکہ عوام کے پاس نہیں جاتے بس سنی سنائی سے کام چلاتے ہیں اس لیے ان کی سیاست کا تازہ مواد انھیں دوست احباب یا اخباروں سے ملتا ہے۔ جس دن ملاقاتیں کم ہوں یا خیریت والی نہ ہوں اور اخبارات بھی خاموش ہو ں تو وہ دن سیاستدانوں کے لیے بُرا ہوتا ہے اسے ناغہ کرنا پڑتا ہے یا دوسرے دن دوست احباب کو اپنی خیریت کی اطلاع دینی ہوتی ہے کہ میں ٹھیک تھا بس ناغہ ہو گیا لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ یہ ناغہ کیوں ہوا کیا گوشت کی طرح یہ بھی ناغہ تھا جس کی مجبوری تھی۔
جس سیاستدان کو کسی دن کوئی ایسا موضوع نہ ملے جس پر قوم سے اظہارِ خیال کر سکے تو یہ دن اگر ملازمت کا تھا تو اسے غیر حاضری یا ناغہ کہا جا سکتا تھا لیکن سیاست دان کسی کی ملازمت نہیں کرتے بلکہ قوم کو اپنا ملازم سمجھتے ہیں جو صرف ان کے وعدوں پر زندہ رہتی ہے لیکن سیاستدان قوم کے نام پر ہی زندگی بسر کرتے ہیں اور اس کے سامنے جوابدہی میں اپنی ڈیوٹی اور حاضری سمجھتے ہیں۔ یہ ڈیوٹی سال بھر چلتی ہے البتہ کبھی اس میں خاصی تیزی بھی آ جاتی ہے جیسے الیکشن وغیرہ کا موقع، سیاست کی سب سے بڑی مصروفیت یہ الیکشن ہوتے ہیں ان کی آمد سے پہلے اور ان کے بعد سیاسی زندگی میں ہل چل مچی رہتی ہے۔ سیاستدان اور ان کے عوام اسی ہل چل پہ زندگی بسر کر لیتے ہیں اور یہ ہل چل عموماً مچی ہی رہتی ہے۔ سیاستدانوں کو ایسی خاموش سیاست کبھی قبول نہیں ہوتی اور اسے ناخوش ہونا بھی نہیں چاہیے یہی تو زندگی ہے عوام کی اور ان کی قیادت کی۔