وفاقی حکومت اور پیپلز پارٹی کے درمیان ’’خاموش مفاہمت‘‘ دوبارہ قائم

 فضل الرحمن نے کردار ادا کیا،مذاکرات ناکام ہوئے توپی پی احتجاج کاآپشن استعمال کرے گی

پیپلز پارٹی نے اس معاملے کو پارلیمنٹ میں لانے کے اپنے مطالبے پرخاموشی اختیارکرلی ہے۔ فوٹو: فائل

حکمراں مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت اور پیپلز پارٹی کے درمیان ''خاموش مفاہمت'' دوبارہ قائم ہوگئی ہے۔

دونوں جماعتوں کے درمیان اس نئے مفاہمتی عمل کو قائم کرانے میں ایک اہم پارلیمانی رہنما مولانا فضل الرحمنٰ نے اہم کردار ادا کیا ہے جو وزیراعظم نوازشریف کے علاوہ آصف زرداری کے بھی قریبی دوست ہیں جبکہ اس مفاہمتی سفر کے دوران پیپلزپارٹی اورحکمراں لیگ ایک دوسرے پرسیاسی تنقید تو جاری رکھیں گی تاہم معاملات کو مذاکرات سے طے کریں گی۔ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں پیپلزپارٹی احتجاج کاآپشن استعمال کرے گی۔


ذرائع کا کہنا ہے کہ ن لیگ کی درخواست پر مولانا فضل الرحمن کی پس پردہ رابطہ کاری کی بدولت پیپلزپارٹی کی قیادت نے فوجی عدالتوں کے توسیع کی مدت میں اضافے کیلیے اپنے پیش کردہ مطالبات پرلچک کا مظاہرہ کیا اور حکومت نے ان کے 9 میں سے 4 مطالبات تسلیم کرلیے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی قیادت نے وفاق کی جانب سے مطالبات منظور کرنے کے بعد حکمراں لیگ سے بلاول بھٹوزرداری کے پیش کردہ چار مطالبات پرمذاکرات جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خورشید شاہ اسحقٰ ڈار سے ان مطالبات پر مذاکرات کریں گے۔

علاوہ ازیں پاناما لیکس کیس کا فیصلہ آئندہ دنوں میں آنے کے باعث پیپلز پارٹی نے اس معاملے کو پارلیمنٹ میں لانے کے اپنے مطالبے پرخاموشی اختیارکرلی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی نے پاناما لیکس کا فیصلہ آنے تک اپنی احتجاج کی حکمت عملی پر عمل درآمد روک دیا ہے تاہم اگر وزیراعظم ممکنہ طور پرنااہل نہیں ہوتے ہیں تو آصف علی زرادی اور بلاول بھٹو زرداری کے موجودہ پارلیمنٹ میں آنے کا فیصلہ بھی سیاسی حالات کو دیکھ کر کیا جائے گا۔
Load Next Story