دیکھا تیرا امریکا اٹھارویں قسط
یہ امریکہ کے سکے کا دوسرا رخ ہے جو روشن نہیں، یہ ایک نیا امریکہ اور یہ اس کی بھیانک تصویر ہے۔
کالوں کی بستی میں
ارشد محمود چوہدری میرے ساتھ اُس وقت سے مستقل رابطے میں تھا، جب اُسے پتہ چلا کہ میں امریکہ آرہا ہوں۔ پھر سلور اسپرنگ میری لینڈ میں بھی تواتر سے فون پر رابطے میں تھا، پھر جب میں نے بتایا کہ میں چند دنوں کے لئے نیویارک آرہا ہوں تو خوشی سے نہال ہوگیا، لیکن سلسلہ ہی ایسا تھا کہ مین ہاٹن کئی بار جانا ہوا لیکن ارشد سے ملاقات کا کوئی سلسلہ بن نہیں پا رہا تھا۔ اُس روز جب ہم سینٹرل پارک کے لئے نکلے تو میں نے عدیل سے کہا کہ آج کچھ وقت کے لئے ارشد سے ملنے جانا ضروری ہے۔
ارشد چودھری سے ملنے جب میں مین ہاٹن کے ایک پاکستانی ہوٹل پر پہنچا تو بچے مجھے وہاں اُتار کر چلے گئے کہ آپ اپنے پرانے دوست سے مل لیں، ہم دو تین گھنٹے اِدھر اُدھر گھوم کر آتے ہیں، پھر سینٹرل پارک چلیں گے۔ چوہدری ایک بے تکلف شخص ہے۔ شکوہ کرنے لگا کہ مجھے بتایا نہیں برکلین میں کہاں ٹھہرے ہیں، اگر بتادیتے تو میں آپ کو وہیں سے لے کر پورا نیویارک گھما دیتا، میں نے معذرت کی کہ بچے ساتھ ہیں اِس لئے ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ کہنے لگا خیر چلیں کھانا کھاتے ہیں۔
دیکھا تیرا امریکا (تیسری قسط)
دیکھا تیرا امریکا (چوتھی قسط)
دیکھا تیرا امریکا (پانچویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (چھٹی قسط)
دیکھا تیرا امریکا (ساتویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (آٹھویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (نویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (دسویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (گیارہویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (بارہویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (تیرہویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (چودہویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (پندرہویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا( سولہویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (سترہویں قسط)
کھانا کھاتے ہوئے اُس نے پوچھا صدیقی صاحب اب تک نیویارک میں کیا کیا دیکھا ہے؟ میں نے تفصیل بتائی تو کہنے لگا کہ یہ امریکہ کی بڑی کِھلی کِھلی سی تصویر ہے۔ آئیں آپ کو امریکہ کا وہ پہلو دکھاتا ہوں جو اِس ملک کا سیاہ چہرہ ہے یعنی غربت، افلاس، گندگی اورگناہ سے بھرپور چہرہ۔ ہم اِس علاقے سے صرف گزریں گے، رُکیں گے کہیں نہیں، گھنٹے ڈیڑھ میں واپس آجائیں گے۔ میں گھبرا گیا، مجھے لگا کہ جیسے ارشد مجھے بادشاہی مسجد کے زیرِ سایہ پرورش پانے والے علاقے میں لے جانے کی دعوت دے رہا ہو۔ مجھے ہچکچاتے دیکھ کر ارشد نے کہا یہ کوئی اتنا خطرناک علاقہ بھی نہیں ہے، ہاں کسی زمانے میں بہت خطرناک تھا لیکن اب نہیں ہے۔
یہ کالوں کی بستی ہے جسے ہارلیم کہتے ہیں۔ مین ہاٹن میں اسٹریٹ 110 سے سینٹرل پارک تک کا علاقہ ہارلیم کہلاتا ہے، جہاں نیگرو افراد کا راج ہے۔ میں نے ایک لمبی سی سانس بھری جیسے ایک بوجھ اُتر گیا ہو۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور ارشد چوہدری کے ساتھ چل دیا۔ ارشد کا ایک رُخ صحافی کا بھی ہے اور اِسی حوالے سے وہ امریکہ کا نیا چہرہ دکھانے جا رہا تھا۔
ارشد نے بتایا کہ ویسے تو یہ کالے امریکہ کے ہر علاقے میں موجود ہیں لیکن کالوں کی یہ بستی امریکہ کا وہ چہرہ ہے جسے آپ نے ابھی تک نہیں دیکھا۔ یہ امریکہ کے سکے کا دوسرا رخ ہے جو روشن نہیں، یہ ایک نیا امریکہ اور یہ اِس کی بھیانک تصویر ہے۔
یہ علاقہ نیویارک میں ساحلِ سمندر سے منسلک ہے، اِس لئے یہاں لوگ دور دراز سے آکر آباد ہوتے رہے۔ امریکہ کی آبادی جب دریافت ہوئی بہت کم تھی، ریڈ انڈین یہاں کے باشندے تھے۔ امریکہ بہت وسیع و عریض ملک ہے اِسی مناسبت سے وسائل بھی بے پناہ تھے۔ کاشت کاری، صنعت کاری اور دیگر شعبوں میں کام کرنے کے وسیع امکانات تھے۔ اِن امکانات سے فائدہ اٹھانے کے لئے آبادکاروں کو معاونت کی ضرورت تھی۔ اِس معاونت کی طلب نے دنیا کی طرح امریکہ میں غلام کلچر کو رواج دیا اور غلامی کا بیج بویا گیا۔
سن 1619ء میں ڈچ بحری جہاز 20 غلاموں کو لے کر یہاں لنگر انداز ہوا۔ یہ پہلی بار تھا کہ افریقہ سے غلاموں کو شمالی امریکہ کی ریاست ورجینیا کے جیمز ٹاؤن میں لایا گیا۔ اُن کو وہاں لانے کا مقصد تمباکو جیسی منافع بخش فصلوں کی پیداوار میں معاونت حاصل کرنا تھا۔ سترہویں اور اٹھارویں صدی میں امریکہ کی تمام کالونیوں میں غلام رکھنے کا رواج تھا۔ ڈینل ڈین ٹن نے سن 1670ء میں لندن سے شائع ہونے والی اپنی کتاب ''اے بریف ڈسکرپشن آف نیو یارک'' میں اِس خطے کو نیو نیدرلینڈ کا نام دیا ہے، جو پوری طرح دریافت نہیں ہوا تھا لیکن جو دریافت ہوا تھا وہ میری لینڈ تک پھیلا ہوا تھا۔
یہیں ایک چھوٹا سا قصبہ تھا، ہارلیم جہاں ہالینڈ کے باشندے آباد تھے لیکن جب یہاں غلاموں کی آباد کاری شروع ہوئی تو ہالینڈ کے باشندے یہاں سے امریکہ کے خوشحال علاقوں کی جانب منتقل ہونا شروع ہوگئے۔ یوں نیویارک کے ساحلی یا سمندر کے قریب قریب علاقوں میں غلاموں کے علاوہ دنیا بھر سے آنے والوں نے اپنی اپنی بستیاں بسالیں جیسے اٹلی سے آنے والوں نے مِنی اٹلی، چین سے آنے والوں نے چائنا ٹاؤن کی بنیاد رکھی۔ انگریز تو خیر نیویارک کے کئی علاقوں میں پھیل گئے۔
مین ہاٹن نے جب ترقی کرنا شروع کی اور یہاں خوشحالی آنا شروع ہوئی تو ہارلیم میں سیاہ فام لوگوں کی آبادی بڑھنے لگی تو یہ علاقہ خالصتاََ سیاہ فام لوگوں کی آبادی بن کر رہ گیا۔ سفید فام امریکی اِن سیاہ فاموں کو نفرت سے دیکھتے ہیں۔ اگرچہ یکم جنوری 1863ء کو امریکہ کے سولہویں صدر ابراہم لنکن نے امریکہ میں غلام رکھنے اور غلاموں کو آزاد کردئیے جانے کے قانون، ''اعلانِ نجات'' پر دستخط کئے۔ جس سے امریکہ سے غلامی کا قانونی خاتمہ ہوگیا، لیکن سفید فام امریکی ان سیاہ فاموں کو اب بھی نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
گوری چمڑی والے امریکی بسوں میں، سب وے میں کھڑے رہیں گے لیکن کسی پوری سیٹ پر بدن پھیلا کر بدتمیزی سے بیٹھے ہوئے ان کالوں کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے، یہ رویہ دونوں جانب سے انتہا پسندانہ ہے۔ ایک طرف گوری چمڑی کا تفاخر بولتا ہے کہ ہم اِن سے اعلیٰ نسل کے ہیں، تو دوسری جانب آج کے اِن امریکی سیاہ فام باشندوں کے اِس بدتہذیب رویے کو تب تک نہیں سمجھا جاسکتا جب تک اُن کے غلامی کے دور کو نہ سمجھا جائے۔ اِن کالوں میں صدیوں کی غلامی کی تھکن، جھنجھلاہٹ اور بدتمیزی کی شکل میں بولتی ہے۔ جھنجھلاہٹ اور بدتمیزی تو اُن کے رویوں کے لئے بہت چھوٹا لفظ ہے، اُن کے رویے دراصل ایک انتقام ہے۔
ہارلیم میں داخل ہوئے تو بڑی بُری حالت تھی علاقے کی، امریکہ میں صفائی کا جو معیار دیکھا تھا، یہاں آکر ایسا لگا جیسے یہ امریکہ کا حصہ ہی نہ ہو۔ سڑکیں ٹوٹی پھوٹی،جا بجا کوڑے کے ڈھیر، سڑکوں کے کنارے کوئی ایسی جگہ تھی جہاں پیشاب کیا گیا ہو، ہر طرف بدبو پھیلی ہوئی تھی، میلے کچیلے لباس میں وہاں لوگ گھوم رہے تھے۔ کچھ بوڑھے لوگ برآمدوں کے باہر بیٹھے نشہ پانی کررہے تھے۔ یہ گندے مندے لوگ بھی امریکی ہی تھے لیکن سہولتوں سے محروم ذلتوں کے مارے لوگ۔
یہاں رہنے والے کالے، زندگی سے بیزار نظر آتے تھے۔ یہ لوگ بہت کم بولتے ہیں یا خلاؤں میں گھورتے نظر آئے یا سفید فاموں سے نفرت کا اظہار کرتے۔ اِس علاقے میں رہنے والوں کو ہر سفید چیز سے نفرت ہے۔ یہاں غریبوں، بے کاروں اور بیروزگاروں کی اکثریت ہے۔ مجھے لوگوں کے رویے سے گھبراہٹ ہو رہی تھی میں نے ارشد چوہدری سے کہا، یار یہاں سے نکلو، ابھی میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ ایک لحیم شحیم کالا جس کے گندے لباس سے بدبو کے بھبکے اُٹھ رہے تھے قریب آیا اور بولا۔
''دو ڈالر''
میں نے گھبرا کر جیب میں ہاتھ ڈالا تو 5 ڈالر کا نوٹ ہاتھ میں آگیا جو میں نے اُسے تھما دیا۔ پھر ارشد کی طرف دیکھا، اُس نے کہا امریکہ کا دوسرا رخ یہی ہے۔ یہ اِن کا ٹیکس ہے، اِس علاقے میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے، میں نے کہا چلو یہاں سے نکلو۔ ارشد نے سر ہلایا اور ہم واپس اسی پاکستانی ہوٹل میں آگئے جہاں سے بچوں نے مجھے پِک کرنا تھا۔ ارشد تو بچوں کو بھی کھانا کھلانے پر مصر تھا لیکن میں اُس سے اجازت لے کر باہر آگیا۔ میں اِس علاقے سے تو نکل آیا تھا لیکن میں اب بھی سوچ رہا ہوں کہ امریکہ میں کالوں کو برابری کے حقوق کب ملیں گے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔