روائت کی خوشبو
عزیزی رحمٰن فارس نے گزشتہ چند برس میں جدید شعرأ کی صف میں جو مقام حاصل کیا ہے
جمعہ 17 مارچ کی رات سے ملتی ہوئی شام اس حوالے سے بہت یادگار رہی کہ بہت دنوں کے بعد کسی گھر میں ایک ایسی شعری نشست کا اہتمام کیا گیا جس کا مقصد صرف اور صرف شعر و ادب کے حوالے سے مل بیٹھنا تھا۔ برادر عزیز کامران لاشاری نے اپنی مختلف متعلقہ تعیناتیوں کے دوران جس طرح سے فنون لطیفہ، شعر و ادب، جمالیات، شہری حسن اور تہذیبی ورثے کی حفاظت کے لیے عمدہ اور ان تھک کام کیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ بہت کم بیوروکریٹس کو عوام اور فنون لطیفہ سے متعلق استادان فن سے وہ عزت ملی ہے جو اس سدا بہار اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ہمہ دم مستعد اور جوان نظر آنے والے بھائی کے حصے میں آئی ہے۔
کامران کے ادب اور فن پرور گھر کی تعمیر اور اندرونی آرائش میں بھی ان کی اپنی تہذیب اور تاریخ سے محبت قدم قدم پر دکھائی دیتی ہے۔ لیکن گزشتہ کچھ برسوں سے جو انھوں نے اپنی فیملی اور احباب کو جمع کر کے ایک سالانہ اور بالکل گھریلو نوعیت کی شعری محفل کا اہتمام شروع کیا ہے اس میں شامل ہو کر یہ احساس بار بار ذہن پر دستک دیتا ہے کہ ہمارا معاشرہ کس طرح اپنی بہت سی خوب صورتیوں سے محروم ہو جاتا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ بہت سے گھروں میں ایسی بے تکلف اور اپنائیت سے بھر پور محفلیں جما کرتی تھیں۔ دوست احباب کسی ایک چھت تلے اس طرح جمع ہوتے کہ میزبان اور مہمان کا فرق جاننا دشوار ہو جاتا تھا سب کے سب شعر و ادب اور ساز و آواز یا بعض خاص مواقع پر نعت یا مرثیے کے حوالے سے کچھ وقت مل کر گزرتے اور دنیا کے دھندے، مسائل اور مفادات دہلیز سے باہر جوتوں کے ساتھ کہیں رکھ دیتے ہیں۔
کامران لاشاری نسلی اعتبار سے غیر اہل زبان ہی نہیں بلکہ ایک مخصوص قبائلی کلچر سے تعلق رکھتے ہیں مگر جس طرح فن کی بھی کوئی زبان نہیں ہوتی ان کے گھر میں بھی یہ مسئلہ کبھی پیدا نہیں ہوا۔ ان کے والد مرحوم اردو میں شاعری کرتے تھے جو کتابی شکل میں چھپ بھی چکی ہے، چھوٹی بہن شفق خوب صورت نثرنگار ہیں، بیٹا بلال لاشاری پاکستانی سینما کی نئی لہر New Wave کے اولین نمائندوں میں سے ہیں اور کامران اپنے تینوں بھائیوں شاہین، سہیل اور صنویر سمیت فنون لطیفہ کی ترویج اور سرپرستی کے لیے ہمہ وقت حاضر اور مستعد رہتے ہیں۔
اس محفل میں بھی ایک طرف سارنگی کے فن کے ایک بڑے استاد نبی بخش کے بیٹے اسرار نبی بخش اپنے فن کا جادو جگانے کے لیے موجود تھے اور دوسری طرف مشاعرے کے اختتام پر ثریا ملتانیکر کی بیٹی پروفیسر راحت ملتانیکر بھی اپنے خاندانی تخلیقی جوہر کی خوشبو کے ساتھ موجود تھیں جب کہ حاضرین میں سے بھی ایک سے بڑھ کر ایک سخن فہم اور فن شناس موجود تھا۔ برادرم امتیاز پرویز، بھابی غزالہ ڈاکٹر اصغر اور دیگر احباب جیسے رمز شناس سامعین سامنے ہوں تو خود بخود بہتر سے بہتر شعر سنانے کو جی چاہنے لگتا ہے۔
شاعروں میں رحمٰن فارس، رخشندہ نوید، حسنین سحر، شوکت فہمی، حامد عتیق، حمیدہ شاہین اور کیپٹن عطا تو معروف نام تھے لیکن دو تین حاضر اور سابق بیورو کریٹس نے بھی بقول شخصے ہمارے چھابے میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی جن میں سب سے زیادہ کامیابی برادرم اکرم ملک کو ملی جنھوں نے دو اردو اور ایک انگریزی کی نظم سنائی۔
عزیزی رحمٰن فارس نے گزشتہ چند برس میں جدید شعرأ کی صف میں جو مقام حاصل کیا ہے اور جس تیزی سے شہرت اور مقبولیت کی منازل طے کی ہیں ان کو دیکھ کر دلی خوشی ہوتی ہے کہ اس نوجوان نے نہ صرف دل لگا کر فن شعر کی باریکیوں کو سمجھا اور سیکھا ہے بلکہ شہرت کے خمار کو اپنے دماغ میں گھسنے بھی نہیں دیا۔ رب کریم اس کی اس روش کو قائم رکھے کہ ہم نے کئی بہت اچھے شاعروں کو اس سفر میں گمراہ ہوتے دیکھا ہے۔
کامران اور ان کی بیگم لبنیٰ کا آدھا دھیان شاعری اور آدھا دیر سے آنے والے مہمانوں کے استقبال کی طرف تھا۔ ان کی یہ کیفیت دیکھ کر پتہ نہیں کیوں ایک بھولا بھٹکا واقعہ یا شاید لطیفہ یاد آ گیا جو برسوں پہلے مرحوم احمد ندیم قاسمی صاحب نے سنایا تھا جو یوں ہے کہ ایک نواب صاحب نے کسی مشہور سارنگی نواز صاحب کو بلایا لیکن خود ان کی پرفارمنس کے دوران غنودگی میں چلے گئے یہ دیکھ کر خاں صاحب نے سارنگی بند کر دی۔ ایک صاحب نے نواب صاحب کو اس صورتحال کی طرف متوجہ کیا جس پر وہ ہربڑا کر بولے
''آپ بجاتے رہیے خاں صاحب ہمیں آپ پر اعتبار ہے''
میں نے کچھ پرانی چیزوں کے ساتھ ایک بالکل تازہ غزل سنائی جو اس دعا کے ساتھ آپ سب قارئین کی نذر ہے کہ اس ہر چیز کو ذاتی مفادات کے ترازو میں تولنے والے انسانی اور فن دشمن رویوں کے فشار میں اس طرح کی بے غرض محفلیں نہ صرف قائم رہیں بلکہ ان کو فروغ بھی ملتا رہے کہ ''ابھی دنیا کو ضرورت ہے غزل خوانوں کی''
یوں دنیا میں ہوتا کب ہے
جو بچھڑے وہ ملتا کب ہے
آئینہ کیا دیکھ سکے گا
وہ صورت میں اترا کب ہے
بھولے سے تم آ تو گئے ہو
یہ تو بتاؤ جانا کب ہے
دیواروں پر درج ہے کیا کیا
دیکھنے والا، پڑھتا کب ہے
رہبر جس پر لے کے چلا ہے
یہ منزل کا رستا کب ہے
کیسے اس کی شکل بنے گی
ہم نے اس کو دیکھا کب ہے
عرض نیاز عشق پہ بولے
''ہم نے تم سے پوچھا کب ہے؟''
سن لیتا ہے بات کبھی تو
چاند تمہارے جیسا کب ہے
عقل نے کیا کیا سمجھایا بھی
عشق کسی کی سنتا کب ہے
کام تو کشتی ہی آئے گی
دوست کسی کا دریا کب ہے
آ جائے وہ لوٹ کے امجدؔ
ایسا بخت ہمارا کب ہے
کامران کے ادب اور فن پرور گھر کی تعمیر اور اندرونی آرائش میں بھی ان کی اپنی تہذیب اور تاریخ سے محبت قدم قدم پر دکھائی دیتی ہے۔ لیکن گزشتہ کچھ برسوں سے جو انھوں نے اپنی فیملی اور احباب کو جمع کر کے ایک سالانہ اور بالکل گھریلو نوعیت کی شعری محفل کا اہتمام شروع کیا ہے اس میں شامل ہو کر یہ احساس بار بار ذہن پر دستک دیتا ہے کہ ہمارا معاشرہ کس طرح اپنی بہت سی خوب صورتیوں سے محروم ہو جاتا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ بہت سے گھروں میں ایسی بے تکلف اور اپنائیت سے بھر پور محفلیں جما کرتی تھیں۔ دوست احباب کسی ایک چھت تلے اس طرح جمع ہوتے کہ میزبان اور مہمان کا فرق جاننا دشوار ہو جاتا تھا سب کے سب شعر و ادب اور ساز و آواز یا بعض خاص مواقع پر نعت یا مرثیے کے حوالے سے کچھ وقت مل کر گزرتے اور دنیا کے دھندے، مسائل اور مفادات دہلیز سے باہر جوتوں کے ساتھ کہیں رکھ دیتے ہیں۔
کامران لاشاری نسلی اعتبار سے غیر اہل زبان ہی نہیں بلکہ ایک مخصوص قبائلی کلچر سے تعلق رکھتے ہیں مگر جس طرح فن کی بھی کوئی زبان نہیں ہوتی ان کے گھر میں بھی یہ مسئلہ کبھی پیدا نہیں ہوا۔ ان کے والد مرحوم اردو میں شاعری کرتے تھے جو کتابی شکل میں چھپ بھی چکی ہے، چھوٹی بہن شفق خوب صورت نثرنگار ہیں، بیٹا بلال لاشاری پاکستانی سینما کی نئی لہر New Wave کے اولین نمائندوں میں سے ہیں اور کامران اپنے تینوں بھائیوں شاہین، سہیل اور صنویر سمیت فنون لطیفہ کی ترویج اور سرپرستی کے لیے ہمہ وقت حاضر اور مستعد رہتے ہیں۔
اس محفل میں بھی ایک طرف سارنگی کے فن کے ایک بڑے استاد نبی بخش کے بیٹے اسرار نبی بخش اپنے فن کا جادو جگانے کے لیے موجود تھے اور دوسری طرف مشاعرے کے اختتام پر ثریا ملتانیکر کی بیٹی پروفیسر راحت ملتانیکر بھی اپنے خاندانی تخلیقی جوہر کی خوشبو کے ساتھ موجود تھیں جب کہ حاضرین میں سے بھی ایک سے بڑھ کر ایک سخن فہم اور فن شناس موجود تھا۔ برادرم امتیاز پرویز، بھابی غزالہ ڈاکٹر اصغر اور دیگر احباب جیسے رمز شناس سامعین سامنے ہوں تو خود بخود بہتر سے بہتر شعر سنانے کو جی چاہنے لگتا ہے۔
شاعروں میں رحمٰن فارس، رخشندہ نوید، حسنین سحر، شوکت فہمی، حامد عتیق، حمیدہ شاہین اور کیپٹن عطا تو معروف نام تھے لیکن دو تین حاضر اور سابق بیورو کریٹس نے بھی بقول شخصے ہمارے چھابے میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی جن میں سب سے زیادہ کامیابی برادرم اکرم ملک کو ملی جنھوں نے دو اردو اور ایک انگریزی کی نظم سنائی۔
عزیزی رحمٰن فارس نے گزشتہ چند برس میں جدید شعرأ کی صف میں جو مقام حاصل کیا ہے اور جس تیزی سے شہرت اور مقبولیت کی منازل طے کی ہیں ان کو دیکھ کر دلی خوشی ہوتی ہے کہ اس نوجوان نے نہ صرف دل لگا کر فن شعر کی باریکیوں کو سمجھا اور سیکھا ہے بلکہ شہرت کے خمار کو اپنے دماغ میں گھسنے بھی نہیں دیا۔ رب کریم اس کی اس روش کو قائم رکھے کہ ہم نے کئی بہت اچھے شاعروں کو اس سفر میں گمراہ ہوتے دیکھا ہے۔
کامران اور ان کی بیگم لبنیٰ کا آدھا دھیان شاعری اور آدھا دیر سے آنے والے مہمانوں کے استقبال کی طرف تھا۔ ان کی یہ کیفیت دیکھ کر پتہ نہیں کیوں ایک بھولا بھٹکا واقعہ یا شاید لطیفہ یاد آ گیا جو برسوں پہلے مرحوم احمد ندیم قاسمی صاحب نے سنایا تھا جو یوں ہے کہ ایک نواب صاحب نے کسی مشہور سارنگی نواز صاحب کو بلایا لیکن خود ان کی پرفارمنس کے دوران غنودگی میں چلے گئے یہ دیکھ کر خاں صاحب نے سارنگی بند کر دی۔ ایک صاحب نے نواب صاحب کو اس صورتحال کی طرف متوجہ کیا جس پر وہ ہربڑا کر بولے
''آپ بجاتے رہیے خاں صاحب ہمیں آپ پر اعتبار ہے''
میں نے کچھ پرانی چیزوں کے ساتھ ایک بالکل تازہ غزل سنائی جو اس دعا کے ساتھ آپ سب قارئین کی نذر ہے کہ اس ہر چیز کو ذاتی مفادات کے ترازو میں تولنے والے انسانی اور فن دشمن رویوں کے فشار میں اس طرح کی بے غرض محفلیں نہ صرف قائم رہیں بلکہ ان کو فروغ بھی ملتا رہے کہ ''ابھی دنیا کو ضرورت ہے غزل خوانوں کی''
یوں دنیا میں ہوتا کب ہے
جو بچھڑے وہ ملتا کب ہے
آئینہ کیا دیکھ سکے گا
وہ صورت میں اترا کب ہے
بھولے سے تم آ تو گئے ہو
یہ تو بتاؤ جانا کب ہے
دیواروں پر درج ہے کیا کیا
دیکھنے والا، پڑھتا کب ہے
رہبر جس پر لے کے چلا ہے
یہ منزل کا رستا کب ہے
کیسے اس کی شکل بنے گی
ہم نے اس کو دیکھا کب ہے
عرض نیاز عشق پہ بولے
''ہم نے تم سے پوچھا کب ہے؟''
سن لیتا ہے بات کبھی تو
چاند تمہارے جیسا کب ہے
عقل نے کیا کیا سمجھایا بھی
عشق کسی کی سنتا کب ہے
کام تو کشتی ہی آئے گی
دوست کسی کا دریا کب ہے
آ جائے وہ لوٹ کے امجدؔ
ایسا بخت ہمارا کب ہے