بھارت الیکٹرک ووٹنگ مشینوں کا کرشمہ
الیکشن کے نتائج آنے کے بعد کانگریس کی خراب کارکردگی پر تو کوئی حیرت نہیں کی گئی
KARACHI:
بھارتی ریاست یوپی کے الیکشن میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے میدان مارلیا ہے وہ وہاں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئی ہے۔اس نے ریاستی اسمبلی کی 403 میں سے 312 نشستوں پرقبضہ کرلیا ہے لیکن الیکشن سے پہلے خود مودی اس الیکشن میں ہارنے کے خوف کے مارے بے حد بے چین و بے قرار تھے اور انھوں نے اس ڈوبتی ہوئی کشتی کو پار لگانے کے لیے انتخابی مہم کی کمان خود سنبھال لی تھی۔ یوپی میں مایا وتی پوری تیاری کے ساتھ میدان میں تھیں۔
ادھر سماج وادی پارٹی نے کانگریس کے ساتھ انتخابی اتحاد کرکے بظاہر مضبوط پوزیشن بنا لی تھی۔ سماج وادی پارٹی کے نوجوان سربراہ اکھلیش یادو نے بحیثیت وزیراعلیٰ یوپی پورے صوبے میں ترقیاتی کام انجام دے کرعوام کے دل موہ لیے تھے۔ادھر بی جے پی نے نوٹ بندی کی مہم چلا کر پورے بھارت میں اپنی پوزیشن کوکمزورکرلیا تھا۔ نوٹ بندی سے عام لوگوں کی روزمرہ کی زندگی اجیرن ہوگئی تھی۔ گھروں میں لوگوں کو کھانے کے لالے پڑ گئے تھے۔ بازار سے ضروری سودا سلف خریدنے کے لیے بھی کیش نہیں تھا یہاں تک ہوا کہ مزدوروں کو مزدوری ملنا بند ہوگئی شادیاں تک رک گئیں مردوں کو جلانے کے لیے لکڑی تک خریدنے کے لیے پیسے نہیں رہے تھے۔
مودی نے جو ہر دلعزیزی عام انتخابات میں حاصل کی تھی نوٹ بندی سے اس کا صفایا ہو چکا تھا۔ تجزیہ کار انھیں ایک عاقبت نااندیش سیاستدان قرار دے رہے تھے۔ بعض ان کی نوٹ بندی اسکیم کو ایک جوا اور انھیں ایک ہارا ہوا جواری کہہ رہے تھے۔ ادھر یوپی میں مودی کے معتمد خاص امت شاہ نے بی جے پی کے سارے ٹکٹ اپنے لوک سبھا کے ممبران کے رشتے داروں میں بانٹ دیے تھے کسی مسلمان کو بھولے سے بھی ٹکٹ نہیں دیا گیا تھا اس طرح مسلمانوں سے روایتی دشمنی کو برقرار رکھا گیا تھا۔ البتہ مایاوتی اور ملائم سنگھ کی پارٹیوں نے دل کھول کر مسلمانوں کو ٹکٹ دیے تھے۔ مایاوتی نے تو سو سے زیادہ مسلمانوں کو اپنا امیدوار نامزد کیا تھا۔
سب ہی یہ امید کر رہے تھے کہ اس دفعہ مایاوتی کی پارٹی الیکشن جیت لے گی کیونکہ سماج وادی پارٹی کے اندرون خانہ جھگڑے کی وجہ سے وہ کمزور نظر آ رہی تھی۔ یوپی میں ایک زمانے سے یہ ہوتا آرہا ہے کہ ایک دفعہ سماج وادی پارٹی الیکشن جیت لیتی ہے تو دوسری دفعہ بھوجن سماج پارٹی پالا مار لیتی ہے۔ یوپی میں برسوں سے کانگریس اور بی جے پی کو کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے اس دفعہ کانگریس نے سماج وادی پارٹی کے ساتھ اتحاد کرکے اپنی الیکشن مہم شروع کی تھی۔
الیکشن کے نتائج آنے کے بعد کانگریس کی خراب کارکردگی پر تو کوئی حیرت نہیں کی گئی مگر سماج وادی پارٹی اورکانگریس کو کل ملاکر 54 سیٹوں کے ملنے پر خاص تشویش ظاہر کی جا رہی ہے کیونکہ سماج وادی پارٹی کا صوبے میں ترقیاتی کاموں کی وجہ سے عوام میں اچھا تاثر قائم تھا۔ خاص طور پر مسلمان اس کی غیر متعصبانہ پالیسی کی وجہ سے اس کے گرویدہ تھے تاہم سماج وادی پارٹی کی گھریلو چپقلش کی وجہ سے اس دفعہ مایاوتی کی پارٹی کے سوئیپ کرنے کی قوی امید کی جا رہی تھی مگر اسے تو کل 19 ہی نشستیں ہاتھ لگ سکی ہیں چنانچہ مایاوتی نے الیکشن کے نتائج دیکھ کر ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں بی جے پی پر الیکشن میں کھلی دھاندلی کا الزام عائد کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے انتخابات میں بی جے پی کے غنڈے دوسری پارٹی کے ووٹروں کو پولنگ بوتھ تک پہنچنے سے روکنے کے لیے انھیں ڈنڈے اورگولیاں مار کر بھگا دیتے تھے اب انھوں نے الیکٹریکل ووٹنگ مشین کا سہارا لے کر نتائج میں دل کھول کرگڑبڑ کی ہے۔ سماج وادی پارٹی کے رہنما اکھلیش نے بھی الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی شکایت کی ہے۔ یوپی کے الیکشن میں دھاندلی کا ثبوت اس بات سے بھی مل جاتا ہے کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی پچاس فیصد سے بھی زیادہ تھی وہاں بھی بی جے پی کے امیدوار جیت گئے ہیں۔ اس کی مثال دیوبند اور مروہہ شہروں سے دی جاسکتی ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے مگر وہاں بھی بی جے پی جیت گئی ہے۔
بی جے پی نے اپنے ٹکٹ صرف ہندوؤں کو دیے تھے اسے بھارتی تجزیہ کار مسلمانوں کی توہین کرنے کے مترادف قرار دے رہے تھے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ جہاں جہاں مسلمان امیدوار کھڑے تھے انھیں خاص طور پر ہرایا گیا ہے اس سے شاید مسلمانوں کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ بی جے پی ان کے بغیر بھی الیکشن جیت سکتی ہے۔
گزشتہ الیکشن تک یوپی میں مسلمانوں کے ووٹوں کو وننگ ووٹ کا درجہ حاصل تھا وہ کسی بھی پارٹی کو جتا اور ہرا سکتے تھے مگر اس دفعہ یوپی میں ٹرینڈ بالکل ہی بدل چکا ہے۔ جہاں تک الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا تعلق ہے 2009 کے عام انتخابات میں بی جے پی کے اہم رہنما ایل کے ایڈوانی بھی ان کے خلاف شکایت درج کراچکے ہیں اس وقت بی جے پی الیکشن ہارگئی تھی جس کا الزام ووٹنگ مشینوں پر لگایا گیا تھا۔ بعض ماہرین کے مطابق الیکٹرک ووٹنگ مشین کے ذریعے ووٹنگ میں گڑبڑکی جاسکتی ہے۔
2010 میں امریکا کی مشی گن یونیورسٹی کے تکنیکی ماہرین نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پاس بھارتی الیکٹرک ووٹنگ مشینوں کو ہیک کرنے کی تکنیک موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مخصوص ڈیوائس استعمال کرکے موبائل کے ذریعے نتائج کو بدلا جاسکتا ہے۔
بھارت کے سابق چیف الیکشن کمشنر منسٹر کرشنا مورتی نے بھی اس بات کا امکان ظاہر کیا ہے کہ اگر پولنگ بوتھ پر مشین چلانے والا عملہ چاہے تو نتائج میں ہیرا پھیری ہوسکتی ہے۔ ان کے مطابق ان کے زمانے میں کئی سیاسی پارٹیوں نے الیکٹرک ووٹنگ مشینوں میں عملے کے ذریعے چھیڑ چھاڑ کی شکایت کی تھی اور پھر یہ معاملہ عدالت تک گیا تھا مگر ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے دھاندلی ثابت نہیں ہو سکتی تھی دراصل الیکٹرک ووٹنگ مشینوں میں گڑبڑ کرنے کا ثبوت حاصل کرنے کی ابھی تک کوئی ٹیکنالوجی تیار نہیں ہوسکی ہے۔
بھارت کی شاردا یونیورسٹی کے تکنیکی شعبے کے پروفیسر ارون مہتا کہتے ہیں کہ الیکٹرک ووٹنگ مشینوں پر کمپیوٹر کی طرح پروگرامنگ کی جاتی ہے چنانچہ ان میں ڈیٹے کو بدلنے کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ ان مشینوں کی یہ صورتحال دیکھ کر ان کے ڈیٹا کو محفوظ بنانے کی کوشش ضرور کی گئی ہے کہ کوئی انھیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال نہ کرسکے مگر ایسا ہونا اس لیے ناممکن ہے کیونکہ اب ہیکرز بھی زیادہ ہوشیار ہوگئے ہیں۔ ان مشینوں کو ڈیزائن کرنے والے انجینئر بھی اعتراف کرتے ہیں کہ انھیں ہیک کرنا مشکل نہیں ہے۔
امریکا میں حالیہ الیکشن میں بھی ایسا ہی ہوچکا ہے اور اس کا الزام روس کے ہیکروں پر لادا گیا تھا مگر روسی حکومت نے اس کی تردید کردی تھی تاہم سابق صدر اوباما ابھی بھی اپنے الزامات پر قائم ہیں جس سے ٹرمپ بدستور الجھن میں ہیں۔ خود بھارتی تجزیہ کاروں نے تسلیم کیا ہے کہ مودی کے لیے یوپی کا الیکشن جیتنا ٹیڑھی کھیر تھا کیونکہ ایک تو نوٹ بندی کی وجہ سے وہ عوام میں اپنی ساکھ کھو چکے تھے دوسرا یہ کہ یوپی میں ایک زمانے سے علاقائی پارٹیوں کا سکہ چل رہا تھا ان کو شکست دینا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ پھر یوپی کے جاٹ جوکبھی بی جے پی کا دم بھرتے تھے وہ اس دفعہ ان کا مسلمانوں سے فساد کرانے کی وجہ سے مودی سے سخت ناراض تھے۔
مودی نے دلتوں کو لبھانے کی بہت کوشش کی تھی مگر وہ گائے کے گوشت کی بندش کی وجہ سے سخت برہم تھے پھر وہ بی جے پی کو اعلیٰ ذات والوں کی پارٹی مانتے ہیں۔ چنانچہ مودی یوپی کی صورتحال سے سخت پریشان تھے۔ تمام ایگزٹ پولس بھی بی جے پی کے ہارنے کی پیش گوئی کر رہے تھے۔ اس صورتحال کے پیش نظر مودی نے اپنے جلسوں میں مسلمانوں کے خلاف بولنے کے علاوہ پاکستان کو بھی آڑے ہاتھوں لینا شروع کردیا تھا واضح ہو کہ وہ عام انتخابات میں بھی پاکستان کارڈ استعمال کرکے جیتے تھے اور انھوں نے یہاں بھی وہی حربہ استعمال کیا تھا۔
یوپی کے الیکشن کو ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر لگتا ہے وہ الیکٹرک ووٹنگ مشینوں کا سہارا لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔ بلاشبہ وہ مودی کو خوش کرنے کے لیے یہ کام کر تو گزرے ہیں مگر اس الیکشن کو زبردستی جیتنا مقامی پارٹیوں کے لیے ایک کھلا چیلنج بن گیا ہے تاہم وہ جمہوریت اور ملک کی خاطر شاید اس معاملے کو طول نہ دیں مگر پاکستان میں معاملہ برعکس ہے اگر ایسی دھاندلی یہاں ہوئی ہوتی تو اس کے خلاف ایک سیاسی پارٹی تو لامتناہی دھرنا دینا شروع کردیتی چنانچہ پاکستان میں الیکٹرک ووٹنگ مشینوں کو متعارف کرانے سے پرہیز ہی کیا جائے تاکہ مستقبل کے دھرنوں سے بچا جاسکے۔
بھارتی ریاست یوپی کے الیکشن میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے میدان مارلیا ہے وہ وہاں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئی ہے۔اس نے ریاستی اسمبلی کی 403 میں سے 312 نشستوں پرقبضہ کرلیا ہے لیکن الیکشن سے پہلے خود مودی اس الیکشن میں ہارنے کے خوف کے مارے بے حد بے چین و بے قرار تھے اور انھوں نے اس ڈوبتی ہوئی کشتی کو پار لگانے کے لیے انتخابی مہم کی کمان خود سنبھال لی تھی۔ یوپی میں مایا وتی پوری تیاری کے ساتھ میدان میں تھیں۔
ادھر سماج وادی پارٹی نے کانگریس کے ساتھ انتخابی اتحاد کرکے بظاہر مضبوط پوزیشن بنا لی تھی۔ سماج وادی پارٹی کے نوجوان سربراہ اکھلیش یادو نے بحیثیت وزیراعلیٰ یوپی پورے صوبے میں ترقیاتی کام انجام دے کرعوام کے دل موہ لیے تھے۔ادھر بی جے پی نے نوٹ بندی کی مہم چلا کر پورے بھارت میں اپنی پوزیشن کوکمزورکرلیا تھا۔ نوٹ بندی سے عام لوگوں کی روزمرہ کی زندگی اجیرن ہوگئی تھی۔ گھروں میں لوگوں کو کھانے کے لالے پڑ گئے تھے۔ بازار سے ضروری سودا سلف خریدنے کے لیے بھی کیش نہیں تھا یہاں تک ہوا کہ مزدوروں کو مزدوری ملنا بند ہوگئی شادیاں تک رک گئیں مردوں کو جلانے کے لیے لکڑی تک خریدنے کے لیے پیسے نہیں رہے تھے۔
مودی نے جو ہر دلعزیزی عام انتخابات میں حاصل کی تھی نوٹ بندی سے اس کا صفایا ہو چکا تھا۔ تجزیہ کار انھیں ایک عاقبت نااندیش سیاستدان قرار دے رہے تھے۔ بعض ان کی نوٹ بندی اسکیم کو ایک جوا اور انھیں ایک ہارا ہوا جواری کہہ رہے تھے۔ ادھر یوپی میں مودی کے معتمد خاص امت شاہ نے بی جے پی کے سارے ٹکٹ اپنے لوک سبھا کے ممبران کے رشتے داروں میں بانٹ دیے تھے کسی مسلمان کو بھولے سے بھی ٹکٹ نہیں دیا گیا تھا اس طرح مسلمانوں سے روایتی دشمنی کو برقرار رکھا گیا تھا۔ البتہ مایاوتی اور ملائم سنگھ کی پارٹیوں نے دل کھول کر مسلمانوں کو ٹکٹ دیے تھے۔ مایاوتی نے تو سو سے زیادہ مسلمانوں کو اپنا امیدوار نامزد کیا تھا۔
سب ہی یہ امید کر رہے تھے کہ اس دفعہ مایاوتی کی پارٹی الیکشن جیت لے گی کیونکہ سماج وادی پارٹی کے اندرون خانہ جھگڑے کی وجہ سے وہ کمزور نظر آ رہی تھی۔ یوپی میں ایک زمانے سے یہ ہوتا آرہا ہے کہ ایک دفعہ سماج وادی پارٹی الیکشن جیت لیتی ہے تو دوسری دفعہ بھوجن سماج پارٹی پالا مار لیتی ہے۔ یوپی میں برسوں سے کانگریس اور بی جے پی کو کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے اس دفعہ کانگریس نے سماج وادی پارٹی کے ساتھ اتحاد کرکے اپنی الیکشن مہم شروع کی تھی۔
الیکشن کے نتائج آنے کے بعد کانگریس کی خراب کارکردگی پر تو کوئی حیرت نہیں کی گئی مگر سماج وادی پارٹی اورکانگریس کو کل ملاکر 54 سیٹوں کے ملنے پر خاص تشویش ظاہر کی جا رہی ہے کیونکہ سماج وادی پارٹی کا صوبے میں ترقیاتی کاموں کی وجہ سے عوام میں اچھا تاثر قائم تھا۔ خاص طور پر مسلمان اس کی غیر متعصبانہ پالیسی کی وجہ سے اس کے گرویدہ تھے تاہم سماج وادی پارٹی کی گھریلو چپقلش کی وجہ سے اس دفعہ مایاوتی کی پارٹی کے سوئیپ کرنے کی قوی امید کی جا رہی تھی مگر اسے تو کل 19 ہی نشستیں ہاتھ لگ سکی ہیں چنانچہ مایاوتی نے الیکشن کے نتائج دیکھ کر ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں بی جے پی پر الیکشن میں کھلی دھاندلی کا الزام عائد کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے انتخابات میں بی جے پی کے غنڈے دوسری پارٹی کے ووٹروں کو پولنگ بوتھ تک پہنچنے سے روکنے کے لیے انھیں ڈنڈے اورگولیاں مار کر بھگا دیتے تھے اب انھوں نے الیکٹریکل ووٹنگ مشین کا سہارا لے کر نتائج میں دل کھول کرگڑبڑ کی ہے۔ سماج وادی پارٹی کے رہنما اکھلیش نے بھی الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی شکایت کی ہے۔ یوپی کے الیکشن میں دھاندلی کا ثبوت اس بات سے بھی مل جاتا ہے کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی پچاس فیصد سے بھی زیادہ تھی وہاں بھی بی جے پی کے امیدوار جیت گئے ہیں۔ اس کی مثال دیوبند اور مروہہ شہروں سے دی جاسکتی ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے مگر وہاں بھی بی جے پی جیت گئی ہے۔
بی جے پی نے اپنے ٹکٹ صرف ہندوؤں کو دیے تھے اسے بھارتی تجزیہ کار مسلمانوں کی توہین کرنے کے مترادف قرار دے رہے تھے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ جہاں جہاں مسلمان امیدوار کھڑے تھے انھیں خاص طور پر ہرایا گیا ہے اس سے شاید مسلمانوں کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ بی جے پی ان کے بغیر بھی الیکشن جیت سکتی ہے۔
گزشتہ الیکشن تک یوپی میں مسلمانوں کے ووٹوں کو وننگ ووٹ کا درجہ حاصل تھا وہ کسی بھی پارٹی کو جتا اور ہرا سکتے تھے مگر اس دفعہ یوپی میں ٹرینڈ بالکل ہی بدل چکا ہے۔ جہاں تک الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا تعلق ہے 2009 کے عام انتخابات میں بی جے پی کے اہم رہنما ایل کے ایڈوانی بھی ان کے خلاف شکایت درج کراچکے ہیں اس وقت بی جے پی الیکشن ہارگئی تھی جس کا الزام ووٹنگ مشینوں پر لگایا گیا تھا۔ بعض ماہرین کے مطابق الیکٹرک ووٹنگ مشین کے ذریعے ووٹنگ میں گڑبڑکی جاسکتی ہے۔
2010 میں امریکا کی مشی گن یونیورسٹی کے تکنیکی ماہرین نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پاس بھارتی الیکٹرک ووٹنگ مشینوں کو ہیک کرنے کی تکنیک موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مخصوص ڈیوائس استعمال کرکے موبائل کے ذریعے نتائج کو بدلا جاسکتا ہے۔
بھارت کے سابق چیف الیکشن کمشنر منسٹر کرشنا مورتی نے بھی اس بات کا امکان ظاہر کیا ہے کہ اگر پولنگ بوتھ پر مشین چلانے والا عملہ چاہے تو نتائج میں ہیرا پھیری ہوسکتی ہے۔ ان کے مطابق ان کے زمانے میں کئی سیاسی پارٹیوں نے الیکٹرک ووٹنگ مشینوں میں عملے کے ذریعے چھیڑ چھاڑ کی شکایت کی تھی اور پھر یہ معاملہ عدالت تک گیا تھا مگر ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے دھاندلی ثابت نہیں ہو سکتی تھی دراصل الیکٹرک ووٹنگ مشینوں میں گڑبڑ کرنے کا ثبوت حاصل کرنے کی ابھی تک کوئی ٹیکنالوجی تیار نہیں ہوسکی ہے۔
بھارت کی شاردا یونیورسٹی کے تکنیکی شعبے کے پروفیسر ارون مہتا کہتے ہیں کہ الیکٹرک ووٹنگ مشینوں پر کمپیوٹر کی طرح پروگرامنگ کی جاتی ہے چنانچہ ان میں ڈیٹے کو بدلنے کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ ان مشینوں کی یہ صورتحال دیکھ کر ان کے ڈیٹا کو محفوظ بنانے کی کوشش ضرور کی گئی ہے کہ کوئی انھیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال نہ کرسکے مگر ایسا ہونا اس لیے ناممکن ہے کیونکہ اب ہیکرز بھی زیادہ ہوشیار ہوگئے ہیں۔ ان مشینوں کو ڈیزائن کرنے والے انجینئر بھی اعتراف کرتے ہیں کہ انھیں ہیک کرنا مشکل نہیں ہے۔
امریکا میں حالیہ الیکشن میں بھی ایسا ہی ہوچکا ہے اور اس کا الزام روس کے ہیکروں پر لادا گیا تھا مگر روسی حکومت نے اس کی تردید کردی تھی تاہم سابق صدر اوباما ابھی بھی اپنے الزامات پر قائم ہیں جس سے ٹرمپ بدستور الجھن میں ہیں۔ خود بھارتی تجزیہ کاروں نے تسلیم کیا ہے کہ مودی کے لیے یوپی کا الیکشن جیتنا ٹیڑھی کھیر تھا کیونکہ ایک تو نوٹ بندی کی وجہ سے وہ عوام میں اپنی ساکھ کھو چکے تھے دوسرا یہ کہ یوپی میں ایک زمانے سے علاقائی پارٹیوں کا سکہ چل رہا تھا ان کو شکست دینا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ پھر یوپی کے جاٹ جوکبھی بی جے پی کا دم بھرتے تھے وہ اس دفعہ ان کا مسلمانوں سے فساد کرانے کی وجہ سے مودی سے سخت ناراض تھے۔
مودی نے دلتوں کو لبھانے کی بہت کوشش کی تھی مگر وہ گائے کے گوشت کی بندش کی وجہ سے سخت برہم تھے پھر وہ بی جے پی کو اعلیٰ ذات والوں کی پارٹی مانتے ہیں۔ چنانچہ مودی یوپی کی صورتحال سے سخت پریشان تھے۔ تمام ایگزٹ پولس بھی بی جے پی کے ہارنے کی پیش گوئی کر رہے تھے۔ اس صورتحال کے پیش نظر مودی نے اپنے جلسوں میں مسلمانوں کے خلاف بولنے کے علاوہ پاکستان کو بھی آڑے ہاتھوں لینا شروع کردیا تھا واضح ہو کہ وہ عام انتخابات میں بھی پاکستان کارڈ استعمال کرکے جیتے تھے اور انھوں نے یہاں بھی وہی حربہ استعمال کیا تھا۔
یوپی کے الیکشن کو ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر لگتا ہے وہ الیکٹرک ووٹنگ مشینوں کا سہارا لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔ بلاشبہ وہ مودی کو خوش کرنے کے لیے یہ کام کر تو گزرے ہیں مگر اس الیکشن کو زبردستی جیتنا مقامی پارٹیوں کے لیے ایک کھلا چیلنج بن گیا ہے تاہم وہ جمہوریت اور ملک کی خاطر شاید اس معاملے کو طول نہ دیں مگر پاکستان میں معاملہ برعکس ہے اگر ایسی دھاندلی یہاں ہوئی ہوتی تو اس کے خلاف ایک سیاسی پارٹی تو لامتناہی دھرنا دینا شروع کردیتی چنانچہ پاکستان میں الیکٹرک ووٹنگ مشینوں کو متعارف کرانے سے پرہیز ہی کیا جائے تاکہ مستقبل کے دھرنوں سے بچا جاسکے۔