بم نہیں گندم

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس دنیا میں روزا نہ پچہترہزارانسان صرف بھوک سے مرجاتے ہیں

zb0322-2284142@gmail.com

اربوں عوام غربت کی لکیرکے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہیں جب کہ دنیا میں روزانہ جوہری ہتھیاروں کی دیکھ بھال اورنقل وحمل پرتین سوملین امریکی ڈالرخرچ کیے جاتے ہیں۔عوام کی صحت، تعلیم، ہجرت، سانحات پرامداد، ترقیاتی منصوبے اوربنیادی عوامی خدمات سے کٹوتی کرکے ہی یہ رقوم ہتھیاروں پرخرچ کی جاتی ہیں۔ایٹمی ہتھیاروں پرصرف کیے جانے والے اخراجات سالانہ ایک سوپانچ بلین ڈالر یا فی گھنٹہ بارہ ملین ڈالرہوتے ہیں۔

عالمی بینک نے سن دوہزارمیں یہ انکشاف کیا تھا کہ اگرجوہری ہتھیاروں پرخرچ کیے جانے والی رقوم کوآدھا کردیا جائے تودوہزارپندرہ تک دنیا میںغربت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ سن دوہزاردس میں سرکاری طور پہ جوہری ہتھیاروں پر خرچ کی گئی رقوم افریقہ پرترقیاتی کاموں پرخرچ کیے جانے والے رقوم سے د گنا اور بنگلہ دیش کی کل سالانہ اندرونی پیداوار (جی ڈی پی) کے برابر تھا، جب کہ اقوام متحدہ کا ہدف ہے کہ دنیا جوہری ہتھیاروں سے پاک ہو۔ اس وقت بیس ہزارجوہری ہتھیاردنیا میں مو جود ہیں۔ جن میں بہت سے ہتھیاروں کو نشانے پررکھا گیا ہے۔

سن دوہزارگیارہ تک کے تخمینے کے لحاظ سے جوہری ہتھیاروں پرسالانہ 61.3 بلین ڈالرخرچ کیے ،جب کہ روس 14.8بلین ڈالر، چین سات بلین ڈالر،فرانس چھ بلین ڈالر، برطانیہ 5.5بلین ڈالر، ہندوستان4.9بلین ڈالر، پاکستان 2.2 بلین ڈالر، اسرائیل 1.9بلین ڈالراور شمالی کوریا نے 0.7 بلین ڈالرخرچ کیے۔سن دوہزارپندرہ میں دنیا کے دس بڑے ملکوں کے دفاعی بجٹ ، الجزیر ہ کی رپورٹ کیمطابق امریکا 596بلین ڈالر،چین 215بلین ڈالر، سعودی عرب 87.2 بلین ڈالر، روس 66.4بلین ڈالر، برطانیہ 55.5 بلین ڈالر، ہندوستان 51.3بلین ڈالر،فرانس 50.9بلین ڈالر، جاپان40.9 بلین ڈالر، جرمنی کا 39.4 بلین ڈالر جب کہ جنوبی کوریا 36.4بلین ڈالرتھا۔

اب دوہزارسترہ میں ریاست ہائے متحدہ امریکا اپنے دفاعی بجٹ میں آٹھ فیصد اضافے کے ساتھ577.9بلین کرنے کی تجویزدی ہے جب کہ چین 73 فیصد کے اضافے کے ساتھ 147بلین ڈالر اضافے کی تجویزدی ہے۔اب ان ممالک کی معاشی، سماجی اورسیاسی حالات پر نظرڈالیں تو انسان دم بخود رہ جاتا ہے۔ سب سے زیادہ دفاعی اخراجات کرنے،اسلحے کی پیداوار کرنے اورتجارت کرنیوالا ملک امریکا ہے جو دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک ہے، یہاں تین کروڑ لوگ بے روزگار ہیں، اٹھائیس فیصد بچے غربت کا شکارہیں، ترقی کی شرح نمو تین فیصد ہے، ہرتین سکینڈ میں ایک بیوی یا گرل فرینڈ اپنے شوہر یا بوا ئے فرینڈ سے جسمانی تشددکا شکارہوتی ہے۔

دوسری بڑی معیشت چین کی ہے اورآجکل اس کی اسلحے کی پیداوار، بیوپاراوردفاعی بجٹ بھی زیادہ ہے۔ یہاں ستائیس کروڑ لوگ بے روزگار ہیں ۔ سن دوہزارسولہ میں کام کی زیادتی سے چھ لاکھ مزدورہلاک ہوئے۔چین کی پیپلز کانگریس (اسمبلی) میں تراسی ارب پتی ہیں۔


چین کی ترقی کی شرح نموگیارہ فیصد سے گھٹ کر چھ فیصد پرآ گئی ہے۔ ہندوستان میں بے روزگاروں کی تعداد چونتیس کروڑ ہے، جب کہ انچاس ارب پتی ہندوستان پر راج کر تے ہیں، جی ڈی پی کی شرح نمودس فیصد سے گھٹ کرسات فیصد پرآگئی ہے۔ سعودی عرب بہت زیادہ اسلحہ خریدتا ہے اوراس کا دفاعی بجٹ بھی بہت زیادہ ہے۔ یہاں کی بے روزگاری کی شرح 12.5 فیصد ( سرکاری اعداد وشمارکے لحاظ سے) ہے۔

دنیا کی سب سے بڑی اچھی معیشت جرمنی کی ہے، یہاں کی شرح نمو دوفیصد اور بے روزگاری چھ کروڑکی آ بادی میں ساٹھ لاکھ ہے۔ پاکستان دنیا کے ہرچارکرپٹ ترین، ناخواندہ ، بے روزگار، صحت اورتعلیم کے کم بجٹ، قتل وغارت گری، خواتین اوربچوں پر تشدد کرنیوالے ملکوں میں سے ایک ہے جب کہ جوہری ہتھیاروں پرخرچ کیے جانے اور دفاعی بجٹ میں دنیا کے (top ten) دس ملکوں میں شمارہوتا ہے۔ ملک پراندرونی اوربیرونی قرضہ جات 58 ہزار 705ارب روپے سے بڑھ گئے۔

تجارتی خسارے میں جولائی تا فروری دوہزارسترہ میں 5.16 ار ب ڈالرکا اضافہ ہوا ہے۔آٹھ ماہ کی تجارت میں بیس ارب بیس کروڑ ڈالرکا خسارہ ہوا ۔ درآمدات میں سولہ فیصد کا نمایاں اضافہ ہوا اور برآمدات میں چالیس فیصدکمی کے با عث 3.32 ارب ڈالرتک محدود ہوگیا۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس دنیا میں روزا نہ پچہترہزارانسان صرف بھوک سے مرجاتے ہیں جب کہ صرف امریکا کے 68 بحری بیڑے سات سمندرمیں لنگر انداز ہیں۔امریکا کی لا کھوں فوج اسرائیل، سعودی عرب، عرب امارات،کویت، بحرین، اردن، مصر، ازبکستان، پولینڈ، یوکرائن ، جاپان اورجنوبی کوریا وغیرہ میں تعینات ہے۔

امریکا کے ماہرلسانیات اورانقلابی دانشور پروفیسر نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ امریکی سامراج نے اب تک دنیاکے اٹھاسی ممالک میں بلا واسطہ یا باالواسطہ طور پر مداخلت کی ہے جس کے نتیجے میں ڈھائی کروڑ انسانوں کا قتل ہوا۔ اب بھی یہی صورتحال ہے ،اگراس وقت مشرق وسطیٰ، افغانستان، یورپ، جنوبی کوریا اورجاپان سے امریکی افواج نکل جائیں تو دنیا سے قتل وغارتگری ختم ہوسکتی ہے۔ دنیا بھر میں مذہبی انتہا پسندی، نسل پرستی اورقوم پرستی، سامراج کی ہی تخلیق ہے ۔ پہلی اوردوسری عالمی جنگ انھیں نسل پرستی اورسامراجی لوٹ کی جنگ تھی۔ دنیا اس سے پہلے پر امن تھی۔ ڈچ ، پرتگال،اسپین، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی،جاپان اورامریکا نے نوآبادیاں تخلیق کیں۔

افریقہ، آسٹریلیا، جنوبی اور شمالی امریکا اور ایشیاپر قبضہ کیا،کروڑوں انسانوں کا قتل کیا،ان کے وسائل پر قبضہ کیا اوراب بھی نئی نوآبادیات کی شکل میں قابض ہیں ۔اس جہنم نما دنیا کوجنت نظیر تب ہی بنایا جاسکتا ہے جب اسلحے کو دفنا دیا جائے، سارے وسائل، سارے عوام کے حوا لے کردیے جائے تو کوئی بھوکا اور ناخواندہ رہے گا،یا لاعلاج یا بے گھر یا بے روزگار ہوگا۔ سب خوشحال ہوں گے ، چہارطرف محبتوں کے پھول کھلیں گے۔ حسد، ذلت،اذیت، ملکیت،جائیداد، میرا اور تیراکا تصورختم ہوجائے گا۔
Load Next Story