کیا بے چاری پھر فیل ہوگئی
بھٹو نے جو حکومت سنبھالی تھی وہ بھی متحدہ پاکستان میں ملے ہوئے مینڈیٹ کے حساب سے اقلیتی حکومت تھی، ایک حادثاتی جمہوریت
میری اہلیہ کے اکلوتے بھائی کی سہرابندی تھی کہ میرے سسر نے بریف کیس سے چھیڑچھاڑ کرنے والے ایک مشکوک آدمی کی پٹائی شروع کردی۔ ایک جانثار عزیز، ایک وکیل صاحب جو کافی دور کھڑے تھے، اچانک لپک کے آگئے۔ انھوں نے آتے ہی جوتا اتارا اور وہ بھی دھنا دھن اس کی ٹھکائی کرنے لگے۔
کچھ دیر کے بعد جب مشکوک آدمی کو پولیس کے حوالے کردیا گیا تو وہ وکیل صاحب مجھے ایک طرف لے جاکے کان میں پوچھنے لگے ''یہ کون تھا اور اس نے کیا کیا تھا؟''حالات حاضرہ اور سیاست جاریہ کو دیکھ کے جی تو میرا بھی یہی چاہتا ہے کہ میں بھی اسی طرح اٹھوں اور جمہوریت کی جوتا کاری شروع کردوں اور بعد میں پوچھوں کہ اس نے کیا کیا ہے؟ بہت سے لوگ یہی کام کر رہے ہیں، انھیں وقت نے قلم اور زبان چلانے کا موقع دیا اور جتنا بھی ان سے بن پڑتا ہے وہ اس کا بے موقع استعمال کر رہے ہیں، یہ بھی نہیں پوچھتے کہ تمہارا قصور کیا ہے۔
صدیوں سے جاری جمہوریت کے تسلسل سے استحکام حاصل کرنے والے ممالک سے اس ملک کا موازنہ کیا جاتا ہے جہاں اب تک جمہوریت کے فقط ٹوٹے ہی چلے ہیں۔ وہ بھی سنسر شدہ۔ جب کبھی جمہوریت کی دلہنیا پیا کے گھر آئی، اس نے دروازے کی اوٹ میں کیدو کو کھڑا پایا ہے۔ پہرے اور مداخلت سے آلودہ جمہوریت۔ چھ وزارتیں جمہوری مرضی کی تو تین حضوری مرضی کی۔ اب کرلو جو کرنا ہے۔ یہی جمہوری حکومت ابھی پالنے میں تھی کہ ایوبی ٹولے نے اس کی کمر پہ گھما کے لٹھ ماردی۔
ڈیڑھ عشرے تک وہ اٹھ کے بیٹھنے کے قابل بھی نہ ہوسکی۔ بھٹو نے جو حکومت سنبھالی تھی وہ بھی متحدہ پاکستان میں ملے ہوئے مینڈیٹ کے حساب سے اقلیتی حکومت تھی، ایک حادثاتی جمہوریت۔ زبردستی کا گلے میں ڈالا ہوا ڈھول جسے یہ قوم بجانے پر مجبور تھی۔ پھر ضیاء الحق نے جمہوریت کے سینے پر گیارہ برس تک مونگ دلی۔ اس کے بعد خدا خدا کرکے جو ادھوری جمہوریتیں آئیں اور جن کو گن گن کے ایجنڈا بردار رڈالیاں ہر روز سیاپے ڈالتی رہتی ہیں۔ آپ ذرا ان کی ترتیب ملاحظہ فرمائیں:
1990 میں بے نظیر بھٹو کو حکومت نہیں کرنے دی گئی۔
1993 میں نواز شریف کو حکومت نہیں کرنے دی گئی۔
1996 میں ایک بار پھر بے نظیر بھٹو کو حکومت نہیں کرنے دی گئی۔
1999 میں ایک بار پھر نواز شریف کو حکومت نہیں کرنے دی گئی۔
جمہوریت سے جڑا ہر سیاسی گروپ کہتا ہے کہ دونوں کو دو دو بار حکومت کا موقع ملا، جب کہ حقیقت وہی ہے جو میں نے اوپر درج کی ہے۔ دونوں سے دو دو بار حکومت کا موقع چھینا گیا اور بیچ بیچ میں اسی سیاپا گروپ کے گرد اقتدار کا ایک ایک کوارٹر اپنا بھی لگاتے رہے ، اور باقی کیا بچا؟ یہ آج کی جمہوریت؟ یہ بھی خالص نہیں ہے اور اسے بھی NRO کا تڑکا لگا ہوا ہے۔ اس کے پانچ برس خدا خدا کرکے پورے ہوں گے تو 65 برس میں طویل ترین جمہوری حکومت کا نیا ریکارڈ بن جائے گا۔ واہ کیا ریکارڈ ہے اور کیا اسے ناکام بتانے والے عالمی دماغ۔
جمہوریت کی جو تعریف ارسطو، کارل مارکس کے چمچے سورل، پنیوک، نطشے، پابیو اور دیگر قدماء نے کی تھی وہ آج کون مانتا ہے، کوہن کو بھی آج کوئی نہیں پوچھتا کیونکہ اس کے بعد بھی ڈیموکریسی نے تیزی سے کئی روپ بدلے ہیں۔ کہیں چلی، تھوڑی دیر کو مار کھا گئی لیکن پھر آگئی۔ بھلی بری جیسی بھی ہے اب یہ بات طے شدہ ہے کہ اپنی موجودہ تمام اشکال میں یہ دیگر ہر طرح کی طرز حکومت سے بہتر ہے۔ بدرجہا بہتر۔ اس میں کوئی شک ہی نہیں۔ ہمارے ہاں جمہوریت پر لعن طعن یہ کہہ کے کی جاتی ہے کہ ہمارے معاشرے کو یہ سوٹ نہیں کرتی۔
میں اس تاثر کے خلاف بات کروں گا اور اپنے ملک کے لیے بھی اسے درست قرار دوں گا تو وہ سارے لوگ جن کے کندھوں پر رکھے اخروٹوں میں گری کا نام و نشان نہیں ہے یا جن کی جیبوں میں کڑکڑاتے ہوئے پرائے ایجنڈے کھڑک رہے ہیں، وہ سیاپا شروع کردیں گے، وہی رٹا رٹایا سبق۔ پٹواری، پلس، چور، ڈاکو، چائے کی پتی میں چنے کے چھلکے، باہر رکھا ہوا پیسہ، مامے چاچے، گیس بجلی، خربوزے اور چلغوزے۔ برسوں سے مسلسل حالت جنگ میں رہنے کے باوجود یہ جو سانس اور طعام جاری ہے وہ کسی کو سنائی اور دکھائی ہی نہیں دیتا۔
بدترین حالات کے باوجود ان پانچ برسوں میں ہمارے ہاں یہ بنیادی تبدیلی آئی ہے کہ طاقت کے ستون اپنے اپنے خانوں میں مضبوط ہو رہے ہیں اور دھیرے دھیرے ایک دوجے کی حدود میں دخل دینا بند کر رہے ہیں۔ عدلیہ آزادی سے انصاف کر رہی ہے اور انصاف ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔فوج کا جیالاپن دھیما پڑچکا ہے۔ مقننہ کے حالات زیادہ نہیںبدلے پر اس نے بھی قانون سازی اور آئینی ترامیم کی شکل میں جو کارکردگی دکھائی ہے اسے کم ازکم پاس ہونے جتنے مارکس تو دیئے ہی جاسکتے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے تعلقات شائستگی اور معقولیت کی طرف بڑھے ہیں۔
رویوں میں جنونیت کا دخل کم ہورہا ہے۔ انتقامی سیاست تقریباً معدوم ہے۔ سیاسی قیدی کوئی نہیں۔ میڈیا ایک بڑی حد تک آزاد ہے اور کم ازکم اسے حکومتی سطح پر کسی دباؤ کا سامنا نہیں ہے۔ مہنگائی امن وامان اور گورننس کے مسائل ضرور موجود ہیں۔ خراب معیشت اور حالت جنگ کے باوجود ان پر بہتر حکمت عملی سے قابو پانے کی ضرورت ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ''جمہوریت فیل ہوگئی، فیل ہوگئی'' کی گردان شروع کردیں اور قطار باندھ کے اسے جوتے مارنے کو تلے پھریں۔ یہ کیا ہے کہ کسی کے ہاتھ سے نامکمل امتحانی پرچہ چھین لیں اور بولیں جا تُو فیل ہوا۔
جمہوریت فیل نہیں ہوئی ہے۔ اسے برداشت نہ کرسکنے والے فیل ہورہے ہیں۔ آپے سے باہر ہورہے ہیں۔ طالع آزما اور تاویل فرما گروہ اس کے سینے پر پھر سے مونگ دلنے کے لیے دارالحکومت پر یلغار کا ارادہ رکھتا ہے۔ اٹھان ایسی ہے کہ جیسے ہر سو اسی زمزمے کی دھن سنائی دے۔ لیکن قبلہ جب آپ کو لگے کہ ہر چیز بس آپ ہی کی طرف چلی آرہی ہے تو ذرا غور کریں، آپ سڑک کی الٹی سائیڈ پر چل رہے ہوں گے۔
کچھ دیر کے بعد جب مشکوک آدمی کو پولیس کے حوالے کردیا گیا تو وہ وکیل صاحب مجھے ایک طرف لے جاکے کان میں پوچھنے لگے ''یہ کون تھا اور اس نے کیا کیا تھا؟''حالات حاضرہ اور سیاست جاریہ کو دیکھ کے جی تو میرا بھی یہی چاہتا ہے کہ میں بھی اسی طرح اٹھوں اور جمہوریت کی جوتا کاری شروع کردوں اور بعد میں پوچھوں کہ اس نے کیا کیا ہے؟ بہت سے لوگ یہی کام کر رہے ہیں، انھیں وقت نے قلم اور زبان چلانے کا موقع دیا اور جتنا بھی ان سے بن پڑتا ہے وہ اس کا بے موقع استعمال کر رہے ہیں، یہ بھی نہیں پوچھتے کہ تمہارا قصور کیا ہے۔
صدیوں سے جاری جمہوریت کے تسلسل سے استحکام حاصل کرنے والے ممالک سے اس ملک کا موازنہ کیا جاتا ہے جہاں اب تک جمہوریت کے فقط ٹوٹے ہی چلے ہیں۔ وہ بھی سنسر شدہ۔ جب کبھی جمہوریت کی دلہنیا پیا کے گھر آئی، اس نے دروازے کی اوٹ میں کیدو کو کھڑا پایا ہے۔ پہرے اور مداخلت سے آلودہ جمہوریت۔ چھ وزارتیں جمہوری مرضی کی تو تین حضوری مرضی کی۔ اب کرلو جو کرنا ہے۔ یہی جمہوری حکومت ابھی پالنے میں تھی کہ ایوبی ٹولے نے اس کی کمر پہ گھما کے لٹھ ماردی۔
ڈیڑھ عشرے تک وہ اٹھ کے بیٹھنے کے قابل بھی نہ ہوسکی۔ بھٹو نے جو حکومت سنبھالی تھی وہ بھی متحدہ پاکستان میں ملے ہوئے مینڈیٹ کے حساب سے اقلیتی حکومت تھی، ایک حادثاتی جمہوریت۔ زبردستی کا گلے میں ڈالا ہوا ڈھول جسے یہ قوم بجانے پر مجبور تھی۔ پھر ضیاء الحق نے جمہوریت کے سینے پر گیارہ برس تک مونگ دلی۔ اس کے بعد خدا خدا کرکے جو ادھوری جمہوریتیں آئیں اور جن کو گن گن کے ایجنڈا بردار رڈالیاں ہر روز سیاپے ڈالتی رہتی ہیں۔ آپ ذرا ان کی ترتیب ملاحظہ فرمائیں:
1990 میں بے نظیر بھٹو کو حکومت نہیں کرنے دی گئی۔
1993 میں نواز شریف کو حکومت نہیں کرنے دی گئی۔
1996 میں ایک بار پھر بے نظیر بھٹو کو حکومت نہیں کرنے دی گئی۔
1999 میں ایک بار پھر نواز شریف کو حکومت نہیں کرنے دی گئی۔
جمہوریت سے جڑا ہر سیاسی گروپ کہتا ہے کہ دونوں کو دو دو بار حکومت کا موقع ملا، جب کہ حقیقت وہی ہے جو میں نے اوپر درج کی ہے۔ دونوں سے دو دو بار حکومت کا موقع چھینا گیا اور بیچ بیچ میں اسی سیاپا گروپ کے گرد اقتدار کا ایک ایک کوارٹر اپنا بھی لگاتے رہے ، اور باقی کیا بچا؟ یہ آج کی جمہوریت؟ یہ بھی خالص نہیں ہے اور اسے بھی NRO کا تڑکا لگا ہوا ہے۔ اس کے پانچ برس خدا خدا کرکے پورے ہوں گے تو 65 برس میں طویل ترین جمہوری حکومت کا نیا ریکارڈ بن جائے گا۔ واہ کیا ریکارڈ ہے اور کیا اسے ناکام بتانے والے عالمی دماغ۔
جمہوریت کی جو تعریف ارسطو، کارل مارکس کے چمچے سورل، پنیوک، نطشے، پابیو اور دیگر قدماء نے کی تھی وہ آج کون مانتا ہے، کوہن کو بھی آج کوئی نہیں پوچھتا کیونکہ اس کے بعد بھی ڈیموکریسی نے تیزی سے کئی روپ بدلے ہیں۔ کہیں چلی، تھوڑی دیر کو مار کھا گئی لیکن پھر آگئی۔ بھلی بری جیسی بھی ہے اب یہ بات طے شدہ ہے کہ اپنی موجودہ تمام اشکال میں یہ دیگر ہر طرح کی طرز حکومت سے بہتر ہے۔ بدرجہا بہتر۔ اس میں کوئی شک ہی نہیں۔ ہمارے ہاں جمہوریت پر لعن طعن یہ کہہ کے کی جاتی ہے کہ ہمارے معاشرے کو یہ سوٹ نہیں کرتی۔
میں اس تاثر کے خلاف بات کروں گا اور اپنے ملک کے لیے بھی اسے درست قرار دوں گا تو وہ سارے لوگ جن کے کندھوں پر رکھے اخروٹوں میں گری کا نام و نشان نہیں ہے یا جن کی جیبوں میں کڑکڑاتے ہوئے پرائے ایجنڈے کھڑک رہے ہیں، وہ سیاپا شروع کردیں گے، وہی رٹا رٹایا سبق۔ پٹواری، پلس، چور، ڈاکو، چائے کی پتی میں چنے کے چھلکے، باہر رکھا ہوا پیسہ، مامے چاچے، گیس بجلی، خربوزے اور چلغوزے۔ برسوں سے مسلسل حالت جنگ میں رہنے کے باوجود یہ جو سانس اور طعام جاری ہے وہ کسی کو سنائی اور دکھائی ہی نہیں دیتا۔
بدترین حالات کے باوجود ان پانچ برسوں میں ہمارے ہاں یہ بنیادی تبدیلی آئی ہے کہ طاقت کے ستون اپنے اپنے خانوں میں مضبوط ہو رہے ہیں اور دھیرے دھیرے ایک دوجے کی حدود میں دخل دینا بند کر رہے ہیں۔ عدلیہ آزادی سے انصاف کر رہی ہے اور انصاف ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔فوج کا جیالاپن دھیما پڑچکا ہے۔ مقننہ کے حالات زیادہ نہیںبدلے پر اس نے بھی قانون سازی اور آئینی ترامیم کی شکل میں جو کارکردگی دکھائی ہے اسے کم ازکم پاس ہونے جتنے مارکس تو دیئے ہی جاسکتے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے تعلقات شائستگی اور معقولیت کی طرف بڑھے ہیں۔
رویوں میں جنونیت کا دخل کم ہورہا ہے۔ انتقامی سیاست تقریباً معدوم ہے۔ سیاسی قیدی کوئی نہیں۔ میڈیا ایک بڑی حد تک آزاد ہے اور کم ازکم اسے حکومتی سطح پر کسی دباؤ کا سامنا نہیں ہے۔ مہنگائی امن وامان اور گورننس کے مسائل ضرور موجود ہیں۔ خراب معیشت اور حالت جنگ کے باوجود ان پر بہتر حکمت عملی سے قابو پانے کی ضرورت ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ''جمہوریت فیل ہوگئی، فیل ہوگئی'' کی گردان شروع کردیں اور قطار باندھ کے اسے جوتے مارنے کو تلے پھریں۔ یہ کیا ہے کہ کسی کے ہاتھ سے نامکمل امتحانی پرچہ چھین لیں اور بولیں جا تُو فیل ہوا۔
جمہوریت فیل نہیں ہوئی ہے۔ اسے برداشت نہ کرسکنے والے فیل ہورہے ہیں۔ آپے سے باہر ہورہے ہیں۔ طالع آزما اور تاویل فرما گروہ اس کے سینے پر پھر سے مونگ دلنے کے لیے دارالحکومت پر یلغار کا ارادہ رکھتا ہے۔ اٹھان ایسی ہے کہ جیسے ہر سو اسی زمزمے کی دھن سنائی دے۔ لیکن قبلہ جب آپ کو لگے کہ ہر چیز بس آپ ہی کی طرف چلی آرہی ہے تو ذرا غور کریں، آپ سڑک کی الٹی سائیڈ پر چل رہے ہوں گے۔