محمد علی صدیقی
گر ہم اردو کی جدید ادبی اصناف کے حوالے سے بات کریں تو تخلیق کے مقابلے میں تنقید اور تحقیق کے شعبے واضح طور پر کمزور۔۔۔
ہانگ کانگ سے واپسی پر جو پہلا SMS ملا وہ عزیزی اوج کمال کی طرف سے تھا جس میں یہ افسوسناک اطلاع دی گئی تھی کہ اردو ادب کے ایک نامور نقاد، دانشور اور ماہر تعلیم ڈاکٹر محمد علی صدیقی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ صدیقی بھائی کے مذکورہ بالا تینوں تعارف اپنی جگہ لیکن میرے لیے ذاتی طور پر ان سے بھی زیادہ اہم بات یہ تھی کہ وہ مجھ سے قدرے سینئر ہونے کے باوجود میرے قریب ترین ادبی حلقے سے وابستہ ایک عزیز دوست اور انتہائی عمدہ اور متوازن مزاج انسان تھے اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ان کی اولین تنقیدی مضامین پر مشتمل کتاب کا نام بھی ''توازن'' تھا۔
محمد علی صدیقی بھائی کچھ عرصہ سے شدید بیمار تھے بلڈ پریشر، شوگر اور دل کے مرض کے ساتھ ساتھ اب ان کے گردے بھی جواب دیتے جا رہے تھے اور آخری دنوں میں ان سے ملاقات کرنے والے احباب نے بتایا کہ ان کی یادداشت بھی جزوی طور پر متاثر ہو چکی تھی۔ میری ان سے ملاقاتوں کا عرصہ کم از کم تین دہائیوں پر محیط ہے۔ ہماری بالمشافہ ملاقات سے پہلے جن دنوں وہ ایک انگریزی اخبار میں ''ایریل'' کے قلمی نام سے تبصرے اور مضامین لکھا کرتے تھے انھوں نے میری کچھ کتابوں پر بہت محبت بھرے، تنقیدی بصیرت کے حامل اور حوصلہ افزا تبصرے لکھے اور جب میں نے پہلی ملاقات پر اس کا شکریہ ادا کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے اپنی مخصوص قدرے بیٹھی ہوئی آواز میں یہ کہہ کر مجھے روک دیا کہ ان سے تعریفی جملے صرف متعلقہ کتاب لکھواتی ہے اس لیے شکریے کا مستحق ادب پارہ ہوتا ہے نقاد نہیں۔
ایسی وسعت قلب، سچائی اور انکساری ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی بعد میں ان سے وطن میں اور بیرون وطن مختلف حوالوں سے مسلسل ملاقاتیں رہیں اور ذاتی سطح پر بھی دوستانہ تعلقات استوار ہوگئے لیکن ادب کے حوالے سے ان کا یہ سچا اور متوازن رویہ ہمیشہ ان کی پہچان رہا۔ جب ملک معیب الرحمن مرحوم نے دوحہ قطر سے عالمی ادبی ایوارڈ کا سلسلہ شروع کیا تو ان کے اور برادرم محمد عتیق کے علاوہ صرف تین افراد ایسے تھے جو اس تقریب کا مستقل حصہ رہے یعنی محترم مشتاق احمد یوسفی (پاکستان جیوری کے کنوینر) ڈاکٹر گوپی چند نارنگ (بھارت جیوری کے کنوینر) اور ڈاکٹر محمد علی صدیقی جو کلیدی مقرر کے طور پر ایوارڈ کی ہر تقریب میں خاص طور پر لکھا گیا مضمون پڑھا کرتے تھے۔
اسی کی دہائی میں جب وہ پہلی بار میرے 22 ممتاز سٹریٹ گڑھی شاہو میں تشریف لائے تو یہ جان کر بہت خوشگوار حیرت ہوئی کہ بہت برس پہلے وہ بھی کچھ عرصہ اسی علاقے میں رہ چکے تھے۔ ان کا آبائی تعلق بھی (غالباً)امروہہ سے تھا لیکن وہ سماجی اور لسانی رویوں کے ایک روشن خیال دانشور کی طرح کبھی زبان اور کلچر کو آپس میں خلط ملط نہیں کرتے تھے اور اس بات کے دل سے قائل تھے کہ زبان کسی کلچر کا حصہ تو ہوتی ہے لیکن خود کلچر نہیں ہوتی اور یوں وہ بیسویں صدی میں غیر اہل زبان لکھنے والوں کی تحریروں کو نہ صرف انتہائی غیر متعصبانہ انداز میں دیکھتے تھے بلکہ ان کی تعریف بھی کھل کر کرتے تھے اور اس بات کے سخت مخالف تھے کہ لسانی حوالے سے کسی فرد، گروہ یا صوبے کے کلچر اور تہذیب کو دوسرے درجے کا سمجھا یا کہا جائے۔یعنی یہاں بھی ان کی سوچ اور فکر کا متوازن انداز ہی ان کی پہچان بنا رہا۔
ہمارے بہت سے اور نقادوں کی طرح وہ بھی بنیادی طور پر انگریزی کے آدمی تھے، کل اکادمی ادبیات پاکستان کی ادبی کانفرنس کے دوران ذکا الرحمن سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ ستر کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں جون ایلیا کے حلقۂ احباب کی معرفت ان کا رجحان اردو تنقید کی طرف مبذول ہوا اور پھر آہستہ آہستہ وہ اس کے حوالے سے اس قدر مقبول اور محترم ٹھہرے کہ ان کے قلمی نام 'ایریل' کی جگہ بھی ان کے اصل نام محمد علی صدیقی نے لے لی جس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ''ڈاکٹر'' کا اضافہ تو ہوگیا لیکن اس سے کہیں پہلے وہ ادبی دنیا میں اس اعتبار اور وقار کے حامل ہوچکے تھے کہ یہ ڈگری ان کے احترام میں کسی قسم کا اضافہ اس لیے نہ کرسکی کہ ان کی شخصیت کا حسن اب ہر طرح کی مشاطگی سے آزاد اور بالا تر ہوچکا تھا۔
میری ساٹھویں سالگرہ کے حوالے سے شائع شدہ خصوصی کتاب ''ستارے مرے ہم سفر'' میں شامل ان کا تحریر کردہ مضمون ان کے دیگر تنقیدی مضامین کی طرح اس بات کا شاہد ہے کہ ان کا ہر توصیفی جملہ متعلقہ ادب پارے کے تاریخی اور گہرے مطالعے کی گواہی کے ساتھ ترتیب اور تشکیل پاتا ہے۔ وہ فوری طور پر چونکانے والے اور جارحانہ بیانات کے بجائے بڑے دھیمے اور مدلل انداز میں اپنی بات کو آگے بڑھاتے تھے۔ اس حوالے سے انھیں متوازن کے ساتھ ساتھ ایک تہذیب نقاد بھی کہا جاسکتا ہے کہ فی زمانہ تنقید بھی ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز کی طرح ہوتی چلی جا رہی ہے جس کی وقعت اور افادیت پروگرام کے ختم ہونے کے ساتھ ہی ہوا کے دوش پر اس طرح سے بکھر جاتی ہے کہ آخر میں قاری کے پاس چند ربط اور ''بے سہارا'' قسم کے جملوں کے کچھ باقی نہیں بچتا۔
گر ہم اردو کی جدید ادبی اصناف کے حوالے سے بات کریں تو تخلیق کے مقابلے میں تنقید اور تحقیق کے شعبے واضح طور پر کمزور دکھائی دیتے ہیں۔ کہ مستثنیات سے قطع نظر معیار اور مقدار، دونوں حوالوں سے اس میں تسلسل کی کمی دکھائی دیتی ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز تک تو ہماری تنقید تذکروں' تقریروں اور مخصوص مسائل کی پیدا کردہ تعریف اور تنقید کے دائروں سے ہی باہر نہ نکل سکی البتہ مولانا حالی کے ''مقدمے'' اور مولانا شبلی کی چند کتابوں کے بعد حالات کچھ بدلنا شروع ہوئے اور ترقی پسند تنظیم کے قیام کے ساتھ جدید انداز پر استوار اصولوں کی روشنی میں کچھ ایسے تنقیدی رجحانات سامنے آئے جن سے ادب پاروں کی پرکھ کے نئے معیارات وضع ہوئے اور یوں اردو تنقید بھی کسی حد تک اس قابل ہوئی کہ یہ جدید ہم عصر تنقید کے ساتھ قدم ملا کر چل سکے۔
محمد علی صدیقی اردو ادب کی روایت کے ساتھ ہم عصر عالمی ادب اور اس میں جاری و ساری تحریکوں سے بھی بخوبی آگاہ تھے۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلسٹ نظریات کے تحت صورت پذیر ہونے والے ادبی رویوں کے تاریخی، تہذیبی اور معاشی پس منظر سے بھی گہری واقفیت رکھتے تھے۔ میری ذاتی رائے کے مطابق ان کا جھکائو مغرب سے زیادہ مشرق اور بالخصوص اس ادب کی طرف زیادہ تھا جو عوام کے مسائل اور ان کے حل کی بات کرتا تھا وہ بنیادی طور پر ایک انسان دوست دانشور تھے، اپنے معاشرے کی دینی، اخلاقی، تہذیبی اور تاریخی اقدار کے حوالے سے ہر طرح کے احساس کمتری سے آزاد اور مبرا تھے اور مغربی معاشروں کے قائم کردہ معیارات کی اندھی تقلید کے نہ صرف مخالف تھے بلکہ ان کے غیر ضروری اثر کو بھی ناپسند کرتے تھے۔
یہ اور بات ہے کہ اپنے مخصوص دھیمے اور متوازن مزاج کی وجہ سے وہ نعرے بازی کے بجائے عالمانہ اور مدلل تجزیے سے کام لینا زیادہ پسند کرتے تھے۔ایک بات جو میں اکثر تعریفی کالموں میں دہراتا رہتا ہوں اس وقت پھر یاد آرہی ہے کہ ہم ایک قوم اور معاشرے کے طور پر مستحکم بالذات ادارے قائم نہیں کر پا رہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر رخصت ہونے والا باکمال فرد اپنے پیچھے ایک خلا چھوڑ جاتا ہے اور اس کی جگہ لینے کے لیے ہمارے پاس اس جیسے نہ سہی مگر اس سے ملتے جلتے لوگ تیار نہیں ہوتے۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی کی رحلت کے بعد بھی کم و بیش یہی صورت حال پھر درپیش ہے اور ہم ایک بار پھر مل کر یہی کہنے پر مجبور ہیں کہ... ایسا کہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہیں جسے!
محمد علی صدیقی بھائی کچھ عرصہ سے شدید بیمار تھے بلڈ پریشر، شوگر اور دل کے مرض کے ساتھ ساتھ اب ان کے گردے بھی جواب دیتے جا رہے تھے اور آخری دنوں میں ان سے ملاقات کرنے والے احباب نے بتایا کہ ان کی یادداشت بھی جزوی طور پر متاثر ہو چکی تھی۔ میری ان سے ملاقاتوں کا عرصہ کم از کم تین دہائیوں پر محیط ہے۔ ہماری بالمشافہ ملاقات سے پہلے جن دنوں وہ ایک انگریزی اخبار میں ''ایریل'' کے قلمی نام سے تبصرے اور مضامین لکھا کرتے تھے انھوں نے میری کچھ کتابوں پر بہت محبت بھرے، تنقیدی بصیرت کے حامل اور حوصلہ افزا تبصرے لکھے اور جب میں نے پہلی ملاقات پر اس کا شکریہ ادا کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے اپنی مخصوص قدرے بیٹھی ہوئی آواز میں یہ کہہ کر مجھے روک دیا کہ ان سے تعریفی جملے صرف متعلقہ کتاب لکھواتی ہے اس لیے شکریے کا مستحق ادب پارہ ہوتا ہے نقاد نہیں۔
ایسی وسعت قلب، سچائی اور انکساری ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی بعد میں ان سے وطن میں اور بیرون وطن مختلف حوالوں سے مسلسل ملاقاتیں رہیں اور ذاتی سطح پر بھی دوستانہ تعلقات استوار ہوگئے لیکن ادب کے حوالے سے ان کا یہ سچا اور متوازن رویہ ہمیشہ ان کی پہچان رہا۔ جب ملک معیب الرحمن مرحوم نے دوحہ قطر سے عالمی ادبی ایوارڈ کا سلسلہ شروع کیا تو ان کے اور برادرم محمد عتیق کے علاوہ صرف تین افراد ایسے تھے جو اس تقریب کا مستقل حصہ رہے یعنی محترم مشتاق احمد یوسفی (پاکستان جیوری کے کنوینر) ڈاکٹر گوپی چند نارنگ (بھارت جیوری کے کنوینر) اور ڈاکٹر محمد علی صدیقی جو کلیدی مقرر کے طور پر ایوارڈ کی ہر تقریب میں خاص طور پر لکھا گیا مضمون پڑھا کرتے تھے۔
اسی کی دہائی میں جب وہ پہلی بار میرے 22 ممتاز سٹریٹ گڑھی شاہو میں تشریف لائے تو یہ جان کر بہت خوشگوار حیرت ہوئی کہ بہت برس پہلے وہ بھی کچھ عرصہ اسی علاقے میں رہ چکے تھے۔ ان کا آبائی تعلق بھی (غالباً)امروہہ سے تھا لیکن وہ سماجی اور لسانی رویوں کے ایک روشن خیال دانشور کی طرح کبھی زبان اور کلچر کو آپس میں خلط ملط نہیں کرتے تھے اور اس بات کے دل سے قائل تھے کہ زبان کسی کلچر کا حصہ تو ہوتی ہے لیکن خود کلچر نہیں ہوتی اور یوں وہ بیسویں صدی میں غیر اہل زبان لکھنے والوں کی تحریروں کو نہ صرف انتہائی غیر متعصبانہ انداز میں دیکھتے تھے بلکہ ان کی تعریف بھی کھل کر کرتے تھے اور اس بات کے سخت مخالف تھے کہ لسانی حوالے سے کسی فرد، گروہ یا صوبے کے کلچر اور تہذیب کو دوسرے درجے کا سمجھا یا کہا جائے۔یعنی یہاں بھی ان کی سوچ اور فکر کا متوازن انداز ہی ان کی پہچان بنا رہا۔
ہمارے بہت سے اور نقادوں کی طرح وہ بھی بنیادی طور پر انگریزی کے آدمی تھے، کل اکادمی ادبیات پاکستان کی ادبی کانفرنس کے دوران ذکا الرحمن سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ ستر کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں جون ایلیا کے حلقۂ احباب کی معرفت ان کا رجحان اردو تنقید کی طرف مبذول ہوا اور پھر آہستہ آہستہ وہ اس کے حوالے سے اس قدر مقبول اور محترم ٹھہرے کہ ان کے قلمی نام 'ایریل' کی جگہ بھی ان کے اصل نام محمد علی صدیقی نے لے لی جس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ''ڈاکٹر'' کا اضافہ تو ہوگیا لیکن اس سے کہیں پہلے وہ ادبی دنیا میں اس اعتبار اور وقار کے حامل ہوچکے تھے کہ یہ ڈگری ان کے احترام میں کسی قسم کا اضافہ اس لیے نہ کرسکی کہ ان کی شخصیت کا حسن اب ہر طرح کی مشاطگی سے آزاد اور بالا تر ہوچکا تھا۔
میری ساٹھویں سالگرہ کے حوالے سے شائع شدہ خصوصی کتاب ''ستارے مرے ہم سفر'' میں شامل ان کا تحریر کردہ مضمون ان کے دیگر تنقیدی مضامین کی طرح اس بات کا شاہد ہے کہ ان کا ہر توصیفی جملہ متعلقہ ادب پارے کے تاریخی اور گہرے مطالعے کی گواہی کے ساتھ ترتیب اور تشکیل پاتا ہے۔ وہ فوری طور پر چونکانے والے اور جارحانہ بیانات کے بجائے بڑے دھیمے اور مدلل انداز میں اپنی بات کو آگے بڑھاتے تھے۔ اس حوالے سے انھیں متوازن کے ساتھ ساتھ ایک تہذیب نقاد بھی کہا جاسکتا ہے کہ فی زمانہ تنقید بھی ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز کی طرح ہوتی چلی جا رہی ہے جس کی وقعت اور افادیت پروگرام کے ختم ہونے کے ساتھ ہی ہوا کے دوش پر اس طرح سے بکھر جاتی ہے کہ آخر میں قاری کے پاس چند ربط اور ''بے سہارا'' قسم کے جملوں کے کچھ باقی نہیں بچتا۔
گر ہم اردو کی جدید ادبی اصناف کے حوالے سے بات کریں تو تخلیق کے مقابلے میں تنقید اور تحقیق کے شعبے واضح طور پر کمزور دکھائی دیتے ہیں۔ کہ مستثنیات سے قطع نظر معیار اور مقدار، دونوں حوالوں سے اس میں تسلسل کی کمی دکھائی دیتی ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز تک تو ہماری تنقید تذکروں' تقریروں اور مخصوص مسائل کی پیدا کردہ تعریف اور تنقید کے دائروں سے ہی باہر نہ نکل سکی البتہ مولانا حالی کے ''مقدمے'' اور مولانا شبلی کی چند کتابوں کے بعد حالات کچھ بدلنا شروع ہوئے اور ترقی پسند تنظیم کے قیام کے ساتھ جدید انداز پر استوار اصولوں کی روشنی میں کچھ ایسے تنقیدی رجحانات سامنے آئے جن سے ادب پاروں کی پرکھ کے نئے معیارات وضع ہوئے اور یوں اردو تنقید بھی کسی حد تک اس قابل ہوئی کہ یہ جدید ہم عصر تنقید کے ساتھ قدم ملا کر چل سکے۔
محمد علی صدیقی اردو ادب کی روایت کے ساتھ ہم عصر عالمی ادب اور اس میں جاری و ساری تحریکوں سے بھی بخوبی آگاہ تھے۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلسٹ نظریات کے تحت صورت پذیر ہونے والے ادبی رویوں کے تاریخی، تہذیبی اور معاشی پس منظر سے بھی گہری واقفیت رکھتے تھے۔ میری ذاتی رائے کے مطابق ان کا جھکائو مغرب سے زیادہ مشرق اور بالخصوص اس ادب کی طرف زیادہ تھا جو عوام کے مسائل اور ان کے حل کی بات کرتا تھا وہ بنیادی طور پر ایک انسان دوست دانشور تھے، اپنے معاشرے کی دینی، اخلاقی، تہذیبی اور تاریخی اقدار کے حوالے سے ہر طرح کے احساس کمتری سے آزاد اور مبرا تھے اور مغربی معاشروں کے قائم کردہ معیارات کی اندھی تقلید کے نہ صرف مخالف تھے بلکہ ان کے غیر ضروری اثر کو بھی ناپسند کرتے تھے۔
یہ اور بات ہے کہ اپنے مخصوص دھیمے اور متوازن مزاج کی وجہ سے وہ نعرے بازی کے بجائے عالمانہ اور مدلل تجزیے سے کام لینا زیادہ پسند کرتے تھے۔ایک بات جو میں اکثر تعریفی کالموں میں دہراتا رہتا ہوں اس وقت پھر یاد آرہی ہے کہ ہم ایک قوم اور معاشرے کے طور پر مستحکم بالذات ادارے قائم نہیں کر پا رہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر رخصت ہونے والا باکمال فرد اپنے پیچھے ایک خلا چھوڑ جاتا ہے اور اس کی جگہ لینے کے لیے ہمارے پاس اس جیسے نہ سہی مگر اس سے ملتے جلتے لوگ تیار نہیں ہوتے۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی کی رحلت کے بعد بھی کم و بیش یہی صورت حال پھر درپیش ہے اور ہم ایک بار پھر مل کر یہی کہنے پر مجبور ہیں کہ... ایسا کہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہیں جسے!