بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں۔۔۔۔۔
سمیعہ راحیل قاضی اپنے والد صاحب قاضی حسین احمد کی طرح شعور و دانش، علم و آگہی سے مالا مال ہیں۔
جماعت اسلامی کے رہنما جناب پروفیسر غفور احمد کے انتقال کو چند ہی دن گزرے تھے کہ جماعت کے سابق امیر جناب قاضی حسین احمد انتقال کرگئے۔
قاضی حسین احمد اپنی دینی و ملی خدمات کے عوض ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے کہ قاضی حسین احمد نے اپنی پوری زندگی کو جماعت کے کاموں اور انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کردیا تھا، ملک میں جب بھی حالات خراب ہوئے، گستاخانہ خاکوں کی اشاعت ہو یا امت مسلمہ کے اتحاد کی بات ہو، وطن عزیز کی سالمیت کا خطرہ ہو، حکومت وقت کے ملی و مذہبی خدمات سے انحراف یا ڈرون حملے ہوں، امریکا کی بے جا مداخلت، ان تمام معاملات سے نمٹنے کے لیے قاضی حسین احمد اورجماعت اسلامی کے اہم ارکان ہمیشہ اپنے تاثرات کا اظہار مظاہروں وریلیوں کی شکل میں کرتے صاحب اختیارات و اقتدار کو خبردار کرتے رہے ہیں کہ وہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل سے بازآجائیں، اس قسم کے مواقع پر جماعت اسلامی ہمیشہ پیش پیش رہتی ہے۔
بڑے لوگوں کی زندگیاں مسلسل جدوجہد، مسائل و مشکلات سے نمٹتے ہوئے بسر ہوئی ہیں، اپنے مقصد کو پانے کے لیے ہر لمحہ تگ و دو اورذہنی طور پر مصروف رہنا پڑتا ہے، تب بھی گوہر مقصود حاصل نہیں ہوتا کہ راہ میں کانٹے ہیں، قدم قدم پر میروجعفر کا سامنا ہے، تپتی دھوپ اور چلچلاتا ہوا صحرا ہے، پاؤں ننگے، پیاسی روح اور پیاسا حلق ہے۔ حق کے راستوں پر چلنے والے ہی ان راہوں کی اذیت کو سمجھتے اور سہتے ہیں کہ بلند مقاصد کو پانے کے لیے جسمانی تکالیف کوئی اہمیت نہیں رکھتی ہیں کہ بدن تو ویسے بھی فانی ہے لہٰذا اپنے ربّ کی رضا کے لیے کام کرنے والے دنیا کی جنت کو باآسانی ٹھکرا دیتے ہیں، اور اسلامی نقطہ نگاہ کو مدنظر رکھتے ہوئے انسانیت کی بقا کے لیے شب وروزکام کرتے ہیں۔ ایسے ہی بڑے لوگوں میں جناب قاضی حسین اور پروفیسر غفور احمد کا شمار ہوتا ہے۔
موت کے حوالے سے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ:
موت تجدید مذاق زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے
آہ! یہ دنیا' یہ ماتم خانہ برنا وپیر
آدمی ہے کس طلسم دوش و فردا میں اسیر
کتنی مشکل زندگی ہے' کس قدر آساں ہے موت
گلشن ہستی میں مانند ارزاں ہے موت
قاضی حسین احمد 12 جنوری 1938 کو زیارت کاکا صاحب میں پیدا ہوئے آپ کے والد مولانا محمد عبدالرب ایک ممتاز عالم دین تھے ان کی دینی و سیاسی بصیرت ہی تھی کہ جس کے تحت وہ جمعیت علماء ہند صوبہ خیبرپختونخوا کے صدر بنائے گئے، وہ اپنے گھر میں سب سے چھوٹے تھے اور وہ دس بہن بھائی تھے۔ انھوں نے زمانہ طالب علمی ہی سے سیاست میں قدم رکھ دیا تھا، وہ اسلامی جمعیت طلبہ سے بھی منسلک رہے، انھیں 1987 میں جماعت کا امیر مقرر کیا گیا، اپنی مقبولیت کے حوالے سے وہ 1992، 1994، 1999 اور 2004 میں اپنی جماعت کے امیر منتخب ہوگئے۔ یہ ان کی اصول پرستی، قول و فعل میں ہم آہنگی اور نعرہ احتساب و انصاف ہی تھا جس کی بناء پر جماعت کے اراکین کے دلوں میں راج کرتے رہے ۔
ملی و اسلامی منظر نامے میں وہ ایک منفرد اور اعلیٰ مقام رکھتے ہیں، ان کی خاص خوبی یہ تھی کہ وہ دین اور دنیا کو ساتھ لے کر چلنا جانتے تھے یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی میں کچھ چیزیںنئی در آئیں ۔جناب قاضی حسین احمد لڑکیوں کا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا بھی معیوب نہیں سمجھتے تھے اور اسلام بھی اجازت دیتا ہے، دین اسلام میں عورت کا اعلیٰ مقام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی اپنی صاحبزادیاں بھی دینی و دنیاوی تعلیم سے مالا مال ہیں۔ سمیعہ راحیل قاضی تو سیاست کے میدان میں بھی سرگرم رہیں اور انھیں رکن قومی اسمبلی بننے کا بھی اعزاز حاصل ہے اور جماعت اسلامی شعبہ خواتین کی ناظمہ کی حیثیت سے بھی کام کرچکی ہیں اور آج کل بھی دینی خدمات انجام دے رہی ہیں اسی حوالے سے راقم الحروف کی بھی 1995 یا 1997 میں ملاقات ہوچکی ہے۔
(متن مجھے صحیح طریقے سے یاد نہیں ہے) سمیعہ راحیل قاضی اپنے والد صاحب قاضی حسین احمد کی طرح شعور و دانش، علم و آگہی سے مالا مال ہیں۔ ان سے گفتگو کرنے اور ملاقات کے بعد اندازہ ہوتا ہے نہ کہ وہ شباہت کے اعتبار سے اپنے والد صاحب سے ملتی جلتی ہیں بلکہ گفتار و کردار میں بھی مشابہت پائی جاتی ہے۔ یہ بڑی خاص بات ہے کہ جماعت اسلامی کی خواتین عورتوں میں علم و شعور پیدا کرنے کے لیے مختلف علاقوں میں تدریسی فرائض انجام دیتے ہیں، اور یہ ضروری ہے کہ عورت ہی کی گود میں قومیں پروان چڑھتی ہیں، ہر ماہ رمضان میں قران پاک کی تلاوت، ترجمہ و تفسیر کے درس کا اہتمام اللہ سے سچی محبت اور اس کے احکام کی بجاآوری کے لیے پابندی سے کیا جاتا ہے اور طالب علم استفادہ کرتے ہیں۔ ویسے تو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ذمے داری ہر مسلمان کی ہے۔ لیکن اللہ جسے ہدایت اور توفیق عطا فرمائے۔
قاضی حسین احمد اب ہم میں موجود نہیں ہیں اور ان کی موت نے سیاسی و مذہبی طور پر ایک خلا ضرور پیدا کردیا ہے، جس کے بھرنے کے لیے ایک عرصہ درکار رہے گا۔
قاضی حسین احمد اصولوں کے پرستار تھے اور وہ اس حوالے سے شہرت بھی رکھتے تھے، وہ بلند اور اعلیٰ کردار کے مالک تھے۔وہ اپنے اصولوں پر، ایک بار نہیں بلکہ کئی بار عام انتخابات کا بائیکاٹ کرتے رہے۔ 1997 میں بھی ان کی جماعت نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، وہ اور ان کی جماعت اسمبلیوں سے ضرور باہر رہے لیکن سیاست میں ان کا کردار بے حد فعال رہا۔ قاضی حسین احمد کے کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم دوسرے سیاستدانوں کی طرف دیکھتے ہیں تو ان میں سے بے شمار سیاسی شخصیات صرف اور صرف اقتدار کی ہی متمنی ہیں۔ ملک وقوم کا مفاد، دینی حمیت قاضی صاحب کا ہی طرہ امتیاز تھا۔ ان جیسے لوگ خال خال نظر آتے ہیں۔
قاضی حسین احمد تباہ کن ملکی حالات کو امریکا کا ہی شاخسانہ گردانتے تھے۔ ہمارے وطن کی سرزمین پر جو آج خون بہایا جارہا ہے، ہر شخص عدم تحفظ کا شکار ہے اس کی وجہ یقینا غیر صہیونی طاقتیں اور ہمارے اپنے لوگوں کی ناعاقبت اندیشی اور ذاتی مفاد ہے۔
قاضی حسین احمد صرف منصوبے ہی نہیں بناتے تھے بلکہ مسلم امہ کی بہتری کے لیے کام بھی کرتے تھے۔ تحریک نفاذ مصطفیؐ کے دوران انھیں گرفتار بھی کیا گیا، گرفتاری کے دوران بھی ان کا قلم حرکت میں تھا اور تبلیغ اسلام و ترویج اسلام کے حوالے سے انھوں نے کئی طویل مقالے لکھے جو بعد میں کتابی شکل میں سامنے آئے۔ ان کی نگاہ ملکی وغیرملکی حالات پر تھی اسی حوالے سے وہ وقتاً فوقتاً خامہ فرسائی کرتے رہے۔ ان کی تحریریں اخبارات کی زینت بنتیں اس طرح ان کے افکار تازہ سے رہنمائی حاصل کرنے والے استفادہ کرتے۔
قاضی حسین احمد اصول کے پکے اور بات کے سچے اور کھرے انسان تھے۔ اصولوں کے آگے بڑے سے بڑے دنیاوی فائدوں کو ٹھکرا دیتے۔ انھوں نے 2008 میں الیکشن کا بائیکاٹ کیا اور اس بات کا اعلان پشاور میں مرکز اسلامی میں منعقدہ اجلاس میں کیا، بعض اطلاعات کے مطابق ان کے اس فیصلے سے جماعت کے کئی رہنما متفق نہیں تھے۔ اپنے اصول وضوابط پر قائم رہنے اور امریکا کی مسلسل مخالفت کہ ''امریکا کا انخلاء پاکستان کی سرزمین سے لازم و ملزوم ہے۔'' ان کے اسی طرز نے ان کی جان کو خطرے میں ڈال دیا اور مہمند ایجنسی میں ایک خاتون کے ذریعے خودکش حملہ کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن اللہ جس کی حفاظت کرے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتا ہے۔
لہٰذا وہ بھی بچ گئے اور 74 سال کی عمر میں انھوں نے طبعی موت پائی، 6 جنوری کی رات ایک بج کر 40 منٹ پر اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ علامہ اقبال نے اپنی والدہ کے لیے ایک نظم بعنوان والدہ مرحومہ کی یاد میں لکھی تھی جس میں انھوں نے خراج تحسین پیش کیا اور دعا کی۔ ہم بھی قاضی حسین احمد کے لیے اس دعا کو نقل کرتے ہیں (ویسے بھی قاضی حسین احمد کو علامہ اقبال کی شاعری سے بے پناہ عقیدت و محبت تھی ان کی تقاریر میں جا بجا علامہ کے اشعار پڑھنے کو ملتے تھے)۔
مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
قاضی حسین احمد اپنی دینی و ملی خدمات کے عوض ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے کہ قاضی حسین احمد نے اپنی پوری زندگی کو جماعت کے کاموں اور انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کردیا تھا، ملک میں جب بھی حالات خراب ہوئے، گستاخانہ خاکوں کی اشاعت ہو یا امت مسلمہ کے اتحاد کی بات ہو، وطن عزیز کی سالمیت کا خطرہ ہو، حکومت وقت کے ملی و مذہبی خدمات سے انحراف یا ڈرون حملے ہوں، امریکا کی بے جا مداخلت، ان تمام معاملات سے نمٹنے کے لیے قاضی حسین احمد اورجماعت اسلامی کے اہم ارکان ہمیشہ اپنے تاثرات کا اظہار مظاہروں وریلیوں کی شکل میں کرتے صاحب اختیارات و اقتدار کو خبردار کرتے رہے ہیں کہ وہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل سے بازآجائیں، اس قسم کے مواقع پر جماعت اسلامی ہمیشہ پیش پیش رہتی ہے۔
بڑے لوگوں کی زندگیاں مسلسل جدوجہد، مسائل و مشکلات سے نمٹتے ہوئے بسر ہوئی ہیں، اپنے مقصد کو پانے کے لیے ہر لمحہ تگ و دو اورذہنی طور پر مصروف رہنا پڑتا ہے، تب بھی گوہر مقصود حاصل نہیں ہوتا کہ راہ میں کانٹے ہیں، قدم قدم پر میروجعفر کا سامنا ہے، تپتی دھوپ اور چلچلاتا ہوا صحرا ہے، پاؤں ننگے، پیاسی روح اور پیاسا حلق ہے۔ حق کے راستوں پر چلنے والے ہی ان راہوں کی اذیت کو سمجھتے اور سہتے ہیں کہ بلند مقاصد کو پانے کے لیے جسمانی تکالیف کوئی اہمیت نہیں رکھتی ہیں کہ بدن تو ویسے بھی فانی ہے لہٰذا اپنے ربّ کی رضا کے لیے کام کرنے والے دنیا کی جنت کو باآسانی ٹھکرا دیتے ہیں، اور اسلامی نقطہ نگاہ کو مدنظر رکھتے ہوئے انسانیت کی بقا کے لیے شب وروزکام کرتے ہیں۔ ایسے ہی بڑے لوگوں میں جناب قاضی حسین اور پروفیسر غفور احمد کا شمار ہوتا ہے۔
موت کے حوالے سے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ:
موت تجدید مذاق زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے
آہ! یہ دنیا' یہ ماتم خانہ برنا وپیر
آدمی ہے کس طلسم دوش و فردا میں اسیر
کتنی مشکل زندگی ہے' کس قدر آساں ہے موت
گلشن ہستی میں مانند ارزاں ہے موت
قاضی حسین احمد 12 جنوری 1938 کو زیارت کاکا صاحب میں پیدا ہوئے آپ کے والد مولانا محمد عبدالرب ایک ممتاز عالم دین تھے ان کی دینی و سیاسی بصیرت ہی تھی کہ جس کے تحت وہ جمعیت علماء ہند صوبہ خیبرپختونخوا کے صدر بنائے گئے، وہ اپنے گھر میں سب سے چھوٹے تھے اور وہ دس بہن بھائی تھے۔ انھوں نے زمانہ طالب علمی ہی سے سیاست میں قدم رکھ دیا تھا، وہ اسلامی جمعیت طلبہ سے بھی منسلک رہے، انھیں 1987 میں جماعت کا امیر مقرر کیا گیا، اپنی مقبولیت کے حوالے سے وہ 1992، 1994، 1999 اور 2004 میں اپنی جماعت کے امیر منتخب ہوگئے۔ یہ ان کی اصول پرستی، قول و فعل میں ہم آہنگی اور نعرہ احتساب و انصاف ہی تھا جس کی بناء پر جماعت کے اراکین کے دلوں میں راج کرتے رہے ۔
ملی و اسلامی منظر نامے میں وہ ایک منفرد اور اعلیٰ مقام رکھتے ہیں، ان کی خاص خوبی یہ تھی کہ وہ دین اور دنیا کو ساتھ لے کر چلنا جانتے تھے یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی میں کچھ چیزیںنئی در آئیں ۔جناب قاضی حسین احمد لڑکیوں کا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا بھی معیوب نہیں سمجھتے تھے اور اسلام بھی اجازت دیتا ہے، دین اسلام میں عورت کا اعلیٰ مقام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی اپنی صاحبزادیاں بھی دینی و دنیاوی تعلیم سے مالا مال ہیں۔ سمیعہ راحیل قاضی تو سیاست کے میدان میں بھی سرگرم رہیں اور انھیں رکن قومی اسمبلی بننے کا بھی اعزاز حاصل ہے اور جماعت اسلامی شعبہ خواتین کی ناظمہ کی حیثیت سے بھی کام کرچکی ہیں اور آج کل بھی دینی خدمات انجام دے رہی ہیں اسی حوالے سے راقم الحروف کی بھی 1995 یا 1997 میں ملاقات ہوچکی ہے۔
(متن مجھے صحیح طریقے سے یاد نہیں ہے) سمیعہ راحیل قاضی اپنے والد صاحب قاضی حسین احمد کی طرح شعور و دانش، علم و آگہی سے مالا مال ہیں۔ ان سے گفتگو کرنے اور ملاقات کے بعد اندازہ ہوتا ہے نہ کہ وہ شباہت کے اعتبار سے اپنے والد صاحب سے ملتی جلتی ہیں بلکہ گفتار و کردار میں بھی مشابہت پائی جاتی ہے۔ یہ بڑی خاص بات ہے کہ جماعت اسلامی کی خواتین عورتوں میں علم و شعور پیدا کرنے کے لیے مختلف علاقوں میں تدریسی فرائض انجام دیتے ہیں، اور یہ ضروری ہے کہ عورت ہی کی گود میں قومیں پروان چڑھتی ہیں، ہر ماہ رمضان میں قران پاک کی تلاوت، ترجمہ و تفسیر کے درس کا اہتمام اللہ سے سچی محبت اور اس کے احکام کی بجاآوری کے لیے پابندی سے کیا جاتا ہے اور طالب علم استفادہ کرتے ہیں۔ ویسے تو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ذمے داری ہر مسلمان کی ہے۔ لیکن اللہ جسے ہدایت اور توفیق عطا فرمائے۔
قاضی حسین احمد اب ہم میں موجود نہیں ہیں اور ان کی موت نے سیاسی و مذہبی طور پر ایک خلا ضرور پیدا کردیا ہے، جس کے بھرنے کے لیے ایک عرصہ درکار رہے گا۔
قاضی حسین احمد اصولوں کے پرستار تھے اور وہ اس حوالے سے شہرت بھی رکھتے تھے، وہ بلند اور اعلیٰ کردار کے مالک تھے۔وہ اپنے اصولوں پر، ایک بار نہیں بلکہ کئی بار عام انتخابات کا بائیکاٹ کرتے رہے۔ 1997 میں بھی ان کی جماعت نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، وہ اور ان کی جماعت اسمبلیوں سے ضرور باہر رہے لیکن سیاست میں ان کا کردار بے حد فعال رہا۔ قاضی حسین احمد کے کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم دوسرے سیاستدانوں کی طرف دیکھتے ہیں تو ان میں سے بے شمار سیاسی شخصیات صرف اور صرف اقتدار کی ہی متمنی ہیں۔ ملک وقوم کا مفاد، دینی حمیت قاضی صاحب کا ہی طرہ امتیاز تھا۔ ان جیسے لوگ خال خال نظر آتے ہیں۔
قاضی حسین احمد تباہ کن ملکی حالات کو امریکا کا ہی شاخسانہ گردانتے تھے۔ ہمارے وطن کی سرزمین پر جو آج خون بہایا جارہا ہے، ہر شخص عدم تحفظ کا شکار ہے اس کی وجہ یقینا غیر صہیونی طاقتیں اور ہمارے اپنے لوگوں کی ناعاقبت اندیشی اور ذاتی مفاد ہے۔
قاضی حسین احمد صرف منصوبے ہی نہیں بناتے تھے بلکہ مسلم امہ کی بہتری کے لیے کام بھی کرتے تھے۔ تحریک نفاذ مصطفیؐ کے دوران انھیں گرفتار بھی کیا گیا، گرفتاری کے دوران بھی ان کا قلم حرکت میں تھا اور تبلیغ اسلام و ترویج اسلام کے حوالے سے انھوں نے کئی طویل مقالے لکھے جو بعد میں کتابی شکل میں سامنے آئے۔ ان کی نگاہ ملکی وغیرملکی حالات پر تھی اسی حوالے سے وہ وقتاً فوقتاً خامہ فرسائی کرتے رہے۔ ان کی تحریریں اخبارات کی زینت بنتیں اس طرح ان کے افکار تازہ سے رہنمائی حاصل کرنے والے استفادہ کرتے۔
قاضی حسین احمد اصول کے پکے اور بات کے سچے اور کھرے انسان تھے۔ اصولوں کے آگے بڑے سے بڑے دنیاوی فائدوں کو ٹھکرا دیتے۔ انھوں نے 2008 میں الیکشن کا بائیکاٹ کیا اور اس بات کا اعلان پشاور میں مرکز اسلامی میں منعقدہ اجلاس میں کیا، بعض اطلاعات کے مطابق ان کے اس فیصلے سے جماعت کے کئی رہنما متفق نہیں تھے۔ اپنے اصول وضوابط پر قائم رہنے اور امریکا کی مسلسل مخالفت کہ ''امریکا کا انخلاء پاکستان کی سرزمین سے لازم و ملزوم ہے۔'' ان کے اسی طرز نے ان کی جان کو خطرے میں ڈال دیا اور مہمند ایجنسی میں ایک خاتون کے ذریعے خودکش حملہ کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن اللہ جس کی حفاظت کرے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتا ہے۔
لہٰذا وہ بھی بچ گئے اور 74 سال کی عمر میں انھوں نے طبعی موت پائی، 6 جنوری کی رات ایک بج کر 40 منٹ پر اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ علامہ اقبال نے اپنی والدہ کے لیے ایک نظم بعنوان والدہ مرحومہ کی یاد میں لکھی تھی جس میں انھوں نے خراج تحسین پیش کیا اور دعا کی۔ ہم بھی قاضی حسین احمد کے لیے اس دعا کو نقل کرتے ہیں (ویسے بھی قاضی حسین احمد کو علامہ اقبال کی شاعری سے بے پناہ عقیدت و محبت تھی ان کی تقاریر میں جا بجا علامہ کے اشعار پڑھنے کو ملتے تھے)۔
مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے