کچھ احوال آس پاس کا

سعودی عرب کی 2 کروڑ کی آبادی میں 4 لاکھ سے زائد افراد بے روزگار ہیں۔

zb0322-2284142@gmail.com

ہمارے ہاں عام طور پر کچھ ملکوں کے بارے میں خام خیالی یا غلط فہمی ہے۔ جسے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے گماشتے دانشوروں نے پھیلا رکھا ہے۔ان میں خاص کر سوئٹزرلینڈ، آئس لینڈ، ڈنمارک، ترکی، ملائیشیا، ایران ،سعودی عرب، اسرائیل اور جاپان وغیرہ کے بارے میں لاعلمی ہے۔ انھیں ملکوں کے سرکاری اعدادوشمار کے لحاظ سے جائزہ لیتے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ کی 78 لاکھ 6 ہزار کی آبادی میں 1فیصد لوگوں کے پاس 50 فیصد دولت ہے۔

باقی 50 فیصد دولت 99 فیصد لوگوں کے پاس ہے۔ جولائی 2011 میں 15 سے24 سال تک کی عمر کے 51 ہزار نوجوان بے روزگار تھے۔ اس وقت کل کام کرنے والوں میں 10فیصد یعنی 4 لاکھ لوگ فی گھنٹہ 22 فرانک کماتے ہیں۔ یہ ماہانہ چار ہزار ہوجاتا ہے۔ یہاںلوگ اوسطاً 8,000 فرانک سے زیادہ نہیں کماپاتے۔ آئس لینڈ کا 2007 میں بیرونی قرضہ اس کی جی ڈی پی کا 246 فیصد تھا اور 2009 میں بیروزگاری 8 فیصد ہوگئی تھی جب کہ ڈنمارک میں 10 فیصد لوگ بے روزگار ہیں۔ ترکی کی گروتھ ریٹ 2009 میں 8 فیصد تھی جو گھٹ کر 2011 میں 1 فیصد ہوگئی۔ اسرائیل میں بے روزگاری 7.8 فیصد ہے اور غذائی قلت 8.1 فیصد ہے۔ مصر کی حکومت آئی ایم ایف سے 4.2 ارب ڈالر کا قرضہ لینے کے لیے مذاکرات کر رہی ہے۔

ملک کو درپیش اقتصادی بحران کے حوالے سے عوامی غصے کو ٹھنڈا کرنے کی غرض سے وزیر مالیات اور وزیر داخلہ کو تبدیل کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ آٹھ دوسرے وزراء کی جگہ نئے وزیروں کا تقرر کیا جارہا ہے۔ سعودی عرب کے سوشل افیئر کے وزیر ڈاکٹر یوسف العثمان کہتے ہیں کہ 662126 ایسے سعودی خاندان ہیں جو مختلف قسم کے وظائف پر گزارہ کر رہے ہیں۔ اگر ہم ایک خاندان کو پانچ افراد پر مبنی خیال کریں تو افراد کی کل تعداد 3310625 بنتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج سے چند سال پہلے 3310625 افراد ایک انتہائی امیر ملک میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے تھے ۔

سعودی عرب کی 2 کروڑ کی آبادی میں 4 لاکھ سے زائد افراد بے روزگار ہیں۔ یہ بات ڈاکٹر یوسف نے ''الوفن'' نامی جریدے سے بات کرتے ہوئے بتائی۔ جب کہ غیر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق تقریباً25 فیصد سے زائد سعودی خاندان ایسے ہیں جو غربت کی انتہائی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور 75 فیصد سے زائد لوگ طویل مدتی اور مختصر مدتی قرضے لینے پر انتہائی مجبور ہیں۔ دنیا بھر میں مقروض ملکوں میں ملائیشیا 51 ویں، چین 71 ویں، بنگلہ دیش 96 ویں، بھارت 59 ویں، فلپائن 54 ویں اور پاکستان 49 ویں نمبر پر ہے۔ ملائیشیا کا قرضہ 2012 میں جی ڈی پی کا 48.5 فیصد تھا۔ کم سے کم مقروض ملک اومان اور لائیبریا ہیں جن کے ذمے قرضہ جی ڈی پی کا 4.1 اور 3.3 فیصد ہے۔

سب سے زیادہ مقروض ملک میں زمبابوے پہلے نمبر پر جس کا واجب الادا قرضہ جی ڈی پی کا 220.1فیصد ہے، جاپان 2117 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر، یونان161.7 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر اور لبنان جی ڈی پی کے مقابلے میں 134 فیصد قرضوں کے ساتھ چوتھا بڑا مقروض ملک ہے۔ تہران میں ایک سال کے دوران آلودگی کی وجہ سے 4460 افراد ہلاک ہوئے۔ وزیر صحت کے مشیر حسن آقا جانی نے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ ایرانی پٹرول میں کینسر پیدا کرنیوالے مادے کی مقدار عالمی معیار سے زیادہ ہے جو آلودگی پیدا کر رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں اسپتالوں میں آنیوالے دل کے مریضوں کی تعداد میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ایرانی پٹرول میں سلفر کی مقدار بھی عالمی معیار سے ایک تہائی زیادہ ہے۔ 80لاکھ کی آبادی والے شہر میں ٹریفک پھنسی رہتی ہے اور اس سے پیدا ہونے والی آلودگی شہر کے دو پہاڑیوں میں گھرا ہونے کی وجہ سے باہر نہیں جاتی اور مسائل پیدا کر رہی ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ ترکی کا شام کی سرحد پر نیٹو کے توسط سے میزائل نصب کرنے کا منصوبہ اسرائیل کا تحفظ کرنا ہے۔ یہ بات ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان مہمان پرست نے کہی۔ ہر چندکہ ترکی کی حکومت نے کہا کہ اسرائیل کسی بھی وقت ایران کے خلاف فوجی ایکشن کرسکتا ہے اور ایران کی جانب سے بھرپور جوابی کارروائی بھی ناگزیر ہوگی۔ اس کے باوجود سرحد پر میزائل نصب کرنا اسرائیل کے تحفظ کے علاوہ اور کچھ نہیں۔


ادھر ترکی کے شہر انقرہ میں ہزاروں ترکی عوام نے اس میزائل کے نصب کرنے پر ریلی نکالی اور اپنی حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔اطلاعات کے مطابق بھارت کی حکومت نے ہر بالغ بے روزگار نوجوانوں(لڑکے ، لڑکیوں) کو 40 ہزار روپے سالانہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ جو پاکستانی روپے میں 70/80 ہزار بنتا ہے۔ اس اقدام سے کوئی مسئلہ تو حل نہیں ہوگا اور نہ بے روزگاری دور ہوگی۔ مگر یہ ضرور ہوگا کہ نوجوان فوج میں بھرتی ہونے کے لیے مجبور اور بے بس نہیں ہوں گے۔ دور حاضر کی انقلابی شخصیت ہوگو شاویز جنہوں نے بڑی بڑی غیرملکی کمپنیوں کے اثاثے عوامی ملکیت میں لے لیے۔ غربت کو 25 فیصد سے گھٹا کر 5 فیصد پر لے آئے۔

بہت سی ملوں اور کارخانوں کو مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دیا۔ آج شدید بیمار ہیں، وہ سانس کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ بلاامتیاز دنیا بھر کا ہر شخص سوائے بورژوا (سرمایہ دار) دانشوروں کے ان کی بھرپور تائید وحمایت کر رہا ہے۔ طبقاتی لڑائی میں فرد کا رول ہوتا ہے لیکن عوام کا طوفان جو کسی کا لحاظ نہیں کرتا، وہ رہنماؤں اور پارٹیوں پر انحصار بھی نہیں کرتا۔ جے مارکیٹ، پیرس کمیون، انقلاب فرانس، بالشوک انقلاب یا تحریر اسکوائر نے کسی کا انتظار نہیں کیا۔ اسی طرح وینزویلا کے عوام لاطینی امریکا کے محنت کشوں کے ساتھ جڑتے جارہے ہیں اس لیے یہ انقلاب آئندہ مزید توانا اور مضبوط ہوگا۔ ادھر امریکی فوجیں افغانستان میں 11 سال سے زیادہ عرصہ گزار چکی ہیں۔

یعنی 1980 کی دہائی میں سوویت فوجوں کی 9 برس کی موجودگی سے بھی زیادہ افغانستان میں امریکی فوجوں کی تعداد 68000 ہے۔ موجودہ منصوبہ یہ ہے کہ 2014 کے آخیر تک افغانستان سے تمام امریکی اور بین الاقوامی اتحاد کے لڑاکا فوجی نکال لیے جائیںگے اور تمام فوجی اور سیکیورٹی کی ذمے داریاں افغانوں کے حوالے کردی جائیں گی لیکن اقوام متحدہ میں امریکا کے سابق سفیر جان بولٹن کا خیال ہے کہ امریکی افواج جانے کے بعد طالبان پھر ایک بار افغانستان میں کنٹرول حاصل کرلیں گے۔ اگر ایسا ہی ہے تو نیٹو افواج یہاں کیا کرنے آئی تھی؟ دنیا میں کہیں بھی ظلم ہمیشہ قائم نہیں رہ پایا۔ ویت نام، جنوبی افریقہ، کوریا، عراق، زمبابوے، غرض یہ کہ ملک سے سامراجی افواج کو ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑا۔

مگر افغانستان میں امریکی فوج طالبان کو کمزور نہیں مضبوط کرنے آئی ہے، ورنہ بے روزگاری سے ستائے ہوئے افغان عوام کب ان کا قلع قمع کردیتے۔ اب انھیں ہٹانے میں کچھ عرصہ لگ جائے گا مگر آخرکار طالبان کی عوام چھٹی کرادیں گے ۔ شام کے صدر بشارالاسد کی نجکاری اور سامراج کی جانب جھکاؤ کے خلاف عوام نے انقلابی تحریک شروع کی جسے بڑی چال بازی کے ساتھ امریکا نے بنیاد پرستوں اور لبرل گروپوں کو یکجا کرکے شام کے خلاف بالواسطہ جنگ شروع کردی۔ ادھر ایران، روس اور چین بھی اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے شام کی حکومت کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ ترکی جوکہ نیٹو میں امریکا کے بعد سب سے زیادہ فوج رکھنے والا ملک ہے جو مسلسل اورکھلم کھلا بشارالاسد کی حکومت کے خلاف مسلح مداخلت کررہا ہے۔

ابھی اس نے براہ راست اعلان کیا ہے کہ شام کے پناہ گزینوں پر 500 ملین ڈالر خرچ کیے جائیں گے۔ جس ملک کا گروتھ ریٹ 1 فیصد ہو وہ کہاں سے 500 ملین ڈالر خرچ کرسکتا ہے؟ اس سے یہ صاف ظاہر ہورہا ہے کہ امریکی سامراج، عرب بادشاہتیں، شام کی حکومت کو گرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں جب کہ یہ قوتیں یمن اور بحرین کی حکومتوں کو بچانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں۔ یہ ہیں سامراجی مفادات۔

ہمارے آس پاس میں اگر طبقاتی نظام کا دھڑم تختہ ہو رہا ہے اور ہونے والا ہے تو ہم ان کے مقابلے میں کرپشن، بھوک، مہنگائی، افراط زر اور بے روزگاری میں روانڈا، یمن، چلی، چاڈ اور افغانستان کی صف میں کھڑے ہیں اور اب پاکستان سمیت دنیا بھر میں محنت کشوں کے انقلاب اور غیر طبقاتی معاشرے کے قیام کے سوا اور کوئی متبادل راستہ نہیں ہے۔ انتخابات مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ معروف انقلابی دانشور ایما گولڈ مان کہتی ہیں کہ ''اگر انتخابات سے مسئلہ حل ہوتا تو اس پر کب کی پابندی لگ چکی ہوتی۔'' ایک ایسا نظام جہاں پیدا کرنیوالی قوتیں پیداوار کی مالک اور تقسیم کار ہوں گی۔ یہ کام رضاکارانہ طور پر، خودکار اور مقامی بنیادوں کی انجمنیں سر انجام دیں گی۔
Load Next Story