دہشتگردی کے خدشات اور پاک افغان سرحد کھولنے کا فیصلہ
افغانستان نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہ کی تو اس کا خمیازہ اسے بھی بھگتنا پڑے گا
وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے پاک افغان سرحد کو فوری طور پر کھولنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرحدوں کا زیادہ دیر تک بند رہنا عوامی اور معاشی مفاد کے لیے نقصان دہ ہے' جذبہ خیرسگالی کے تحت پاک افغان سرحد کھولنے کا فیصلہ کیا تاہم امید ہے کہ جن وجوہات کی بنا پر سرحد بند کی گئی تھی افغان حکومت ان کا تدارک کرے گی۔
پاکستان میں امن و سلامتی کے لیے افغانستان میں دیرپا امن ناگزیر ہے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے افغان حکومت سے تعاون جاری رکھیں گے' باوجود اس کے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں افغان سرزمین کا استعمال ہوا' صدیوں پرانے مذہبی' ثقافتی اور تاریخی روابط کے پیش نظر سرحد کا بند ہونا دونوں ملکوں کے مفاد میں نہیں۔
16فروری کو سیہون شریف میں درگاہ لعل شہباز قلندر پر حملے کے فوری بعد چمن اور طورخم پر پاک افغان سرحد بند کر دی گئی تھی' اس وقت یہ موقف اختیار کیا گیا کہ اس حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی لہٰذا دہشت گردوں کے مزید حملوں کے خدشے کے پیش نظر پاک افغان سرحد کو بند کر دینا ناگزیر ہے۔
اب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے دونوں ممالک کے ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے والے افراد کی سہولت کے لیے جذبہ خیرسگالی کے تحت پاک افغان سرحد کھولنے کا فیصلہ کرکے صائب قدم اٹھایا ہے' ہر روز طورخم اور چمن سرحد سے ہزاروں پیدل افراد کی آمدورفت کے علاوہ بڑی تعداد میں گاڑیاں تجارتی سامان پاکستان اور افغانستان لاتی لے جاتی ہیں جن میں اشیائے خورونوش کے علاوہ نیٹو کا سامان بھی شامل ہوتا ہے۔
پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے افغان حکومت سے ہر ممکن طور پر تعاون کر رہا ہے مگر افغان حکومت کا رویہ مثبت دکھائی نہیں دے رہا۔ اگرچہ شہریوں کی آمدورفت اور تجارت کے باعث پاک افغان سرحد کو زیادہ عرصہ تک بند نہیں رکھا جا سکتا، اب تقریباً چار ہفتوں کے بعد یہ سرحد دوبارہ کھولنے پر بعض حلقوں کی جانب سے یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا پاکستانی حکومت نے افغانستان کی جانب سے آنے والے دہشت گردوں کو روکنے کے تمام انتظامات مکمل کر لیے ہیں اور کیا ان کے نیٹ ورک تک رسائی حاصل کر لی ہے اور کیا دوسری جانب افغان حکومت دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے آمادہ ہو گئی ہے۔
جتنا عرصہ سرحد بند رہی ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ افغان حکومت اس دوران پاکستان حکومت کے ساتھ رابطہ کرتی اور دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ کارروائی کے لیے کوئی لائحہ عمل تشکیل دیتی لیکن ایسا کچھ بھی نہیں' افغان حکومت کے پاکستان کے خلاف متعصبانہ رویے میں کوئی تبدیلی آئی اور نہ وہاں موجود دہشت گردوں کے خلاف کسی کارروائی کا کوئی عندیہ ملا۔ سب کچھ ویسے کا ویسے ہے، اگر دہشت گرد افغانستان سے داخل ہو کر پھر بڑی کوئی کارروائی کر دیتے ہیں تو کیا پاکستان حکومت کو ایک بار پھر پاک افغان سرحد بند کرنا پڑے گی۔
یہ مسئلے کا عارضی حل تو ہے مگر دیرپا امن کے قیام کے لیے ناگزیر ہے کہ افغان حکومت کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنے پر آمادہ کیا جائے' اس سلسلے میں عالمی قوتوں کو بھی اعتماد میں لیا جائے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ امریکا دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستانی حکومت پر تو ڈومور کا دباؤ ڈالتا ہے مگر افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے اس نے افغان حکومت کو کھلی ڈھیل دے رکھی ہے۔
یہ صورت حال خطے کے امن کے لیے ضرر رساں ہے' جب تک اس صورت حال میں تبدیلی نہیں آتی خطے میں دہشت گردی کی کارروائیوں کو روکنا ایک مشکل امر ہے۔ یہ درست ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان صدیوں کے مذہبی' ثقافتی اور تاریخی روابط ہیں' خطے میں قیام امن اور تجارتی سرگرمیوں میں اضافے کے لیے دونوں کا ایک دوسرے سے تعاون وقت کی ضرورت ہے لہٰذا یہ ناگزیر ہے کہ دونوں ممالک دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ پلیٹ فارم پر آئیں۔ بعض قوتیں خطے کی مشکل صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے مسلسل بحران کا شکار رکھنے کا گھناؤنا کھیل کھیل رہی ہیں۔
اگر افغان حکومت نے اس حقیقت کو سمجھنے کے باوجود پاکستان کے خلاف معاندانہ رویہ جاری رکھا اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہ کی تو اس کا خمیازہ اسے بھی بھگتنا پڑے گا اور مستقبل کا افغانستان انتشار' افراتفری اور دہشت گردی کے گرداب میں پھنسا رہے گا۔ لہٰذا پاک افغان بہتر تعلقات کے فروغ اور مشترکہ دشمنوں کے خاتمے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعاون اور مضبوط تعلقات ضرورت بن چکے ہیں۔
پاکستان میں امن و سلامتی کے لیے افغانستان میں دیرپا امن ناگزیر ہے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے افغان حکومت سے تعاون جاری رکھیں گے' باوجود اس کے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں افغان سرزمین کا استعمال ہوا' صدیوں پرانے مذہبی' ثقافتی اور تاریخی روابط کے پیش نظر سرحد کا بند ہونا دونوں ملکوں کے مفاد میں نہیں۔
16فروری کو سیہون شریف میں درگاہ لعل شہباز قلندر پر حملے کے فوری بعد چمن اور طورخم پر پاک افغان سرحد بند کر دی گئی تھی' اس وقت یہ موقف اختیار کیا گیا کہ اس حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی لہٰذا دہشت گردوں کے مزید حملوں کے خدشے کے پیش نظر پاک افغان سرحد کو بند کر دینا ناگزیر ہے۔
اب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے دونوں ممالک کے ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے والے افراد کی سہولت کے لیے جذبہ خیرسگالی کے تحت پاک افغان سرحد کھولنے کا فیصلہ کرکے صائب قدم اٹھایا ہے' ہر روز طورخم اور چمن سرحد سے ہزاروں پیدل افراد کی آمدورفت کے علاوہ بڑی تعداد میں گاڑیاں تجارتی سامان پاکستان اور افغانستان لاتی لے جاتی ہیں جن میں اشیائے خورونوش کے علاوہ نیٹو کا سامان بھی شامل ہوتا ہے۔
پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے افغان حکومت سے ہر ممکن طور پر تعاون کر رہا ہے مگر افغان حکومت کا رویہ مثبت دکھائی نہیں دے رہا۔ اگرچہ شہریوں کی آمدورفت اور تجارت کے باعث پاک افغان سرحد کو زیادہ عرصہ تک بند نہیں رکھا جا سکتا، اب تقریباً چار ہفتوں کے بعد یہ سرحد دوبارہ کھولنے پر بعض حلقوں کی جانب سے یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا پاکستانی حکومت نے افغانستان کی جانب سے آنے والے دہشت گردوں کو روکنے کے تمام انتظامات مکمل کر لیے ہیں اور کیا ان کے نیٹ ورک تک رسائی حاصل کر لی ہے اور کیا دوسری جانب افغان حکومت دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے آمادہ ہو گئی ہے۔
جتنا عرصہ سرحد بند رہی ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ افغان حکومت اس دوران پاکستان حکومت کے ساتھ رابطہ کرتی اور دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ کارروائی کے لیے کوئی لائحہ عمل تشکیل دیتی لیکن ایسا کچھ بھی نہیں' افغان حکومت کے پاکستان کے خلاف متعصبانہ رویے میں کوئی تبدیلی آئی اور نہ وہاں موجود دہشت گردوں کے خلاف کسی کارروائی کا کوئی عندیہ ملا۔ سب کچھ ویسے کا ویسے ہے، اگر دہشت گرد افغانستان سے داخل ہو کر پھر بڑی کوئی کارروائی کر دیتے ہیں تو کیا پاکستان حکومت کو ایک بار پھر پاک افغان سرحد بند کرنا پڑے گی۔
یہ مسئلے کا عارضی حل تو ہے مگر دیرپا امن کے قیام کے لیے ناگزیر ہے کہ افغان حکومت کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنے پر آمادہ کیا جائے' اس سلسلے میں عالمی قوتوں کو بھی اعتماد میں لیا جائے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ امریکا دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستانی حکومت پر تو ڈومور کا دباؤ ڈالتا ہے مگر افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے اس نے افغان حکومت کو کھلی ڈھیل دے رکھی ہے۔
یہ صورت حال خطے کے امن کے لیے ضرر رساں ہے' جب تک اس صورت حال میں تبدیلی نہیں آتی خطے میں دہشت گردی کی کارروائیوں کو روکنا ایک مشکل امر ہے۔ یہ درست ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان صدیوں کے مذہبی' ثقافتی اور تاریخی روابط ہیں' خطے میں قیام امن اور تجارتی سرگرمیوں میں اضافے کے لیے دونوں کا ایک دوسرے سے تعاون وقت کی ضرورت ہے لہٰذا یہ ناگزیر ہے کہ دونوں ممالک دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ پلیٹ فارم پر آئیں۔ بعض قوتیں خطے کی مشکل صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے مسلسل بحران کا شکار رکھنے کا گھناؤنا کھیل کھیل رہی ہیں۔
اگر افغان حکومت نے اس حقیقت کو سمجھنے کے باوجود پاکستان کے خلاف معاندانہ رویہ جاری رکھا اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہ کی تو اس کا خمیازہ اسے بھی بھگتنا پڑے گا اور مستقبل کا افغانستان انتشار' افراتفری اور دہشت گردی کے گرداب میں پھنسا رہے گا۔ لہٰذا پاک افغان بہتر تعلقات کے فروغ اور مشترکہ دشمنوں کے خاتمے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعاون اور مضبوط تعلقات ضرورت بن چکے ہیں۔