گاؤں سے واپسی
ہم دیہات کے لوگ میلوں ٹھیلوں کے بہت شوقین ہوتے ہیں
ہم دیہات کے لوگ میلوں ٹھیلوں کے بہت شوقین ہوتے ہیں۔ سینما وغیرہ سے محروم ہم مقامی کھیل کود کو ہی غنیمت سمجھتے ہیں اور اسی سے جی بہلاتے ہیں۔ فصل کی کاشت کا موسم ہو یا اس کی کٹائی کا یہ ایک میلہ بن جاتا ہے۔ پنجاب کا مشہور میلہ جو چراغاں کے نام سے مشہور ہے ایک فصل کی بار آوری کے موسم کا میلہ ہے، اگرچہ اس موسم میں لاہور کے علاقے کے ایک مزار پر چراغاں کیا جاتا ہے لیکن پہلے پہل یہ اس علاقے کا میلہ تھا جس میں ہندو سکھ اور مسلمان مل جل کر حصہ لیتے تھے اور اس بدلے ہوئے موسم کا جشن برپا کرتے تھے۔
یہ سلسلہ جو زمانہ قدیم سے شروع ہوا اب تک جاری ہے اور لاہور کے قریب کے ایک صاحب مزار کے نام پر منایا جاتا ہے۔ شالا مار باغ کے قریب ایک مزار ہے جس پر چراغاں کرنے کا رواج زمانہ قدیم سے چلا آ رہا ہے، یہاں چراغ ایسی عقیدت کے ساتھ روشن کیے جاتے ہیں کہ حضرت شاہ حسین کے مزار کے ساتھ یہ میلہ بھی چراغاں مشہور ہو گیا ہے اور لاہوری سال بھر اس میلے کا انتظار کرتے ہیں۔ یہ میلہ بھی شاہ حسین نام کے ایک بزرگ کے نام پر منایا جاتا ہے جن کے ساتھ مادھو لال حسین کی داستان معروف ہے۔ کوئی مادھو تھا جس سے ایک مسلمان بزرگ وابستہ ہو گئے اور اس طرح مادھو لال حسین کا نام وجود میں آیا۔
شالیمار کا میلہ اسی نام سے معروف ہے اور یہ مادھو لال حسین کا میلہ کہلاتا ہے یعنی مادھو اور لال حسین کا میلہ جو رفتہ رفتہ پورے پنجاب میں مقبول ہو گیا اور تقسیم سے پہلے ہندو مسلم سکھ سبھی پنجابی مل کر لاہور میں یہ میلہ مناتے تھے۔ پرانے زمانے کے میلوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا تھا، شالیمار کے نام سے معروف یہ میلہ بھی پنجاب کے اس علاقے کا ایک مشترکہ میلہ تھا جس میں سکھوں کی بولیاں بہت مشہور تھیں، یہ بولیاں زیادہ تر بے ساختہ اور فی البدیہہ ہوتی تھیں اور اپنے گانے والے پر جوش لوگوں کے ساتھ ہی ہوا میں اڑ جاتی تھیں چنانچہ ان کا کوئی باضابطہ ریکارڈ نہیں ہے۔
ہندو سکھ مسلمان اپنے اپنے انداز اور لہجے میں یہ بولیاں تراشتے اور انھیں مستانہ دھن میں گاتے تھے۔ یہ بے ساختہ بولیاں اور ان کی دھنیں وقت کی ایجاد تھیں جو وقت کے ساتھ ہی گزر گئیں اور لاہور کی فضاؤں میں اڑ گئیں۔ اب شاید ہی کسی لاہوری کو یہ بولیاں اور ان کی بے ساختہ دھنیں یاد ہوں۔ یہ میلوں میں گم انسانوں کے وقتی جوش و خروش کا ثمر تھیں جو میلہ چراغاں کے شوقین پرجوش لوگوں کی زبان سے بے ساختہ ادا ہوئیں اور میلے کی پر جوش فضاؤں میں کھو گئیں۔ ہر سال نئے میلے میں شوقین نئی بولیاں لے آتے اور اپنے بے ساختہ جذبات کا اظہار کرتے۔
میلہ چراغاں پنجاب کے ایک پرجوش اور بے ساختہ موڈ کا اظہار تھا جس میں ہر پنجابی ہندو سکھ مسلمان عیسائی حصہ لیتا تھا اور اپنے بے ساختہ جذبات کا اظہار کرتا تھا مذہب کی کوئی تفریق نہیں تھی۔ ہندو سکھ عیسائی سب پنجابی اسے اپنا تہوار سمجھتے تھے اور مل جل کر مناتے تھے۔ میلہ چراغاں شاید پنجاب کا سب سے سستا عوامی تہوار تھا جس میں پورا پنجاب دیوانہ وار حصہ لیتا تھا۔
تقسیم کے بعد تہواروں میں بھی ہندو مسلم سکھ کی تفریق ہوئی اور اس طرح ان مشترکہ تہواروں میں تبدیلی آگئی۔ ان میں وہ بے تکلفی رفتہ رفتہ ماند پڑ گئی جو ان تہواروں کی اصل روح اور زندگی تھی ان میں تصنع پیدا ہو گیا اور جدید دور کی تقریبات نے کسی حد تک ان کی جگہ لے لی لیکن یہ تفریحات اپنی جگہ بنا نہ سکیں اور عوام سے قدرے دور ہی رہیں۔
سینما اور تھیٹر میں جو فرق تھا وہ باقی رہا اور شاید اب تک باقی ہے۔ سینما قانون و قاعدے کی پابند ایک تفریح ہے جس کی ایک باضابطہ نگرانی ہوتی ہے اور اس کی فلمی زندگی میں قطع وبرید بھی ہوتی رہتی ہے لیکن تھیٹر عوام کی ایک بے ساختہ تفریح تھی جس کا تاتا بانا عوام کی پسند سے بنتا تھا اور بدلتا رہتا تھا۔
بہرکیف یہ سب تفریحی سلسلے خالصتاً عوام کی پسند و نا پسند کے محتاج تھے جب تک یہ چلتے عوام کی پسند کے پابند کے پابند رہ کر اپنا سفر جاری رکھتے اور یہی وجہ ہے کہ اب تک تھیٹر چل رہا ہے ،اگرچہ سینما نے اس کی ضرورت محدود کر دی ہے لیکن اچھا تھیٹر زندہ ہے اگرچہ کمزور حالت میں۔ تفریح کے جدید سلسلے نے پرانے سلسلوں کو کمزور کر دیا ہے اور پرانے انداز کے تھیٹر کو اگر حاضرین نہیں ملتے تو یہ وقت کی ضرورت اور تقاضا ہے۔ بدلتی دنیا میں پرانی باتیں کب تک چل سکتی ہیں۔
بدلتی ہوئی بلکہ تیزی سے بدلتی ہوئی اس دنیا میں اب ٹھہراؤ نہیں ہے ہر دم کوئی نہ کوئی ہلچل برپا رہتی ہے اور ہونا بھی ایسا ہی چاہیے خاموشی میں زندگی نہیں ہے۔ میں چند دن گاؤں میں رہ کر آ رہا ہوں وہاں بھی شہروں کی طرح کوئی ہنگامہ مطلوب ہے اور لوگ خود کی نہیں تو شہری زندگی کی خبریں سننا چاہتے ہیں، اگرچہ اب ٹی وی ہر گھر میں موجود ہے اور اس پر جو کچھ لاہور اور کراچی والے دیکھتے ہیں پاکستان کے کسی گاؤں میں بھی وہ دیکھا جا سکتا ہے اور ایسا ہونا ہی چاہیے ورنہ زندگی جامد ہوجاتی ہے بلکہ اس سے زیادہ ہونا چاہیے تاکہ ایک ملک کے شہری ایک دوسرے کے قریب رہیں اور دکھ سکھ بانٹ سکیں، یہ ضروری ہے ورنہ اس مصروف زندگی میں اگر تفریح کے ذرایع ہمیں ملا کر نہ رکھیں تو ہم روتے ہوئے ایک دوسرے سے دور ہو جائیں گے اور پھر دور ہی چلے جائیں۔ اس لیے لازم ہے کہ ہمارے غم اور خوشیاں ایک ساتھ ہوں ملتی جلتی ہوں تاکہ ہم بھی ایک دوسرے میں جذباتی طور پر مدغم رہیں۔
یہ سلسلہ جو زمانہ قدیم سے شروع ہوا اب تک جاری ہے اور لاہور کے قریب کے ایک صاحب مزار کے نام پر منایا جاتا ہے۔ شالا مار باغ کے قریب ایک مزار ہے جس پر چراغاں کرنے کا رواج زمانہ قدیم سے چلا آ رہا ہے، یہاں چراغ ایسی عقیدت کے ساتھ روشن کیے جاتے ہیں کہ حضرت شاہ حسین کے مزار کے ساتھ یہ میلہ بھی چراغاں مشہور ہو گیا ہے اور لاہوری سال بھر اس میلے کا انتظار کرتے ہیں۔ یہ میلہ بھی شاہ حسین نام کے ایک بزرگ کے نام پر منایا جاتا ہے جن کے ساتھ مادھو لال حسین کی داستان معروف ہے۔ کوئی مادھو تھا جس سے ایک مسلمان بزرگ وابستہ ہو گئے اور اس طرح مادھو لال حسین کا نام وجود میں آیا۔
شالیمار کا میلہ اسی نام سے معروف ہے اور یہ مادھو لال حسین کا میلہ کہلاتا ہے یعنی مادھو اور لال حسین کا میلہ جو رفتہ رفتہ پورے پنجاب میں مقبول ہو گیا اور تقسیم سے پہلے ہندو مسلم سکھ سبھی پنجابی مل کر لاہور میں یہ میلہ مناتے تھے۔ پرانے زمانے کے میلوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا تھا، شالیمار کے نام سے معروف یہ میلہ بھی پنجاب کے اس علاقے کا ایک مشترکہ میلہ تھا جس میں سکھوں کی بولیاں بہت مشہور تھیں، یہ بولیاں زیادہ تر بے ساختہ اور فی البدیہہ ہوتی تھیں اور اپنے گانے والے پر جوش لوگوں کے ساتھ ہی ہوا میں اڑ جاتی تھیں چنانچہ ان کا کوئی باضابطہ ریکارڈ نہیں ہے۔
ہندو سکھ مسلمان اپنے اپنے انداز اور لہجے میں یہ بولیاں تراشتے اور انھیں مستانہ دھن میں گاتے تھے۔ یہ بے ساختہ بولیاں اور ان کی دھنیں وقت کی ایجاد تھیں جو وقت کے ساتھ ہی گزر گئیں اور لاہور کی فضاؤں میں اڑ گئیں۔ اب شاید ہی کسی لاہوری کو یہ بولیاں اور ان کی بے ساختہ دھنیں یاد ہوں۔ یہ میلوں میں گم انسانوں کے وقتی جوش و خروش کا ثمر تھیں جو میلہ چراغاں کے شوقین پرجوش لوگوں کی زبان سے بے ساختہ ادا ہوئیں اور میلے کی پر جوش فضاؤں میں کھو گئیں۔ ہر سال نئے میلے میں شوقین نئی بولیاں لے آتے اور اپنے بے ساختہ جذبات کا اظہار کرتے۔
میلہ چراغاں پنجاب کے ایک پرجوش اور بے ساختہ موڈ کا اظہار تھا جس میں ہر پنجابی ہندو سکھ مسلمان عیسائی حصہ لیتا تھا اور اپنے بے ساختہ جذبات کا اظہار کرتا تھا مذہب کی کوئی تفریق نہیں تھی۔ ہندو سکھ عیسائی سب پنجابی اسے اپنا تہوار سمجھتے تھے اور مل جل کر مناتے تھے۔ میلہ چراغاں شاید پنجاب کا سب سے سستا عوامی تہوار تھا جس میں پورا پنجاب دیوانہ وار حصہ لیتا تھا۔
تقسیم کے بعد تہواروں میں بھی ہندو مسلم سکھ کی تفریق ہوئی اور اس طرح ان مشترکہ تہواروں میں تبدیلی آگئی۔ ان میں وہ بے تکلفی رفتہ رفتہ ماند پڑ گئی جو ان تہواروں کی اصل روح اور زندگی تھی ان میں تصنع پیدا ہو گیا اور جدید دور کی تقریبات نے کسی حد تک ان کی جگہ لے لی لیکن یہ تفریحات اپنی جگہ بنا نہ سکیں اور عوام سے قدرے دور ہی رہیں۔
سینما اور تھیٹر میں جو فرق تھا وہ باقی رہا اور شاید اب تک باقی ہے۔ سینما قانون و قاعدے کی پابند ایک تفریح ہے جس کی ایک باضابطہ نگرانی ہوتی ہے اور اس کی فلمی زندگی میں قطع وبرید بھی ہوتی رہتی ہے لیکن تھیٹر عوام کی ایک بے ساختہ تفریح تھی جس کا تاتا بانا عوام کی پسند سے بنتا تھا اور بدلتا رہتا تھا۔
بہرکیف یہ سب تفریحی سلسلے خالصتاً عوام کی پسند و نا پسند کے محتاج تھے جب تک یہ چلتے عوام کی پسند کے پابند کے پابند رہ کر اپنا سفر جاری رکھتے اور یہی وجہ ہے کہ اب تک تھیٹر چل رہا ہے ،اگرچہ سینما نے اس کی ضرورت محدود کر دی ہے لیکن اچھا تھیٹر زندہ ہے اگرچہ کمزور حالت میں۔ تفریح کے جدید سلسلے نے پرانے سلسلوں کو کمزور کر دیا ہے اور پرانے انداز کے تھیٹر کو اگر حاضرین نہیں ملتے تو یہ وقت کی ضرورت اور تقاضا ہے۔ بدلتی دنیا میں پرانی باتیں کب تک چل سکتی ہیں۔
بدلتی ہوئی بلکہ تیزی سے بدلتی ہوئی اس دنیا میں اب ٹھہراؤ نہیں ہے ہر دم کوئی نہ کوئی ہلچل برپا رہتی ہے اور ہونا بھی ایسا ہی چاہیے خاموشی میں زندگی نہیں ہے۔ میں چند دن گاؤں میں رہ کر آ رہا ہوں وہاں بھی شہروں کی طرح کوئی ہنگامہ مطلوب ہے اور لوگ خود کی نہیں تو شہری زندگی کی خبریں سننا چاہتے ہیں، اگرچہ اب ٹی وی ہر گھر میں موجود ہے اور اس پر جو کچھ لاہور اور کراچی والے دیکھتے ہیں پاکستان کے کسی گاؤں میں بھی وہ دیکھا جا سکتا ہے اور ایسا ہونا ہی چاہیے ورنہ زندگی جامد ہوجاتی ہے بلکہ اس سے زیادہ ہونا چاہیے تاکہ ایک ملک کے شہری ایک دوسرے کے قریب رہیں اور دکھ سکھ بانٹ سکیں، یہ ضروری ہے ورنہ اس مصروف زندگی میں اگر تفریح کے ذرایع ہمیں ملا کر نہ رکھیں تو ہم روتے ہوئے ایک دوسرے سے دور ہو جائیں گے اور پھر دور ہی چلے جائیں۔ اس لیے لازم ہے کہ ہمارے غم اور خوشیاں ایک ساتھ ہوں ملتی جلتی ہوں تاکہ ہم بھی ایک دوسرے میں جذباتی طور پر مدغم رہیں۔