لاہور کراچی سے بہتر کیوں
آٹھ سال قبل ضلعی حکومتوں کے دور میں کراچی کو ملک کا 13 واں میگاسٹی قرار دیا گیا تھا
آٹھ سال قبل ضلعی حکومتوں کے دور میں کراچی کو ملک کا 13 واں میگاسٹی قرار دیا گیا تھا اور ملک بھر ہی میں نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی کراچی میں ہونے والی ترقی کا اعتراف کیا گیا تھا۔ جب ملک کا صدر ایک فوجی جنرل تھا جس کے بعد دو جمہوری صدورآصف علی زرداری جیسا مضبوط اوربااختیار اور بعد میں موجودہ صدر ممنون حسین آئے۔ جنرل پرویز اور ممنون حسین کا مکمل تعلق کراچی سے جب کہ آصف علی زرداری کا بھی کافی حد تک تعلق کراچی سے تھا جن کی اہلیہ سمیت 3 بچوں کی کراچی میں پیدائش ہونے سے کراچی سے قریبی تعلق تھا۔
آصف زرداری اور ان کے والد کا کاروباری تعلق کراچی سے رہا اور انھوں نے کراچی میں بہت وقت گزارا۔کراچی میں ان کی رہائش بلاول ہاؤس لاہور سے بہت پہلے سے ہے اور پی پی کے چیئرمین کا سیاسی وقت دبئی سے زیادہ کراچی ہی میں گزرتا ہے اورسندھ میں ساڑھے آٹھ سال سے جس پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اس کے اکثر بڑے رہنماؤں کے کراچی میں گھر اورکاروبار اورمالی مفادات ہیں جب کہ ان کے اور ان کی پارٹی کے کراچی میں سیاسی مفادات کم اورمحدود علاقوں میں ہیں۔
سندھ کا کوئی وزیر اعلیٰ کراچی کا شہری نہیں بنا مگرگورنرمتعدد افراد بنے جو اپنا آئینی کردار محدود ہونے کی وجہ سے کراچی کے لیے کچھ بھی نہ کرسکے جب کہ دیہی سندھ کے تمام وزرائے اعلیٰ نے کراچی کو ہمیشہ نظر اندازکیا اور صرف جنرل پرویزکا دورکراچی کے لیے شاندار اورترقی کا سبب بنا جسے کبھی بھلایا نہیں جاسکے گا۔
آج کراچی دنیا بھر میں صفائی کے شدید فقدان، ہرطرف پھیلی تاریکی، پارکوں، پلے گراؤنڈز، سڑکوں کی تباہی اورکچھ عرصہ قبل تک شدید بدامنی، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ میں بدنام تھا جس میں کافی حد تک کمی آچکی ہے مگرکراچی کی بلدیاتی صورتحال انتہائی خراب ہے جس پر میئر کراچی اختیارات نہ ہونے کی شکایتیں کرتے ہوئے کہتے ہیں، بلدیہ عظمیٰ سے اس کے اہم محکمے سندھ حکومت نے لے لیے ہیں اورمیئرکے اختیارات بھی وزیراعلیٰ کے پاس ہیں۔
ان جائزشکایات کے جواب میں متحرک وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ میئر کے پاس قانونی اختیارات ہیں وہ ضلع حکومتوں کے دور کو بھول جائیں اور اگرکام کرنا چاہتے ہیں تو انھی اختیارات کے تحت کام کریں۔ اختیارات میرے پاس ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کام ہونا اورمل جل کرکراچی کے لیے کام کرنا چاہیے اختیارات نہ ہونے کا رونا نہ رویا جائے اور ہرکوئی اپنا اپنا کام کرے۔
وزیر اعلیٰ سندھ اگر اپنے وزیر ناصر علی شاہ اور ارکان قومی اسمبلی فریال تالپور اور نفیسہ شاہ جو نوابشاہ، سکھر اورخیرپور کے ضلع ناظم رہ چکے ہیں سے ہی پوچھ لیں کہ انھوں نے اپنے اضلاع کی ترقی کے لیے ماضی میں جو کام کیے ہیں وہ موجودہ محدود اختیارات میں کرسکتے ہیں تو تینوں کا جواب یقینی طور پر نفی میں ہوگا۔بلدیاتی عہدیداروں خصوصاً کراچی وحیدرآباد کے منتخب میئروں کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انھیں کام کرنے کا مشورہ انتہائی مضحکہ خیز ہے اوروزیر اعلیٰ شہری علاقوں کی ترقی چاہتے ہی نہیں۔ انھوں نے کراچی میں ترقیاتی کاموں کے لیے صرف دس ارب روپے مختص کرکے ملک کے سب سے بڑے شہرکے ساتھ مذاق کیا ہے۔
وفاقی حکومت کراچی کو جدید بس سروس فراہم کر رہی ہے اور سی پیک منصوبے کے تحت بڑا منصوبہ سرکلر ریلوے کی بحالی ہے۔ پنجاب کی اپوزیشن کا الزام ہے کہ پنجاب حکومت پنجاب کا سارا بجٹ لاہورکی تعمیر وترقی پر خرچ کررہی ہے تو شہری علاقوں کی سندھ اسمبلی میں نمائندگی کرنے والی سندھ کی اپوزیشن کا الزام ہے کہ سندھ حکومت کراچی سے کما کرکراچی کی بجائے سندھ کا بجٹ کراچی کو نظرانداز کرکے کہاں خرچ کر رہی ہے وہ سندھ میں خرچ ہوتا ہوا کہیں نظر نہیں آرہا یا اندرون سندھ من پسند علاقوں میں خرچ کیا جا رہا ہے اور اربوں روپے کی کرپشن کی شکایات ملی ہیں۔
کراچی وفاق کو بھی پورے ملک سے کما کر ریونیو فراہم کررہا ہے مگر پی پی کی گزشتہ وفاقی حکومت کی طرح مسلم لیگ(ن) کی حکومت بھی کراچی کو اس کا جائز حق نہیں دے رہی اور سندھ کی حکومت بھی کراچی کو ضرورت کے مطابق فنڈ نہیں دے رہی جو کراچی کا حقیقی حق ہے۔ کراچی کو فنڈ نہ دے کر ملک کے سب سے بڑے شہر سے دونوں حکومتیں ناانصافی اور عوام پر ظلم کر رہی ہیں۔کراچی اورلاہور ملک کے دو بڑے اوراہم شہر ہیں۔کراچی ماضی میں وفاقی دارالحکومت رہا جس کی آمدنی پر ملک چل رہا ہے مگر سیاسی مفادات کے باعث آج لاہور ترقی یافتہ اورکراچی پس ماندہ شہر بن چکے ہیں۔
پی پی کے وزیر بلدیات کراچی کی موجودہ صورتحال کا ذمے دار متحدہ کو اورمتحدہ پی پی کو قرار دیتی ہے جب کہ یہ دونوں ہی نہیں وفاقی حکومت بھی کراچی کی موجودہ صورتحال کے ذمے دار ہیں، جسے کراچی کا کوئی خیال نہیں۔ صدر ممنون حسینکو چاہیے کہ کراچی کو اس کا حق دلائیں۔ لاہور کراچی سے اس لیے بہتر ہے کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب لاہور کو اون کرتے ہیں جو ان کا آبائی شہر ہے جو مسلم لیگ (ن) کا گڑھ بھی ہے مگر کراچی متحدہ کا گڑھ شمار ہوتا ہے اور متحدہ بھی (ن) لیگ حکومت سے کراچی کو کچھ نہ دلا سکی اور صرف (ن) لیگ اور پی پی حکومتوں سے شکایات پر سیاست میں مصروف ہے۔
کراچی ماضی میں کبھی مسلم لیگ کا گڑھ نہیں رہا، بلکہ اپوزیشن کا شہر رہا ہے جس کی ذمے دار بھی مسلم لیگ خود ہے۔ کراچی میں ملک بھر سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں اور متحدہ والوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے بڑوں نے ملک کے لیے قربانیاں دی تھیں جن کی اکثریت کا تعلق مسلم لیگ سے تھا جس کے پاس پاکستان بنانے کا کریڈٹ بھی ہے تو مسلم لیگ کراچی والوں کو اپنا کیوں نہ بنا سکی۔ لاہور کے لیے اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی پی ٹی آئی مسلم لیگ (ن) کا ووٹ لاہور میں توڑ چکی ہے جس نے لاہورکے لیے کچھ نہیں کیا۔
متحدہ تین عشروں کے بعد اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی ہے جس سے متحدہ کا ووٹ بینک متاثر ہوا ہے اور متحدہ کو ووٹ دینے کی سزا کراچی کو نظرانداز کرکے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں کراچی کے دوکروڑ عوام کو دے رہی ہیں اور کراچی کو اپنانے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے اور دونوں بڑی پارٹیاں کراچی کے لوگوں کا خیال نہیں کر رہیں۔ اگر دونوں حکومتیں چاہیں تو بانی پاکستان کا شہر بھی لاہور جیسا بن سکتا ہے جو کراچی کا حق بھی ہے کیونکہ کما کر دینے والا بڑا شہر اور منی پاکستان بھی ہے۔
آصف زرداری اور ان کے والد کا کاروباری تعلق کراچی سے رہا اور انھوں نے کراچی میں بہت وقت گزارا۔کراچی میں ان کی رہائش بلاول ہاؤس لاہور سے بہت پہلے سے ہے اور پی پی کے چیئرمین کا سیاسی وقت دبئی سے زیادہ کراچی ہی میں گزرتا ہے اورسندھ میں ساڑھے آٹھ سال سے جس پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اس کے اکثر بڑے رہنماؤں کے کراچی میں گھر اورکاروبار اورمالی مفادات ہیں جب کہ ان کے اور ان کی پارٹی کے کراچی میں سیاسی مفادات کم اورمحدود علاقوں میں ہیں۔
سندھ کا کوئی وزیر اعلیٰ کراچی کا شہری نہیں بنا مگرگورنرمتعدد افراد بنے جو اپنا آئینی کردار محدود ہونے کی وجہ سے کراچی کے لیے کچھ بھی نہ کرسکے جب کہ دیہی سندھ کے تمام وزرائے اعلیٰ نے کراچی کو ہمیشہ نظر اندازکیا اور صرف جنرل پرویزکا دورکراچی کے لیے شاندار اورترقی کا سبب بنا جسے کبھی بھلایا نہیں جاسکے گا۔
آج کراچی دنیا بھر میں صفائی کے شدید فقدان، ہرطرف پھیلی تاریکی، پارکوں، پلے گراؤنڈز، سڑکوں کی تباہی اورکچھ عرصہ قبل تک شدید بدامنی، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ میں بدنام تھا جس میں کافی حد تک کمی آچکی ہے مگرکراچی کی بلدیاتی صورتحال انتہائی خراب ہے جس پر میئر کراچی اختیارات نہ ہونے کی شکایتیں کرتے ہوئے کہتے ہیں، بلدیہ عظمیٰ سے اس کے اہم محکمے سندھ حکومت نے لے لیے ہیں اورمیئرکے اختیارات بھی وزیراعلیٰ کے پاس ہیں۔
ان جائزشکایات کے جواب میں متحرک وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ میئر کے پاس قانونی اختیارات ہیں وہ ضلع حکومتوں کے دور کو بھول جائیں اور اگرکام کرنا چاہتے ہیں تو انھی اختیارات کے تحت کام کریں۔ اختیارات میرے پاس ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کام ہونا اورمل جل کرکراچی کے لیے کام کرنا چاہیے اختیارات نہ ہونے کا رونا نہ رویا جائے اور ہرکوئی اپنا اپنا کام کرے۔
وزیر اعلیٰ سندھ اگر اپنے وزیر ناصر علی شاہ اور ارکان قومی اسمبلی فریال تالپور اور نفیسہ شاہ جو نوابشاہ، سکھر اورخیرپور کے ضلع ناظم رہ چکے ہیں سے ہی پوچھ لیں کہ انھوں نے اپنے اضلاع کی ترقی کے لیے ماضی میں جو کام کیے ہیں وہ موجودہ محدود اختیارات میں کرسکتے ہیں تو تینوں کا جواب یقینی طور پر نفی میں ہوگا۔بلدیاتی عہدیداروں خصوصاً کراچی وحیدرآباد کے منتخب میئروں کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انھیں کام کرنے کا مشورہ انتہائی مضحکہ خیز ہے اوروزیر اعلیٰ شہری علاقوں کی ترقی چاہتے ہی نہیں۔ انھوں نے کراچی میں ترقیاتی کاموں کے لیے صرف دس ارب روپے مختص کرکے ملک کے سب سے بڑے شہرکے ساتھ مذاق کیا ہے۔
وفاقی حکومت کراچی کو جدید بس سروس فراہم کر رہی ہے اور سی پیک منصوبے کے تحت بڑا منصوبہ سرکلر ریلوے کی بحالی ہے۔ پنجاب کی اپوزیشن کا الزام ہے کہ پنجاب حکومت پنجاب کا سارا بجٹ لاہورکی تعمیر وترقی پر خرچ کررہی ہے تو شہری علاقوں کی سندھ اسمبلی میں نمائندگی کرنے والی سندھ کی اپوزیشن کا الزام ہے کہ سندھ حکومت کراچی سے کما کرکراچی کی بجائے سندھ کا بجٹ کراچی کو نظرانداز کرکے کہاں خرچ کر رہی ہے وہ سندھ میں خرچ ہوتا ہوا کہیں نظر نہیں آرہا یا اندرون سندھ من پسند علاقوں میں خرچ کیا جا رہا ہے اور اربوں روپے کی کرپشن کی شکایات ملی ہیں۔
کراچی وفاق کو بھی پورے ملک سے کما کر ریونیو فراہم کررہا ہے مگر پی پی کی گزشتہ وفاقی حکومت کی طرح مسلم لیگ(ن) کی حکومت بھی کراچی کو اس کا جائز حق نہیں دے رہی اور سندھ کی حکومت بھی کراچی کو ضرورت کے مطابق فنڈ نہیں دے رہی جو کراچی کا حقیقی حق ہے۔ کراچی کو فنڈ نہ دے کر ملک کے سب سے بڑے شہر سے دونوں حکومتیں ناانصافی اور عوام پر ظلم کر رہی ہیں۔کراچی اورلاہور ملک کے دو بڑے اوراہم شہر ہیں۔کراچی ماضی میں وفاقی دارالحکومت رہا جس کی آمدنی پر ملک چل رہا ہے مگر سیاسی مفادات کے باعث آج لاہور ترقی یافتہ اورکراچی پس ماندہ شہر بن چکے ہیں۔
پی پی کے وزیر بلدیات کراچی کی موجودہ صورتحال کا ذمے دار متحدہ کو اورمتحدہ پی پی کو قرار دیتی ہے جب کہ یہ دونوں ہی نہیں وفاقی حکومت بھی کراچی کی موجودہ صورتحال کے ذمے دار ہیں، جسے کراچی کا کوئی خیال نہیں۔ صدر ممنون حسینکو چاہیے کہ کراچی کو اس کا حق دلائیں۔ لاہور کراچی سے اس لیے بہتر ہے کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب لاہور کو اون کرتے ہیں جو ان کا آبائی شہر ہے جو مسلم لیگ (ن) کا گڑھ بھی ہے مگر کراچی متحدہ کا گڑھ شمار ہوتا ہے اور متحدہ بھی (ن) لیگ حکومت سے کراچی کو کچھ نہ دلا سکی اور صرف (ن) لیگ اور پی پی حکومتوں سے شکایات پر سیاست میں مصروف ہے۔
کراچی ماضی میں کبھی مسلم لیگ کا گڑھ نہیں رہا، بلکہ اپوزیشن کا شہر رہا ہے جس کی ذمے دار بھی مسلم لیگ خود ہے۔ کراچی میں ملک بھر سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں اور متحدہ والوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے بڑوں نے ملک کے لیے قربانیاں دی تھیں جن کی اکثریت کا تعلق مسلم لیگ سے تھا جس کے پاس پاکستان بنانے کا کریڈٹ بھی ہے تو مسلم لیگ کراچی والوں کو اپنا کیوں نہ بنا سکی۔ لاہور کے لیے اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی پی ٹی آئی مسلم لیگ (ن) کا ووٹ لاہور میں توڑ چکی ہے جس نے لاہورکے لیے کچھ نہیں کیا۔
متحدہ تین عشروں کے بعد اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی ہے جس سے متحدہ کا ووٹ بینک متاثر ہوا ہے اور متحدہ کو ووٹ دینے کی سزا کراچی کو نظرانداز کرکے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں کراچی کے دوکروڑ عوام کو دے رہی ہیں اور کراچی کو اپنانے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے اور دونوں بڑی پارٹیاں کراچی کے لوگوں کا خیال نہیں کر رہیں۔ اگر دونوں حکومتیں چاہیں تو بانی پاکستان کا شہر بھی لاہور جیسا بن سکتا ہے جو کراچی کا حق بھی ہے کیونکہ کما کر دینے والا بڑا شہر اور منی پاکستان بھی ہے۔