سندھ یونیورسٹی 2سال سے انتظامی بحران کا شکار ہے
5 مرتبہ جامعہ کے رجسٹرار تبدیل کرنے اور من پسند بھرتیوں کا الزام، پریس کانفرنس
لاہور:
سندھ ٹیچرز ایسوسی ایشن کی جنرل سیکریٹری عرفانہ ملاح نے کہا ہے کہ سندھ یونیورسٹی گزشتہ دو سال سے انتظامی بحران کا شکار ہے، کرپشن عروج پر ہے اور ڈاکٹر نذیر اے مغل کی دوبارہ تقرری اساتذہ، طلبہ اور ملازمین کی زندگی خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
انہوں نے اظہر علی شاہ، ڈاکٹر رابعہ میمن و دیگر رہنمائوں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر نذیر اے مغل کے دور میں 5 مرتبہ جامعہ کے رجسٹرار تبدیل کیے گئے، ایک سے 21 گریڈ تک ملازمتیں بغیر اشتہار کے من پسند لوگوں کو دی گئیں، 6 طالبعلموں سمیت ایک پروفیسر کو بلاجواز قتل کیا گیا، لیکن اس کے باوجود حکومت نے ڈاکٹر نذیر اے مغل کو وائس چانسلر مقرر کر دیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وی سی نے آتے ہی بلاجواز مادر علمی میں چھٹیاں کر دیں جس سے طالبعلموں کا نہ صرف نقصان ہوگا، بلکہ اکیڈمک سیشن بھی پیچھے ہو جائیگا۔ انھوں نے بتایا کہ یونیورسٹی کے 70 اساتذہ اسکالر شپ کے انتظار میں ہیں، لیکن انتظامیہ ہیک کی جانب سے ملنے والے فنڈز اساتذہ کو بھیجنے کے بجائے اپنی بقا کیلیے خرچ کر رہی ہے اور خدشہ ہے کہ اگر یہ فنڈز درست استعمال نہ کیے گئے تو لیپس ہو جائینگے۔ یونیورسٹی کو بچانے کیلیے حاضر ڈیوٹی شخص کو وائس چانسلر مقرر کیا جائے۔
سندھ ٹیچرز ایسوسی ایشن کی جنرل سیکریٹری عرفانہ ملاح نے کہا ہے کہ سندھ یونیورسٹی گزشتہ دو سال سے انتظامی بحران کا شکار ہے، کرپشن عروج پر ہے اور ڈاکٹر نذیر اے مغل کی دوبارہ تقرری اساتذہ، طلبہ اور ملازمین کی زندگی خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
انہوں نے اظہر علی شاہ، ڈاکٹر رابعہ میمن و دیگر رہنمائوں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر نذیر اے مغل کے دور میں 5 مرتبہ جامعہ کے رجسٹرار تبدیل کیے گئے، ایک سے 21 گریڈ تک ملازمتیں بغیر اشتہار کے من پسند لوگوں کو دی گئیں، 6 طالبعلموں سمیت ایک پروفیسر کو بلاجواز قتل کیا گیا، لیکن اس کے باوجود حکومت نے ڈاکٹر نذیر اے مغل کو وائس چانسلر مقرر کر دیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وی سی نے آتے ہی بلاجواز مادر علمی میں چھٹیاں کر دیں جس سے طالبعلموں کا نہ صرف نقصان ہوگا، بلکہ اکیڈمک سیشن بھی پیچھے ہو جائیگا۔ انھوں نے بتایا کہ یونیورسٹی کے 70 اساتذہ اسکالر شپ کے انتظار میں ہیں، لیکن انتظامیہ ہیک کی جانب سے ملنے والے فنڈز اساتذہ کو بھیجنے کے بجائے اپنی بقا کیلیے خرچ کر رہی ہے اور خدشہ ہے کہ اگر یہ فنڈز درست استعمال نہ کیے گئے تو لیپس ہو جائینگے۔ یونیورسٹی کو بچانے کیلیے حاضر ڈیوٹی شخص کو وائس چانسلر مقرر کیا جائے۔