سانحہ بلدیہ ٹائون فیکٹری والدین باقیات کیلیے ہائیکورٹ پہنچ گئے

فیکٹری میں آتشزدگی کے المیے کے بعدسرکاری شخصیات نے مالی امداد کا اعلان کیا ،ایک پیسہ بھی نہیں ملا،درخواست گزار.

24سالہ بیٹا فیکٹری میں ہیلپر کے طور پر کام کرتا تھا ،حسین احمد،آصف عزیز فیکٹری میں پریس مین تھا،دلاور حسین۔ فوٹو: ایکسپریس/فائل

چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سانحہ بلدیہ ٹاون گارمنٹس فیکٹری کے بعد لاپتہ دو لڑکوں کی زندگی اور موت سے متعلق یقینی معلومات فراہم کرنے سے متعلق آئینی درخواست پر وفاقی وصوبائی حکومتوں کو نوٹس جاری کردیے ہیں اور 15جنوری کو جواب داخل کرنے کی ہدایت کی ہے۔

حسین احمد اور دلاور حسین نے اپنے بیٹوں کی باقیات کے سلسلے میں سندھ ہا ئیکورٹ میں آئینی درخواست دائر کی ہے جس میں موقف اختیارکیا ہے کہ وہ ان بدقسمت والدین میں سے ہیں جن کے بیٹے 23سالہ آصف عزیز اور 24سالہ شرجیل احمد 11ستمبر 2012کو علی انٹرپرائزز بلدیہ ٹاون میں لگنے والی آگ سے متاثر ہوئے وہ حادثے کے روز فیکٹری میں تھے لیکن ابھی تک ان کے بارے میں علم نہیں کہ وہ کہاں ہیں اور اگر وہ فیکٹری میں جل گئے تھے تو انکی لاشیں کہاںہیں، سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اس حادثے میں مجموعی طور پر فیکٹری کے 259 ورکرز جل گئے تھے جبکہ متعدد لاپتہ ہوگئے تھے ۔

33افراد کی باقیات شناخت نہ ہونے کے باعث مردہ خانے میں موجود تھیں تاکہ ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد وہ متعلقہ لاشیں یا جسم کے حصے ان کے اصلی ورثا کو دیے جاسکیں ، تاہم شناخت کا یہ عمل اتنا سست ہے کہ ابھی تک صرف 7 لاشوں کے بارے میں رپورٹ آئی ہے،حسین احمد نے عدالت کو بتایا کہ 24سالہ بیٹا اس فیکٹری میں ہیلپر کے طور پر کام کرتا تھا اور حادثے کے بعد سے وہ لاپتہ ہے جبکہ دلاور حسین نے بتایا کہ اس کا بیٹا آصف عزیز اس بدقسمت فیکٹری میں پریس مین کے طور پر کام کرتاتھا ، انھوں نے کہا کہ اس سانحے کے بعد حکام نے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے پہلی بار ان کے دو نمونے لیے اور یقین دہانی کرائی کہ اس کی رپورٹ 15یوم میں آجائیگی۔

 




بعد میں انھوں نے پھر ان کے نمونے لیے لیکن وہ ابھی تک ہمیں نہیں بتاسکے کہ ان کے بچوں کی لاشیں ان ناقابل شناخت لاشوں میں ہیں یا نہیں تاکہ ان کے دلوں کو صبرآجائے ،انھوں نے عدالت کو بتایا کہ فیکٹری میں آتشزدگی کے المیے کے بعد متعدد سرکاری شخصیات نے اس سانحے سے متاثرین کی مالی امداد کا اعلان کیا تاہم انھیں ابھی تک ایک پیسہ بھی نہیں ملاہے ،جبکہ اس بڑھاپے میں ان کے یہ بیٹے ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ تھے اور اب وہ نان شبینہ کے محتاج ہوکر رہ گئے ہیں ، دلاور حسین کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اس کا موکل تو انتہا ئی ضعیف اور معذور بھی ہے۔

درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ اس سانحے کی وجہ بے ایمانی ، غفلت اور فیکٹری مالکان ،شیئر ہولڈرزاور لیبر، انوائرمنٹ ،سول ڈیفنس ، سوشل سیکیورٹی ، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی جیسے سرکاری اداروں کی جانب سے فیکٹری کا معائنہ نہ کرنا ہے،درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ متعلقہ حکام کو ہدایت کی جائے کہ وہ لاشوں کی شناخت کے عمل کو تیز کریں،متعلقہ حکام کو معاوضہ ادا کرنے کی ہدایت بھی کی جائے اورحادثے کے ذمے داران کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے۔

فاضل بینچ نے ان کا موقف سننے کے بعد وفاقی سیکریٹری داخلہ ، صوبائی ہوم سیکریٹری ،آئی جی سندھ، تفتیشی افسر ایس ایچ اوتھانہ سائٹ اور فیکٹری کے مالک شاہد عزیز بھائیلہ کو نوٹس جاری کردیے ہیں ، فاضل بینچ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لا افسران کو بھی آئندہ سماعت پر جواب داخل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
Load Next Story