ہولی کی محفل اور نواز شریف آخری حصہ
حاتم کی ’مثنوی بہار یہ‘ میں بھی ہولی اور دیوالی کا ذکر ملتا ہے
بات ہورہی تھی خدائے سخن میر تقی میر کی، جو اب سے 2 صدی پہلے جب یہ کہہ رہے تھے کہ
جشن نو روز ہند، ہولی ہے
راگ رنگ اور بولی ٹھولی ہے
انھیں کیا معلوم تھا کہ اس شعر کے وارد ہونے کے صدیوں بعد ہندوستان کی وہ ساحلی بستی جو کھارا ماچھی کہلاتی تھی، وہ انقلابِ زمانہ سے 'کراچی' کا نام اختیار کرے گی اور وہاں 2017 میں اس وقت کا وزیراعظم انتہاپسندی، دہشت گردی اور مذہبی جنون کا سامنا کرتے ہوئے یہ کہہ رہا ہوگا کہ ہم سب خدا کی مخلوق ہیں، ہر مذہب کے لوگ اپنے عقائد کے مطابق عبادت کرتے ہیں، کوئی اللہ کہتا ہے، کوئی خدا، کوئی بھگوان اور کوئی ایشور۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ تمام مذاہب احترام آدمیت کا سبق سکھاتے ہیں۔
پاکستان کا آئین بھی سب کو یکساں حقوق دیتا ہے۔ آئین میں مذہب کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں۔ یہاں زبردستی مذہب کی تبدیلی جرم ہے اور مذہب کی بنیاد پر اختلافات پیدا کرنے کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ حکومت تمام مسجدوں، گرجا گھروں، مندروں اور دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرے گی۔
اب سے ایک صدی پہلے یہ کوئی انوکھی بات نہ تھی لیکن اب یہ وہ باتیں ہیں جن کو کرنا کچھ لوگوں کے خیال میں کفر کے مترادف ہے۔
میاں صاحب پہلے بھی یہ باتیں کرتے تھے لیکن اب وہ کسی لگی لپٹی کے بغیر یہ کہتے ہیں کہ میں کسی ایک عقیدے کے ماننے والوں کا نہیں،پاکستان کے تمام لوگوں کا وزیراعظم ہوں، ان کے عقائد اور ان کی عبادت گاہوں کا تحفظ میرا فرض ہے۔
حق تو یہ ہے کہ ہولی مناتے ہوئے اس روز میاں صاحب نے اپنی زندگی کی بہترین تقریر کی۔ اس روز وہ ایک روشن خیال اور وسیع المشرب انسان کی تصویر تھے۔
میں نے گزشتہ کالم میں وہ مثالیں دیں جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صرف دو صدی پہلے ہمارے یہاں دوسرے مذاہب اور مسلکوں کے بارے میں کس فراخ دلی کا مظاہرہ کیا جاتا تھا۔
بات ہورہی تھی ہماری صدیوں پرانی معاشرت کی، اس معاشرت کے ملے جلے رنگ کی تصدیق اردو شاعروں کے کلام سے خوب خوب ہوتی ہے۔ فائز دہلوی نے ایک قطعے میں دہلی کی ہولی کا نقشہ دکھایا ہے۔ کہتے ہیں کہ سکھیاں عطر اور عبیر چھڑکتی اور رنگ اڑاتی پھرتی ہیں۔ گلال سے گال آتش فشاں ہوگئے ہیں۔ کیسر کے غبار میں چہرے، شفق میں ڈوبا ہوا چاند معلوم ہوتے ہیں۔ آنکھیں کنول کی پتیوں کی طرح جھپکتی اور کھلتی ہیں۔ گھر گھر ڈھولک بجتی ہے۔ پچکاری چلتی ہے۔ ہونٹوں پر ہنڈول اور دلوں میں محبت کے بول گونجتے ہیں:
سب کے تن میں ہے لباس کیسری
کرتے ہیں صد برگ سوں سب ہمسری
جوش عشرت گھر بہ گھر ہے ہر طرف
ناچتی ہیں سب تکلف برطرف
جیوں جھڑی ہر سو ہے پچکاری کی دھار
دوڑتی ہیں ناریاں بجلی کے سار
حاتم کی 'مثنوی بہار یہ' میں بھی ہولی اور دیوالی کا ذکر ملتا ہے۔ حاتم نے اپنی اس مثنوی میں ہولی کے بہترین رنگوں کو یک جا کردیا ہے اور کم سے کم لفظوں میں ہولی کے ایسے جمال افروز اور عشق خیز مرقعے پیش کیے ہیں کہ ہولی کی رنگینیاں آنکھوں میں پھر نے لگتی ہیں:
گلال ابرک سے سب بھر بھر کے جھولی
پکارے یک بیک ''ہولی ہے ہولی''
لگی پچکاریوں کی مار ہونے
ہر اک سو رنگ کی بوچھار ہونے
نظیر اکبر آبادی نے جس عوامی رنگ میں 'ہولی' کو بیان کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی:
ہر جاگہ تھال گلابوں سے خوش رنگت کی گل کاری ہے
اور ڈھیر عبیروں کے لاگے سو عشرت کی تیاری ہے
ہیں راگ بہاریں دکھلاتے اور رنگ بھری پچکاری ہے
منہ سرخ سے ہیں گل نار ہوئے تن کیسر کی سی کیاری ہے
یہ روپ جھمکتا دکھلایا یہ رنگ دکھایا ہولی نے
ان نظموں سے ہم جانتے ہیں کہ اپنے اپنے عقیدوں پر قائم رہنے کے باوجود سماج میں میل ملاپ کی کیا فضا تھی اور دونوں فرقے ایک دوسرے کے تہواروں کو عزت و احترام سے مناتے تھے۔ غالب کے یہاں بھی ہمیں ہولی کا ذکر شان سے ملتا ہے:
گرچہ ہولی کے بعد ہے نو روز
لیک بیش از سہ ہفتہ بُعد نہیں
سواس اکیس دن میں ہولی کی
جا بجا مجلسیں ہوئیں رنگیں
شہر میں کوبہ کو عبیر و گلال
باغ میں سو بہ سو، گل و نسریں
شہر گویا نمونۂ گلزار
باغ گویا نگار خانۂ چیں
ہمارے ایک اہم شاعر ہدایت علی خاں ضمیر نے ہولی پر ایک نظم لکھی جو اس وقت کے فرانسیسی مستشرق گارساں دتاسی کو اتنی پسند آئی کہ اس نے ہولی پر اس نظم کا فرانسیسی میں ترجمہ کیا جو آج تک محفوظ ہے۔
اردو کے مسیحی شاعر جان پیش شور کے دیوان میں ہولی سے متعلق متعدد رقعے موجود ہیں۔ دیوالی کے رقعوں کی طرح وہ انھیں بطور مبارک باد ہولی کے دن اپنے ہندو دوستوں کو بھیجتے ہوں گے۔ اس قسم کے منظوم رقعے اردو میں دوسرے کسی شاعر نے نہیں لکھے۔ ایک رقعے کے دو شعر پیش ہیں:
خوشی سے پھول کے بلبل بھی ہولی گاتی ہے
اٹھی ہے چار طرف سے پکار ہولی ہے
گلال عبیر کے بادل ہیں سربسر چھائے
کھلا ہے چرخ پہ باغ و بہار، ہولی ہے
ان شاعروں کے علاوہ جن کی منظومات کا جائزہ اوپر لیا گیا ، ہولی کا ذکر مصحفی، قدرت اللہ قاسم، سحر لکھنوی ، حاتم علی بیگ مہر، گھنشام لال عاصی کے کلام میں بھی ملتا ہے اور ہندوؤں مسلمانوں کے معاشرتی روابط پر روشنی ڈالتا ہے۔
صرف یہی نہیں ہے کہ مسلمان، ہندوؤں کے مختلف تہواروں میں جی کھول کر شریک ہوتے تھے۔ اگر ہم اپنی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو ہمیں ان ہندو شعرا کی ایک قطار نظر آتی ہے جنہوں نے ہزاروں کی تعداد میں حمد، سلام، منقبت اور سوزو سلام لکھے۔ یہ بات کتنے لوگ جانتے ہیں کہ آج بھی شب عاشور، گھبرائے گی زینب، سن کر جن کا گریہ نہیں تھمتا، وہ ایک ہندو شاعر چھنو لال دلگیر لکھنوی کے قلم سے نکلا تھا۔ مہاراجہ سر کشن پرشاد شاد کی اردو اور فارسی شاعری کی مثالیں ہیں۔ آزادی کے بعد گورنر ہونے والی محترمہ سروجنی نائیڈو کا نام بھی ایسے ہی شعراء میں شمار کیا جاتا ہے، ہزاروں نام ہیں جن سے ہماری نئی نسل واقف نہیں۔ یہ موضوع آیندہ کے لیے اٹھا رکھتی ہوں۔
اس وقت ہولی گزر چکی، ہولکا جل چکی جو شر پر خیر کی فتح کا قصہ ہے۔ اپنی شعری اور ادبی روایات سے جڑ کر دیکھیے تو ہمیں بھی بدی کی طاقتوں سے نجات کے لیے مذہب اور مسلک کی تفریق کے بغیر ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر آگے بڑھنا چاہیے، اسی میں ہم سب کی نجات ہے اور اسی طرح ہم اس انتہاپسندی کو شکست دے سکتے ہیں جس کے بطن سے دہشت گردی جنم لیتی ہے۔
جشن نو روز ہند، ہولی ہے
راگ رنگ اور بولی ٹھولی ہے
انھیں کیا معلوم تھا کہ اس شعر کے وارد ہونے کے صدیوں بعد ہندوستان کی وہ ساحلی بستی جو کھارا ماچھی کہلاتی تھی، وہ انقلابِ زمانہ سے 'کراچی' کا نام اختیار کرے گی اور وہاں 2017 میں اس وقت کا وزیراعظم انتہاپسندی، دہشت گردی اور مذہبی جنون کا سامنا کرتے ہوئے یہ کہہ رہا ہوگا کہ ہم سب خدا کی مخلوق ہیں، ہر مذہب کے لوگ اپنے عقائد کے مطابق عبادت کرتے ہیں، کوئی اللہ کہتا ہے، کوئی خدا، کوئی بھگوان اور کوئی ایشور۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ تمام مذاہب احترام آدمیت کا سبق سکھاتے ہیں۔
پاکستان کا آئین بھی سب کو یکساں حقوق دیتا ہے۔ آئین میں مذہب کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں۔ یہاں زبردستی مذہب کی تبدیلی جرم ہے اور مذہب کی بنیاد پر اختلافات پیدا کرنے کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ حکومت تمام مسجدوں، گرجا گھروں، مندروں اور دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرے گی۔
اب سے ایک صدی پہلے یہ کوئی انوکھی بات نہ تھی لیکن اب یہ وہ باتیں ہیں جن کو کرنا کچھ لوگوں کے خیال میں کفر کے مترادف ہے۔
میاں صاحب پہلے بھی یہ باتیں کرتے تھے لیکن اب وہ کسی لگی لپٹی کے بغیر یہ کہتے ہیں کہ میں کسی ایک عقیدے کے ماننے والوں کا نہیں،پاکستان کے تمام لوگوں کا وزیراعظم ہوں، ان کے عقائد اور ان کی عبادت گاہوں کا تحفظ میرا فرض ہے۔
حق تو یہ ہے کہ ہولی مناتے ہوئے اس روز میاں صاحب نے اپنی زندگی کی بہترین تقریر کی۔ اس روز وہ ایک روشن خیال اور وسیع المشرب انسان کی تصویر تھے۔
میں نے گزشتہ کالم میں وہ مثالیں دیں جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صرف دو صدی پہلے ہمارے یہاں دوسرے مذاہب اور مسلکوں کے بارے میں کس فراخ دلی کا مظاہرہ کیا جاتا تھا۔
بات ہورہی تھی ہماری صدیوں پرانی معاشرت کی، اس معاشرت کے ملے جلے رنگ کی تصدیق اردو شاعروں کے کلام سے خوب خوب ہوتی ہے۔ فائز دہلوی نے ایک قطعے میں دہلی کی ہولی کا نقشہ دکھایا ہے۔ کہتے ہیں کہ سکھیاں عطر اور عبیر چھڑکتی اور رنگ اڑاتی پھرتی ہیں۔ گلال سے گال آتش فشاں ہوگئے ہیں۔ کیسر کے غبار میں چہرے، شفق میں ڈوبا ہوا چاند معلوم ہوتے ہیں۔ آنکھیں کنول کی پتیوں کی طرح جھپکتی اور کھلتی ہیں۔ گھر گھر ڈھولک بجتی ہے۔ پچکاری چلتی ہے۔ ہونٹوں پر ہنڈول اور دلوں میں محبت کے بول گونجتے ہیں:
سب کے تن میں ہے لباس کیسری
کرتے ہیں صد برگ سوں سب ہمسری
جوش عشرت گھر بہ گھر ہے ہر طرف
ناچتی ہیں سب تکلف برطرف
جیوں جھڑی ہر سو ہے پچکاری کی دھار
دوڑتی ہیں ناریاں بجلی کے سار
حاتم کی 'مثنوی بہار یہ' میں بھی ہولی اور دیوالی کا ذکر ملتا ہے۔ حاتم نے اپنی اس مثنوی میں ہولی کے بہترین رنگوں کو یک جا کردیا ہے اور کم سے کم لفظوں میں ہولی کے ایسے جمال افروز اور عشق خیز مرقعے پیش کیے ہیں کہ ہولی کی رنگینیاں آنکھوں میں پھر نے لگتی ہیں:
گلال ابرک سے سب بھر بھر کے جھولی
پکارے یک بیک ''ہولی ہے ہولی''
لگی پچکاریوں کی مار ہونے
ہر اک سو رنگ کی بوچھار ہونے
نظیر اکبر آبادی نے جس عوامی رنگ میں 'ہولی' کو بیان کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی:
ہر جاگہ تھال گلابوں سے خوش رنگت کی گل کاری ہے
اور ڈھیر عبیروں کے لاگے سو عشرت کی تیاری ہے
ہیں راگ بہاریں دکھلاتے اور رنگ بھری پچکاری ہے
منہ سرخ سے ہیں گل نار ہوئے تن کیسر کی سی کیاری ہے
یہ روپ جھمکتا دکھلایا یہ رنگ دکھایا ہولی نے
ان نظموں سے ہم جانتے ہیں کہ اپنے اپنے عقیدوں پر قائم رہنے کے باوجود سماج میں میل ملاپ کی کیا فضا تھی اور دونوں فرقے ایک دوسرے کے تہواروں کو عزت و احترام سے مناتے تھے۔ غالب کے یہاں بھی ہمیں ہولی کا ذکر شان سے ملتا ہے:
گرچہ ہولی کے بعد ہے نو روز
لیک بیش از سہ ہفتہ بُعد نہیں
سواس اکیس دن میں ہولی کی
جا بجا مجلسیں ہوئیں رنگیں
شہر میں کوبہ کو عبیر و گلال
باغ میں سو بہ سو، گل و نسریں
شہر گویا نمونۂ گلزار
باغ گویا نگار خانۂ چیں
ہمارے ایک اہم شاعر ہدایت علی خاں ضمیر نے ہولی پر ایک نظم لکھی جو اس وقت کے فرانسیسی مستشرق گارساں دتاسی کو اتنی پسند آئی کہ اس نے ہولی پر اس نظم کا فرانسیسی میں ترجمہ کیا جو آج تک محفوظ ہے۔
اردو کے مسیحی شاعر جان پیش شور کے دیوان میں ہولی سے متعلق متعدد رقعے موجود ہیں۔ دیوالی کے رقعوں کی طرح وہ انھیں بطور مبارک باد ہولی کے دن اپنے ہندو دوستوں کو بھیجتے ہوں گے۔ اس قسم کے منظوم رقعے اردو میں دوسرے کسی شاعر نے نہیں لکھے۔ ایک رقعے کے دو شعر پیش ہیں:
خوشی سے پھول کے بلبل بھی ہولی گاتی ہے
اٹھی ہے چار طرف سے پکار ہولی ہے
گلال عبیر کے بادل ہیں سربسر چھائے
کھلا ہے چرخ پہ باغ و بہار، ہولی ہے
ان شاعروں کے علاوہ جن کی منظومات کا جائزہ اوپر لیا گیا ، ہولی کا ذکر مصحفی، قدرت اللہ قاسم، سحر لکھنوی ، حاتم علی بیگ مہر، گھنشام لال عاصی کے کلام میں بھی ملتا ہے اور ہندوؤں مسلمانوں کے معاشرتی روابط پر روشنی ڈالتا ہے۔
صرف یہی نہیں ہے کہ مسلمان، ہندوؤں کے مختلف تہواروں میں جی کھول کر شریک ہوتے تھے۔ اگر ہم اپنی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو ہمیں ان ہندو شعرا کی ایک قطار نظر آتی ہے جنہوں نے ہزاروں کی تعداد میں حمد، سلام، منقبت اور سوزو سلام لکھے۔ یہ بات کتنے لوگ جانتے ہیں کہ آج بھی شب عاشور، گھبرائے گی زینب، سن کر جن کا گریہ نہیں تھمتا، وہ ایک ہندو شاعر چھنو لال دلگیر لکھنوی کے قلم سے نکلا تھا۔ مہاراجہ سر کشن پرشاد شاد کی اردو اور فارسی شاعری کی مثالیں ہیں۔ آزادی کے بعد گورنر ہونے والی محترمہ سروجنی نائیڈو کا نام بھی ایسے ہی شعراء میں شمار کیا جاتا ہے، ہزاروں نام ہیں جن سے ہماری نئی نسل واقف نہیں۔ یہ موضوع آیندہ کے لیے اٹھا رکھتی ہوں۔
اس وقت ہولی گزر چکی، ہولکا جل چکی جو شر پر خیر کی فتح کا قصہ ہے۔ اپنی شعری اور ادبی روایات سے جڑ کر دیکھیے تو ہمیں بھی بدی کی طاقتوں سے نجات کے لیے مذہب اور مسلک کی تفریق کے بغیر ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر آگے بڑھنا چاہیے، اسی میں ہم سب کی نجات ہے اور اسی طرح ہم اس انتہاپسندی کو شکست دے سکتے ہیں جس کے بطن سے دہشت گردی جنم لیتی ہے۔