وطن ہمارا۔ آزاد کشمیر
راولاکوٹ کو کشمیر کی جدوجہد آزادی کا مرکز ہونے کا اعزاز حاصل ہے
بلاشبہ پورا کشمیر ہی جنت نظیر ہے، آزاد کشمیرکی وادیوں کا دلربا حسن، بھارت کے زیرِقبضہ کشمیر سے کسی صورت کم نہیں ۔ درجنوں مقامات ایسے سحر انگیز ہیں کہ انسان مبہوت ہوجاتا ہے اور بیشمار ایسی وادیاں ہیں جنھیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی عظیم تخلیق کار کی پینٹنگز ہیں۔ وادیٔ نیلم اور لیپا کے علاوہ بھی درجنوں مقامات ایسے ہیں جو قدرتی حسن سے مالا مال اور رعنائیوں اور دلفریبیوں میں بے مثال ہیں۔
راولاکوٹ پر تو قدرت نے بے پایاںحسن نچھاور کیا ہے، جسے شک ہو ایک بار آکرراولاکوٹ کی وادیوں میں قدم رکھے اور اپریل/مئی میں راولاکوٹ سے صرف آدھا گھنٹہ سفر کرکے بنجوسہ جھیل پر پہنچ جائے۔ مسافر سرسبز اور بلند قامت پائن کے درختوں میں گھری ہوئی جھیل کے کنارے بیٹھا تو اس کے سحر میں کھوگیا۔ یوں لگا جیسے وقت تھم گیا ہے، پھر کچھ بھی یاد نہ رہا ۔
راولاکوٹ کو کشمیر کی جدوجہد آزادی کا مرکز ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہاں سے سردار ابراہیم، مولانا غلام حیدرجنڈھالوی، کیپٹن حسین خان شہید، سردار مختار خان اور باغ اور دھیر کوٹ کے علاقوں سے سردار عبدالقیوم خان اور حسن شاہ گردیزی نے ڈوگرہ راج کے خلاف علمِ جہاد بلند کیا۔
کشمیر کے لوگوں نے انگریز سامراج کا دور نہیں دیکھا مگر انھوں نے ڈوگرہ راج کے مظالم بہت سہے ہیں جب عیدِ قرباں پر بھی گائے کی قربانی کی اجازت نہ تھی، مسلمان چوری چھپے قربانی کیا کرتے تھے اور عید بھی ڈر اور خوف کی فضاء میں گزرتی تھی۔ خطہء کشمیر بڑے آدمی پیدا کرنے میں کبھی بانجھ نہیں رہا۔ سب سے بڑی شخصیّت جس پر راولاکوٹ ہی نہیں پورا کشمیر فخر کرتا ہے وہ بلاشبہ سردار محمد ابراہیم ہیں۔
اُس وقت غربت عام اور وسائل نایاب تھے مگر مولانا غلام حیدر کی شروع کی گئی مُٹھّی آٹااسکیم (مسلمان مُٹھّی بھر آٹا چندے کے طور پر دیتے تھے اس اسکیم نے تعلیم کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا) کے تحت نوجوان ابراہیم کو اعلیٰ تعلیم کے لیے ولایت بھیجا گیا۔ بیرسٹر بنکر لَوٹے تو سرینگر میں وکالت شروع کردی۔ مہاراجہ نے کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق کرنے کی سازش کی تو اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ آزادی کی جدوجہّد کے سرخیل تھے اسی لیے آزادکشمیر کا پہلا صدر بننے کے حقدار قرار پائے۔ دو بار صدر رہے مگر ساری زندگی سادگی اور رزقِ حلال کو حرزِ جاں بنایا۔
خطہء کشمیر کے ایک اور روشن ستارے کا نام کے ایچ خورشید ہے۔ خورشید صاحب قائدِ اعظمؒ کے پرائیوٹ سیکریٹری رہے اور اسی درسگاہ سے کردار، integrityاور اصول پرستی کے سبق سیکھ کر نکلے۔ آزاد کشمیر کے صدر رہے۔ مگرصدارت کو مال و دولت میں اضافے کے لیے نہیں مخلوقِ خدا کی خدمت کے لیے استعمال کیا،بچوں کو اسکول چھوڑنے کے لیے بھی سرکاری کار استعمال کرنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ ساری عمر وسائل اتنے محدود رہے کہ ذاتی کار بھی نہ خرید سکے ۔ بس پر لاہور جارہے تھے کہ ایکسیڈنٹ میں خالقِ حقیقی سے جاملے۔
؎ خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہوگئیں۔
سردار عبدالقیوم خان ۔ سراپا مجاہد اور مجسّم درویش تھے۔ ان سے بارہا ملنے کا اتفاق ہوا، لباس اجلا ضرور ہوتا مگر صاف نظر آتا کہ کپڑے دھوبی سے نہیں گھر میں ہی دھلے ہیں کہ پوری طرح سلوٹیں بھی نہیں نکل سکیں۔ انتہائی ذہین، مدبّر اور عالمی امور پر نگاہ رکھنے والے مگر مال و دولتِ دنیا سے بے نیاز۔
آزاد کشمیر میں ترقیاتی کاموں کا ذکر چھڑے تو ہر زبان پر ایک ہی نام آتا ہے، بریگیڈیئر محمد حیات خان۔آزاد کشمیر میں سیاہ وسفید کے مالک رہے۔ تعمیراتی کاموں کی خود نگرانی کرتے ۔گاہے مزدوروں کے ساتھ ملکر بھی کام کرلیتے کہ علاقے کی بہتری کا شوق ہی نہیں جذبہ اور جنون تھا۔ جھیل کنارے بیٹھے ہوئے جب راجہ شوکت نے بتایا کہ دو راہنما اسی علاقے میں مدفون ہیں تو ہم فوراً اُٹھ کھڑے ہوئے۔ بریگیڈیئر محمد حیات کی سادہ سی قبر پر وقت کے با اختیار حکمران کے سگے بھائی گلزار صاحب سے ملاقات ہوئی، انتہائی معمولی لباس میں ملبوس ۔ راقم نے جائیداد اور آمدن کا پوچھا تو بلا جھجک بتادیا'' زمین سے سالانہ دو لاکھ روپے کما لیتا ہوں جو میرے گھرانے کی روٹی روزی کے لیے کافی ہے ۔ اﷲ کا بہت بہت شکر ہے''۔
مسافرحکمران کے بھائی کی قناعت پر رشک کرتا رہا اور بریگیڈیئر صاحب کی قبر پر سرجھکائے اور ہاتھ اٹھائے سوچتا رہا کہ اس خِطّے نے کتنی بلند مرتبت ہستیاں پیدا کی ہیں کیا ان کے کردار کی پاکیزگی کے طفیل مالکِ کائنات پورے کشمیر کے باسیوں کو آزادی کاحق نہیں بخشے گا؟ یقین ہے کہ کائناتوں کا مالک انھیں یہ نعمت ضرور عطا کریگا!!۔ وہاں سے آدھے گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم سردار ابراہیم کی قبر پر پہنچے اور دل سے اُس بلند کردار شخص کے درجات کی بلندی کے لیے دعائیں کیں۔
ان کا صاحبزادہ خالد ابراہیم بھی عظیم باپ کی روایات کا امین اور اُسی راستے پر گامزن ہے، بہت سے لوگوں کا خیال ہے صدارت کے لیے ایماندار اور بااصول خالد ابراہیم سب سے موزوں شخص تھے۔ موجودہ صدر صاحب پروٹوکول کی دنیا سے آئے ہیں اس لیے کروّفر اور پروٹوکول کے شوقین ہیں۔ وسائل نہ ہونے کے باوجود اسلام آباد جیسے ایوانِ صدر میں رہنے کے خواہشمند ہیں۔۔ مگر وزیرِاعظم راجہ فاروق حیدر آن بان اور نمود و نمائش سے بے نیاز ایک ایماندار اور کھرے انسان ہیں۔ موجودہ چیف سیکریٹری اور آئی جی اس خطّے کے لیے نعمت ہیں۔
رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ ہم پاکستان کے باشندے کیا بھول گئے ہیں کہ کروڑوں مسلمانوں کو آزادی سے ہمکنار کرنے والے عظیم راہنما محمد علی جناحؒ نے ، جنکے قول اور عمل میں جذباتیت کا دخل نہیں ہوتا تھا، کشمیر کو پاکستان کی شۂ رگ قرار دیا تھا یعنی پاکستان کی زندگی اور بقاء کے لیے لازم اور ملزوم ! اوراُدھر شَۂ رگ کی صورتِ حال یہ ہے کہ آئے روز ہزاروں کشمیری نوجوان پاکستانی پرچم ہاتھوںمیں لیے سرینگر کی سڑکوں پر نکل آتے ہیں، بھارتی فوج درندگی کی تمام حدیں پھلانگ کر بے گناہ نوجوانوں کے سینے اور چہرے گولیوں سے چھلنی کر رہی ہے اور وہ اَن دیکھے پاکستان کی محبت اور عشق میں سرشار بھارتی فوجیوں کی درندگی کا بے مثال جرأت سے مقابلہ کر رہے ہیں۔
ہر روز خوبرو جوان کٹ کٹ کر گررہے ہیں اور کشمیر کے کوچہ و بازار اُن کے خون سے لالہ زار ہیں ۔ برہان وانی شہید کے جنازے میں چار لاکھ افراد شریک ہوئے، برہان وانی کشمیریوں کے لیے آزادی اور حرّیت کی علامت بن چکا ہے جب کہ سید علی گیلانی ان کے نظریاتی مُرشد اور گائیڈ ہیں۔
کلدیپ نائر ہو یا بھارت کا کوئی دوسرا آزاد خیال اور غیر متعصب لکھاری، سب اپنی تحریروں میں تسلیم کررہے ہیں کہ کشمیریوں کے دل میں اسوقت بھارت کے خلاف جتنی نفرت ہے پہلے کبھی نہ تھی وہ اب کسی ھندو کوکھانے یا چائے پر بھی نہیں بلاتے۔ ہر گھر سے نوجوانوں کے جنازے اٹھے ہیں اور ہر شہید کی میّت کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا جاتا ہے۔ کشمیریوں نے بھارت سے نفرت کے اظہارکے لیے ہر درخت اور ہر کھمبے پر پاکستانی پرچم لٹکادیا ہے۔ کشمیر کے تمام مسلمان بچے ،بوڑھے، جوان اور خواتین کے دل اور زبان پر ایک ہی لفظ ہے آزادی ۔ بھارتی قبضے سے آزادی۔
آزاد کشمیر کے سینئر افسران اور باخبر شہری بتاتے ہیں کہ جب بس سروس کے ذریعے مقبوضہ کشمیر سے لوگوں کا آنا جانا شروع ہوا تو بھارتی مقبوضہ علاقے سے آنے والی بس جونہی پاکستانی حدود میں داخل ہوتی تو مسافر نیچے اتر کر پاکستان کی مٹّی کو چومتے تھے۔ کئی مسافرایسے بھی ہوتے جن کا آزاد کشمیر میں کوئی رشتے دار نہیںہوتا تھا، ان سے پوچھا جاتا تو وہ بتاتے کہ''ہم نے کرائے کے ہزاروں روپے اس لیے خرچ کیے ہیں تاکہ ہم اُس پاکستان کی مٹی کو چوم سکیں جسکے پرچم میں ہم اپنے بیٹوں کو دفن کرتے ہیں''۔ کشمیری بتاتے ہیں کہ 'اب صورت یہ ہے کہ سرینگر ہو یا مقبوضہ کشمیر کا کوئی دوسرا شہر بھارت کے خلاف نکلنے والے جلوسوں میں ایک ہی پرچم نظر آتا ہے اور وہ ہے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم '۔
چند سال پہلے بخشی اسٹیڈیم سرینگر میں بھارت اور ویسٹ انڈیز کا کرکٹ میچ ہوا۔ پورا اسٹیڈیم بھرا ہوا تھا اور پرچموں کی بہار تھی مگر بھارت کا ایک بھی جھنڈا نہیں تھا۔ ہر طرف پاکستانی پرچم نظر آرہے تھے۔ اس کے بعد بھارتی حکومت نے سرینگر میں کبھی کوئی بین الاقوامی میچ منعقد کرانے کی جرأت نہیں کی ۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی قوم، حکومت اور فوج اپنی شَۂ رگ کشمیر کے جوانوں کی پاکستان سے محبّتوں، جذبوں اور قربانیوں کا کوئی پاس نہیں کریگی؟ کیا ان کا ہر روز بہنے والا خون فراموش کردیا جائیگا؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔۔ ایسا کوئی نہیں کرسکے گا۔۔ قائدؒ کے قول اور عہد سے روگردانی کی جرأت کوئی نہیں کر سکے گا۔ حالات مزید خراب ہونگے کہ بھارت میں ایک اور مودی جنم لے چکا ہے اور یوپی کا وزیرِ اعلیٰ بن رہا ہے۔ تاریخ کے اس اہم موڑ پر پاکستانی قوم اور قیادت کو فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہو گااور بھارت کا بہیمانہ اور تعصّبانہ چہرہ بے نقاب کرنے کے لیے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنا اور جگانا ہوگا۔
راولاکوٹ پر تو قدرت نے بے پایاںحسن نچھاور کیا ہے، جسے شک ہو ایک بار آکرراولاکوٹ کی وادیوں میں قدم رکھے اور اپریل/مئی میں راولاکوٹ سے صرف آدھا گھنٹہ سفر کرکے بنجوسہ جھیل پر پہنچ جائے۔ مسافر سرسبز اور بلند قامت پائن کے درختوں میں گھری ہوئی جھیل کے کنارے بیٹھا تو اس کے سحر میں کھوگیا۔ یوں لگا جیسے وقت تھم گیا ہے، پھر کچھ بھی یاد نہ رہا ۔
راولاکوٹ کو کشمیر کی جدوجہد آزادی کا مرکز ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہاں سے سردار ابراہیم، مولانا غلام حیدرجنڈھالوی، کیپٹن حسین خان شہید، سردار مختار خان اور باغ اور دھیر کوٹ کے علاقوں سے سردار عبدالقیوم خان اور حسن شاہ گردیزی نے ڈوگرہ راج کے خلاف علمِ جہاد بلند کیا۔
کشمیر کے لوگوں نے انگریز سامراج کا دور نہیں دیکھا مگر انھوں نے ڈوگرہ راج کے مظالم بہت سہے ہیں جب عیدِ قرباں پر بھی گائے کی قربانی کی اجازت نہ تھی، مسلمان چوری چھپے قربانی کیا کرتے تھے اور عید بھی ڈر اور خوف کی فضاء میں گزرتی تھی۔ خطہء کشمیر بڑے آدمی پیدا کرنے میں کبھی بانجھ نہیں رہا۔ سب سے بڑی شخصیّت جس پر راولاکوٹ ہی نہیں پورا کشمیر فخر کرتا ہے وہ بلاشبہ سردار محمد ابراہیم ہیں۔
اُس وقت غربت عام اور وسائل نایاب تھے مگر مولانا غلام حیدر کی شروع کی گئی مُٹھّی آٹااسکیم (مسلمان مُٹھّی بھر آٹا چندے کے طور پر دیتے تھے اس اسکیم نے تعلیم کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا) کے تحت نوجوان ابراہیم کو اعلیٰ تعلیم کے لیے ولایت بھیجا گیا۔ بیرسٹر بنکر لَوٹے تو سرینگر میں وکالت شروع کردی۔ مہاراجہ نے کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق کرنے کی سازش کی تو اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ آزادی کی جدوجہّد کے سرخیل تھے اسی لیے آزادکشمیر کا پہلا صدر بننے کے حقدار قرار پائے۔ دو بار صدر رہے مگر ساری زندگی سادگی اور رزقِ حلال کو حرزِ جاں بنایا۔
خطہء کشمیر کے ایک اور روشن ستارے کا نام کے ایچ خورشید ہے۔ خورشید صاحب قائدِ اعظمؒ کے پرائیوٹ سیکریٹری رہے اور اسی درسگاہ سے کردار، integrityاور اصول پرستی کے سبق سیکھ کر نکلے۔ آزاد کشمیر کے صدر رہے۔ مگرصدارت کو مال و دولت میں اضافے کے لیے نہیں مخلوقِ خدا کی خدمت کے لیے استعمال کیا،بچوں کو اسکول چھوڑنے کے لیے بھی سرکاری کار استعمال کرنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ ساری عمر وسائل اتنے محدود رہے کہ ذاتی کار بھی نہ خرید سکے ۔ بس پر لاہور جارہے تھے کہ ایکسیڈنٹ میں خالقِ حقیقی سے جاملے۔
؎ خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہوگئیں۔
سردار عبدالقیوم خان ۔ سراپا مجاہد اور مجسّم درویش تھے۔ ان سے بارہا ملنے کا اتفاق ہوا، لباس اجلا ضرور ہوتا مگر صاف نظر آتا کہ کپڑے دھوبی سے نہیں گھر میں ہی دھلے ہیں کہ پوری طرح سلوٹیں بھی نہیں نکل سکیں۔ انتہائی ذہین، مدبّر اور عالمی امور پر نگاہ رکھنے والے مگر مال و دولتِ دنیا سے بے نیاز۔
آزاد کشمیر میں ترقیاتی کاموں کا ذکر چھڑے تو ہر زبان پر ایک ہی نام آتا ہے، بریگیڈیئر محمد حیات خان۔آزاد کشمیر میں سیاہ وسفید کے مالک رہے۔ تعمیراتی کاموں کی خود نگرانی کرتے ۔گاہے مزدوروں کے ساتھ ملکر بھی کام کرلیتے کہ علاقے کی بہتری کا شوق ہی نہیں جذبہ اور جنون تھا۔ جھیل کنارے بیٹھے ہوئے جب راجہ شوکت نے بتایا کہ دو راہنما اسی علاقے میں مدفون ہیں تو ہم فوراً اُٹھ کھڑے ہوئے۔ بریگیڈیئر محمد حیات کی سادہ سی قبر پر وقت کے با اختیار حکمران کے سگے بھائی گلزار صاحب سے ملاقات ہوئی، انتہائی معمولی لباس میں ملبوس ۔ راقم نے جائیداد اور آمدن کا پوچھا تو بلا جھجک بتادیا'' زمین سے سالانہ دو لاکھ روپے کما لیتا ہوں جو میرے گھرانے کی روٹی روزی کے لیے کافی ہے ۔ اﷲ کا بہت بہت شکر ہے''۔
مسافرحکمران کے بھائی کی قناعت پر رشک کرتا رہا اور بریگیڈیئر صاحب کی قبر پر سرجھکائے اور ہاتھ اٹھائے سوچتا رہا کہ اس خِطّے نے کتنی بلند مرتبت ہستیاں پیدا کی ہیں کیا ان کے کردار کی پاکیزگی کے طفیل مالکِ کائنات پورے کشمیر کے باسیوں کو آزادی کاحق نہیں بخشے گا؟ یقین ہے کہ کائناتوں کا مالک انھیں یہ نعمت ضرور عطا کریگا!!۔ وہاں سے آدھے گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم سردار ابراہیم کی قبر پر پہنچے اور دل سے اُس بلند کردار شخص کے درجات کی بلندی کے لیے دعائیں کیں۔
ان کا صاحبزادہ خالد ابراہیم بھی عظیم باپ کی روایات کا امین اور اُسی راستے پر گامزن ہے، بہت سے لوگوں کا خیال ہے صدارت کے لیے ایماندار اور بااصول خالد ابراہیم سب سے موزوں شخص تھے۔ موجودہ صدر صاحب پروٹوکول کی دنیا سے آئے ہیں اس لیے کروّفر اور پروٹوکول کے شوقین ہیں۔ وسائل نہ ہونے کے باوجود اسلام آباد جیسے ایوانِ صدر میں رہنے کے خواہشمند ہیں۔۔ مگر وزیرِاعظم راجہ فاروق حیدر آن بان اور نمود و نمائش سے بے نیاز ایک ایماندار اور کھرے انسان ہیں۔ موجودہ چیف سیکریٹری اور آئی جی اس خطّے کے لیے نعمت ہیں۔
رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ ہم پاکستان کے باشندے کیا بھول گئے ہیں کہ کروڑوں مسلمانوں کو آزادی سے ہمکنار کرنے والے عظیم راہنما محمد علی جناحؒ نے ، جنکے قول اور عمل میں جذباتیت کا دخل نہیں ہوتا تھا، کشمیر کو پاکستان کی شۂ رگ قرار دیا تھا یعنی پاکستان کی زندگی اور بقاء کے لیے لازم اور ملزوم ! اوراُدھر شَۂ رگ کی صورتِ حال یہ ہے کہ آئے روز ہزاروں کشمیری نوجوان پاکستانی پرچم ہاتھوںمیں لیے سرینگر کی سڑکوں پر نکل آتے ہیں، بھارتی فوج درندگی کی تمام حدیں پھلانگ کر بے گناہ نوجوانوں کے سینے اور چہرے گولیوں سے چھلنی کر رہی ہے اور وہ اَن دیکھے پاکستان کی محبت اور عشق میں سرشار بھارتی فوجیوں کی درندگی کا بے مثال جرأت سے مقابلہ کر رہے ہیں۔
ہر روز خوبرو جوان کٹ کٹ کر گررہے ہیں اور کشمیر کے کوچہ و بازار اُن کے خون سے لالہ زار ہیں ۔ برہان وانی شہید کے جنازے میں چار لاکھ افراد شریک ہوئے، برہان وانی کشمیریوں کے لیے آزادی اور حرّیت کی علامت بن چکا ہے جب کہ سید علی گیلانی ان کے نظریاتی مُرشد اور گائیڈ ہیں۔
کلدیپ نائر ہو یا بھارت کا کوئی دوسرا آزاد خیال اور غیر متعصب لکھاری، سب اپنی تحریروں میں تسلیم کررہے ہیں کہ کشمیریوں کے دل میں اسوقت بھارت کے خلاف جتنی نفرت ہے پہلے کبھی نہ تھی وہ اب کسی ھندو کوکھانے یا چائے پر بھی نہیں بلاتے۔ ہر گھر سے نوجوانوں کے جنازے اٹھے ہیں اور ہر شہید کی میّت کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا جاتا ہے۔ کشمیریوں نے بھارت سے نفرت کے اظہارکے لیے ہر درخت اور ہر کھمبے پر پاکستانی پرچم لٹکادیا ہے۔ کشمیر کے تمام مسلمان بچے ،بوڑھے، جوان اور خواتین کے دل اور زبان پر ایک ہی لفظ ہے آزادی ۔ بھارتی قبضے سے آزادی۔
آزاد کشمیر کے سینئر افسران اور باخبر شہری بتاتے ہیں کہ جب بس سروس کے ذریعے مقبوضہ کشمیر سے لوگوں کا آنا جانا شروع ہوا تو بھارتی مقبوضہ علاقے سے آنے والی بس جونہی پاکستانی حدود میں داخل ہوتی تو مسافر نیچے اتر کر پاکستان کی مٹّی کو چومتے تھے۔ کئی مسافرایسے بھی ہوتے جن کا آزاد کشمیر میں کوئی رشتے دار نہیںہوتا تھا، ان سے پوچھا جاتا تو وہ بتاتے کہ''ہم نے کرائے کے ہزاروں روپے اس لیے خرچ کیے ہیں تاکہ ہم اُس پاکستان کی مٹی کو چوم سکیں جسکے پرچم میں ہم اپنے بیٹوں کو دفن کرتے ہیں''۔ کشمیری بتاتے ہیں کہ 'اب صورت یہ ہے کہ سرینگر ہو یا مقبوضہ کشمیر کا کوئی دوسرا شہر بھارت کے خلاف نکلنے والے جلوسوں میں ایک ہی پرچم نظر آتا ہے اور وہ ہے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم '۔
چند سال پہلے بخشی اسٹیڈیم سرینگر میں بھارت اور ویسٹ انڈیز کا کرکٹ میچ ہوا۔ پورا اسٹیڈیم بھرا ہوا تھا اور پرچموں کی بہار تھی مگر بھارت کا ایک بھی جھنڈا نہیں تھا۔ ہر طرف پاکستانی پرچم نظر آرہے تھے۔ اس کے بعد بھارتی حکومت نے سرینگر میں کبھی کوئی بین الاقوامی میچ منعقد کرانے کی جرأت نہیں کی ۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی قوم، حکومت اور فوج اپنی شَۂ رگ کشمیر کے جوانوں کی پاکستان سے محبّتوں، جذبوں اور قربانیوں کا کوئی پاس نہیں کریگی؟ کیا ان کا ہر روز بہنے والا خون فراموش کردیا جائیگا؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔۔ ایسا کوئی نہیں کرسکے گا۔۔ قائدؒ کے قول اور عہد سے روگردانی کی جرأت کوئی نہیں کر سکے گا۔ حالات مزید خراب ہونگے کہ بھارت میں ایک اور مودی جنم لے چکا ہے اور یوپی کا وزیرِ اعلیٰ بن رہا ہے۔ تاریخ کے اس اہم موڑ پر پاکستانی قوم اور قیادت کو فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہو گااور بھارت کا بہیمانہ اور تعصّبانہ چہرہ بے نقاب کرنے کے لیے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنا اور جگانا ہوگا۔