نئے عالمی نظام کا محوراب امریکا نہیں
ٹرمپ کا نعرہ ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ اورکچھ ہو نہ ہو، یہ ظاہر نہیں کرتا کہ وہ دنیا کی قیادت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں
امریکا کے حالیہ صدارتی انتخابات میں جوں ہی یہ واضح ہوا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نئے صدر بننے جارہے ہیں، فرانس کے انتہائی دائیں بازوکے قومی محاذ کی چیف حکمت عملی ساز، فلوریان فلپوٹ نے اپنے ٹوئیٹ میں کہا ''ان کی دنیا زمیں بوس ہورہی ہے، ہماری تعمیر ہونے جارہی ہے۔''
ذاتی پسند نا پسند اورمعروضیت کی ملی جلی صورتحال سے سوال پیدا ہوا کہ '' وہ ' کون ہیں جن کی دنیا زمیں بوس ہورہی ہے؟ وہ طاقتیں کون سی ہیں جن کے بارے میں فلپوٹ کو یقین ہے کہ وہ اس کے کھنڈرات پر تعمیرہونگی؟وہ اصل میں وہی پرانی نسلی قوم پرست طاقتیں ہیں جنکی منطق نے 1945ء تک دنیا کو اس موڑ پرلاکھڑاکیا جہاں پورا نیا نظام تعمیرکرنا پڑا۔ ٹرمپ کی فتح ان کی بیان کردہ اس خواہش کی عکاس ہے کہ امریکا کواب عالمی تھانیدار اور ثالث نہیں رہنا چاہیے۔
ٹرمپ کا نعرہ ''سب سے پہلے امریکہ'' اورکچھ ہو نہ ہو، یہ ظاہر نہیں کرتا کہ وہ دنیا کی قیادت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اگر بالفرض وہ ایسا کرنا چاہیں بھی تو اورکوئی نہیں چاہے گا کیونکہ ٹرمپ کی وجہ سے امریکا جس بحران کا شکار ہے، اس نے اس پورے عالمی نظام ہی کوگہنا دیا ہے جس کی باگ ڈورامریکا کے ہاتھ میں ہو۔ ہوسکتا ہے اب کسی مغربی دنیاکا وجود ہی نہ رہے،اگر رہا بھی تو یہ واضح نہیں ہے کہ اس کے شہری کس حد تک آزاد ہوں گے۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جارج ڈبلیوبش کے احمقانہ اقدامات نے امریکی قیادت کے چہرے کو داغدار ہی نہیں، پوری طرح مسخ کرکے رکھ دیا تھا لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یورپ والے پھر بھی حالت کو جوں کا توں رکھنے کے لیے بے چین تھے۔ جولائی 2008ء میں اس وقت کے صدارتی امیدوار باراک اوباما کا ایک لاکھ سے زیادہ افراد نے برلن میں جو فقید المثال استقبال کیا تھا،اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ آزاد دنیا ایک اورجان ایف کینیڈی کی آرزومند ہے جسے قیادت سونپی جاسکے ۔لیکن جب یہ آرزو پوری ہونے کا وقت آیا تو سب کو مایوسی ہوئی۔
ٹرمپ کے انتخاب سے، امریکہ نے ایک نسل کے لیے اپنی بالا دستی برقرار رکھنے کا دعویٰ کھو دیا ہے کہ وہ جمہوریت اور تحمل کے روشن دیے کو بجھنے نہیں دیگا۔ اگر اسے دنیا مان لیا جائے جسکی آجکل امریکا قیادت کر رہا ہے تو یہ "نئی گھڑی ہوئی جمہوریتوں" پر مشتمل غیر آزاد دنیا ہے، جس میں نسلی قوم پرستی اور میڈیا منتخب آمریتوں کو ایندھن فراھم کرتی ہیں۔ یورپی یونین کے پاس یہ ثابت کرنے کے لیے بہت کم وقت رہ گیا ہے کہ وہ مزید مغرب کے بڑے بھائی کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کو امریکا کے اندر ایک قسم کا انقلاب قرار دیتے ہیں کیونکہ ہلیری کلنٹن کو ہرا کر انھوں نے در اصل اسٹیبلشمنٹ کا تختہ الٹا ہے جو ایک بڑی پارٹی کی طرف سے امیدوار تھیں اور معمولی فرق سے امریکا کی پہلی خاتون صدر بنتے بنتے رہ گئیں۔ انھیں حکومت میں رہنے کا تجربہ ہی نہیں تھا، اعلیٰ تعلیمی پس منظر کی حامل بھی تھیں جب کہ ٹرمپ اس سے پہلے کبھی کوئی الیکشن نہیں جیتے نہ ہی کسی سرکاری عہدے پر فائز رہے۔ ارب پتی ہونے کے علاوہ وہ حسن کے مقابلے کروانے اور پلے بوائے ہونے کی شہرت رکھتے ہیں۔
قوت برداشت سے عاری، بہت جلد طیش میں آجانے اور جارحانہ مزاج رکھنے والی شخصیت کے مالک ہیں۔ خواتین کے ساتھ انکا رویہ عموماً قابل اعتراض ہوتا ہے، نسلی اور ثقافتی بنیاد پر خاصے متعصب ہیں اور بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے بہت کم جانتے ہیں۔ ایک سابق سفارتکار نے انکی جیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا دنیا کی قسمت امریکا کے صدر کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور یہ بات سخت تشویشناک ہے کہ اگلے چار سالوں تک یہ ہاتھ ٹرمپ کا ہوگا۔اتنی ساری خامیوں کے ہوتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکی صدارتی انتخاب جیتنا واقعی حیران کن ہے جس پر ایک طویل عرصے تک تبصرے کیے جاتے رہیں گے۔
حالیہ دنوں میں مستقبل کے بارے میں پیشگوئی کرنے والوں کو دو موقعوں پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا: ایک بار اس وقت جب انھوں نے دعویٰ کیا کہ برطانوی عوام ریفرنڈم میں یورپی یونین سے نکلنے کا آئیڈیا مسترد کردیں گے اور دوسری مرتبہ جب انھوں نے پیشگوئی کی کہ ٹرمپ ہار جائیں گے۔ جہاں ان نجومیوں کو اپنا حساب درست کرنے کی ضرورت ہے وہاں مبصرین کو بھی یہ حقیقت نظرانداز نہیں کرنی چاہئے کہ سفید فام امریکیوں کی مایوسی اور بددلی نے ٹرمپ کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا جو وائٹ ہاؤس میں سیاہ فام صدر کی موجودگی کو اپنی عددی برتری کی شکست قرار دیتے تھے۔
یہی وجہ تھی کہ اوباما کی بھرپور حمایت ہلیری کلنٹن کو جتوانے کے بجائے انکی ہار کا باعث بنی۔امریکا میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کے نتیجے میں، مسلمانوں کو اکثر ایسے دیکھا جاتا ہے جیسے وہ دہشتگرد ہوں۔ دہشتگردی کے چند حالیہ واقعات کا ذمہ دار بھی مسلمانوں کو ٹھہرایا گیا، مسلمانوں کے طرز حیات خصوصاً خواتین کے حجاب پہننے کو امریکی ثقافت کو نیچا دکھانے کے مترادف قرار دیا گیا۔
ٹرمپ کو اسلام کے ان مخالفین میں اس وقت زبردست پذیرائی ملی جب انھوں نے پہلے اعلان کیا کہ صدر منتخب ہونے کے بعد وہ مسلمانوں کا امریکا میں داخلہ بند کردیں گے مگر پھر غلطی کا احساس ہونے پر کہا کہ امریکا آنے والے مسلمانوں کو سخت سیکورٹی چیکنگ کے عمل سے گزرنا ہوگا۔ اقبال نے کیا خوب کہا تھا :
اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے
جم اور ساقی نے بنا دی روش لطف و ستم اور
ذاتی پسند نا پسند اورمعروضیت کی ملی جلی صورتحال سے سوال پیدا ہوا کہ '' وہ ' کون ہیں جن کی دنیا زمیں بوس ہورہی ہے؟ وہ طاقتیں کون سی ہیں جن کے بارے میں فلپوٹ کو یقین ہے کہ وہ اس کے کھنڈرات پر تعمیرہونگی؟وہ اصل میں وہی پرانی نسلی قوم پرست طاقتیں ہیں جنکی منطق نے 1945ء تک دنیا کو اس موڑ پرلاکھڑاکیا جہاں پورا نیا نظام تعمیرکرنا پڑا۔ ٹرمپ کی فتح ان کی بیان کردہ اس خواہش کی عکاس ہے کہ امریکا کواب عالمی تھانیدار اور ثالث نہیں رہنا چاہیے۔
ٹرمپ کا نعرہ ''سب سے پہلے امریکہ'' اورکچھ ہو نہ ہو، یہ ظاہر نہیں کرتا کہ وہ دنیا کی قیادت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اگر بالفرض وہ ایسا کرنا چاہیں بھی تو اورکوئی نہیں چاہے گا کیونکہ ٹرمپ کی وجہ سے امریکا جس بحران کا شکار ہے، اس نے اس پورے عالمی نظام ہی کوگہنا دیا ہے جس کی باگ ڈورامریکا کے ہاتھ میں ہو۔ ہوسکتا ہے اب کسی مغربی دنیاکا وجود ہی نہ رہے،اگر رہا بھی تو یہ واضح نہیں ہے کہ اس کے شہری کس حد تک آزاد ہوں گے۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جارج ڈبلیوبش کے احمقانہ اقدامات نے امریکی قیادت کے چہرے کو داغدار ہی نہیں، پوری طرح مسخ کرکے رکھ دیا تھا لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یورپ والے پھر بھی حالت کو جوں کا توں رکھنے کے لیے بے چین تھے۔ جولائی 2008ء میں اس وقت کے صدارتی امیدوار باراک اوباما کا ایک لاکھ سے زیادہ افراد نے برلن میں جو فقید المثال استقبال کیا تھا،اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ آزاد دنیا ایک اورجان ایف کینیڈی کی آرزومند ہے جسے قیادت سونپی جاسکے ۔لیکن جب یہ آرزو پوری ہونے کا وقت آیا تو سب کو مایوسی ہوئی۔
ٹرمپ کے انتخاب سے، امریکہ نے ایک نسل کے لیے اپنی بالا دستی برقرار رکھنے کا دعویٰ کھو دیا ہے کہ وہ جمہوریت اور تحمل کے روشن دیے کو بجھنے نہیں دیگا۔ اگر اسے دنیا مان لیا جائے جسکی آجکل امریکا قیادت کر رہا ہے تو یہ "نئی گھڑی ہوئی جمہوریتوں" پر مشتمل غیر آزاد دنیا ہے، جس میں نسلی قوم پرستی اور میڈیا منتخب آمریتوں کو ایندھن فراھم کرتی ہیں۔ یورپی یونین کے پاس یہ ثابت کرنے کے لیے بہت کم وقت رہ گیا ہے کہ وہ مزید مغرب کے بڑے بھائی کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کو امریکا کے اندر ایک قسم کا انقلاب قرار دیتے ہیں کیونکہ ہلیری کلنٹن کو ہرا کر انھوں نے در اصل اسٹیبلشمنٹ کا تختہ الٹا ہے جو ایک بڑی پارٹی کی طرف سے امیدوار تھیں اور معمولی فرق سے امریکا کی پہلی خاتون صدر بنتے بنتے رہ گئیں۔ انھیں حکومت میں رہنے کا تجربہ ہی نہیں تھا، اعلیٰ تعلیمی پس منظر کی حامل بھی تھیں جب کہ ٹرمپ اس سے پہلے کبھی کوئی الیکشن نہیں جیتے نہ ہی کسی سرکاری عہدے پر فائز رہے۔ ارب پتی ہونے کے علاوہ وہ حسن کے مقابلے کروانے اور پلے بوائے ہونے کی شہرت رکھتے ہیں۔
قوت برداشت سے عاری، بہت جلد طیش میں آجانے اور جارحانہ مزاج رکھنے والی شخصیت کے مالک ہیں۔ خواتین کے ساتھ انکا رویہ عموماً قابل اعتراض ہوتا ہے، نسلی اور ثقافتی بنیاد پر خاصے متعصب ہیں اور بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے بہت کم جانتے ہیں۔ ایک سابق سفارتکار نے انکی جیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا دنیا کی قسمت امریکا کے صدر کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور یہ بات سخت تشویشناک ہے کہ اگلے چار سالوں تک یہ ہاتھ ٹرمپ کا ہوگا۔اتنی ساری خامیوں کے ہوتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکی صدارتی انتخاب جیتنا واقعی حیران کن ہے جس پر ایک طویل عرصے تک تبصرے کیے جاتے رہیں گے۔
حالیہ دنوں میں مستقبل کے بارے میں پیشگوئی کرنے والوں کو دو موقعوں پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا: ایک بار اس وقت جب انھوں نے دعویٰ کیا کہ برطانوی عوام ریفرنڈم میں یورپی یونین سے نکلنے کا آئیڈیا مسترد کردیں گے اور دوسری مرتبہ جب انھوں نے پیشگوئی کی کہ ٹرمپ ہار جائیں گے۔ جہاں ان نجومیوں کو اپنا حساب درست کرنے کی ضرورت ہے وہاں مبصرین کو بھی یہ حقیقت نظرانداز نہیں کرنی چاہئے کہ سفید فام امریکیوں کی مایوسی اور بددلی نے ٹرمپ کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا جو وائٹ ہاؤس میں سیاہ فام صدر کی موجودگی کو اپنی عددی برتری کی شکست قرار دیتے تھے۔
یہی وجہ تھی کہ اوباما کی بھرپور حمایت ہلیری کلنٹن کو جتوانے کے بجائے انکی ہار کا باعث بنی۔امریکا میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کے نتیجے میں، مسلمانوں کو اکثر ایسے دیکھا جاتا ہے جیسے وہ دہشتگرد ہوں۔ دہشتگردی کے چند حالیہ واقعات کا ذمہ دار بھی مسلمانوں کو ٹھہرایا گیا، مسلمانوں کے طرز حیات خصوصاً خواتین کے حجاب پہننے کو امریکی ثقافت کو نیچا دکھانے کے مترادف قرار دیا گیا۔
ٹرمپ کو اسلام کے ان مخالفین میں اس وقت زبردست پذیرائی ملی جب انھوں نے پہلے اعلان کیا کہ صدر منتخب ہونے کے بعد وہ مسلمانوں کا امریکا میں داخلہ بند کردیں گے مگر پھر غلطی کا احساس ہونے پر کہا کہ امریکا آنے والے مسلمانوں کو سخت سیکورٹی چیکنگ کے عمل سے گزرنا ہوگا۔ اقبال نے کیا خوب کہا تھا :
اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے
جم اور ساقی نے بنا دی روش لطف و ستم اور