پانی ایک خوف ناک عالمی صورتحال
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق اس وقت ہر 6 میں سے ایک فرد پانی کی کمی کا شکار ہے
برازیل کے شہر ریوڈی جنیرو میں ماحولیات اورترقی کے موضوع پر 1992ء میں منعقد ہونے والی اقوام متحدہ کی کانفرنس میں پانی کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا گیا، جس کے بعد 1993ء سے ہر سال 22 مارچ کو دنیا بھر میں پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔اس دن کی مناسبت سے ہرسال ایک موضوع بھی دیا جاتا ہے۔رواں سال کا موضوع ''پانی کا ضیاع'' رکھا گیا ہے جب کہ 22 مارچ کو ہی اقوام متحدہ کی جانب سے ورلڈ واٹر ڈویلپمنٹ رپورٹ بھی جاری کی جاتی ہے۔
پانی کے حوالے سے دنیا اس وقت کس قدرخوفناک صورتحال سے دوچار ہے،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کی نصف آبادی ان ملکوں میں رہائش پذیر ہے جہاں زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے نیچے جارہی ہے۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچرآرگنائزیشن کے اندازوں کے مطابق 2025ء تک دنیا کی 1.8 ارب آبادی ان ملکوں یا ایسے علاقوں میں رہائش رکھتی ہوگی،جہاں پانی کی شدید کمی ہوگی۔
اقوام متحدہ کے 2 درجن سے زائد اداروں کی مرتب کردہ رپورٹ ''پانی ایک بدلتی دنیا'' میں بھی بتایا گیا کہ 2030ء تک دنیا کی نصف آبادی پانی کی شدید کمی والے علاقوں میں رہائش پذیر ہوگی۔اس وقت کرہِ ارض پر بسنے والے 663 ملین لوگ ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں پینے کا صاف پانی ان کے گھروں سے بہت دور ہے۔
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق اس وقت ہر 6 میں سے ایک فرد پانی کی کمی کا شکار ہے جب کہ 2025ء تک دنیا کے نصف ممالک اور 2050ء میں ہر پانچ میں سے 3 افراد پانی کی کمی کا شکار ہوں گے۔بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی جاری کردہ پانچویں اسیسمنٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایشیا میں پانی کا بحران خطرناک صورتحال اختیارکرتا جارہا ہے۔
آئی پی سی سی کے مطابق جنوبی ایشیا میں موسمیاتی تبدیلیاں پانی کی فراہمی کے نظام کو شدید متاثرکریں گی، جس کے نتیجے میں ان ملکوں کی زراعت اور لائیو اسٹاک پر بدترین اثرات مرتب ہوں گے جب کہ زیر زمین پانی کی کمی بھی خطرات میں اضافے کا باعث بنے گی۔ دنیا کی کل آبادی کا ایک چوتھائی حصہ جنوبی ایشیا کے نو ملکوں پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، ایران، نیپال، افغانستان، سری لنکا اور مالدیپ میں رہائش پذیر ہے جن میں دنیا کے 50 فیصد انتہائی غریب افراد بھی شامل ہے۔
کرۂ ارض کی کل زمین پر موجود قابل استعمال پانی کے ایک تہائی ذخائز جنوبی ایشیا میں موجود ہیں لیکن یہاں کے لوگوں کے لیے محض 4.2 فیصد پانی دستیاب ہے۔ دنیا بھر میں 70 فیصد پانی زراعت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن اس خطے میں 90 فیصد پانی زراعت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے لیے جرمن، سوئس ماہرین آب پر مشتمل ایک ٹیم نے 2009ء میں ایک رپورٹ تیار کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ گلیشیر کے پگھلاؤ کے نتیجے میں پانی کی کمی کا سامنا ہوگا جس کے باعث افریقا، ایشیا اور دنیا کے بعض دیگر حصوں میں جنگ کی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ اس رپورٹ میں جنوبی ایشیا کے جن ملکوں کا ذکرکیا گیا تھا ان میں پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش شامل تھے۔
پاکستان میں کبھی پانی کی فراوانی ہواکرتی تھی لیکن اب اس کا شمار پانی کی کمی والے 30 ملکوں میں سے 26 ویں نمبر پرکیا جارہا ہے جب کہ 2040ء میں پاکستان 23 ویں نمبر پر ہوگا۔ 2013-14ء میں اکنامک سروے آف پاکستان کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں پانی کی فی کس دستیابی 964 کیوبک میٹر سالانہ پر پہنچ چکی ہے۔
پاکستان کونسل ریسرچ ان واٹر ریسورسز ( پی سی آرڈبلیو) کے اعداد وشمارکے مطابق ملک کی 85 فیصد شہری آبادی اور 82 فیصد دیہی آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ ہمارا شمار جہاں پانی کی کمی کے شکار ملکوں میں کیا جارہا ہے تو دوسری جانب پانی ضایع کرنے اور اُسے چوری کیے جانے کے حوالے سے بھی ہم دنیا میں 80 ویں نمبر پر ہیں۔
عالمی بینک کے تخمینے کے مطابق دنیا بھر میں استعمال ہونے والا ایک کیوبک میٹر پانی کسی بھی ملک کی جی ڈی پی میں 14 ڈالر کا اضافہ کرتا ہے جب کہ پاکستان میں یہ شرح صرف ایک ڈالر ہے۔ ڈیم اورذخائر کے نہ ہونے کی وجہ سے ہم 30 ملین ایکڑ فٹ سے زائد پانی سمندر میں بہا دیتے ہیں جوکہ عالمی پیمانے کے مطابق 8 سے 10 فیصد ملین ایکڑ فٹ ہے۔ پاکستان 145 ملین ایکڑ فٹ پانی کی گنجائش رکھنے والا ملک ہے لیکن ملک میں موجود پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش صرف 14 ملین ایکڑ فٹ یعنی 9.7 فیصد ہے۔ عالمی پیمانوں کے مطابق کسی بھی ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 40 فیصد ہونا چاہیے۔
یواین ڈویلپمنٹ پروگرام کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانی کی بڑھتی ہوئی ضروریات اور فراہمی آب کے نظام میں ہونے والی خرابیوں کے نتیجے میں پانی کی قلت کے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ پانی کی کمی شکار ملک جہاں روز بروز پانی کی مقدار میں کمی واقع ہورہی ہے حیران کن طور پر ملک بھر میں پانی تقریباً مفت دستیاب ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر سطح پر بے تحاشہ پانی ضایع کیا جاتا ہے۔
آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں زراعت کے لیے استعمال کیے جانے والے پانی پر ٹیکس کی شرح انتہائی کم ہے جب کہ 90 فیصد سطح آپ پر موجود اور زیر زمین پانی زرعی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تیزی سے پھیلتے ملک کے شہروں کے بارے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2020ء تک شہری علاقوں کے رقبے میں 40 فیصد اور 2050ء تک 63 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوگا جس کے باعث قابل استعمال پانی تک شہریوں کی رسائی مزید مشکل ہوجائے گی۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق ملک میں 90 فیصد بیماریوں کی بنیادی وجہ پینے کا آلودہ پانی ہے جس کے نتیجے میں 11 لاکھ افراد سالانہ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان میں پانی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قلت انتہائی تشویشناک صورتحال اختیار کرتی چلی جارہی ہے۔ ملک کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں ہر جگہ پانی کی قلت کا مسئلہ موجود ہے۔ ملک کے چاروں صوبوں میں پانی کے حوالے سے تنازعات میں اضافہ ہورہا ہے۔
پانی کے حوالے سے ہمارا رویہ کسی طور پر سنجیدہ قوم کا نہیں ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہم تاحال پاکستان کی متفقہ واٹر پالیسی ترتیب نہیں دے سکے ہیں۔ گزشتہ دنوں پانی و بجلی کے وفاقی وزیر خواجہ آصف نے سینیٹ کو بتایا کہ واٹر پالیسی منظوری کے لیے کونسل آف کامن انٹریسٹ کو بھیج دی گئی ہے جس کی منظوری کے بعد واٹر پالیسی کا اعلان کیا جائے گا۔
شاید کونسل کے پاس واٹر پالیسی کسی ترجیحی ایجنڈے میں شامل نہیں، ورنہ پانی کے عالمی دن کے حوالے سے واٹر پالیسی کی منظوری کا اعلان کیا جاسکتا تھا۔ سنگاپور اور جاپان صنعتی ترقی کے باوجود پانی کی شدید قلت کا شکار ملک ہیں لیکن پانی کے معاملات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرکے وہ اس مسئلے پر قابو پانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ پانی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قلت ملک کی معیشت پر جو اثرات مرتب کررہی ہے اس کے اسباب سے یقینا عوام نا آشنا ہیں لیکن کیا ہماری سیاسی جماعتوں، ذرایع ابلاغ، دانشوروں اور پالیسی سازوں کی نظر سے بھی یہ عوامل اوجھل ہوچکے ہیں؟
ہمیں اپنے پانی کے وسائل کو محفوظ کرنے کے ساتھ ان کو بڑھانا ہوگا لیکن انفرادی اوراجتماعی طور پر ہمارا رویہ انتہائی مایوس کن ہے۔ پانی کے عالمی دن کے حوالے سے سیمینار منعقد ہوں گے، ٹی وی پر ٹاک شوز میں بھی بات ہوگی، حکومتی سطح پر بھی بیانات جاری ہوں گے، لیکن عمل اقدامات کا انتظار ہی رہے گا۔ ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ پائیدارترقی کا خواب پانی کے بغیرکبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔
پانی کے حوالے سے دنیا اس وقت کس قدرخوفناک صورتحال سے دوچار ہے،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کی نصف آبادی ان ملکوں میں رہائش پذیر ہے جہاں زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے نیچے جارہی ہے۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچرآرگنائزیشن کے اندازوں کے مطابق 2025ء تک دنیا کی 1.8 ارب آبادی ان ملکوں یا ایسے علاقوں میں رہائش رکھتی ہوگی،جہاں پانی کی شدید کمی ہوگی۔
اقوام متحدہ کے 2 درجن سے زائد اداروں کی مرتب کردہ رپورٹ ''پانی ایک بدلتی دنیا'' میں بھی بتایا گیا کہ 2030ء تک دنیا کی نصف آبادی پانی کی شدید کمی والے علاقوں میں رہائش پذیر ہوگی۔اس وقت کرہِ ارض پر بسنے والے 663 ملین لوگ ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں پینے کا صاف پانی ان کے گھروں سے بہت دور ہے۔
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق اس وقت ہر 6 میں سے ایک فرد پانی کی کمی کا شکار ہے جب کہ 2025ء تک دنیا کے نصف ممالک اور 2050ء میں ہر پانچ میں سے 3 افراد پانی کی کمی کا شکار ہوں گے۔بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی جاری کردہ پانچویں اسیسمنٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایشیا میں پانی کا بحران خطرناک صورتحال اختیارکرتا جارہا ہے۔
آئی پی سی سی کے مطابق جنوبی ایشیا میں موسمیاتی تبدیلیاں پانی کی فراہمی کے نظام کو شدید متاثرکریں گی، جس کے نتیجے میں ان ملکوں کی زراعت اور لائیو اسٹاک پر بدترین اثرات مرتب ہوں گے جب کہ زیر زمین پانی کی کمی بھی خطرات میں اضافے کا باعث بنے گی۔ دنیا کی کل آبادی کا ایک چوتھائی حصہ جنوبی ایشیا کے نو ملکوں پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، ایران، نیپال، افغانستان، سری لنکا اور مالدیپ میں رہائش پذیر ہے جن میں دنیا کے 50 فیصد انتہائی غریب افراد بھی شامل ہے۔
کرۂ ارض کی کل زمین پر موجود قابل استعمال پانی کے ایک تہائی ذخائز جنوبی ایشیا میں موجود ہیں لیکن یہاں کے لوگوں کے لیے محض 4.2 فیصد پانی دستیاب ہے۔ دنیا بھر میں 70 فیصد پانی زراعت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن اس خطے میں 90 فیصد پانی زراعت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے لیے جرمن، سوئس ماہرین آب پر مشتمل ایک ٹیم نے 2009ء میں ایک رپورٹ تیار کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ گلیشیر کے پگھلاؤ کے نتیجے میں پانی کی کمی کا سامنا ہوگا جس کے باعث افریقا، ایشیا اور دنیا کے بعض دیگر حصوں میں جنگ کی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ اس رپورٹ میں جنوبی ایشیا کے جن ملکوں کا ذکرکیا گیا تھا ان میں پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش شامل تھے۔
پاکستان میں کبھی پانی کی فراوانی ہواکرتی تھی لیکن اب اس کا شمار پانی کی کمی والے 30 ملکوں میں سے 26 ویں نمبر پرکیا جارہا ہے جب کہ 2040ء میں پاکستان 23 ویں نمبر پر ہوگا۔ 2013-14ء میں اکنامک سروے آف پاکستان کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں پانی کی فی کس دستیابی 964 کیوبک میٹر سالانہ پر پہنچ چکی ہے۔
پاکستان کونسل ریسرچ ان واٹر ریسورسز ( پی سی آرڈبلیو) کے اعداد وشمارکے مطابق ملک کی 85 فیصد شہری آبادی اور 82 فیصد دیہی آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ ہمارا شمار جہاں پانی کی کمی کے شکار ملکوں میں کیا جارہا ہے تو دوسری جانب پانی ضایع کرنے اور اُسے چوری کیے جانے کے حوالے سے بھی ہم دنیا میں 80 ویں نمبر پر ہیں۔
عالمی بینک کے تخمینے کے مطابق دنیا بھر میں استعمال ہونے والا ایک کیوبک میٹر پانی کسی بھی ملک کی جی ڈی پی میں 14 ڈالر کا اضافہ کرتا ہے جب کہ پاکستان میں یہ شرح صرف ایک ڈالر ہے۔ ڈیم اورذخائر کے نہ ہونے کی وجہ سے ہم 30 ملین ایکڑ فٹ سے زائد پانی سمندر میں بہا دیتے ہیں جوکہ عالمی پیمانے کے مطابق 8 سے 10 فیصد ملین ایکڑ فٹ ہے۔ پاکستان 145 ملین ایکڑ فٹ پانی کی گنجائش رکھنے والا ملک ہے لیکن ملک میں موجود پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش صرف 14 ملین ایکڑ فٹ یعنی 9.7 فیصد ہے۔ عالمی پیمانوں کے مطابق کسی بھی ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 40 فیصد ہونا چاہیے۔
یواین ڈویلپمنٹ پروگرام کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانی کی بڑھتی ہوئی ضروریات اور فراہمی آب کے نظام میں ہونے والی خرابیوں کے نتیجے میں پانی کی قلت کے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ پانی کی کمی شکار ملک جہاں روز بروز پانی کی مقدار میں کمی واقع ہورہی ہے حیران کن طور پر ملک بھر میں پانی تقریباً مفت دستیاب ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر سطح پر بے تحاشہ پانی ضایع کیا جاتا ہے۔
آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں زراعت کے لیے استعمال کیے جانے والے پانی پر ٹیکس کی شرح انتہائی کم ہے جب کہ 90 فیصد سطح آپ پر موجود اور زیر زمین پانی زرعی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تیزی سے پھیلتے ملک کے شہروں کے بارے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2020ء تک شہری علاقوں کے رقبے میں 40 فیصد اور 2050ء تک 63 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوگا جس کے باعث قابل استعمال پانی تک شہریوں کی رسائی مزید مشکل ہوجائے گی۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق ملک میں 90 فیصد بیماریوں کی بنیادی وجہ پینے کا آلودہ پانی ہے جس کے نتیجے میں 11 لاکھ افراد سالانہ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان میں پانی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قلت انتہائی تشویشناک صورتحال اختیار کرتی چلی جارہی ہے۔ ملک کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں ہر جگہ پانی کی قلت کا مسئلہ موجود ہے۔ ملک کے چاروں صوبوں میں پانی کے حوالے سے تنازعات میں اضافہ ہورہا ہے۔
پانی کے حوالے سے ہمارا رویہ کسی طور پر سنجیدہ قوم کا نہیں ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہم تاحال پاکستان کی متفقہ واٹر پالیسی ترتیب نہیں دے سکے ہیں۔ گزشتہ دنوں پانی و بجلی کے وفاقی وزیر خواجہ آصف نے سینیٹ کو بتایا کہ واٹر پالیسی منظوری کے لیے کونسل آف کامن انٹریسٹ کو بھیج دی گئی ہے جس کی منظوری کے بعد واٹر پالیسی کا اعلان کیا جائے گا۔
شاید کونسل کے پاس واٹر پالیسی کسی ترجیحی ایجنڈے میں شامل نہیں، ورنہ پانی کے عالمی دن کے حوالے سے واٹر پالیسی کی منظوری کا اعلان کیا جاسکتا تھا۔ سنگاپور اور جاپان صنعتی ترقی کے باوجود پانی کی شدید قلت کا شکار ملک ہیں لیکن پانی کے معاملات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرکے وہ اس مسئلے پر قابو پانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ پانی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قلت ملک کی معیشت پر جو اثرات مرتب کررہی ہے اس کے اسباب سے یقینا عوام نا آشنا ہیں لیکن کیا ہماری سیاسی جماعتوں، ذرایع ابلاغ، دانشوروں اور پالیسی سازوں کی نظر سے بھی یہ عوامل اوجھل ہوچکے ہیں؟
ہمیں اپنے پانی کے وسائل کو محفوظ کرنے کے ساتھ ان کو بڑھانا ہوگا لیکن انفرادی اوراجتماعی طور پر ہمارا رویہ انتہائی مایوس کن ہے۔ پانی کے عالمی دن کے حوالے سے سیمینار منعقد ہوں گے، ٹی وی پر ٹاک شوز میں بھی بات ہوگی، حکومتی سطح پر بھی بیانات جاری ہوں گے، لیکن عمل اقدامات کا انتظار ہی رہے گا۔ ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ پائیدارترقی کا خواب پانی کے بغیرکبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔