ایک تھا گدھا

آج تک تلاش ہی رہی ایسے آرٹسٹ یا لکھاری کی جو اپنا لکھا ہوا، بِنا دیکھے، کچھ عرصے بعد پھر سے لفظ بہ لفظ ویسے ہی لکھ سکے

گدھے نے وژن اور ٹائم مینجمنٹ پڑھانا شروع کردیا اور پھر وہ باقاعدہ پروفیسر بن کر جگہ جگہ ٹولی لگا کر بیٹھ جاتا۔ یہاں بھی نفس نے مزید بڑائی چاہی تو اس نے لکھنا شروع کردیا۔ فوٹو: فائل

''سر آپ کمال لکھتے ہیں۔ کیا کہنے، واہ جی واہ''۔ میرا مضمون اگر غلطی سے چھپ جائے تو اِس طرح کے ستائشی جملوں کی لائن لگ جاتی ہے۔ ابھی مضمون آیا نہیں کہ ای میلز کی بھرمار شروع۔ سمجھ نہیں آتا کہ مضمون پہلے چھپا ہے یا ای میل پہلے لکھ دی گئی ہے۔

ہم لوگ تعریف میں بھی خیانت اور بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے باز نہیں آتے۔ لاکھ بار سمجھایا کہ بھائی اللہ کی دین ہے، مجھے تو آج تک یہ نہیں پتہ چلا کہ یہ دین کیوں ہے تو میں مضامین پر بات کیسے کروں؟ اور کیونکر اُن کا سارا کریڈٹ لے لوں۔ آج تک تلاش ہی رہی ایسے آرٹسٹ یا لکھاری کی جو اپنا لکھا ہوا، بِنا دیکھے، کچھ عرصے بعد پھر سے لفظ بہ لفظ ویسے ہی لکھ سکے یا اپنی بنائی ہوئی پینٹنگ کی ہوبہو وہی کاپی بناسکے۔ اب اگر سمجھاو تو کہتے ہیں کہ کسرِ نفسی سے کام لے رہا ہوں۔ خوشی سے مر نہ جاتا اگر عاجزی کا اتنا ہی یقین ہوتا۔

آئیے، آج اس تعریف و کریڈیٹ کے مسئلے کو حل کر ہی دیتے ہیں۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی جنگل میں بھات بھات کے چرند و پرند، امن وسکون سے ہنسی خوشی رہ رہے ہوتے ہیں۔ اتفاقاََ وہاں کوئی گدھا نہیں ہوتا۔ کچھ عرصے بعد ایک گدھا وہاں نکل آتا ہے۔ اب جنگل کے سارے جانور اسے گھیر لیتے ہیں۔ کوئی اُس کے ڈول و جثے کی بات کرے تو کوئی اُس کی آواز کی انفرادیت کے گن گائے۔ کوئی گھوڑوں کے شجرہ نصب سے جوڑے تو کوئی زیبرا کا بچھڑا ہوا کزن بتائے۔

اِس ساری گہما گہمی میں گدھے کو اتنا تو اندازہ ہو ہی جاتا ہے کہ اُسے اہمیت دی جا رہی ہے، وہ بھی زندگی میں پہلی مرتبہ۔ اب وہ اتنا گدھا بھی نہیں ہوتا کہ یہ سنہری موقع ہاتھ سے جانے دے۔ جرگہ بیٹھتا ہے اور گدھے سے پوچھتا ہے تم کون ہو؟ گدھا اُلٹا سوال داغ دیتا ہے کہ تمہیں کیا لگتا ہے کہ میں کون ہوں؟ بوڑھی لومڑی آگے بڑھتی ہے اور کہتی ہے کہ ہم نے اپنے آباواجداد سے کسی ذہین مخلوق 'انسان' کے بڑے قصے سن رکھے ہیں، تم کہیں وہی تو نہیں؟

گدھے نے فوراََ حامی بھر لی۔ بس پھر کیا تھا۔ جنگل میں جشن کا سماں، گدھے کی خوب آوبھگت، اُس کی شان میں قصیدے لکھے گئے۔ جنگل کا بادشاہ شیر اُس سے مشورے لیتا، لومڑی نے اُسے شوریٰ کونسل کا ممبر بنا لیا۔ وغیرہ وغیرہ۔

کچھ ہی مہینوں میں گدھے نے وژن اور ٹائم مینجمنٹ پڑھانا شروع کردیا اور پھر وہ باقاعدہ پروفیسر بن کر جگہ جگہ ٹولی لگا کر بیٹھ جاتا۔ یہاں بھی نفس نے مزید بڑائی چاہی تو اس نے لکھنا شروع کردیا۔


کچھ سالوں بعد جنگل میں ایک اصلی انسان آگیا۔ پھر سے جانوروں میں گہماگہمی، پھر سے چہ مگوئیاں، پھر سے جرگہ۔ اب گدھا اتنے عرصے میں اپنی ایک ٹھیک ٹھاک لابی بنا چکا تھا۔ گواہیاں پڑیں اور سب نے کہا کہ گدھا اصل میں انسان ہے اور انسان جھوٹ بولتا ہے۔

شیر نے گرج دار آواز میں انسان کو للکارا کہ دیکھ تیرے پاس یہ آخری موقع ہے کہ تو اِسے [گدھے کو] انسان تسلیم کرلے اور سچ سچ بتا دے کہ تُو کون ہے ورنہ ہم تمہیں کچا چبا جائیں گے۔

انسان نے ہاتھ جوڑ کر عرض کی کہ بادشاہ حضور میں مرنا گوارہ کروں گا مگر گدھے کو انسان نہیں مانوں گا۔ آپ سب میں اور میرے میں صرف ایک فرق ہے۔ آپ نے کبھی انسان دیکھے نہیں، میں نے دیکھے ہیں۔

تو قارئین کرام، میں بھی ہاتھ جوڑ کے آپ سے عرض کرتا ہوں کہ میں نے غلطی سے انسان دیکھ لیئے ہیں۔ اِس کے بعد آپ کی تعریفیں سمیٹنا موت کے برابر ہے۔

آپ کی کرم نوازیوں کا شکریہ!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔



اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔

Load Next Story