میڈیا میں ایڈیٹراورفلٹر کاکام ختمضابطہ اخلاق ہونا چاہیےکائرہ
بغیرٹریننگ والے لوگ شامل ہیں،مبشرلقمان،صحافی کم اینٹرٹینرز زیادہ ہیں،مطیع اللہ
وفاقی وزیراطلاعات قمرزمان کائرہ نے کہا ہے کہ میڈیا میں ایڈیٹراورفلٹر کا کام ختم ہوچکا ہے، سب نے کہاکہ میڈیا کا کوئی ضابطہ اخلاق اور قانون ہونا چاہیے اور اب یہ بحث سنجیدہ ہوچکی ہے، ہم میڈیا کے بارے میں بنائے گئے قوانین پرعمل نہیں کرتے۔
ایکسپریس نیوزکے پروگرام' خودی ڈبیٹ سیاہ وسفید شو ' میں اینکرپرسن منیزے جہانگیر سے گفتگو میں انھوں نے کہاکہ ہم نے کوشش کی ہے کہ مشاورت سے ایک ایسا کوڈ آف کنڈکٹ طے کریں جوحکومت کا نہ لگے۔ کائرہ نے کہا کہ جب کبھی ٹاک شوز ہوتے ہیں تو ہم وقفے کے دوران وہ باتیں بھی کرتے ہیں جو ہماری خواہش ہوتی ہے کہ اینکر پرسن ہم سے پوچھے تاکہ ہمیں بھی اپنے موقف کو بتانے میں آسانی ہو۔
ٹی وی اینکر مبشرلقمان نے کہا کہ میڈیا اپنا کام تو کررہا ہے لیکن اس میں ذمے داری کا مظاہر ہ نہیں کیا جارہا اور میڈیا میں ایسے لوگ آچکے ہیں جن کی کوئی ٹریننگ نہیں،خبروں کی سنسنی اینکر نہیں پھیلاتے، میڈیا کا اثرنہیں لیا جاتا اگر ایسا ہوتا تومجھ سمیت پچاس لوگوں نے جمشید دستی کے خلافپروگرام کیے لیکن وہ دوسری بار 53 ہزار ووٹ لے کرمنتخب ہوگیا۔ سینیر صحافی مطیع اللہ جان نے کہاکہ میڈیا پر سنسرشپ نہیں ہونی چاہیے لیکن بطورصحافی اورشہری اخلاقیات اور قاعدے قانون کا پابند ضرور ہونا چاہیے، صحافت کے لیے جگہ کم ہوتی جارہی ہے ٹاک شوز اور اینٹرٹینرز کی جگہ زیادہ بن گئی ہے۔
ایکسپریس نیوزکے پروگرام' خودی ڈبیٹ سیاہ وسفید شو ' میں اینکرپرسن منیزے جہانگیر سے گفتگو میں انھوں نے کہاکہ ہم نے کوشش کی ہے کہ مشاورت سے ایک ایسا کوڈ آف کنڈکٹ طے کریں جوحکومت کا نہ لگے۔ کائرہ نے کہا کہ جب کبھی ٹاک شوز ہوتے ہیں تو ہم وقفے کے دوران وہ باتیں بھی کرتے ہیں جو ہماری خواہش ہوتی ہے کہ اینکر پرسن ہم سے پوچھے تاکہ ہمیں بھی اپنے موقف کو بتانے میں آسانی ہو۔
ٹی وی اینکر مبشرلقمان نے کہا کہ میڈیا اپنا کام تو کررہا ہے لیکن اس میں ذمے داری کا مظاہر ہ نہیں کیا جارہا اور میڈیا میں ایسے لوگ آچکے ہیں جن کی کوئی ٹریننگ نہیں،خبروں کی سنسنی اینکر نہیں پھیلاتے، میڈیا کا اثرنہیں لیا جاتا اگر ایسا ہوتا تومجھ سمیت پچاس لوگوں نے جمشید دستی کے خلافپروگرام کیے لیکن وہ دوسری بار 53 ہزار ووٹ لے کرمنتخب ہوگیا۔ سینیر صحافی مطیع اللہ جان نے کہاکہ میڈیا پر سنسرشپ نہیں ہونی چاہیے لیکن بطورصحافی اورشہری اخلاقیات اور قاعدے قانون کا پابند ضرور ہونا چاہیے، صحافت کے لیے جگہ کم ہوتی جارہی ہے ٹاک شوز اور اینٹرٹینرز کی جگہ زیادہ بن گئی ہے۔