ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا
گریٹ گیمز کے چالاک عالمی دشمنوں نے ہمیں چار طرف سے گھیرنے اور پڑوسیوں نے سرحد پر مشکل صورتحال پیدا کی
SOCHI:
جمعرات کو ملک بھر میں 77 واں یوم پاکستان 23 مارچ کو ایک طرف ملی جوش و جذبہ کے ساتھ منایا گیا جب کہ دوسری جانب ہم وطنوں کو بدلتی ہوئی صد رنگ دنیا میں اس حقیقت کی طرف متوجہ کرنے کی دردمندانہ کوشش کی گئی کہ یہی دن ہمارا عظیم یوم جمہوریہ ہے، اہل وطن کو یاد دلایا گیا کہ یوم پاکستان منانے کا اصل مقصد اس عزم اور نصب العین کی تجدید ہے جس نے بطور پاکستان ہمیں ایک قوم بنایا جب کہ وطن عزیز کے ہر شہری کو اس بات کا یقین دلایا کہ یہ وطن سب پاکستانیوں کا ہے اور وہی اس کے حقیقی پاسبان ہیں۔
دن کا آغاز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں31 اور صوبائی دارالحکومتوں میں 21، 21 توپوں کی سلامی سے کیا گیا، مساجد میں ملکی ترقی و استحکام اور سالمیت کے لیے خصوصی دعائیں مانگی گئیں، شکر پڑیاں پریڈ ایونیو میں روایتی فوجی پریڈ ہوئی، پریڈ میں صدر ممنون حسین، وزیراعظم نواز شریف، تینوں مسلح افواج کے سربراہان سمیت وفاقی وزرا، اعلیٰ فوجی اور سول حکام نے شرکت کی، اس کے علاوہ غیر ملکی سفیر اور فوجی عہدیدار بھی موجود ہوں گے، ملک بھر میں عام تعطیل ہوئی، بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح اور مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے مزاروں پر گارڈز کی تبدیلی کی تقاریب منعقد ہوئیں، صدر مملکت ممنون حسین نے یوم پاکستان کے موقع پر ایوان صدر میں منعقدہ تقریب میں 145 شخصیات کو سول ایوارڈز دیے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ فوجی پریڈ میں پاکستان کی تینوں مسلح افواج کے ساتھ ساتھ چین، ترکی اور سعودی عرب کے فوجی دستے نے بھی پریڈ میں حصہ لیا۔
صدر مملکت، وزیراعظم اور دیگر سیاسی قیادت نے یوم پاکستان کے موقع پر پاکستان کو قائداعظم کے افکار کی روشنی میں دور جدید کی ترقی یافتہ ریاست بنانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بحیثیت قوم ہماری ذمے داری ہے کہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیں جس میں رنگ و نسل یا مذہب و فرقہ کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک روا نہ رکھا جائے۔
وزیراعظم نواز شریف نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ہم نے مل کر پاکستان کو ایک ایسی قومی ریاست بنانا ہے جس میں تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں اور پاکستان کا ہر خطہ ترقی کرے ۔ تاہم یوم پاکستان نے قوم کے سامنے ایک بنیادی سوال بھی رکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ جس وطن کے قیام کے لیے شہیدان باوفا اور لاکھوں انسانوں نے ہجرت کی ، اپنے گھر لٹائے، کاروبار تج دیا اور کاروان پاکستان میں شامل ہوکر ایک نئے وطن کی مٹی کو چوما۔ مگر کیا ہم نے اپنا وعدہ پورا کیا؟ آج اللہ کا شکر ہے کہ اس ہستی نے بابائے قوم محمد علی جناح کی قیادت اور سیاسی وژن کو با ثمر کیا، تحریک پاکستان کے بے لوث اور انتھک سیاسی مشاہیر نے اپنی اجتماعی بصیرت سے خطے میں اسلامیان ہند کے لیے ایک علیحدہ وطن حاصل کیا لیکن ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ پاکستان عالمی برادری میں ایک ذمے دار ملک ہونے کے باوجود دہشتگردی، انتہاپسندی، کرپشن، لوٹ کھسوٹ، اقربا پروری، فرقہ بندی، سماجی و اخلاقی جرائم ، ملاوٹ اور انتظامی و ادارہ جاتی شکست و ریخت کے ہمہ جہتی بحران سے دوچار ہے۔
گریٹ گیمز کے چالاک عالمی دشمنوں نے ہمیں چار طرف سے گھیرنے اور پڑوسیوں نے سرحد پر مشکل صورتحال پیدا کی ہے، خطے میں استحکام کی ضرورت ہے لیکن تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، اگر وطن کو ایٹمی طاقت بننے کا اعزاز حاصل نہ ہوتا تو خطے میں مفادات کی جنگ زرگری چھیڑنے کی سازش خدا معلوم ہمیں کیا دن دکھاتی مگر پاکستان نے ہر مشکل مرحلہ میں عوام کی زبردست حمایت سے دشمنوں کے دانت کھٹے کیے، نائن الیون کا سانحہ ہمارے لیے آزمائش کی اعصاب شکن گھڑی تھی ، خطے میں پاکستان ہی فرنٹ لائن ریاست بن کر دہشتگردی کے خلاف جنگ میں برسرپیکار رہا، طالبانیت کو روند کر رکھنے والی ہماری عسکری قیادت نے وہ کچھ کیا اور سہا جس کی عالمی برادری بھی داد دینے پر مجبور ہے۔آپریشن ضرب عضب کے بعد وطن کی سلامتی کے لیے آپریشن ردالفساد جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گا جب تک آخری دہشت گرد کا خاتمہ نہیں ہوجاتا۔ آج اسی تجدید عہد کا دن ہے۔ پا کستان امن پسند ملک ہے۔
پڑوسیوں سے پر امن بقائے باہمی اس کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے مگر وقار و عزت کے ساتھ، کوئی پاکستان کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھے گا تو اسے ویسا ہی جواب ملے گا۔ 23 مارچ نے ہمیں یہ شعور بخشا ہے کہ ملک کی اساس جمہوری قدروں پر قائم رہ سکتی ہے، کسی ماورائے آئین اقدام کا نہ ملک متحمل ہوسکتا ہے اور نہ کرپشن کا خاتمہ کیے بغیر جمہوریت سرخرو ہوسکتی ہے، شفاف طرز حکمرانی کے لیے لازم ہے کہ احتساب اور جوابدہی کا نظام مستحکم ہو ، عدلیہ اور میڈیا کی آزادی جمہوریت کی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔ ملک میں بیروزگاری ، مجرمانہ سرگرمیوں اور مذہبی انتہاپسندی کا باب بند ہو ، حکمراں رول ماڈل بنیں ۔ دہشتگردی کے خلاف پاک فوج کی جنگ جاری ہے،اب سیاسی قیادت بھی عوام کو ریلیف اور بے داغ حکمرانی کی نوید دے ۔ داخلی سیاسی کشمکش کا دی اینڈ ہونا بھی شرط ہے۔
ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا!
جمعرات کو ملک بھر میں 77 واں یوم پاکستان 23 مارچ کو ایک طرف ملی جوش و جذبہ کے ساتھ منایا گیا جب کہ دوسری جانب ہم وطنوں کو بدلتی ہوئی صد رنگ دنیا میں اس حقیقت کی طرف متوجہ کرنے کی دردمندانہ کوشش کی گئی کہ یہی دن ہمارا عظیم یوم جمہوریہ ہے، اہل وطن کو یاد دلایا گیا کہ یوم پاکستان منانے کا اصل مقصد اس عزم اور نصب العین کی تجدید ہے جس نے بطور پاکستان ہمیں ایک قوم بنایا جب کہ وطن عزیز کے ہر شہری کو اس بات کا یقین دلایا کہ یہ وطن سب پاکستانیوں کا ہے اور وہی اس کے حقیقی پاسبان ہیں۔
دن کا آغاز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں31 اور صوبائی دارالحکومتوں میں 21، 21 توپوں کی سلامی سے کیا گیا، مساجد میں ملکی ترقی و استحکام اور سالمیت کے لیے خصوصی دعائیں مانگی گئیں، شکر پڑیاں پریڈ ایونیو میں روایتی فوجی پریڈ ہوئی، پریڈ میں صدر ممنون حسین، وزیراعظم نواز شریف، تینوں مسلح افواج کے سربراہان سمیت وفاقی وزرا، اعلیٰ فوجی اور سول حکام نے شرکت کی، اس کے علاوہ غیر ملکی سفیر اور فوجی عہدیدار بھی موجود ہوں گے، ملک بھر میں عام تعطیل ہوئی، بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح اور مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے مزاروں پر گارڈز کی تبدیلی کی تقاریب منعقد ہوئیں، صدر مملکت ممنون حسین نے یوم پاکستان کے موقع پر ایوان صدر میں منعقدہ تقریب میں 145 شخصیات کو سول ایوارڈز دیے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ فوجی پریڈ میں پاکستان کی تینوں مسلح افواج کے ساتھ ساتھ چین، ترکی اور سعودی عرب کے فوجی دستے نے بھی پریڈ میں حصہ لیا۔
صدر مملکت، وزیراعظم اور دیگر سیاسی قیادت نے یوم پاکستان کے موقع پر پاکستان کو قائداعظم کے افکار کی روشنی میں دور جدید کی ترقی یافتہ ریاست بنانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بحیثیت قوم ہماری ذمے داری ہے کہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیں جس میں رنگ و نسل یا مذہب و فرقہ کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک روا نہ رکھا جائے۔
وزیراعظم نواز شریف نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ہم نے مل کر پاکستان کو ایک ایسی قومی ریاست بنانا ہے جس میں تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں اور پاکستان کا ہر خطہ ترقی کرے ۔ تاہم یوم پاکستان نے قوم کے سامنے ایک بنیادی سوال بھی رکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ جس وطن کے قیام کے لیے شہیدان باوفا اور لاکھوں انسانوں نے ہجرت کی ، اپنے گھر لٹائے، کاروبار تج دیا اور کاروان پاکستان میں شامل ہوکر ایک نئے وطن کی مٹی کو چوما۔ مگر کیا ہم نے اپنا وعدہ پورا کیا؟ آج اللہ کا شکر ہے کہ اس ہستی نے بابائے قوم محمد علی جناح کی قیادت اور سیاسی وژن کو با ثمر کیا، تحریک پاکستان کے بے لوث اور انتھک سیاسی مشاہیر نے اپنی اجتماعی بصیرت سے خطے میں اسلامیان ہند کے لیے ایک علیحدہ وطن حاصل کیا لیکن ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ پاکستان عالمی برادری میں ایک ذمے دار ملک ہونے کے باوجود دہشتگردی، انتہاپسندی، کرپشن، لوٹ کھسوٹ، اقربا پروری، فرقہ بندی، سماجی و اخلاقی جرائم ، ملاوٹ اور انتظامی و ادارہ جاتی شکست و ریخت کے ہمہ جہتی بحران سے دوچار ہے۔
گریٹ گیمز کے چالاک عالمی دشمنوں نے ہمیں چار طرف سے گھیرنے اور پڑوسیوں نے سرحد پر مشکل صورتحال پیدا کی ہے، خطے میں استحکام کی ضرورت ہے لیکن تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، اگر وطن کو ایٹمی طاقت بننے کا اعزاز حاصل نہ ہوتا تو خطے میں مفادات کی جنگ زرگری چھیڑنے کی سازش خدا معلوم ہمیں کیا دن دکھاتی مگر پاکستان نے ہر مشکل مرحلہ میں عوام کی زبردست حمایت سے دشمنوں کے دانت کھٹے کیے، نائن الیون کا سانحہ ہمارے لیے آزمائش کی اعصاب شکن گھڑی تھی ، خطے میں پاکستان ہی فرنٹ لائن ریاست بن کر دہشتگردی کے خلاف جنگ میں برسرپیکار رہا، طالبانیت کو روند کر رکھنے والی ہماری عسکری قیادت نے وہ کچھ کیا اور سہا جس کی عالمی برادری بھی داد دینے پر مجبور ہے۔آپریشن ضرب عضب کے بعد وطن کی سلامتی کے لیے آپریشن ردالفساد جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گا جب تک آخری دہشت گرد کا خاتمہ نہیں ہوجاتا۔ آج اسی تجدید عہد کا دن ہے۔ پا کستان امن پسند ملک ہے۔
پڑوسیوں سے پر امن بقائے باہمی اس کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے مگر وقار و عزت کے ساتھ، کوئی پاکستان کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھے گا تو اسے ویسا ہی جواب ملے گا۔ 23 مارچ نے ہمیں یہ شعور بخشا ہے کہ ملک کی اساس جمہوری قدروں پر قائم رہ سکتی ہے، کسی ماورائے آئین اقدام کا نہ ملک متحمل ہوسکتا ہے اور نہ کرپشن کا خاتمہ کیے بغیر جمہوریت سرخرو ہوسکتی ہے، شفاف طرز حکمرانی کے لیے لازم ہے کہ احتساب اور جوابدہی کا نظام مستحکم ہو ، عدلیہ اور میڈیا کی آزادی جمہوریت کی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔ ملک میں بیروزگاری ، مجرمانہ سرگرمیوں اور مذہبی انتہاپسندی کا باب بند ہو ، حکمراں رول ماڈل بنیں ۔ دہشتگردی کے خلاف پاک فوج کی جنگ جاری ہے،اب سیاسی قیادت بھی عوام کو ریلیف اور بے داغ حکمرانی کی نوید دے ۔ داخلی سیاسی کشمکش کا دی اینڈ ہونا بھی شرط ہے۔
ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا!