لندن میں دہشت گردیبنیادی اسباب دور کیے جائیں
امریکا اور یورپ دہشت گردی کی کارروائیاں روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں
لندن میں پارلیمنٹ کے باہر دہشت گردی کی کارروائی میں حملہ آور سمیت چار افراد ہلاک اور 20زخمی ہو گئے' ہلاک ہونے والوں میں ایک پولیس آفیسر بھی شامل ہے۔ اطلاعات کے مطابق لندن میں پارلیمنٹ کی عمارت کے سامنے ویسٹ منسٹر پل پر کار سوار حملہ آور پیدل افراد کو کچلتا ہوا پارلیمنٹ کی عمارت تک جا پہنچا' حملہ آور نے پارلیمنٹ کے احاطے میں پولیس اہلکار پر چھری سے حملہ کیا تاہم دوسرے پولیس اہلکار کی جوابی فائرنگ سے وہ ہلاک ہو گیا۔
پاکستانی ہائی کمشنر نے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا' ترجمان دفتر خارجہ نے بھی اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہماری دعائیں اور ہمدردیاں متاثرین اور زخمیوں کے ساتھ ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے برطانوی وزیراعظم کو دہشت گردی کے خلاف حمایت کا یقین دلایا۔ دہشت گردی کا یہ واقعہ بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں ہونے والے حملوں کی پہلی برسی کے دن ہوا۔ ان حملوں سے 32افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
برسلز حملوں کی ذمے داری داعش نے قبول کر لی تھی۔ لندن کے حالیہ حملے کے بارے میں برطانوی پولیس اور ادارے تحقیقات کر رہے ہیں اصل صورت حال تو تحقیقاتی رپورٹ آنے کے بعد سامنے آئے گی کہ یہ حملہ کیوں کیا گیا اور اس کے پیچھے کون لوگ ملوث ہیں اور وہ کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے تاہم ایک برطانوی اخبار کے مطابق حملہ آور ٹریور بروکس نے مسلمان ہو کر اپنا نام ابو عزالدین رکھ لیا تھا اسے دہشت گردی پر اکسانے اور فنڈز جمع کرنے کا مجرم قرار دیتے ہوئے 2008میں ساڑھے چار سال کی سزا ہوئی تھی البتہ ملزم کی شناخت کے حوالے سے متضاد دعوے سامنے آ رہے ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسے مشکوک شخص کی برطانوی انٹیلی جنس اداروں نے مسلسل نگرانی کیوں نہیں کی' برسلز حملے کے ملزمان بھی مشکوک لوگ تھے اور انھوں نے بھی انتہا پسندوں کی مدد کی تھی اور اس الزام میں جیلیں کاٹی تھیں لیکن رہائی کے بعد ان کی نگرانی نہیں کی گئی جس کی وجہ سے وہ دہشت گردی کی نئی واردات کے قابل ہو گئے۔ بہر حال کافی عرصے سے یورپ اور برطانیہ میں بھی دہشت گردی کی کارروائیاں رونما ہو رہی ہیں، ان کارروائیوں کے پیچھے مسلمانوں کے نام ہی سامنے آئے ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ یورپ جیسے پرامن' ترقی یافتہ اور ماڈرن خیالات کے حامل ممالک میں بودوباش اختیار کرنے کے باوجود چند مسلمان انتہا پسندی اختیار کرتے ہوئے دہشت گردی کی کارروائیوں پر اتر آئے ہیں۔
امریکا اور یورپ دہشت گردی کی کارروائیاں روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں لیکن جب تک امریکا اور طاقتور یورپی قوتیں مسلمان ممالک کے خلاف اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتیں تب تک یورپ میں دہشت گردی کی کارروائیاں روکنا ایک مشکل امر ہے۔ افغانستان' عراق' شام اور لیبیا میں ہونے والی تباہی کے پس منظر میں امریکا اور یورپی قوتوں کی منصوبہ بندی شامل ہے' ان کا یہی معاندانہ اور متعصبانہ رویہ چند ایک مسلمانوں کو دہشت گردی پر اکساتا ہے لہٰذا جب تک بنیادی اسباب اور وجوہات دور نہیں کی جاتیں دہشت گردی کے خلاف ہونے والی کارروائیاں مستقل طور پر بارآور ثابت نہیں ہو سکتیں۔
پاکستانی ہائی کمشنر نے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا' ترجمان دفتر خارجہ نے بھی اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہماری دعائیں اور ہمدردیاں متاثرین اور زخمیوں کے ساتھ ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے برطانوی وزیراعظم کو دہشت گردی کے خلاف حمایت کا یقین دلایا۔ دہشت گردی کا یہ واقعہ بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں ہونے والے حملوں کی پہلی برسی کے دن ہوا۔ ان حملوں سے 32افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
برسلز حملوں کی ذمے داری داعش نے قبول کر لی تھی۔ لندن کے حالیہ حملے کے بارے میں برطانوی پولیس اور ادارے تحقیقات کر رہے ہیں اصل صورت حال تو تحقیقاتی رپورٹ آنے کے بعد سامنے آئے گی کہ یہ حملہ کیوں کیا گیا اور اس کے پیچھے کون لوگ ملوث ہیں اور وہ کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے تاہم ایک برطانوی اخبار کے مطابق حملہ آور ٹریور بروکس نے مسلمان ہو کر اپنا نام ابو عزالدین رکھ لیا تھا اسے دہشت گردی پر اکسانے اور فنڈز جمع کرنے کا مجرم قرار دیتے ہوئے 2008میں ساڑھے چار سال کی سزا ہوئی تھی البتہ ملزم کی شناخت کے حوالے سے متضاد دعوے سامنے آ رہے ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسے مشکوک شخص کی برطانوی انٹیلی جنس اداروں نے مسلسل نگرانی کیوں نہیں کی' برسلز حملے کے ملزمان بھی مشکوک لوگ تھے اور انھوں نے بھی انتہا پسندوں کی مدد کی تھی اور اس الزام میں جیلیں کاٹی تھیں لیکن رہائی کے بعد ان کی نگرانی نہیں کی گئی جس کی وجہ سے وہ دہشت گردی کی نئی واردات کے قابل ہو گئے۔ بہر حال کافی عرصے سے یورپ اور برطانیہ میں بھی دہشت گردی کی کارروائیاں رونما ہو رہی ہیں، ان کارروائیوں کے پیچھے مسلمانوں کے نام ہی سامنے آئے ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ یورپ جیسے پرامن' ترقی یافتہ اور ماڈرن خیالات کے حامل ممالک میں بودوباش اختیار کرنے کے باوجود چند مسلمان انتہا پسندی اختیار کرتے ہوئے دہشت گردی کی کارروائیوں پر اتر آئے ہیں۔
امریکا اور یورپ دہشت گردی کی کارروائیاں روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں لیکن جب تک امریکا اور طاقتور یورپی قوتیں مسلمان ممالک کے خلاف اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتیں تب تک یورپ میں دہشت گردی کی کارروائیاں روکنا ایک مشکل امر ہے۔ افغانستان' عراق' شام اور لیبیا میں ہونے والی تباہی کے پس منظر میں امریکا اور یورپی قوتوں کی منصوبہ بندی شامل ہے' ان کا یہی معاندانہ اور متعصبانہ رویہ چند ایک مسلمانوں کو دہشت گردی پر اکساتا ہے لہٰذا جب تک بنیادی اسباب اور وجوہات دور نہیں کی جاتیں دہشت گردی کے خلاف ہونے والی کارروائیاں مستقل طور پر بارآور ثابت نہیں ہو سکتیں۔