تنخواہوں کے لیے بلکتے بلدیاتی ملازمین
سندھ پاکستان کا واحد صوبہ ہے جہاں محکمہ بلدیات کے ملازمین کے لیے گزشتہ کئی سال سے پہلی تاریخ کی اہمیت ختم ہو چکی ہے
کبھی یہ گانا بڑا مشہور تھاکہ خوش ہے زمانہ آج پہلی تاریخ ہے، اس گانے سے مراد یہ لی جاتی تھی کہ ملازمتیں کرنے والوں کا مہینہ مکمل ہوا اور پہلی تاریخ آ گئی جس پر انھیں مہینہ بھر کی محنت کا صلہ تنخواہوں کی صورت میں ملے گا۔
ملازم پیشہ افراد کو نئے ماہ کی پہلی تاریخ کا شدید انتظاراسی لیے ہوا کرتا تھا اور تنخواہ ملنے کا دن ان کے لیے ہی نہیں بلکہ ان کے اہل خانہ کے ساتھ ان کاروباری افراد کے لیے بھی خوشی کا دن ہوتا تھا جو اپنے ملازمت پیشہ مستقل گاہکوں کو مہینہ مکمل ہونے اور تنخواہ ملنے کے آسرے پر ادھار دیا کرتے تھے کہ پہلی تاریخ ہوگئی۔ اب انھیں مہینہ بھر ادھار دیے گئے سامان کا بل ملے گا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اوراب تک چل رہا ہے کیونکہ صرف تنخواہ پر گزارا اور مہینہ بھر ادھار میں سامان لے کر تنخواہ کا انتظارکرنے والوں کی جائزآمدنی کا یہی حقیقی ذریعہ تھا جس کے ملنے کے بعد وہ دکانداروں کا ادھار ادا کرتے اورباقی بچ جانے والی رقم اپنے اپنے گھریلو بجٹ کے مطابق استعمال کرتے تھے۔
سندھ پاکستان کا واحد صوبہ ہے جہاں محکمہ بلدیات کے ملازمین کے لیے گزشتہ کئی سال سے پہلی تاریخ کی اہمیت ختم ہو چکی ہے، کیونکہ انھیں گزشتہ ماہ کی تنخواہ دوسرے تیسرے ہفتے میں یا اس کے بھی بعد ملتی ہے اور اندرون سندھ محکمہ بلدیات کے ماتحت مختلف اداروں کے ملازموں کو تو کئی کئی ماہ تک تنخواہیں نہیں ملتیں۔اندرون سندھ یونین کونسلوں، ٹاؤن اور میونسپل کمیٹیوں میں توکیا ضلع کونسلوں،کراچی کی ڈسٹرکٹ میونسپل کمیٹیوں اور بلدیہ عظمیٰ کراچی، حیدرآباد اورسکھر میں بھی وقت پر تنخواہیں نہ ملنا معمول بنا ہوا ہے۔ سندھ میں بلدیاتی اداروں کی جتنی بری حالت ہے، اتنی کسی صوبے میں نہیں ہے۔ یہ وہی بلدیاتی ادارے ہیں جو جنرل پرویز مشرف دور کی ضلع حکومتوں میں اس قدر مالی بحران کا شکار نہیں تھے جتنے اب بنا دیے گئے ہیں جو تمام کے تمام مالی بحران کا شکار ہیں۔ جن میں بعض میں مالی بحران اس قدر شدید ہوچکا ہے کہ وہ وقت پر اپنے ملازمین کو ہر ماہ باقاعدہ تنخواہ بھی نہیں دے پا رہے ہیں۔
محصول چونگی پہلے ہر بلدیاتی ادارے کے پاس آمدن کا معقول ذریعہ تھا جو ہر سال ٹھیکے پر محصول چونگی کا کام دے دیا جاتا تھا جو ہر ماہ ٹھیکے کی ماہانہ مقررہ رقم اپنے بلدیاتی ادارے کو دیا کرتا تھا،جس سے ملازمین کی تنخواہ ادا کی جاتی تھی۔ جنرل ضیا الحق نے 1979ء کے بلدیاتی نظام میں ہر ضلع کونسل کو ضلع سے باہر لے جانے والے مال پر ضلع ٹیکس وصول کرنے کا اختیار دیا گیا تھا جس کی آمدنی سے ضلع کونسلیں اپنی یونین کونسلوں کو رقم فراہم کیا کرتی تھیں مگر 1990ء میں میاں نواز شریف نے وزیراعظم بننے کے بعد محصول چونگی اور ضلع ٹیکس ختم کردیا تھا جس کا فائدہ دوسرے علاقوں سے مال لانے اور اپنے علاقوں سے دوسرے علاقوں میں مال بھیجنے والوں کو ہوا مگر لوگوں کو نہیں ہوا۔
وفاقی حکومت نے محصول و ضلع ٹیکس ختم ہونے کے بعد او زیڈ ٹی کے تحت بلدیاتی ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے ہر ماہ ہر صوبے کو مقررہ رقم بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا تھا جو ہر صوبائی محکمہ خزانہ اپنے صوبے کے تمام بلدیاتی اداروں کو بھیجتا آ رہا ہے جس میں آنے میں تاخیر بھی ہو جاتی ہے اور محکمہ خزانہ میں بھی لاپرواہی سے چیک دیر سے بھیجے جاتے ہیں۔ او زیڈ ٹی کی رقم اور اپنی آمدن سے ہر بلدیاتی ادارہ بجٹ بنا کر ترقیاتی اورغیر ترقیاتی رقم مختص کرتا ہے۔ ہر سال سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ ہونے کی وجہ سے ہر بلدیاتی ادارے میں غیر ترقیاتی رقم بڑھتے اور ترقیاتی رقم کم ہوتے ہوتے اور ہر جگہ ضرورت سے زیادہ بلدیاتی عملہ سیاسی مفاد کے لیے بھرتی کرتے ہوئے بلدیاتی فنڈ نہیں دیکھا جاتا اور فاضل عملہ بھرتی کر کے ہر بلدیاتی ادارے کو یتیم خانہ بنا دیا گیا ہے جہاں سیاسی کارکن پل رہے ہیں اور ترقیاتی کاموں کے لیے رقم نہیں بچتی، جس کی وجہ سے شہریوں کے بلدیہ مسائل بڑھتے بڑھتے اب تشویشناک صورتحال اختیار کر گئے ہیں۔
محکمہ بلدیات سندھ کے مختلف اداروں میں افسران ملازمین کے لیے تنخواہوں کی بروقت ادائیگی میں ناکام رہے ہیں، جس پر سندھ بھر میں بلدیاتی اداروں کے ملازمین مسلسل احتجاج کرتے آرہے ہیں مگرکہیں بھی بلدیاتی ملازمین کو وقت پر تنخواہیں نہیں دی جا رہی ہیں۔ بلدیاتی اداروں کی مختلف یونینز بروقت تنخواہ کی ادائیگی کے علاوہ خراب گاڑیوں اور مشینری کی مرمت، عملہ، صفائی اور فائربریگیڈ کے عملے کو یونیفارم ودیگر سہولتوں، پشنرزکو پنشن کی ادائیگی اور دیگر الاؤنسز دینے کے مسلسل مطالبے کر رہی ہیں اورسندھ بھر میں بلدیاتی ملازمین تنخواہ کے لیے احتجاج، دفاتر کی تالا بندی اور ہڑتالیں کرتے ہیں تو افسران انھیں یقین دہانیاں کرکے ٹرخا دیتے ہیں اور فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے عمل نہیں ہوتا۔
محکمہ بلدیات واحد محکمہ ہے جس کے ماتحت فراہمی و نکاسی آب کے ادارے، اسپتال و ڈسپنسریاں، صوبے میں جائیدادوں کے نقشے پاس کرنے والی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، بڑے شہروں کے ترقیاتی ادارے ہیں۔ تنخواہیں نہ ملنے سے متعدد ملازمین انتقال کرجاتے ہیں اور پنشنرز پنشن نہ ملنے کی وجہ پنشن ملنے کے آسرے پر علاج نہ کرانے سے فوت ہوجائیں یا ان کے گھروں میں فاقے ہوں محکمہ بلدیات کو کوئی فکر نہیں نہ صوبائی حکومت بلدیاتی ملازمین کی ہر ماہ تنخواہوں کی باقاعدگی سے ادائیگی ممکن بنا رہی ہے۔
بلدیاتی اداروں میں تنخواہیں نہ ملنے سے چند ماہ قبل بلدیہ عظمیٰ کے ایک ملازم نے سوک سینٹر سے گرکرخودکشی کرلی تھی۔ گزشتہ ماہ واسا حیدرآباد کے ملازم نے تنخواہ نہ ملنے پر جان دے دی تھی اور حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ایک ملازم نے 8 ماہ سے تنخواہ نہ ملنے پر خود سوزی کرلی ہے۔ چھوٹے شہروں کے بلدیاتی ملازمین پر تنخواہیں نہ ملنے سے جوگزر رہی ہے وہ میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوتے مگروزیر اعلیٰ سندھ کو اس طرف توجہ دینے کی فرصت نہیں ہے۔
بلدیاتی ادارے وہ سرکاری ادارے ہیں جو اپنے علاقوں سے اپنی عمارتوں عوام سے وصول ہونے والے ٹیکسوں اور دیگر وسائل سے حاصل آمدنی سے اپنے عملے کو تنخواہیں بھی دیتے تھے۔ تعمیری و ترقیاتی کام کرانے کے علاوہ عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرتے تھے جہاں عملہ محدود ہوتا تھا مگر جمہوری حکومتوں نے اپنی من مانی کے لیے کبھی بلدیاتی انتخابات نہیں ہونے دیے اور سیاسی کارکنوں کو غیر ضروری طور بھرتی کرکے بلدیاتی اداروں کو اس حال میں پہنچا دیا ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے کے قابل نہیں رہے ہیں ۔ خود مختار بلدیاتی اداروں کوایڈمنسٹریٹروں کے تسلط میں دے کر حکومتوں نے برباد کرکے اپنا محتاج بنا رکھا ہے جہاں تنخواہیں نہ ملنے سے لوگ مر رہے ہیں۔
ملازم پیشہ افراد کو نئے ماہ کی پہلی تاریخ کا شدید انتظاراسی لیے ہوا کرتا تھا اور تنخواہ ملنے کا دن ان کے لیے ہی نہیں بلکہ ان کے اہل خانہ کے ساتھ ان کاروباری افراد کے لیے بھی خوشی کا دن ہوتا تھا جو اپنے ملازمت پیشہ مستقل گاہکوں کو مہینہ مکمل ہونے اور تنخواہ ملنے کے آسرے پر ادھار دیا کرتے تھے کہ پہلی تاریخ ہوگئی۔ اب انھیں مہینہ بھر ادھار دیے گئے سامان کا بل ملے گا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اوراب تک چل رہا ہے کیونکہ صرف تنخواہ پر گزارا اور مہینہ بھر ادھار میں سامان لے کر تنخواہ کا انتظارکرنے والوں کی جائزآمدنی کا یہی حقیقی ذریعہ تھا جس کے ملنے کے بعد وہ دکانداروں کا ادھار ادا کرتے اورباقی بچ جانے والی رقم اپنے اپنے گھریلو بجٹ کے مطابق استعمال کرتے تھے۔
سندھ پاکستان کا واحد صوبہ ہے جہاں محکمہ بلدیات کے ملازمین کے لیے گزشتہ کئی سال سے پہلی تاریخ کی اہمیت ختم ہو چکی ہے، کیونکہ انھیں گزشتہ ماہ کی تنخواہ دوسرے تیسرے ہفتے میں یا اس کے بھی بعد ملتی ہے اور اندرون سندھ محکمہ بلدیات کے ماتحت مختلف اداروں کے ملازموں کو تو کئی کئی ماہ تک تنخواہیں نہیں ملتیں۔اندرون سندھ یونین کونسلوں، ٹاؤن اور میونسپل کمیٹیوں میں توکیا ضلع کونسلوں،کراچی کی ڈسٹرکٹ میونسپل کمیٹیوں اور بلدیہ عظمیٰ کراچی، حیدرآباد اورسکھر میں بھی وقت پر تنخواہیں نہ ملنا معمول بنا ہوا ہے۔ سندھ میں بلدیاتی اداروں کی جتنی بری حالت ہے، اتنی کسی صوبے میں نہیں ہے۔ یہ وہی بلدیاتی ادارے ہیں جو جنرل پرویز مشرف دور کی ضلع حکومتوں میں اس قدر مالی بحران کا شکار نہیں تھے جتنے اب بنا دیے گئے ہیں جو تمام کے تمام مالی بحران کا شکار ہیں۔ جن میں بعض میں مالی بحران اس قدر شدید ہوچکا ہے کہ وہ وقت پر اپنے ملازمین کو ہر ماہ باقاعدہ تنخواہ بھی نہیں دے پا رہے ہیں۔
محصول چونگی پہلے ہر بلدیاتی ادارے کے پاس آمدن کا معقول ذریعہ تھا جو ہر سال ٹھیکے پر محصول چونگی کا کام دے دیا جاتا تھا جو ہر ماہ ٹھیکے کی ماہانہ مقررہ رقم اپنے بلدیاتی ادارے کو دیا کرتا تھا،جس سے ملازمین کی تنخواہ ادا کی جاتی تھی۔ جنرل ضیا الحق نے 1979ء کے بلدیاتی نظام میں ہر ضلع کونسل کو ضلع سے باہر لے جانے والے مال پر ضلع ٹیکس وصول کرنے کا اختیار دیا گیا تھا جس کی آمدنی سے ضلع کونسلیں اپنی یونین کونسلوں کو رقم فراہم کیا کرتی تھیں مگر 1990ء میں میاں نواز شریف نے وزیراعظم بننے کے بعد محصول چونگی اور ضلع ٹیکس ختم کردیا تھا جس کا فائدہ دوسرے علاقوں سے مال لانے اور اپنے علاقوں سے دوسرے علاقوں میں مال بھیجنے والوں کو ہوا مگر لوگوں کو نہیں ہوا۔
وفاقی حکومت نے محصول و ضلع ٹیکس ختم ہونے کے بعد او زیڈ ٹی کے تحت بلدیاتی ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے ہر ماہ ہر صوبے کو مقررہ رقم بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا تھا جو ہر صوبائی محکمہ خزانہ اپنے صوبے کے تمام بلدیاتی اداروں کو بھیجتا آ رہا ہے جس میں آنے میں تاخیر بھی ہو جاتی ہے اور محکمہ خزانہ میں بھی لاپرواہی سے چیک دیر سے بھیجے جاتے ہیں۔ او زیڈ ٹی کی رقم اور اپنی آمدن سے ہر بلدیاتی ادارہ بجٹ بنا کر ترقیاتی اورغیر ترقیاتی رقم مختص کرتا ہے۔ ہر سال سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ ہونے کی وجہ سے ہر بلدیاتی ادارے میں غیر ترقیاتی رقم بڑھتے اور ترقیاتی رقم کم ہوتے ہوتے اور ہر جگہ ضرورت سے زیادہ بلدیاتی عملہ سیاسی مفاد کے لیے بھرتی کرتے ہوئے بلدیاتی فنڈ نہیں دیکھا جاتا اور فاضل عملہ بھرتی کر کے ہر بلدیاتی ادارے کو یتیم خانہ بنا دیا گیا ہے جہاں سیاسی کارکن پل رہے ہیں اور ترقیاتی کاموں کے لیے رقم نہیں بچتی، جس کی وجہ سے شہریوں کے بلدیہ مسائل بڑھتے بڑھتے اب تشویشناک صورتحال اختیار کر گئے ہیں۔
محکمہ بلدیات سندھ کے مختلف اداروں میں افسران ملازمین کے لیے تنخواہوں کی بروقت ادائیگی میں ناکام رہے ہیں، جس پر سندھ بھر میں بلدیاتی اداروں کے ملازمین مسلسل احتجاج کرتے آرہے ہیں مگرکہیں بھی بلدیاتی ملازمین کو وقت پر تنخواہیں نہیں دی جا رہی ہیں۔ بلدیاتی اداروں کی مختلف یونینز بروقت تنخواہ کی ادائیگی کے علاوہ خراب گاڑیوں اور مشینری کی مرمت، عملہ، صفائی اور فائربریگیڈ کے عملے کو یونیفارم ودیگر سہولتوں، پشنرزکو پنشن کی ادائیگی اور دیگر الاؤنسز دینے کے مسلسل مطالبے کر رہی ہیں اورسندھ بھر میں بلدیاتی ملازمین تنخواہ کے لیے احتجاج، دفاتر کی تالا بندی اور ہڑتالیں کرتے ہیں تو افسران انھیں یقین دہانیاں کرکے ٹرخا دیتے ہیں اور فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے عمل نہیں ہوتا۔
محکمہ بلدیات واحد محکمہ ہے جس کے ماتحت فراہمی و نکاسی آب کے ادارے، اسپتال و ڈسپنسریاں، صوبے میں جائیدادوں کے نقشے پاس کرنے والی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، بڑے شہروں کے ترقیاتی ادارے ہیں۔ تنخواہیں نہ ملنے سے متعدد ملازمین انتقال کرجاتے ہیں اور پنشنرز پنشن نہ ملنے کی وجہ پنشن ملنے کے آسرے پر علاج نہ کرانے سے فوت ہوجائیں یا ان کے گھروں میں فاقے ہوں محکمہ بلدیات کو کوئی فکر نہیں نہ صوبائی حکومت بلدیاتی ملازمین کی ہر ماہ تنخواہوں کی باقاعدگی سے ادائیگی ممکن بنا رہی ہے۔
بلدیاتی اداروں میں تنخواہیں نہ ملنے سے چند ماہ قبل بلدیہ عظمیٰ کے ایک ملازم نے سوک سینٹر سے گرکرخودکشی کرلی تھی۔ گزشتہ ماہ واسا حیدرآباد کے ملازم نے تنخواہ نہ ملنے پر جان دے دی تھی اور حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ایک ملازم نے 8 ماہ سے تنخواہ نہ ملنے پر خود سوزی کرلی ہے۔ چھوٹے شہروں کے بلدیاتی ملازمین پر تنخواہیں نہ ملنے سے جوگزر رہی ہے وہ میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوتے مگروزیر اعلیٰ سندھ کو اس طرف توجہ دینے کی فرصت نہیں ہے۔
بلدیاتی ادارے وہ سرکاری ادارے ہیں جو اپنے علاقوں سے اپنی عمارتوں عوام سے وصول ہونے والے ٹیکسوں اور دیگر وسائل سے حاصل آمدنی سے اپنے عملے کو تنخواہیں بھی دیتے تھے۔ تعمیری و ترقیاتی کام کرانے کے علاوہ عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرتے تھے جہاں عملہ محدود ہوتا تھا مگر جمہوری حکومتوں نے اپنی من مانی کے لیے کبھی بلدیاتی انتخابات نہیں ہونے دیے اور سیاسی کارکنوں کو غیر ضروری طور بھرتی کرکے بلدیاتی اداروں کو اس حال میں پہنچا دیا ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے کے قابل نہیں رہے ہیں ۔ خود مختار بلدیاتی اداروں کوایڈمنسٹریٹروں کے تسلط میں دے کر حکومتوں نے برباد کرکے اپنا محتاج بنا رکھا ہے جہاں تنخواہیں نہ ملنے سے لوگ مر رہے ہیں۔