احترام انسانیت اور ہمارا دوغلاپن
اسلام کی تعلیمات کے مطابق خونی رشتوں کے بغیر بھی سارے انسان ایک دوسرے کے بھائی بہن ہیں۔
رب تعالیٰ نے انسان کو بہترین مخلوق اور لایق تعظیم و عزت بنانے کے ساتھ زمین پر اسے اپنا نائب اور خلیفہ بھی بنایا۔
رب تعالیٰ قرآن میں خود فرماتا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ بے شک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی اور ان کو خشکی و تری میں سوار کیا اور ان کو ستھری چیزیں دیں اور ان کو اپنی بہت سی مخلوقات سے افضل بنایا۔
رب کریم کے احسانات میں سے اپنے بندوں پر ایک یہ بھی بہت بڑا احسان ہے کہ رب تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ رب تعالیٰ نے انسانوں کو احترام انسانیت، ایک دوسرے کے ساتھ بھلائی اور اچھائی کی بھی تلقین فرمائی۔ قرآن پاک میں مختلف مقامات پر رشتے داروں اور عام لوگوں کے ساتھ بھلائی کا حکم دیا گیا ہے۔
ارشاد خداوندی کا مفہوم ہے کہ ﷲ کی بندگی کرو، اس کا شریک کسی کو نہ بناؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتے داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی کے ساتھ۔ بے شک ﷲ تکبّر کرنے والے اور شیخی بگھارنے والے کو پسند نہیں کرتا۔
رب تعالیٰ نے انسانوں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق ادا کرنے کی ہدایت اور تاکید فرمائی اور احترام انسانیت کو ایمان کی شرط قرار دیا۔ آقائے دو جہاں حضرت محمدؐ نے نہ صرف انسانیت کے احترام کی تلقین کی، بل کہ اسے عملی طور پر کرکے بھی دکھایا۔ حتیٰ کہ آپؐ جنگ کے دوران بھی انسانیت کے احترام کا حکم دیتے۔ آپؐ غزوات میں بھی خصوصاً عورتوں، بچوں، بوڑھوں کا خیال رکھنے کا حکم اور ان کو قتل کرنے سے منع فرماتے۔ آپؐ نے مہاجر و انصار کو بھائی بھائی بناکر ایثار و اخوت اور انسانیت کی جو مثال قائم کی، تاریخ اس جیسی کوئی اور مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
دین اسلام رنگ، نسل اور مذہب کی تفریق کے بغیر احترام انسانیت کی تلقین کرتا اور انسانیت پر کہیں بھی ہونے والے جبر و تشدد کی پرزور مذمت کرتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات کے مطابق خونی رشتوں کے بغیر بھی سارے انسان ایک دوسرے کے بھائی بہن ہیں۔ رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی تفریق کے باوجود سب انسانوں کے حقوق یک ساں ہیں۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو ساری انسانیت کا ہم درد بناتا ہے تاکہ معاشرہ پرامن رہے۔
رب تعالیٰ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ اور ﷲ کی محبت میں وہ مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ ہم نے یہ کام صرف ﷲ کی خوش نودی کے لیے کیا۔ ہم تم سے کوئی شکریہ یا بدلہ نہیں چاہتے۔ ہمیں تو اپنے رب سے اس دن کا ڈر ہے جو سخت اور طویل ہوگا۔
ﷲ کی محبت میں بھوکے، مسکین، یتیم، قیدی اور مسافر کو کھانا کھلانا یہ ہے انسانی خدمت، اور بغیر کسی رنگ، نسل و فرقہ کی تفریق کے سارے انسانوں کے حقوق کی پاس داری کرنا، یہ ہے احترام انسانیت۔
زمانۂ جہالت میں انسانیت کا کوئی وجود نہیں تھا۔ ایک دوسرے کی تذلیل، گالم گلوچ، لڑائی جھگڑے معمول کی بات سمجھی جاتی تھی اور باعث فخر ہوتی تھی۔ آپؐ نے اپنے اخلاق حسنہ اور تعلیمات سے ایسی برائیوں کا خاتمہ کیا۔ بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کرنا سب سے الم ناک انسانیت سوز رسم اور رواج تھا۔ آپؐ نے عورت کو پاتال سے اٹھا کر تخت ثریا تک پہنچا دیا۔
بیٹی کی پرورش کرنے والے کو جنت میں اپنا ساتھی قرار دے دیا۔ غلاموں، باندیوں اور ملازمین سے ناروا سلوک کرنے والوں کے لیے آپؐ نے حضرت بلال حبشیؓ کو ایک مثال بنادیا۔ جن کے قدموں کی آہٹ کو آپؐ نے جنت میں سنا۔ پھر حضرت زید بن حارثہؓ کو منہ بولا بیٹا بناکر غلاموں کی عزت و توقیر اور انسانیت کی تکریم کی ایک روشن مثال قایم کی۔ آزادی، غلامی، اونچ نیچ، ایک وقت ہے، ایک صورت ہے جو آتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ وقت گزرتا جاتا ہے مگر اس سب اتار چڑھاؤ میں افضل و اعلیٰ انسانیت ہے جو ہمیشہ واجب احترام تھی، ہے اور رہے گی۔
آج کل ہمارے ہاں گھروں میں چھوٹے بچوں کو ملازم رکھنے کا رواج بڑھتا جا رہا ہے۔ کہیں ملازم بنا کر، کہیں بے بی میڈ کا نام دے کر معصوم و مجبور بچوں کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ حضور اقدسؐ کا بچوں سے پیار اور شفقت کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ آپؐ نے تو کفار و مشرکین کے بچوں سے بھی ہمیشہ پیار کیا۔ آج ہمارے گھروں میں کام کرنے والے مجبور و بے کس والدین کے معصوم بچوں کو گرم راڈ کے ساتھ جلایا اور پیٹا جاتا ہے۔ انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، انہیں بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے، ان کے حقوق کو بری طرح سے کچلا جاتا ہے اور ہم پھر بھی خود کو انسان دوست کہتے ہیں۔ ہمیں اپنے گھر کے اندر ظلم کا شکار ہونے والے ان معصوم بچوں کے چہرے کیوں نظر نہیں آتے۔
کیا یہ سب انسانیت کے دائرے میں شامل نہیں۔ ہم اپنے بچوں کو تو اعلی اسکولوں میں پڑھائیں، انھیں گرم و سرد سے بچا کر رکھیں اور ملازمت کے نام پر کچھ کوڑیوں کے عوض لیے گئے بچوں کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کیا جائے، کیا یہی ہے انسانیت۔ آپؐ نے تو کفار کے بچوں کے ساتھ بھی احسان و بھلائی کی تلقین کی اور ہم آج کیا کر رہے ہیں، یہ ایک لمحہ فکریہ اور معاشرے کے لیے باعث شرم و ندامت ہے۔
ہم اگر انسان ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور اگر ہم رسول کریمؐ کے امتی ہونے پر فخر کرتے ہیں تو ہمیں آپؐ کی تعلیمات پر بھی عمل پیرا ہونا چاہیے کہ بغیر آپؐ کے اسوۂ حسنہ پر عمل کیے، ہمارے سارے دعوے باطل اور عبث ہیں۔
ہمیں اپنے ملازمین کو بھی اپنے جیسا انسان سمجھنا چاہیے اور ان کے حقوق کی بھی پاس داری کرنی چاہیے اور خصوصا ہمیں ان معاشی مسائل کے شکار والدین کے مجبور و بے کس و معصوم بچوں کو جو ہمارے گھروں میں ہماری راحت و آرام کا سبب ہیں، کے ساتھ انتہائی مشفقانہ رویہ اور محبت بھرا سلوک کرنا چاہیے کہ وہ بھی آخر بچے اور ان کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے کہ ہمارے بچوں کے ہیں۔
ﷲ تعالیٰ ہمیں اسوۂ رسول کریمؐ اور تعلیمات اسلامی پر چلنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
رب تعالیٰ قرآن میں خود فرماتا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ بے شک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی اور ان کو خشکی و تری میں سوار کیا اور ان کو ستھری چیزیں دیں اور ان کو اپنی بہت سی مخلوقات سے افضل بنایا۔
رب کریم کے احسانات میں سے اپنے بندوں پر ایک یہ بھی بہت بڑا احسان ہے کہ رب تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ رب تعالیٰ نے انسانوں کو احترام انسانیت، ایک دوسرے کے ساتھ بھلائی اور اچھائی کی بھی تلقین فرمائی۔ قرآن پاک میں مختلف مقامات پر رشتے داروں اور عام لوگوں کے ساتھ بھلائی کا حکم دیا گیا ہے۔
ارشاد خداوندی کا مفہوم ہے کہ ﷲ کی بندگی کرو، اس کا شریک کسی کو نہ بناؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتے داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی کے ساتھ۔ بے شک ﷲ تکبّر کرنے والے اور شیخی بگھارنے والے کو پسند نہیں کرتا۔
رب تعالیٰ نے انسانوں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق ادا کرنے کی ہدایت اور تاکید فرمائی اور احترام انسانیت کو ایمان کی شرط قرار دیا۔ آقائے دو جہاں حضرت محمدؐ نے نہ صرف انسانیت کے احترام کی تلقین کی، بل کہ اسے عملی طور پر کرکے بھی دکھایا۔ حتیٰ کہ آپؐ جنگ کے دوران بھی انسانیت کے احترام کا حکم دیتے۔ آپؐ غزوات میں بھی خصوصاً عورتوں، بچوں، بوڑھوں کا خیال رکھنے کا حکم اور ان کو قتل کرنے سے منع فرماتے۔ آپؐ نے مہاجر و انصار کو بھائی بھائی بناکر ایثار و اخوت اور انسانیت کی جو مثال قائم کی، تاریخ اس جیسی کوئی اور مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
دین اسلام رنگ، نسل اور مذہب کی تفریق کے بغیر احترام انسانیت کی تلقین کرتا اور انسانیت پر کہیں بھی ہونے والے جبر و تشدد کی پرزور مذمت کرتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات کے مطابق خونی رشتوں کے بغیر بھی سارے انسان ایک دوسرے کے بھائی بہن ہیں۔ رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی تفریق کے باوجود سب انسانوں کے حقوق یک ساں ہیں۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو ساری انسانیت کا ہم درد بناتا ہے تاکہ معاشرہ پرامن رہے۔
رب تعالیٰ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ اور ﷲ کی محبت میں وہ مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ ہم نے یہ کام صرف ﷲ کی خوش نودی کے لیے کیا۔ ہم تم سے کوئی شکریہ یا بدلہ نہیں چاہتے۔ ہمیں تو اپنے رب سے اس دن کا ڈر ہے جو سخت اور طویل ہوگا۔
ﷲ کی محبت میں بھوکے، مسکین، یتیم، قیدی اور مسافر کو کھانا کھلانا یہ ہے انسانی خدمت، اور بغیر کسی رنگ، نسل و فرقہ کی تفریق کے سارے انسانوں کے حقوق کی پاس داری کرنا، یہ ہے احترام انسانیت۔
زمانۂ جہالت میں انسانیت کا کوئی وجود نہیں تھا۔ ایک دوسرے کی تذلیل، گالم گلوچ، لڑائی جھگڑے معمول کی بات سمجھی جاتی تھی اور باعث فخر ہوتی تھی۔ آپؐ نے اپنے اخلاق حسنہ اور تعلیمات سے ایسی برائیوں کا خاتمہ کیا۔ بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کرنا سب سے الم ناک انسانیت سوز رسم اور رواج تھا۔ آپؐ نے عورت کو پاتال سے اٹھا کر تخت ثریا تک پہنچا دیا۔
بیٹی کی پرورش کرنے والے کو جنت میں اپنا ساتھی قرار دے دیا۔ غلاموں، باندیوں اور ملازمین سے ناروا سلوک کرنے والوں کے لیے آپؐ نے حضرت بلال حبشیؓ کو ایک مثال بنادیا۔ جن کے قدموں کی آہٹ کو آپؐ نے جنت میں سنا۔ پھر حضرت زید بن حارثہؓ کو منہ بولا بیٹا بناکر غلاموں کی عزت و توقیر اور انسانیت کی تکریم کی ایک روشن مثال قایم کی۔ آزادی، غلامی، اونچ نیچ، ایک وقت ہے، ایک صورت ہے جو آتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ وقت گزرتا جاتا ہے مگر اس سب اتار چڑھاؤ میں افضل و اعلیٰ انسانیت ہے جو ہمیشہ واجب احترام تھی، ہے اور رہے گی۔
آج کل ہمارے ہاں گھروں میں چھوٹے بچوں کو ملازم رکھنے کا رواج بڑھتا جا رہا ہے۔ کہیں ملازم بنا کر، کہیں بے بی میڈ کا نام دے کر معصوم و مجبور بچوں کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ حضور اقدسؐ کا بچوں سے پیار اور شفقت کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ آپؐ نے تو کفار و مشرکین کے بچوں سے بھی ہمیشہ پیار کیا۔ آج ہمارے گھروں میں کام کرنے والے مجبور و بے کس والدین کے معصوم بچوں کو گرم راڈ کے ساتھ جلایا اور پیٹا جاتا ہے۔ انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، انہیں بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے، ان کے حقوق کو بری طرح سے کچلا جاتا ہے اور ہم پھر بھی خود کو انسان دوست کہتے ہیں۔ ہمیں اپنے گھر کے اندر ظلم کا شکار ہونے والے ان معصوم بچوں کے چہرے کیوں نظر نہیں آتے۔
کیا یہ سب انسانیت کے دائرے میں شامل نہیں۔ ہم اپنے بچوں کو تو اعلی اسکولوں میں پڑھائیں، انھیں گرم و سرد سے بچا کر رکھیں اور ملازمت کے نام پر کچھ کوڑیوں کے عوض لیے گئے بچوں کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کیا جائے، کیا یہی ہے انسانیت۔ آپؐ نے تو کفار کے بچوں کے ساتھ بھی احسان و بھلائی کی تلقین کی اور ہم آج کیا کر رہے ہیں، یہ ایک لمحہ فکریہ اور معاشرے کے لیے باعث شرم و ندامت ہے۔
ہم اگر انسان ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور اگر ہم رسول کریمؐ کے امتی ہونے پر فخر کرتے ہیں تو ہمیں آپؐ کی تعلیمات پر بھی عمل پیرا ہونا چاہیے کہ بغیر آپؐ کے اسوۂ حسنہ پر عمل کیے، ہمارے سارے دعوے باطل اور عبث ہیں۔
ہمیں اپنے ملازمین کو بھی اپنے جیسا انسان سمجھنا چاہیے اور ان کے حقوق کی بھی پاس داری کرنی چاہیے اور خصوصا ہمیں ان معاشی مسائل کے شکار والدین کے مجبور و بے کس و معصوم بچوں کو جو ہمارے گھروں میں ہماری راحت و آرام کا سبب ہیں، کے ساتھ انتہائی مشفقانہ رویہ اور محبت بھرا سلوک کرنا چاہیے کہ وہ بھی آخر بچے اور ان کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے کہ ہمارے بچوں کے ہیں۔
ﷲ تعالیٰ ہمیں اسوۂ رسول کریمؐ اور تعلیمات اسلامی پر چلنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین