کہکشاں جیسے زمین پر اتر آئی
پنجاب یونیورسٹی کالج آف آرٹ اینڈ ڈیزائن نے پاکستان کیلی گرافک ایسوسی ایشن کے اشتراک سےکانفرنس کا اہتمام کیا۔
ISLAMABAD:
کہا جاتا ہے کہ جس قوم کی پہچان ختم کرنی ہو تو اسکے لئے جنگ وجدل کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے فنون لطیفہ، ادب اور ثقافت کو مٹا دیا جائے تو اس کی شناخت خود بخود مٹ جائے گی۔
اس لئے زندہ قومیں اپنے آرٹ اور ثقافت کی نہ صرف حفاظت کرتی ہیں بلکہ اپنے فنون کو دوسری تہذیبوں سے متعارف کروانے کیلئے بھی خاطر خواہ کام کرتی ہیں اور اس کیلئے تشہیر کے مختلف انداز اپناتی ہیں۔ خطاطی (کیلی گرافی) کا فن نہ صرف برصغیر پاک وہند بلکہ پوری دنیا میں اسلامی تہذیب کی پہچان بنا، مسلمان خطاطوں نے اس فن میں نہ صرف اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا بلکہ بے شمار نئے رسم الخط بھی ایجاد کئے، جن کے دم پر آج دنیا میں کئی زبا نیں زندہ ہیں۔
بدقسمتی سے عالم اسلام اپنے اسلاف کی بے شمار اقدار کی طرح خطاطی کے اس فن کو بھی بچانے میں ناکام رہا اور جدید ٹیکنالوجی کے آگے گھٹنے ٹیک دیے،کمرشل آرٹسٹوں نے جدید اسلوب کے نا م پر بے ڈھنگے انداز سے اس نفیس آرٹ کے حسن کو گہنا دیا۔ پاکستان میں خطاطی کے دم توڑتے ہوئے فن کو نئی زندگی دینے کیلئے پنجاب یونیورسٹی کالج آف آرٹ اینڈ ڈیزائن کی انتظامیہ نے پاکستان کیلی گرافک ایسوسی ایشن کے اشتراک سے گذشتہ دنوں صریر خامہ آرٹ آف پین(قلم کا فن) کے عنوان سے ایک رنگا رنگ پانچ روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا، جس میں مشرق وسطیٰ، ایران اور ترکی کے ماہر خطاطوں سمیت پاکستان کے نامور خطاطوں نے بھی شرکت کی۔
کانفرنس میں غیر ملکی مندوبین نے فن خطاطی کے فروغ کیلئے تحقیقی مقالے پڑھے اور پاکستان سمیت تمام غیر ملکی خطاطوں کے فن پاروں کی نمائش کی گئی۔ اس کے علاوہ خطاطی کی پانچ روزہ تربیتی ورکشاپ کا بھی اہتمام کیا گیا، جس میں خطاطی کے طالب علموں نے ملکی اور غیر ملکی ماہر خطاطوں کے فن سے استفادہ کیا۔ اس کانفرنس میں سب سے دلچسپی کا حامل فیشن شو رہا، جس میں کالج کے طلبا و طالبات نے منفرد انداز میں کیلی گرافی اورمغلیہ اور برصغیر کے علاقائی ملبوسات کی طرز پر مبنی فیوژن پیش کیا۔ یہ فیشن شو کالج آف آرٹ اینڈ ڈیزائن پنجاب یونیورسٹی کے ٹیکسٹائل ڈیپارٹمنٹ کے طلبا وطالبات نے آرگنائز کیا، جس میں کلاسیکل انداز میں خطاطی کے فن پاروں کو برصغیر کے علاقائی ملبوسات کے ساتھ مکس کر کے پیش کیا گیا۔
اس فیشن شو کا انداز اتنا منفرد تھا کہ ناظرین چند لمحوں کیلئے عالمِ خواب میں مبتلا ہو گئے، ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کہکشاں زمین پر اتر آئی ہو۔ فیشن شو کا انعقاد کمرشل بنیادوں پر نہیں کیا گیا تھا، بلکہ اس کا مقصد فن خطاطی کے فن پاروں کی نمائش کرنا تھا، جن کو طلبا و طالبات نے اپنے ڈیزائن کردہ ملبوسات پرخوبصورتی سے اس طرح آویزاں کیاکہ خطاطی کے یہ فن پارے ان ملبوسات کا حصہ بن گئے۔ اس شو کیلئے تمام سپورٹنگ پراپس بھی کالج کے طلبا وطالبات نے ڈیزائن کئے، کوریو گرافی، میک اپ اور ماڈلنگ بھی خود طلبا نے کی۔
اس کے علاوہ ماڈلز کی کیٹ واک کیلئے روائتی ریمپ بنانے کے بجائے کالج آف آرٹ اینڈ ڈیزائن کے اوپن ائیرسٹوڈیو (گوشہ بہزاد مانی) کی راہداریوں سے استفادہ کرتے ہوئے انھیں ریمپ کے طور پر استعمال کیا گیا، جو اس فیشن شو کا ایک منفرد انداز تھا۔ کانفرنس کے آخری دن اختتامی تقریب کے دوران الحمرا میں فائن آرٹ کے طلبا وطالبات نے فن خطاطی کے آغاز اور اس کے ارتقائی مراحل پر مبنی، ''نقطہ'' کے عنوان سے ٹیبلیو(مائم ) پیش کیا، جس کوہال میں موجود تمام شائقین نے خوب سراہا اور دل کھول کر داد دی۔ کانفرنس کے اختتام پر تقریب تقسیم انعامات منعقد کی گئی، جس میںمہمان خصوصی پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مجاھد کامران نے تمام ملکی اور غیر ملکی شرکاء کو اعزازی شیلڈز اور تعریفی سرٹیفکیٹ پیش کئے۔
اس موقع پر صریر خامہ کی روح و رواں اور کالج آف آرٹ اینڈ ڈیزائن کی پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر راحت نوید مسعود نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس کانفرنس کا بنیادی ہدف معاصر دنیا کے تناظر میں فن خطاطی کے قیمتی ورثہ کے بارے میں آگا ھی پیدا کرنا اور عوام کے جمالیاتی ذوق کو ترقی دینا تھا، علاوہ ازیں اس فن کے فروغ و احیا کے سلسلہ میں خطاطوں کو باہمی تجربات اور علم وفن کے تبادلے کا موقع فراہم کرنا، مشترکہ ریسرچ پراڈکٹس اور مستقل تربیتی ورکشاپس کا انعقاد بھی اس کانفرنس کے اہداف میں شامل ہے۔
ڈاکٹر راحت نوید مسعود نے کہا کہ اسلامی فنون لطیفہ میں خطاطی، اولین حیثیت کا حامل فن رہا ہے اور آج بھی یہ ایک زندہ روایت ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ آج کے عالمی سطح پر قدروں کے بحران کے دور میں فن خطاطی کی اصل روح کو برقرار رکھنے کیلئے روائتی اصول وضوابط اور طریقہ کار کو فروغ دیا جائے، تاکہ اس فن کو گلوبلائزیشن کے منفی اثرات کے نتیجہ میں پنپنے والے رجحانات کے ساتھ گڈ مڈ ہونے سے بچا یا جا سکے۔
کہا جاتا ہے کہ جس قوم کی پہچان ختم کرنی ہو تو اسکے لئے جنگ وجدل کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے فنون لطیفہ، ادب اور ثقافت کو مٹا دیا جائے تو اس کی شناخت خود بخود مٹ جائے گی۔
اس لئے زندہ قومیں اپنے آرٹ اور ثقافت کی نہ صرف حفاظت کرتی ہیں بلکہ اپنے فنون کو دوسری تہذیبوں سے متعارف کروانے کیلئے بھی خاطر خواہ کام کرتی ہیں اور اس کیلئے تشہیر کے مختلف انداز اپناتی ہیں۔ خطاطی (کیلی گرافی) کا فن نہ صرف برصغیر پاک وہند بلکہ پوری دنیا میں اسلامی تہذیب کی پہچان بنا، مسلمان خطاطوں نے اس فن میں نہ صرف اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا بلکہ بے شمار نئے رسم الخط بھی ایجاد کئے، جن کے دم پر آج دنیا میں کئی زبا نیں زندہ ہیں۔
بدقسمتی سے عالم اسلام اپنے اسلاف کی بے شمار اقدار کی طرح خطاطی کے اس فن کو بھی بچانے میں ناکام رہا اور جدید ٹیکنالوجی کے آگے گھٹنے ٹیک دیے،کمرشل آرٹسٹوں نے جدید اسلوب کے نا م پر بے ڈھنگے انداز سے اس نفیس آرٹ کے حسن کو گہنا دیا۔ پاکستان میں خطاطی کے دم توڑتے ہوئے فن کو نئی زندگی دینے کیلئے پنجاب یونیورسٹی کالج آف آرٹ اینڈ ڈیزائن کی انتظامیہ نے پاکستان کیلی گرافک ایسوسی ایشن کے اشتراک سے گذشتہ دنوں صریر خامہ آرٹ آف پین(قلم کا فن) کے عنوان سے ایک رنگا رنگ پانچ روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا، جس میں مشرق وسطیٰ، ایران اور ترکی کے ماہر خطاطوں سمیت پاکستان کے نامور خطاطوں نے بھی شرکت کی۔
کانفرنس میں غیر ملکی مندوبین نے فن خطاطی کے فروغ کیلئے تحقیقی مقالے پڑھے اور پاکستان سمیت تمام غیر ملکی خطاطوں کے فن پاروں کی نمائش کی گئی۔ اس کے علاوہ خطاطی کی پانچ روزہ تربیتی ورکشاپ کا بھی اہتمام کیا گیا، جس میں خطاطی کے طالب علموں نے ملکی اور غیر ملکی ماہر خطاطوں کے فن سے استفادہ کیا۔ اس کانفرنس میں سب سے دلچسپی کا حامل فیشن شو رہا، جس میں کالج کے طلبا و طالبات نے منفرد انداز میں کیلی گرافی اورمغلیہ اور برصغیر کے علاقائی ملبوسات کی طرز پر مبنی فیوژن پیش کیا۔ یہ فیشن شو کالج آف آرٹ اینڈ ڈیزائن پنجاب یونیورسٹی کے ٹیکسٹائل ڈیپارٹمنٹ کے طلبا وطالبات نے آرگنائز کیا، جس میں کلاسیکل انداز میں خطاطی کے فن پاروں کو برصغیر کے علاقائی ملبوسات کے ساتھ مکس کر کے پیش کیا گیا۔
اس فیشن شو کا انداز اتنا منفرد تھا کہ ناظرین چند لمحوں کیلئے عالمِ خواب میں مبتلا ہو گئے، ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کہکشاں زمین پر اتر آئی ہو۔ فیشن شو کا انعقاد کمرشل بنیادوں پر نہیں کیا گیا تھا، بلکہ اس کا مقصد فن خطاطی کے فن پاروں کی نمائش کرنا تھا، جن کو طلبا و طالبات نے اپنے ڈیزائن کردہ ملبوسات پرخوبصورتی سے اس طرح آویزاں کیاکہ خطاطی کے یہ فن پارے ان ملبوسات کا حصہ بن گئے۔ اس شو کیلئے تمام سپورٹنگ پراپس بھی کالج کے طلبا وطالبات نے ڈیزائن کئے، کوریو گرافی، میک اپ اور ماڈلنگ بھی خود طلبا نے کی۔
اس کے علاوہ ماڈلز کی کیٹ واک کیلئے روائتی ریمپ بنانے کے بجائے کالج آف آرٹ اینڈ ڈیزائن کے اوپن ائیرسٹوڈیو (گوشہ بہزاد مانی) کی راہداریوں سے استفادہ کرتے ہوئے انھیں ریمپ کے طور پر استعمال کیا گیا، جو اس فیشن شو کا ایک منفرد انداز تھا۔ کانفرنس کے آخری دن اختتامی تقریب کے دوران الحمرا میں فائن آرٹ کے طلبا وطالبات نے فن خطاطی کے آغاز اور اس کے ارتقائی مراحل پر مبنی، ''نقطہ'' کے عنوان سے ٹیبلیو(مائم ) پیش کیا، جس کوہال میں موجود تمام شائقین نے خوب سراہا اور دل کھول کر داد دی۔ کانفرنس کے اختتام پر تقریب تقسیم انعامات منعقد کی گئی، جس میںمہمان خصوصی پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مجاھد کامران نے تمام ملکی اور غیر ملکی شرکاء کو اعزازی شیلڈز اور تعریفی سرٹیفکیٹ پیش کئے۔
اس موقع پر صریر خامہ کی روح و رواں اور کالج آف آرٹ اینڈ ڈیزائن کی پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر راحت نوید مسعود نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس کانفرنس کا بنیادی ہدف معاصر دنیا کے تناظر میں فن خطاطی کے قیمتی ورثہ کے بارے میں آگا ھی پیدا کرنا اور عوام کے جمالیاتی ذوق کو ترقی دینا تھا، علاوہ ازیں اس فن کے فروغ و احیا کے سلسلہ میں خطاطوں کو باہمی تجربات اور علم وفن کے تبادلے کا موقع فراہم کرنا، مشترکہ ریسرچ پراڈکٹس اور مستقل تربیتی ورکشاپس کا انعقاد بھی اس کانفرنس کے اہداف میں شامل ہے۔
ڈاکٹر راحت نوید مسعود نے کہا کہ اسلامی فنون لطیفہ میں خطاطی، اولین حیثیت کا حامل فن رہا ہے اور آج بھی یہ ایک زندہ روایت ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ آج کے عالمی سطح پر قدروں کے بحران کے دور میں فن خطاطی کی اصل روح کو برقرار رکھنے کیلئے روائتی اصول وضوابط اور طریقہ کار کو فروغ دیا جائے، تاکہ اس فن کو گلوبلائزیشن کے منفی اثرات کے نتیجہ میں پنپنے والے رجحانات کے ساتھ گڈ مڈ ہونے سے بچا یا جا سکے۔