اکیڈمی آف لیٹرز پھر جی اٹھی
بنیا گڑ نہ دے گڑ کی سی بات تو کرے۔ مگر وہ تو راجہ تھے۔ گڑ کی سی بات بھی کی اور گڑ بھی دیا۔
ہماری اکیڈمی آف لیٹرز کا قصہ بھی کچھ سوتے جاگتے کا قصہ ہے۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ اکیڈمی چھ مہنیے سوتی ہے، چھ مہینے جاگتی ہے۔ کتنے زمانے سے سوئی پڑی تھی۔ اسی زمانے میں ایک دفعہ ہمیں ادھر جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ حیران ہوکر دیکھا کہ یہ گھر اچھا خاصا شاد آباد تھا۔ کب اور کیسے اجڑا۔ خیر جو دن گزر گئے، انھیں اب کیا یاد کرنا۔ بقول شخصے کہ مٹی پائو۔ نئے چیئر مین عبدالحمید صاحب ہیں۔ ان کی سرگرمی کو دیکھ کر ہم کتنے خوش ہوتے تھے کہ آخر کے تئیں اس اجڑے گھر کو آ کر کسی نے تو سنبھالا۔ بس اسی جوش میں انھوں نے ایک کانفرنس کی طرح ڈالی اور اس شان سے ڈالی کہ جائے تنگ است و مردماں بسیار۔ سیمینار کا مضمون تھا کہ ادب اور جمہوریت۔ ادب تھوڑا اور جمہوریت بہت تھی۔
دیکھنے ہم بھی گئے تھے۔ سیکیورٹی کے مراحل سے گزرتے ہوئے ادیب قطار اندر قطار چلے جا رہے تھے۔ آگے گئے تو دیکھا کہ ایک لمبی قطار مہمانوں کی یہاں سے وہاں تک پھیلی ہوئی تھی۔ ہم نے آنکھیں مل کر ارد گرد نظر ڈالی۔ چاروں طرف ادیب ہی ادیب۔ اور یہ لمبی قطار کیسی ہے۔ جواب ملا کہ یہ بھی ادیب ہیں، کیو میں کھڑے ہیں اور اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ اندر ہال میں وزیراعظم پاکستان کو خطاب کرنا ہے اور اندر کا حال یہ ہے کہ ادیب لبالب بھرے ہوئے ہیں۔ باقی
تو کہاں جائے گا کچھ اپنا ٹھکانا کر لے
ہم اسی چہ کنم میں تھے کہ ایک بندہ دوڑا آیا۔ بولا قاسمی صاحب آپ کو بلا رہے ہیں۔ دیکھا تو عطاء الحق قاسمی اپنی شاندار کار میں بیٹھے ہیں۔ جس یار کو پریشان دیکھتے ہیں، اسے کار میں بٹھا لیتے ہیں۔ اس بہانے ہمیں بھی سر چھپانے کے لیے جگہ مل گئی۔ مگر ہم حیران تھے کہ اکیڈمی کا کوئی کارکن ہمیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ ورنہ ایسے موقعوں پر منتظمین، ان کے کارکن بہت متحرک نظر آتے ہیں۔
اچانک ہم نے دیکھا کہ اکیڈمی کی لاہور برانچ کے جمیل صاحب جانے کس کھوہ سے نمودار ہوئے۔ انھوں نے ہمیں تاڑا۔ عطاء الحق قاسمی کو دیکھا۔ مسعود اشعر پر نظر ڈالی۔ ارے آپ اندر نہیں گئے۔ انھوں نے آئو دیکھا نہ تائو۔ آپ کیسے نہیں جائیں گے۔ اب عطاء الحق قاسمی، مسعود اشعر، ایرج مبارک ہم ان کی انگلی پکڑے چل رہے تھے اور وہ شور مچا رہے تھے ہٹیو بچیو، سیکیورٹی والے حق دق کہ یہ مہمان کونسے چھپر پھاڑ کر نمودار ہوئے ہیں مگر جمیل صاحب ان کی صفوں کو چیرتے ہوئے ہمیں ساتھ لے کر بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ کمال کیا کہ دم کے دم میں ہمیں ادیبوں سے منھا منھ بھرے ایوان کے بیچ لا کھڑا کیا۔ اور فوراً ہی افتخار عارف کی بغل میں ہمیں جگہ بھی مل گئی۔
ایسے بھبھڑ میں ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ کوئی ساحل پہ کھڑا رہ گیا۔ کوئی گنگا پار کر گیا۔ اکیڈمی نے بھی بجا سوچا کہ ہم نے تو تمہیں بلا بھیجا۔ اب آگے تمہاری ہمت پر موقوف ہے.
ہمت کو شناوری مبارک
جس کی قسمت نے یاوری کی اس نے گوہر مراد پایا۔ جس کی قسمت کھوٹی نکلی وہ اکیڈمی کو بددعائیں دیتا واپس ہو لیا۔ خیر ابھی تو اگلا پورا دن پڑا ہے۔ جو نالے یہاں نہیں کھنچ سکے 'وہ اگلے دن اپنا اثر دیکھیں گے۔
بہرحال اکیڈمی کے چیئرمین صاحب اپنے کام کے پکے نکلے۔ اکیڈمی کا مقدمہ انھوں نے کس خوبی سے پیش کیا کہ ایک ایک اپنا مطالبہ منوا لیا۔ مگر ہمارے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف بھی آج بھلائی کے موڈ میں تھے۔ جتنا مانگا تھا اس سے بڑھ کر انھوں نے دامن میں ڈالا۔ اور تقریر بھی دل پذیر کی۔ بنیا گڑ نہ دے گڑ کی سی بات تو کرے۔ مگر وہ تو راجہ تھے۔ گڑ کی سی بات بھی کی اور گڑ بھی دیا۔ یعنی ان کے وہ امیروں وزیروں والے تیور نہیں تھے کہ ادیبوں کو وہ نصیحت کرتے کہ قومی تقاضے کیا ہیں، انھیں کس طرح ان تقاضوں سے عہدہ برآ ہونا ہے۔ اس سلسلہ میں انھوں نے کس انکساری سے معذرت کی مطلب یہ کہ ناصح مشفق بننے سے پہلو بچایا اور جتایا کہ عزیزو، تم تو خود سمجھدار ہو۔
ادھر چیئر مین موصوف نے اکیڈمی کی مشکلات، ضروریات اور ذمے داریاں گناتے ہوئے رقوم کے اچھے خاصے مطالبے کر رکھے تھے۔ یہ کہ اکیڈمی نے ایک فیض ہال تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ وہ فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے کھٹائی میں پڑ گیا۔ ادھر مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے اور معذور ادیبوں اور مرحومین کی بیوائوں کو جو وظیفے دیے جاتے ہیں وہ اب بہت تھوڑے نظر آتے ہیں۔ ایسے سارے مطالبے وزیراعظم نے سنے اور مختصر جواب دیا۔ سب منظور؎
سارے گلے تمام ہوئے اک جواب میں
تقسیم انعامات میں اس سے بڑھ کر دریا دلی کا مظاہرہ کیا۔ اس سال کا کمال فن ایوارڈ بانو قدسیہ کو ملا تھا۔ اس ایوارڈ کی منظور شدہ رقم پانچ لاکھ ہے۔ انھوں نے اسے دگنا کر دیا اور داد سے دامن بھر لیا۔ ادھر انعام یافتہ کتابوں کے مصنفوں کو اس طرح نوازا کہ ہر انعام میں ایک لاکھ کا اضافہ کر دیا۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ انعام یافتگان خوش ہو گئے۔ پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ اچھا کیا؎
دل بدست آور کہ حج اکبر است
ہمارے فرماں روا بالعموم اس کے قائل نہیں ہیں۔ وہ قائل ہونے لگتے ہیں تو بیورو کریسی بیچ میں کود پڑتی ہے۔ اور ایسی فضول خرچیوں سے انھیں باز رکھتی ہے۔ خود جو انھیں فضول خرچیاں کرنی ہوتی ہیں۔
وہ جو موضوع رکھا گیا تھا 'ادب اور جمہوریت' اس پر سیمینار اگلے دن تھا۔ اور اگلے دن جب ہم نے جلسہ گاہ کی حدود میں قدم رکھا تو وہاں تو وہ سارا مجمع جسے اندر ایوان میں ہونا چاہیے تھا باہر فوٹو سیشن کر رہا تھا۔ جس ادیب نے ان سے پوچھا کہ سیمینار کدھر ہو رہا ہے وہ پکڑا گیا۔ ہر گروپ کیمرے سے مسلح آتا ہے اور ادیب کو درمیان میں کھڑا کر کے فوٹو کھنچوانے لگتا ہے۔ اندر سیمینار، باہر فوٹو سیشن۔ دور دراز سے جو ادیب آئے تھے وہ اپنا یہ منصوبہ ساتھ لے کر آئے تھے۔
اکیڈمی کا کوئی کارکن آس پاس ہمیں دکھائی نہ دیا کہ کم از کم اس ہال کے دروازے کی طرف دھکیل دیتا۔ ہم ٹٹولتے ٹٹولتے بالائی منزل پر پہنچ گئے۔ وہاں ہم چند نفوس نے نیچے ہال کا نظارہ کیا۔ پریزیڈیم کی لمبی قطار دیکھی۔ درمیان میں کشور ناہید کو صدارت کرتے دیکھا اور جمہوریت اور ادب کے رشتے پر مقرروں کو گل افشانیاں کرتے دیکھا۔ نیچے اس نیت سے اترے کہ خود ٹٹول کر ہال تک پہنچیں اور سیمینار کی بہار دیکھیں مگر پھر فوٹو سیشن والوں کے قابو میں آ گئے۔ پھر ہڑبونگ سے کسی صورت دامن چھڑا کر باہر نکل آئے۔
بہر حال اکیڈمی ان لیٹرز کی تجدید کا رنگ دیکھ لیا۔
دیکھنے ہم بھی گئے تھے۔ سیکیورٹی کے مراحل سے گزرتے ہوئے ادیب قطار اندر قطار چلے جا رہے تھے۔ آگے گئے تو دیکھا کہ ایک لمبی قطار مہمانوں کی یہاں سے وہاں تک پھیلی ہوئی تھی۔ ہم نے آنکھیں مل کر ارد گرد نظر ڈالی۔ چاروں طرف ادیب ہی ادیب۔ اور یہ لمبی قطار کیسی ہے۔ جواب ملا کہ یہ بھی ادیب ہیں، کیو میں کھڑے ہیں اور اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ اندر ہال میں وزیراعظم پاکستان کو خطاب کرنا ہے اور اندر کا حال یہ ہے کہ ادیب لبالب بھرے ہوئے ہیں۔ باقی
تو کہاں جائے گا کچھ اپنا ٹھکانا کر لے
ہم اسی چہ کنم میں تھے کہ ایک بندہ دوڑا آیا۔ بولا قاسمی صاحب آپ کو بلا رہے ہیں۔ دیکھا تو عطاء الحق قاسمی اپنی شاندار کار میں بیٹھے ہیں۔ جس یار کو پریشان دیکھتے ہیں، اسے کار میں بٹھا لیتے ہیں۔ اس بہانے ہمیں بھی سر چھپانے کے لیے جگہ مل گئی۔ مگر ہم حیران تھے کہ اکیڈمی کا کوئی کارکن ہمیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ ورنہ ایسے موقعوں پر منتظمین، ان کے کارکن بہت متحرک نظر آتے ہیں۔
اچانک ہم نے دیکھا کہ اکیڈمی کی لاہور برانچ کے جمیل صاحب جانے کس کھوہ سے نمودار ہوئے۔ انھوں نے ہمیں تاڑا۔ عطاء الحق قاسمی کو دیکھا۔ مسعود اشعر پر نظر ڈالی۔ ارے آپ اندر نہیں گئے۔ انھوں نے آئو دیکھا نہ تائو۔ آپ کیسے نہیں جائیں گے۔ اب عطاء الحق قاسمی، مسعود اشعر، ایرج مبارک ہم ان کی انگلی پکڑے چل رہے تھے اور وہ شور مچا رہے تھے ہٹیو بچیو، سیکیورٹی والے حق دق کہ یہ مہمان کونسے چھپر پھاڑ کر نمودار ہوئے ہیں مگر جمیل صاحب ان کی صفوں کو چیرتے ہوئے ہمیں ساتھ لے کر بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ کمال کیا کہ دم کے دم میں ہمیں ادیبوں سے منھا منھ بھرے ایوان کے بیچ لا کھڑا کیا۔ اور فوراً ہی افتخار عارف کی بغل میں ہمیں جگہ بھی مل گئی۔
ایسے بھبھڑ میں ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ کوئی ساحل پہ کھڑا رہ گیا۔ کوئی گنگا پار کر گیا۔ اکیڈمی نے بھی بجا سوچا کہ ہم نے تو تمہیں بلا بھیجا۔ اب آگے تمہاری ہمت پر موقوف ہے.
ہمت کو شناوری مبارک
جس کی قسمت نے یاوری کی اس نے گوہر مراد پایا۔ جس کی قسمت کھوٹی نکلی وہ اکیڈمی کو بددعائیں دیتا واپس ہو لیا۔ خیر ابھی تو اگلا پورا دن پڑا ہے۔ جو نالے یہاں نہیں کھنچ سکے 'وہ اگلے دن اپنا اثر دیکھیں گے۔
بہرحال اکیڈمی کے چیئرمین صاحب اپنے کام کے پکے نکلے۔ اکیڈمی کا مقدمہ انھوں نے کس خوبی سے پیش کیا کہ ایک ایک اپنا مطالبہ منوا لیا۔ مگر ہمارے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف بھی آج بھلائی کے موڈ میں تھے۔ جتنا مانگا تھا اس سے بڑھ کر انھوں نے دامن میں ڈالا۔ اور تقریر بھی دل پذیر کی۔ بنیا گڑ نہ دے گڑ کی سی بات تو کرے۔ مگر وہ تو راجہ تھے۔ گڑ کی سی بات بھی کی اور گڑ بھی دیا۔ یعنی ان کے وہ امیروں وزیروں والے تیور نہیں تھے کہ ادیبوں کو وہ نصیحت کرتے کہ قومی تقاضے کیا ہیں، انھیں کس طرح ان تقاضوں سے عہدہ برآ ہونا ہے۔ اس سلسلہ میں انھوں نے کس انکساری سے معذرت کی مطلب یہ کہ ناصح مشفق بننے سے پہلو بچایا اور جتایا کہ عزیزو، تم تو خود سمجھدار ہو۔
ادھر چیئر مین موصوف نے اکیڈمی کی مشکلات، ضروریات اور ذمے داریاں گناتے ہوئے رقوم کے اچھے خاصے مطالبے کر رکھے تھے۔ یہ کہ اکیڈمی نے ایک فیض ہال تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ وہ فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے کھٹائی میں پڑ گیا۔ ادھر مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے اور معذور ادیبوں اور مرحومین کی بیوائوں کو جو وظیفے دیے جاتے ہیں وہ اب بہت تھوڑے نظر آتے ہیں۔ ایسے سارے مطالبے وزیراعظم نے سنے اور مختصر جواب دیا۔ سب منظور؎
سارے گلے تمام ہوئے اک جواب میں
تقسیم انعامات میں اس سے بڑھ کر دریا دلی کا مظاہرہ کیا۔ اس سال کا کمال فن ایوارڈ بانو قدسیہ کو ملا تھا۔ اس ایوارڈ کی منظور شدہ رقم پانچ لاکھ ہے۔ انھوں نے اسے دگنا کر دیا اور داد سے دامن بھر لیا۔ ادھر انعام یافتہ کتابوں کے مصنفوں کو اس طرح نوازا کہ ہر انعام میں ایک لاکھ کا اضافہ کر دیا۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ انعام یافتگان خوش ہو گئے۔ پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ اچھا کیا؎
دل بدست آور کہ حج اکبر است
ہمارے فرماں روا بالعموم اس کے قائل نہیں ہیں۔ وہ قائل ہونے لگتے ہیں تو بیورو کریسی بیچ میں کود پڑتی ہے۔ اور ایسی فضول خرچیوں سے انھیں باز رکھتی ہے۔ خود جو انھیں فضول خرچیاں کرنی ہوتی ہیں۔
وہ جو موضوع رکھا گیا تھا 'ادب اور جمہوریت' اس پر سیمینار اگلے دن تھا۔ اور اگلے دن جب ہم نے جلسہ گاہ کی حدود میں قدم رکھا تو وہاں تو وہ سارا مجمع جسے اندر ایوان میں ہونا چاہیے تھا باہر فوٹو سیشن کر رہا تھا۔ جس ادیب نے ان سے پوچھا کہ سیمینار کدھر ہو رہا ہے وہ پکڑا گیا۔ ہر گروپ کیمرے سے مسلح آتا ہے اور ادیب کو درمیان میں کھڑا کر کے فوٹو کھنچوانے لگتا ہے۔ اندر سیمینار، باہر فوٹو سیشن۔ دور دراز سے جو ادیب آئے تھے وہ اپنا یہ منصوبہ ساتھ لے کر آئے تھے۔
اکیڈمی کا کوئی کارکن آس پاس ہمیں دکھائی نہ دیا کہ کم از کم اس ہال کے دروازے کی طرف دھکیل دیتا۔ ہم ٹٹولتے ٹٹولتے بالائی منزل پر پہنچ گئے۔ وہاں ہم چند نفوس نے نیچے ہال کا نظارہ کیا۔ پریزیڈیم کی لمبی قطار دیکھی۔ درمیان میں کشور ناہید کو صدارت کرتے دیکھا اور جمہوریت اور ادب کے رشتے پر مقرروں کو گل افشانیاں کرتے دیکھا۔ نیچے اس نیت سے اترے کہ خود ٹٹول کر ہال تک پہنچیں اور سیمینار کی بہار دیکھیں مگر پھر فوٹو سیشن والوں کے قابو میں آ گئے۔ پھر ہڑبونگ سے کسی صورت دامن چھڑا کر باہر نکل آئے۔
بہر حال اکیڈمی ان لیٹرز کی تجدید کا رنگ دیکھ لیا۔