پاکستان اور نازک دور جنم جنم کے ساتھی
اس خبر کے انتظار میں دو چار نسلیں اور بوڑھی ہو جائیں کہ پاکستان نازک دور سے گزر چکا ہے۔
ہمیں تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا لیکن بات کچھ ایسی ہستی کی طرف سے کہی گئی ہے کہ یقین نہ کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔کہا یہ گیا ہے کہ پاکستان اس وقت اپنے نازک دور سے گزر رہا ہے حالانکہ ہم سالہا سال پہلے یہ یقین کر چکے تھے کہ پاکستان اپنے نازک دور سے گزر چکا ہے اور اگر واقعی یہ سچ ہے اور سچ ہونے میں کوئی بھی شک نہیں کیونکہ ذریعہ انتہائی مصدقہ ہے تو پھر پاکستان دنیا کا واحد اور تاریخی ملک ہے جو اتنے طویل نازک دور سے گزر رہا ہے اور یہ دنیا کا طویل ترین نازک دور ہے جس سے پاکستان کوئی ایک صدی سے گزر رہا ہے اور گزر کر نہیں دے رہا ہے، لگتا ہے یہ دونوں یعنی پاکستان اور ''نازک دور'' کچھ زیادہ ہی ایک دوسرے پر عاشق ہو چکے ہیں کہ یک جان و دو قالب بنے ہوئے ہیں یعنی اگر کوئی چاہے تو پاکستان کا نام ''نازک دور'' بھی رکھ سکتا ہے اور ''نازک دور'' کو پاکستان بھی کہہ سکتا ہے۔
یہ کچھ ویسا ہی معاملہ لگتا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ایک بزرگ کے جسم میں کیڑے پڑ گئے تھے اور جب کوئی کیڑا گرتا تو وہ اسے اٹھا کر پھر اپنی جگہ پر رکھ دیتے کہ اب یہ بے چارا کہاں جائے گا۔ بظاہر یہ بڑے دل گردے کا کام لگتا ہے لیکن ایسے لوگ دنیا میں کم نہیں ہیں جو اپنا دکھ بھول کر دوسروں کی فکر کرنے میں لگ جاتے ہیں، مثلاً حکیم مومن خان مومن کو اپنی موت کی اتنی فکر نہ تھی جتنی شب ہجراں کی تھی،
تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے
ہم تو کل خوابِ عدم میں شب ہجراں ہوں گے
یعنی وہ چاہتے ہیں کہ ان کے جانے سے پہلے شب ہجراں کہیں اور ایکوموڈیٹ ہو جائے، ، اس لیے شب ہجراں کو پہلے ہی سے اپنا ٹھکانہ ڈھونڈنے کا مشورہ دے گئے۔ مومن تو پھر بھی شب ہجراں کو کہیں اور ٹھکانہ کرنے کے لیے کہہ رہے تھے، غالب کو تو سیلاب بلا کی بھی فکر لاحق تھی کہ
آئے ہے بے کسیٔ عشق پہ رونا غالب
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد
یہ تو معلوم نہیں ہو سکا کہ سیلاب بلا کو کہیں اور ٹھکانہ مل گیا یا نہیں لیکن غالب تو اپنی طرف سے ہمدردی کرنا نہیں بھولے، ممکن ہے اسی سیلاب بلا نے اپنا نام بدل کر نازک دور رکھ لیا ہو اور پاکستان کے ساتھ خود کو مستقل طور پر نتھی کر لیا ہو۔ ممکن ہے بندھن کو اٹوٹ بنانے کے لیے آپس میں دو بول بھی پڑھوا لیے ہوں، لیکن شب ہجراں نے مومن خان مومن کا کہا نہیں مانا تھا اور یونہی دربدر پھرتی رہی ،کہیں مدتوں بعد ایک اور شاعر کو ملی اور انھوں نے پیش کش کی کہ
آ اے شب فراق تجھے گھر ہی لے چلیں
ٹھیک اسی طرح شاید پاکستان نے بھی ''نازک دور'' کو گود لے لیا ہے اور چھوڑ کر نہیں دے رہا ہے، ہمیں یہ تو پوری طرح معلوم نہیں کہ اس ''نازک دور'' کا ناک نقشہ اور حلیہ کیا ہے، کس قد و قامت کا ہے اور اس کی پہچان کی نشانی کیا ہے جو پاکستان کے کاندھے پر مستقل سوار ہے، ایسا نہیں کہ ہم خود نازک دور سے نہیں گزرے، کئی مرتبہ ہم بھی کئی کئی نازک ادوار سے گزرے ہیں لیکن وہ کچھ عارضی اور دیہاڑی مار نازک دور تھا، ان سے یقیناً مختلف ہو گا،اس لیے ہم نہیں جانتے کہ کیسا ہے ،کہاں اور کس طرف ہے۔
ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس نازک دور کا حلیہ کسی انسان کی طرح ہے یا لیڈروں سے مماثلت رکھتا ہے یا ان کی شکل و صورت سرکاری افسروں سے ملتی ہے یا تاجروں کا ہم شکل ہے، اس لیے ہمارے اردگرد ہوتے ہوئے بھی ہم اسے دیکھ نہیں پاتے، لیکن جو بات طے ہے وہ یہ ہے کہ یہ نازک دور کم از کم جوان تو نہیں رہا ہو گا کیونکہ جوانی بہرحال جانے والی چیز ہے، آتی ہے تو چلی بھی جاتی ہے البتہ بڑھاپا آئے تو پھر جانے کا نام نہیں لیتا۔
نازک دور کی اس مستقل براجمانی سے ہم نے یہ بھی نتیجہ نکالا ہے کہ شاید یہ نازک دور پاکستان کو جہیز میں ملا ہو گا یا جدی پشتی وراثت میں آیا ہو گا کیوں کہ اکثر ایسی ہی چیزوں کو لوگ مستقل حرز جان کیے رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں خواجہ کریم کے جوتے بھی بڑے مشہور ہیں، خواجہ کریم پرانے زمانے کے بغداد میں رہنے والا ایک تاریخی کنجوس تھا لیکن اس سے زیادہ اس کے جوتے مشہور ہوئے۔ خواجہ کریم کے یہ جوتے پیوند در پیوند اور مرمت در مرمت سے اتنے بھاری ہو گئے تھے کہ اسے پہن کر چلنا عام آدمی کے لیے مشکل تھا، لیکن پاکستان کے نازک دور کی طرح خواجہ کریم بھی اپنے دو دو سیر کے ان جوتوں کو گھسیٹتا رہا۔
آخر کسی اللہ والے کو اس پر ترس آیا۔ کاش پاکستان پر بھی کوئی ترس کھائے، اس امیر نے نئے جوتے خرید کر خواجہ کریم کو دیدیے۔ خواجہ کریم نے مارے خوشی کے اپنے پرانے جوتے باہر گلی میں پھینک دیے اور نئے پہن لیے۔ اتفاق سے وہ پرانے جوتے ایک راہ چلتے شخص کو پڑ گئے، اس نے غصے سے جوتوں کو ایک طرف اچھال دیا، جوتے سیدھے گئے اور ایک دکان کے شیشوں میں لگے ،چھناکے سے شیشے ٹوٹ گئے۔ دکاندار نے جوتے فوراً پہچان لیے اور خواجہ کریم کے خلاف قاضی کی عدالت میں نالش دائر کی۔ قاضی نے حساب لگا کر خواجہ کریم پر جرمانہ عائد کیا جو جوتوں کے کئی جوڑوں سے بھی زیادہ تھا۔
خواجہ کریم صدمے سے بے حال اپنے جوتے اٹھائے عدالت سے نکل گیا اور اپنے ناہنجار جوتے ایک نالے میں پھینک دیے۔ جوتے بہتے بہتے ایک حمام کے نالے میں پھس گئے، حمام کا پانی بند ہو گیا اور حمام والوں کو کافی نقصان ہوا، حمام والے نے بھی قاضی کے حضور فریاد کی، اب کے اس سے بھی زیادہ جرمانہ خواجہ کریم کو ادا کرنا پڑا۔ اب کے دل گرفتہ قاضی خانے سے چلے، سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ان کم بخت جوتوں کا کیا جائے۔ آخر رات کی تاریکی میں چپکے سے نکلا اور جوتے ایک کھیت میں گاڑ دیے۔ دوسرے دن وہاں سے ایک امیر کا نوکر قیمتی کتے کو لے جا رہا تھا۔
کتے نے بو سونگھی تو کھود کر جوتے نکال لیے، پانی اور مٹی سے جوتے کچھ نرم پڑ گئے تھے لیکن اتنے بھی نہیں کہ کتے کے دانت نہ ٹوٹتے، جانے پہچانے جوتے تھے پھر جرمانہ بھرنا پڑا، اس مرتبہ جوتے احتیاط سے گھر لے گیا اور ایک رومال میں باندھ لیے کہ دوسرے دن کسی جنگل بیابان میں ٹھکانے لگا دوں گا لیکن بدقسمتی سے رات کو ایک چور خواجہ کریم کے گھر وزٹ پر آیا، باقی تو جو لینا تھا وہ لے لیا، جاتے ہوئے جوتوں والی پوٹلی پر نظر پڑی اور اسے اٹھا کر لے گیا لیکن رومال کھولا تو ناکارہ جوتے نکلے۔ چور نے غصے سے ایک طرف اچھال دیے جو سیدھے ایک گھر میں ایک عورت کے سر پر گرے اور وہ وہیں ٹھنڈی ہو گئی۔ خواجہ کریم بہت چیخا چلایا لیکن جوتے اس کے تھے پکڑا گیا، بڑی مشکل سے معاوضے پر بات ٹلی، گھر آیا تو سوچا کہ بہتر یہی ہے کہ جوتوں کو اپنے قابو رکھا جائے چنانچہ نئے جوتے اتار کر وہی پرانے جوتے پہن کر گھسیٹنے لگا۔ گویا پاکستان اور نازک دور کا پھر ملن ہو گیا،
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
مطلب یہ کہ نازک دور اور پاکستان کا تو اب جنم جنم کا ساتھ ہے، اس لیے اب یہ خبر کوئی خبر ہی نہیں کہ پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے البتہ اس خبر کے انتظار میں دو چار نسلیں اور بوڑھی ہو جائیں کہ پاکستان نازک دور سے گزر چکا ہے، ممکن ہے یہ خبر اور قیامت کی شہ سرخی دونوں ایک ساتھ آئیں۔
یہ کچھ ویسا ہی معاملہ لگتا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ایک بزرگ کے جسم میں کیڑے پڑ گئے تھے اور جب کوئی کیڑا گرتا تو وہ اسے اٹھا کر پھر اپنی جگہ پر رکھ دیتے کہ اب یہ بے چارا کہاں جائے گا۔ بظاہر یہ بڑے دل گردے کا کام لگتا ہے لیکن ایسے لوگ دنیا میں کم نہیں ہیں جو اپنا دکھ بھول کر دوسروں کی فکر کرنے میں لگ جاتے ہیں، مثلاً حکیم مومن خان مومن کو اپنی موت کی اتنی فکر نہ تھی جتنی شب ہجراں کی تھی،
تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے
ہم تو کل خوابِ عدم میں شب ہجراں ہوں گے
یعنی وہ چاہتے ہیں کہ ان کے جانے سے پہلے شب ہجراں کہیں اور ایکوموڈیٹ ہو جائے، ، اس لیے شب ہجراں کو پہلے ہی سے اپنا ٹھکانہ ڈھونڈنے کا مشورہ دے گئے۔ مومن تو پھر بھی شب ہجراں کو کہیں اور ٹھکانہ کرنے کے لیے کہہ رہے تھے، غالب کو تو سیلاب بلا کی بھی فکر لاحق تھی کہ
آئے ہے بے کسیٔ عشق پہ رونا غالب
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد
یہ تو معلوم نہیں ہو سکا کہ سیلاب بلا کو کہیں اور ٹھکانہ مل گیا یا نہیں لیکن غالب تو اپنی طرف سے ہمدردی کرنا نہیں بھولے، ممکن ہے اسی سیلاب بلا نے اپنا نام بدل کر نازک دور رکھ لیا ہو اور پاکستان کے ساتھ خود کو مستقل طور پر نتھی کر لیا ہو۔ ممکن ہے بندھن کو اٹوٹ بنانے کے لیے آپس میں دو بول بھی پڑھوا لیے ہوں، لیکن شب ہجراں نے مومن خان مومن کا کہا نہیں مانا تھا اور یونہی دربدر پھرتی رہی ،کہیں مدتوں بعد ایک اور شاعر کو ملی اور انھوں نے پیش کش کی کہ
آ اے شب فراق تجھے گھر ہی لے چلیں
ٹھیک اسی طرح شاید پاکستان نے بھی ''نازک دور'' کو گود لے لیا ہے اور چھوڑ کر نہیں دے رہا ہے، ہمیں یہ تو پوری طرح معلوم نہیں کہ اس ''نازک دور'' کا ناک نقشہ اور حلیہ کیا ہے، کس قد و قامت کا ہے اور اس کی پہچان کی نشانی کیا ہے جو پاکستان کے کاندھے پر مستقل سوار ہے، ایسا نہیں کہ ہم خود نازک دور سے نہیں گزرے، کئی مرتبہ ہم بھی کئی کئی نازک ادوار سے گزرے ہیں لیکن وہ کچھ عارضی اور دیہاڑی مار نازک دور تھا، ان سے یقیناً مختلف ہو گا،اس لیے ہم نہیں جانتے کہ کیسا ہے ،کہاں اور کس طرف ہے۔
ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس نازک دور کا حلیہ کسی انسان کی طرح ہے یا لیڈروں سے مماثلت رکھتا ہے یا ان کی شکل و صورت سرکاری افسروں سے ملتی ہے یا تاجروں کا ہم شکل ہے، اس لیے ہمارے اردگرد ہوتے ہوئے بھی ہم اسے دیکھ نہیں پاتے، لیکن جو بات طے ہے وہ یہ ہے کہ یہ نازک دور کم از کم جوان تو نہیں رہا ہو گا کیونکہ جوانی بہرحال جانے والی چیز ہے، آتی ہے تو چلی بھی جاتی ہے البتہ بڑھاپا آئے تو پھر جانے کا نام نہیں لیتا۔
نازک دور کی اس مستقل براجمانی سے ہم نے یہ بھی نتیجہ نکالا ہے کہ شاید یہ نازک دور پاکستان کو جہیز میں ملا ہو گا یا جدی پشتی وراثت میں آیا ہو گا کیوں کہ اکثر ایسی ہی چیزوں کو لوگ مستقل حرز جان کیے رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں خواجہ کریم کے جوتے بھی بڑے مشہور ہیں، خواجہ کریم پرانے زمانے کے بغداد میں رہنے والا ایک تاریخی کنجوس تھا لیکن اس سے زیادہ اس کے جوتے مشہور ہوئے۔ خواجہ کریم کے یہ جوتے پیوند در پیوند اور مرمت در مرمت سے اتنے بھاری ہو گئے تھے کہ اسے پہن کر چلنا عام آدمی کے لیے مشکل تھا، لیکن پاکستان کے نازک دور کی طرح خواجہ کریم بھی اپنے دو دو سیر کے ان جوتوں کو گھسیٹتا رہا۔
آخر کسی اللہ والے کو اس پر ترس آیا۔ کاش پاکستان پر بھی کوئی ترس کھائے، اس امیر نے نئے جوتے خرید کر خواجہ کریم کو دیدیے۔ خواجہ کریم نے مارے خوشی کے اپنے پرانے جوتے باہر گلی میں پھینک دیے اور نئے پہن لیے۔ اتفاق سے وہ پرانے جوتے ایک راہ چلتے شخص کو پڑ گئے، اس نے غصے سے جوتوں کو ایک طرف اچھال دیا، جوتے سیدھے گئے اور ایک دکان کے شیشوں میں لگے ،چھناکے سے شیشے ٹوٹ گئے۔ دکاندار نے جوتے فوراً پہچان لیے اور خواجہ کریم کے خلاف قاضی کی عدالت میں نالش دائر کی۔ قاضی نے حساب لگا کر خواجہ کریم پر جرمانہ عائد کیا جو جوتوں کے کئی جوڑوں سے بھی زیادہ تھا۔
خواجہ کریم صدمے سے بے حال اپنے جوتے اٹھائے عدالت سے نکل گیا اور اپنے ناہنجار جوتے ایک نالے میں پھینک دیے۔ جوتے بہتے بہتے ایک حمام کے نالے میں پھس گئے، حمام کا پانی بند ہو گیا اور حمام والوں کو کافی نقصان ہوا، حمام والے نے بھی قاضی کے حضور فریاد کی، اب کے اس سے بھی زیادہ جرمانہ خواجہ کریم کو ادا کرنا پڑا۔ اب کے دل گرفتہ قاضی خانے سے چلے، سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ان کم بخت جوتوں کا کیا جائے۔ آخر رات کی تاریکی میں چپکے سے نکلا اور جوتے ایک کھیت میں گاڑ دیے۔ دوسرے دن وہاں سے ایک امیر کا نوکر قیمتی کتے کو لے جا رہا تھا۔
کتے نے بو سونگھی تو کھود کر جوتے نکال لیے، پانی اور مٹی سے جوتے کچھ نرم پڑ گئے تھے لیکن اتنے بھی نہیں کہ کتے کے دانت نہ ٹوٹتے، جانے پہچانے جوتے تھے پھر جرمانہ بھرنا پڑا، اس مرتبہ جوتے احتیاط سے گھر لے گیا اور ایک رومال میں باندھ لیے کہ دوسرے دن کسی جنگل بیابان میں ٹھکانے لگا دوں گا لیکن بدقسمتی سے رات کو ایک چور خواجہ کریم کے گھر وزٹ پر آیا، باقی تو جو لینا تھا وہ لے لیا، جاتے ہوئے جوتوں والی پوٹلی پر نظر پڑی اور اسے اٹھا کر لے گیا لیکن رومال کھولا تو ناکارہ جوتے نکلے۔ چور نے غصے سے ایک طرف اچھال دیے جو سیدھے ایک گھر میں ایک عورت کے سر پر گرے اور وہ وہیں ٹھنڈی ہو گئی۔ خواجہ کریم بہت چیخا چلایا لیکن جوتے اس کے تھے پکڑا گیا، بڑی مشکل سے معاوضے پر بات ٹلی، گھر آیا تو سوچا کہ بہتر یہی ہے کہ جوتوں کو اپنے قابو رکھا جائے چنانچہ نئے جوتے اتار کر وہی پرانے جوتے پہن کر گھسیٹنے لگا۔ گویا پاکستان اور نازک دور کا پھر ملن ہو گیا،
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
مطلب یہ کہ نازک دور اور پاکستان کا تو اب جنم جنم کا ساتھ ہے، اس لیے اب یہ خبر کوئی خبر ہی نہیں کہ پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے البتہ اس خبر کے انتظار میں دو چار نسلیں اور بوڑھی ہو جائیں کہ پاکستان نازک دور سے گزر چکا ہے، ممکن ہے یہ خبر اور قیامت کی شہ سرخی دونوں ایک ساتھ آئیں۔