پرائی آگ سے اپنی جنگ تک
ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ فورتھ جنریشن وار فیئر کس کو کہتے ہیں۔
یہ بات اب تو ہمارے یہاں پڑھے لکھے، اَن پڑھ، امیر غریب، چھوٹے بڑے تقریباً سبھی جانتے ہیں کہ ہم بحیثیت قوم حالتِ جنگ میں ہیں۔
ظاہر ہے جاننا بھی چاہیے۔ اس لیے کہ بیس ویں صدی کے سات ویں عشرے کے آخری برسوں سے ہم اس حالت میں ہیں، یعنی کوئی چالیس برس کے عرصے سے، لیکن چلیے ابتدا میں تو یہ پراکسی وار تھی، تاہم گزشتہ لگ بھگ دو دہائیوں سے تو براہِ راست ہم اس کیفیت میں ہیں۔
اب یہ ہماری اپنی اور اصلی جنگ ہے۔ ہم نے سماجی، اخلاقی، معاشی اور سیاسی ہر سطح پر اس کی بڑی قیمت چکائی ہے اور اب تک چکا رہے ہیں۔ یہ بھی ہمارے یہاں سب لوگ جانتے ہیں، لیکن یہ بات کم لوگ جانتے ہوں گے کہ اب یہ جنگ آخری اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔
جنگ کے اس حصّے کو نوعی محاربہ درجہ چہارم (4th Generation Warfare) کہا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح پہلے پہل 1989ء میں امریکا کے کچھ دفاعی تجزیہ کاروں نے استعمال کی تھی۔ اس کا مفہوم Williams S.Lind نے اپنے ایک مضمون The Changing Face of War: Into Fourth Generation میں بیان کیا تھا۔ یہ مضمون میرین کارپس گزٹ میں 1989ء میں شائع ہوا تھا۔ بعد میں کرنل (ریٹائرڈ) Thomas X.Hommes نے اپنی کتاب The Sling and The Stone میں بہت تفصیل سے سے اس کی وضاحت کی تھی۔ پہلے تو ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ فورتھ جنریشن وار فیئر کس کو کہتے ہیں۔
یہ خود جنگ نہیں ہے بلکہ ایک جنگی حکمتِ عملی ہے۔ ماہرین کی رائے ہے کہ اس سے وہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں جو براہِ راست روایتی جنگ سے بھی ممکن نہیں ہوتے۔ اگر ممکن بھی ہوں تو ان کا حصول دشوار اور قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس حکمتِ عملی کی خاص بات یہ ہے کہ صرف سنگین دشمنوں کے خلاف ہی استعمال نہیں کی جاتی بلکہ ضرورت پڑنے پر خود حلیفوں کے لیے بھی استعمال ہوسکتی ہے۔
گویا اُن دشمنوں کے خلاف استعمال کی جاسکتی ہے، جن سے براہِ راست جنگ مجبوری، ضرورت یا مصلحت کی وجہ سے ممکن نہیں ہوتی۔ اس نکتے کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ دو ممالک کے مابین اسٹریٹی جک تعلق ہوتا ہے، لیکن کسی نہ کسی وجہ سے درونِ خانہ دونوں ہی یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ تعلق حقیقی نہیں ہے۔ نظریاتی، فکری یا اخلاص کی بنیاد پر قائم نہیں ہوا، بلکہ اس کی بنیاد ضرورت یا مصلحت پر ہے۔
ایسے رشتے بالعموم سپرپاورز کسی پس ماندہ یا ترقی پذیر ملک سے قائم کرتی ہیں۔ بعد ازاں کسی مرحلے پر سپرپاور کو لازماً یہ خیال گزرتا ہے کہ اپنا ساتھ دینے اور کام نکلوانے کے لیے حلیف بنائے گئے ملک کی مالی، سیاسی اور حربی سطح پر اُس نے جو مدد کی ہے، وہ آگے چل کر خود اس کے لیے ضرر رساں ہوگی۔
اب ضروری ہوجاتا ہے کہ اُس ملک کو اس حد تک نہ آنے دیا جائے، لیکن مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ضرورت یا مصلحت اُس کے خلاف براہِ راست اقدام یا جنگ کی اجازت نہیں دیتی۔ ایسے میں چوتھے مرحلے کی حکمتِ عملی اختیار کی جاتی ہے جو مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ اس حکمتِ عملی کے تحت سب سے پہلے عوام کے دلوں میں اُس ملک کی سیاسی مقتدرہ اور اشرافیہ کے لیے بدگمانی پیدا کی جاتی ہے، جسے نفرت کی حد تک پہنچایا جاتا ہے۔ مرکزی حکومت کو کم زور کیا جاتا ہے اور اس پر دباؤ بڑھایا جاتا ہے جس کے لیے صوبائیت کے تصور کو ابھارا جاتا ہے۔
محرومی کے سوال کو عام کیا جاتا ہے۔ حق تلفی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ پہلے قومی اداروں میں ناقص لوگ تلاش کیے جاتے ہیں، انھیں اعلیٰ درجوں تک پہنچنے میں مدد دی جاتی ہے۔ رشوت معمول بن جاتی ہے۔ اداروں کی ساکھ کو ختم کیا جاتا ہے۔ عوام میں صوبائی، گروہی، لسانی، علاقائی مسلکی اور مذہبی حوالوں سے تناؤ پیدا کرکے فسادات کرائے جاتے ہیں۔
قومیت کے اجتماعی احساس کو ختم کرکے انتشار پیدا کیا جاتا ہے۔ افراد میں ذاتی مفاد کے چلن کو ہوا دی جاتی ہے۔ افواج پر عوامی اعتماد کو مجروح کیا جاتا ہے۔ اس کے کردار اور قربانیوں سے توجہ ہٹائی جاتی ہے۔ مایوسی اور بے یقینی پھیلا کر مستقبل کے اقدامات کی راہ میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے۔ حال کی ابتلا کو یوں مرکزِ نگاہ بنایا جاتا ہے کہ آنے والے وقت اور نئی نسل سے دھیان ہٹ جائے۔ فورتھ جنریشن وارفیئر کا یہ ایک اجمالی خاکہ ہے۔ بیان کا مقصد یہ ہے کہ اس حکمتِ عملی کا تصور قابلِ فہم ہوجائے۔
اس نوع کی حکمتِ عملی بنانے اور اسے اختیار کرنے کا سوال تو دوسری جنگِ عظیم کی گرد بیٹھنے کے بعد اٹھایا گیا تھا۔ اُس وقت سوال یہ کہہ کر اٹھایا گیا تھا کہ براہِ راست جنگ کا ذیلی نقصان (collateral damage) بہت زیادہ ہوتا ہے، اس لیے اسے آخری اقدام کے طور پر رکھنا چاہیے۔ اس سے پہلے دوسرے حربے استعمال کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔
اس حکمتِ عملی کی تشکیل کے بارے میں واضح ضرورت کا احساس کیوبا اور ویت نام کی جنگوں کے بعد سامنے آیا تھا۔ اس لیے کہ ان جنگوں سے مکمل طور پر نتائج حاصل نہیں کیے جاسکے تھے۔ یہی نہیں، بلکہ جو نتائج حاصل ہوئے، وہ بھی بہت مہنگے پڑے تھے۔ اس سے پہلے جنگ کا روایتی تصور فتح و شکست کا تھا۔ فتح کا مطلب تھا زندگی اور شکست کا موت۔ دنیا میں طاقت کا توازن تو بظاہر اُس وقت بگڑا جب وہ یونی پولر ہوئی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سے برسوں پہلے امریکا کی مقتدر حیثیت واضح ہوچکی تھی۔ اسی حیثیت اور طاقت کے نشے میں اُس نے دنیا کے مختلف خطوں میں متعدد میدانِ جنگ بنائے اور جنگیں چھیڑی تھیں۔ انھی جنگوں کے نتائج نے نقصان کی غیرمعمولی شرح اور اس کے اثرات کو اس کے لیے قابلِ توجہ بنایا تھا۔
ذیلی نقصان کسے کہا گیا، یہ بھی غور طلب بات ہے۔ یہ نقصان ہتھیاروں اور مال کا نہیں بلکہ اس اصطلاح میں وہ سپاہی بھی شامل ہیں جو جنگ کے دوران مارے جاتے ہیں، یعنی ملک، قوم، نظریے اور مذہب کے نام پر جو قیمتی جانیں ضائع ہوتی ہیں، وہ بھی اسی collaterl damage کا حصہ شمار ہوتی ہیں۔ جنگ تو یقیناً پہلے بھی ہول ناک چیز تھی، لیکن اس نئی مشینی دنیا میں تو یہ بہت ہی سفاک شے ہوگئی ہے۔ نئے اقتداری تصورات اب اپنے استحکام اور وسعت پذیری کے لیے جن رویوں کا اظہار کرتے ہیں، وہ مشینی ہوگئے ہیں۔ پہلے بھی جنگیں استحصال کے لیے وقوع پذیر ہوتی تھیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ پہلے وہ انسانی بہادری اور جاں بازی کی بنیاد پر نتیجہ خیز ہوتی تھیں، لیکن نئی دنیا میں سفاکی اور بربریت کی بنیاد پر ان کا فیصلہ ہوتا ہے۔ پہلے جنگوں میں سپاہی کی زندگی سب سے قیمتی اور گراں قدر سرمایہ تصور کی جاتی تھی، لیکن آج اُس کا شمار ذیلی اور ضمنی اشیا میں ہوتا ہے۔
یہاں تک جو گفتگو ہوئی، اُس کا مقصد دراصل یہ ہے کہ قومی سطح پر جو صورتِ حال ہمیں درپیش ہے، اُسے سمجھا جائے۔ ملک کے سیاسی راہ نما، سول سروس اور افواج کے ذمہ دار لوگوں کو بھی ان سے ضرور واقف ہونا چاہیے، اور امید رکھنی چاہیے کہ وہ اپنے اپنے دائرے میں ذمے دارانہ کردار بھی ادا کرنے کے لیے کوشاں ہوں گے۔ تاہم اس حقیقت سے بھی ہم میں سے ہر آدمی کو باخبر ہونا چاہیے کہ فورتھ جنریشن وارفیئر کے حالات میں سیاست دانوں، اشرافیہ کے اہل کاروں اور افواج سے وابستہ افراد کی تمام تر کوششوں کے باوجود کسی ملک و قوم کی بقا کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ عوام میں قومی شعور کو عام کیا جائے۔ ہر فرد یہ سمجھے کہ وہ محاذِ جنگ پر ہے اور اسے نہ صرف اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی بقا کے لیے یہ جنگ لڑنی ہے، بلکہ اپنے سماج کا تحفظ بھی کرنا ہے۔
ہم بہت پیچھے نہیں جاتے، بس چالیس برس کے عرصے کو مڑ کر دیکھ لیتے ہیں۔ 1970ء کی دہائی کے آخری برسوں میں ہم امریکا کے اتحادی تھے اور اس کے ساتھ مل کر روس کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے۔ یہ جنگ ہماری نہیں تھی۔ ہم پرائی آگ میں کود پڑے تھے۔ ہمارا قومی بیانیہ اس جنگ کو اسلام کی جنگ بتاتا تھا۔ اسے امتِ مسلمہ کی بقا اور استحکام کی جنگ کہا گیا تھا۔ ہم اپنے ہمسائے افغانستان کو ہمسایہ نہیں، بلکہ ماں جایا سمجھ رہے تھے۔ اُس وقت صرف ہمارا سیاسی بیانیہ ہی یہ نہیں کہتا تھا، بلکہ عالی سیاسی بیانیہ بھی یہی تھا کہ روس جو ایک اشتراکی یا لامذہب طاقت تھا، وہ ہمارے دینی پڑوسی سے نبرد آزما تھا۔ وہاں قبضہ جمانا چاہتا تھا۔ اس کے بعد اسے وسطی اور جنوبی ایشیا کا رخ کرنا تھا۔
ہم اس لامذہب طاقت کے فاشسٹ عزائم کے خلاف اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کررہے تھے جن کی فوج میں مدرسوں کے کم عمر اور معصوم نوجوان جوق در جوق شامل تھے۔ یہ سادہ لوح اور دنیا کے نشیب و فراز سے ناآشنا لوگ تھے۔ انھیں تو یہ تک معلوم نہ تھا کہ پہاڑوں سے اُدھر زمین کا رنگ کچھ اور ہے، اور ہوائیں شمال سے نہیں مغربی رُخ سے چلتی ہیں۔ یہ جنگ تن دہی سے لڑی گئی۔ ہمارا جذبہ اور بہادری سرخ رو ٹھہری۔ جنگ جیت لی گئی۔ سپرپاور کے گھٹنے ٹوٹ گئے۔ اس کے اندر پھوٹ پڑگئی۔ اس کی سیاست، معیشت اور ریاست تینوں کو گزند پہنچی۔ اس کی شکست نے عالمی منظرنامہ بدل دیا۔ دنیا یک قطبی ہوگئی۔ طاقت کا توازن ختم ہوگیا۔ اس کے بعد دیکھنے والوں نے حیرت زدہ اور افسردہ آنکھوں سے دیکھا کہ دنیا میں جنگل کی حکومت کے مظاہرے عام ہوگئے۔
یہی وقت تھا جب حلیفوں اور اتحادیوں نے بوجھل دل کے ساتھ یہ دیکھا کہ اب سپر پاور کو اپنے ساتھیوں کی ضرورت نہیں رہی، لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ دنیا میں ہمیشہ سے ایسا ہوتا آیا ہے، افراد کی ہی نہیں قوموں کی زندگی میں۔ کسی ہدف کو حاصل کرنے کے لیے بنائے گئے رشتے اس روز بے معنی ہوجاتے ہیں جس روز ہدف حاصل ہوجاتا ہے۔
ٹھیک ہے، لیکن اب اُن سادہ لوح اتحادیوں کا کیا کیجیے جنھوں نے جان پر کھیل کر یہ بازی جیتی تھی، وہ تو سپرپاور کو ہمیشہ کے لیے اپنا سمجھ بیٹھے تھے، اور الطاف و عنایات کے عادی ہوگئے تھے۔ اُن کے اشارۂ ابرو پر ہتھیاروں اور ڈالرز کی پیٹیاں بھر کر ہی نہیں بھیجی جاتی تھیں، بلکہ نئی ٹیکنالوجی کی آسائشیں اور کام و دہن کی سرشاری کے لیے کیا کیا نعمتیں نذر گزاری جاتی تھیں۔ خیر، پہلے شکوہ شکایت دو طرفہ ہوا اور پھر کشاکش کا سلسلہ چل نکلا۔ اس کے بعد کیا ہوا، یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ حال کا منظرنامہ ہے۔
ایک بار پھر دنیا بدل گئی۔ ہمارا بیانیہ بھی بدل گیا، صرف بیانیہ نہیں، حالات، واقعات، تجربات سب کچھ بدل گیا۔ اب ہم پھر سپرپاور کے اتحادی تھے۔ ہمیں ایک بار پھر جنگ کا سامنا تھا، لیکن اب یہ پرائی آگ نہیں تھی۔ اب یہ ہماری اپنی جنگ تھی۔ بقا کی جنگ، لیکن اس بار ہم بہت خوش دلی سے اس جنگ میں ساتھی نہیں بنے ہیں۔ ہم پر دباؤ تھا کہ ہم ساتھ دیں گے تو دوست ورنہ ہمیں دشمن سمجھا جائے گا۔ ساتھ تو ہمیں دینا ہی تھا، مگر سوچنا چاہیے کہ آخر کیوں دینا تھا؟ صرف خارجی دباؤ نہیں تھا اس کے لیے، ہمارے تو اپنے بہت سے داخلی دباؤ ہیں۔ مثلاً یہ کہ جنگ ہمارے اپنے گھر آنگن تک چلی آئی تھی۔ اس آگ کی لپٹیں ہمارے درودیوار کو کھا رہی تھیں۔ ہمارے بچے، جوان، سپاہی، محافظ، معصوم لوگ اس آگ کی نذر ہورہے تھے۔
اس دباؤ کو بھی تو دیکھیے کہ اپنے پڑوسیوں سے اب ہمارا رشتہ اعتماد کا نہیں رہا۔ دونوں طرف اور دور تک بے اعتباری پھیل چکی ہے۔ ہمسائے تو ماں جائے ہوتے ہیں۔ اگر ان سے مغائرت پیدا ہوجائے تو دھڑکے پھر دل کی دھڑکنوں میں اتر آتے ہیں۔ ہمیں اب یہی ماجرا پیش ہے۔
بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی۔ آدمی ہو یا قوم، کھڑا ہونے کے لیے تو ریڑھ کی ہڈی چاہیے ہوتی ہے۔ کسی ملک و قوم کے لیے ریڑھ ہڈی اُس کی معیشت ہوتی ہے۔ اکانومی میں دم ہو تو ملک سپرپاور کی دھونس دھمکی میں نہیں آتا، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے۔ برسوں حالتِ جنگ میں رہتا ہے اور پھر دامن جھاڑ کر یوں کھڑا ہوجاتا ہے، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے، لیکن ہم کیا مثال سامنے رکھیں، ہم نے تو کشکول اٹھایا ہوا ہے۔ ہمارے یہاں تو بچہ دنیا میں آکر پہلا سانس لیتا ہے اور لگ بھگ سوا لاکھ روپے کا مقروض ہوجاتا ہے۔ ہمارے سیاست داں امداد اور قرضوں کی رقم بیرونِ ملک ذاتی اکاؤنٹ میں پہنچواتے، محل بناتے اور ذاتی کاروبار چلاتے ہیں۔ سو ایسے میں کیسی معیشت، کہاں کی اکانومی اور کیا ریڑھ کی ہڈی۔
سوچیے تو واقعی کتنی باتیں ہیں کہ حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے اور دل ڈوب ڈوب جاتا ہے۔ تو پھر کیا کریں؟ خودکشی کرلیں؟ حرام حلال کا مسئلہ نہیں، لیکن خودکشی سے کام نہیں چل سکتا۔ اس لیے کہ بات صرف ہماری ذات کی نہیں ہے۔ اصل مسئلہ تو اب ہمارے بچوں کا ہے۔ ہم ہاتھ پاؤں چھوڑ کر پڑجائیں یا خودکشی کرلیں، بات ایک ہے۔ ہمارے اس عمل کا بھگتان ہمارے بچوں کو بھگتنا ہوگا۔ اس لیے اب ہمیں مرنے کا نہیں جینے کا سوال درپیش ہے۔ ضروری ہے کہ جینے کا سامان کیا جائے، زندگی کا راستہ نکالا جائے۔ اپنے لیے بھی اور اپنے بچوں کے لیے بھی۔
کیا ایسا ممکن ہے؟ یقینا ممکن ہے۔ دنیا تو نام ہی امکانات کا ہے۔ مایوسی مذہب میں ہی نہیں، تہذیب، زندگی، محبت- سب جگہ حرام ہے۔ زندگی کا پہلا تقاضا ہی حوصلہ ہے۔ اس کے بغیر زندگی ممکن نہیں۔ تدبیر کی جائے تو تقدیر بھی ساتھ دینے لگتی ہے۔ راستے نکل آتے ہیں۔
چلیے تو پھر دیکھتے ہیں کہ کیا کرنا چاہیے؟ سب سے پہلے حقیقت تسلیم کی جاتی ہے، پھر اقدامات کی باری آتی ہے۔ ٹھیک ہے، فورتھ جنریشن وارفیئر قوموں اور ملکوں کو اندر سے کھوکھلا کردیتی ہے۔ عراق، مصر اور شام کی حالیہ مثالیں سامنے ہیں، لیکن ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں جرمنی، چین اور ایران کی مثال کو سامنے رکھنا چاہیے، جہاں یہ حکمتِ عملی ناکام ہوگئی۔ اس لیے کہ ان جگہوں پر اس کا مقابلہ قومی شعور اور اجتماعی طرزِ احساس سے ہوا۔ پس ثابت ہوا کہ قومی شعور اور اجتماعی طرزِ احساس گہرا اور مستحکم ہو تو یہ حکمتِ عملی کارگر نہیں ہوسکتی۔
قومی شعور اور اجتماعی طرزِ احساس کو کیا چیز مستحکم کرتی ہے؟ خوداعتمادی۔ ہر شک و شبہ سے بالا تر خود اعتمادی۔ ہمارے لوگ اور ادارے بہت اچھا کام نہیں کررہے، ماننا چاہیے، لیکن انھیں شک کی نگاہ سے دیکھنا، ان کی اصلاح کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ ہمیں اصلاح کی راہ نکالنی چاہیے۔ تشکیک اور مایوسی نہیں پھیلانی چاہیے۔ گروہی، لسانی، صوبائی اور مسلکی اختلافات پہلے بھی تو تھے۔ ہم ان کے ساتھ بہ آسانی زندگی گزار رہے تھے۔ اب ہم نے انھیں ناقابلِ برداشت اور مرنے جینے کا سوال کیوں بنالیا ہے؟ عدم برداشت کے رویے کا پھیلاؤ اجتماعی خودکشی کے مترادف ہوتا ہے۔ ہمیں ان باتوں کو سمجھنا ہے، اور وہ کرنا ہے جو ہمارے قومی اور اجتماعی اتحاد کا باعث ہو۔ وہ نہیں کرنا جس سے دشمن کے مقاصد کی تکمیل ہو۔
ظاہر ہے جاننا بھی چاہیے۔ اس لیے کہ بیس ویں صدی کے سات ویں عشرے کے آخری برسوں سے ہم اس حالت میں ہیں، یعنی کوئی چالیس برس کے عرصے سے، لیکن چلیے ابتدا میں تو یہ پراکسی وار تھی، تاہم گزشتہ لگ بھگ دو دہائیوں سے تو براہِ راست ہم اس کیفیت میں ہیں۔
اب یہ ہماری اپنی اور اصلی جنگ ہے۔ ہم نے سماجی، اخلاقی، معاشی اور سیاسی ہر سطح پر اس کی بڑی قیمت چکائی ہے اور اب تک چکا رہے ہیں۔ یہ بھی ہمارے یہاں سب لوگ جانتے ہیں، لیکن یہ بات کم لوگ جانتے ہوں گے کہ اب یہ جنگ آخری اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔
جنگ کے اس حصّے کو نوعی محاربہ درجہ چہارم (4th Generation Warfare) کہا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح پہلے پہل 1989ء میں امریکا کے کچھ دفاعی تجزیہ کاروں نے استعمال کی تھی۔ اس کا مفہوم Williams S.Lind نے اپنے ایک مضمون The Changing Face of War: Into Fourth Generation میں بیان کیا تھا۔ یہ مضمون میرین کارپس گزٹ میں 1989ء میں شائع ہوا تھا۔ بعد میں کرنل (ریٹائرڈ) Thomas X.Hommes نے اپنی کتاب The Sling and The Stone میں بہت تفصیل سے سے اس کی وضاحت کی تھی۔ پہلے تو ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ فورتھ جنریشن وار فیئر کس کو کہتے ہیں۔
یہ خود جنگ نہیں ہے بلکہ ایک جنگی حکمتِ عملی ہے۔ ماہرین کی رائے ہے کہ اس سے وہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں جو براہِ راست روایتی جنگ سے بھی ممکن نہیں ہوتے۔ اگر ممکن بھی ہوں تو ان کا حصول دشوار اور قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس حکمتِ عملی کی خاص بات یہ ہے کہ صرف سنگین دشمنوں کے خلاف ہی استعمال نہیں کی جاتی بلکہ ضرورت پڑنے پر خود حلیفوں کے لیے بھی استعمال ہوسکتی ہے۔
گویا اُن دشمنوں کے خلاف استعمال کی جاسکتی ہے، جن سے براہِ راست جنگ مجبوری، ضرورت یا مصلحت کی وجہ سے ممکن نہیں ہوتی۔ اس نکتے کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ دو ممالک کے مابین اسٹریٹی جک تعلق ہوتا ہے، لیکن کسی نہ کسی وجہ سے درونِ خانہ دونوں ہی یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ تعلق حقیقی نہیں ہے۔ نظریاتی، فکری یا اخلاص کی بنیاد پر قائم نہیں ہوا، بلکہ اس کی بنیاد ضرورت یا مصلحت پر ہے۔
ایسے رشتے بالعموم سپرپاورز کسی پس ماندہ یا ترقی پذیر ملک سے قائم کرتی ہیں۔ بعد ازاں کسی مرحلے پر سپرپاور کو لازماً یہ خیال گزرتا ہے کہ اپنا ساتھ دینے اور کام نکلوانے کے لیے حلیف بنائے گئے ملک کی مالی، سیاسی اور حربی سطح پر اُس نے جو مدد کی ہے، وہ آگے چل کر خود اس کے لیے ضرر رساں ہوگی۔
اب ضروری ہوجاتا ہے کہ اُس ملک کو اس حد تک نہ آنے دیا جائے، لیکن مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ضرورت یا مصلحت اُس کے خلاف براہِ راست اقدام یا جنگ کی اجازت نہیں دیتی۔ ایسے میں چوتھے مرحلے کی حکمتِ عملی اختیار کی جاتی ہے جو مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ اس حکمتِ عملی کے تحت سب سے پہلے عوام کے دلوں میں اُس ملک کی سیاسی مقتدرہ اور اشرافیہ کے لیے بدگمانی پیدا کی جاتی ہے، جسے نفرت کی حد تک پہنچایا جاتا ہے۔ مرکزی حکومت کو کم زور کیا جاتا ہے اور اس پر دباؤ بڑھایا جاتا ہے جس کے لیے صوبائیت کے تصور کو ابھارا جاتا ہے۔
محرومی کے سوال کو عام کیا جاتا ہے۔ حق تلفی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ پہلے قومی اداروں میں ناقص لوگ تلاش کیے جاتے ہیں، انھیں اعلیٰ درجوں تک پہنچنے میں مدد دی جاتی ہے۔ رشوت معمول بن جاتی ہے۔ اداروں کی ساکھ کو ختم کیا جاتا ہے۔ عوام میں صوبائی، گروہی، لسانی، علاقائی مسلکی اور مذہبی حوالوں سے تناؤ پیدا کرکے فسادات کرائے جاتے ہیں۔
قومیت کے اجتماعی احساس کو ختم کرکے انتشار پیدا کیا جاتا ہے۔ افراد میں ذاتی مفاد کے چلن کو ہوا دی جاتی ہے۔ افواج پر عوامی اعتماد کو مجروح کیا جاتا ہے۔ اس کے کردار اور قربانیوں سے توجہ ہٹائی جاتی ہے۔ مایوسی اور بے یقینی پھیلا کر مستقبل کے اقدامات کی راہ میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے۔ حال کی ابتلا کو یوں مرکزِ نگاہ بنایا جاتا ہے کہ آنے والے وقت اور نئی نسل سے دھیان ہٹ جائے۔ فورتھ جنریشن وارفیئر کا یہ ایک اجمالی خاکہ ہے۔ بیان کا مقصد یہ ہے کہ اس حکمتِ عملی کا تصور قابلِ فہم ہوجائے۔
اس نوع کی حکمتِ عملی بنانے اور اسے اختیار کرنے کا سوال تو دوسری جنگِ عظیم کی گرد بیٹھنے کے بعد اٹھایا گیا تھا۔ اُس وقت سوال یہ کہہ کر اٹھایا گیا تھا کہ براہِ راست جنگ کا ذیلی نقصان (collateral damage) بہت زیادہ ہوتا ہے، اس لیے اسے آخری اقدام کے طور پر رکھنا چاہیے۔ اس سے پہلے دوسرے حربے استعمال کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔
اس حکمتِ عملی کی تشکیل کے بارے میں واضح ضرورت کا احساس کیوبا اور ویت نام کی جنگوں کے بعد سامنے آیا تھا۔ اس لیے کہ ان جنگوں سے مکمل طور پر نتائج حاصل نہیں کیے جاسکے تھے۔ یہی نہیں، بلکہ جو نتائج حاصل ہوئے، وہ بھی بہت مہنگے پڑے تھے۔ اس سے پہلے جنگ کا روایتی تصور فتح و شکست کا تھا۔ فتح کا مطلب تھا زندگی اور شکست کا موت۔ دنیا میں طاقت کا توازن تو بظاہر اُس وقت بگڑا جب وہ یونی پولر ہوئی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سے برسوں پہلے امریکا کی مقتدر حیثیت واضح ہوچکی تھی۔ اسی حیثیت اور طاقت کے نشے میں اُس نے دنیا کے مختلف خطوں میں متعدد میدانِ جنگ بنائے اور جنگیں چھیڑی تھیں۔ انھی جنگوں کے نتائج نے نقصان کی غیرمعمولی شرح اور اس کے اثرات کو اس کے لیے قابلِ توجہ بنایا تھا۔
ذیلی نقصان کسے کہا گیا، یہ بھی غور طلب بات ہے۔ یہ نقصان ہتھیاروں اور مال کا نہیں بلکہ اس اصطلاح میں وہ سپاہی بھی شامل ہیں جو جنگ کے دوران مارے جاتے ہیں، یعنی ملک، قوم، نظریے اور مذہب کے نام پر جو قیمتی جانیں ضائع ہوتی ہیں، وہ بھی اسی collaterl damage کا حصہ شمار ہوتی ہیں۔ جنگ تو یقیناً پہلے بھی ہول ناک چیز تھی، لیکن اس نئی مشینی دنیا میں تو یہ بہت ہی سفاک شے ہوگئی ہے۔ نئے اقتداری تصورات اب اپنے استحکام اور وسعت پذیری کے لیے جن رویوں کا اظہار کرتے ہیں، وہ مشینی ہوگئے ہیں۔ پہلے بھی جنگیں استحصال کے لیے وقوع پذیر ہوتی تھیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ پہلے وہ انسانی بہادری اور جاں بازی کی بنیاد پر نتیجہ خیز ہوتی تھیں، لیکن نئی دنیا میں سفاکی اور بربریت کی بنیاد پر ان کا فیصلہ ہوتا ہے۔ پہلے جنگوں میں سپاہی کی زندگی سب سے قیمتی اور گراں قدر سرمایہ تصور کی جاتی تھی، لیکن آج اُس کا شمار ذیلی اور ضمنی اشیا میں ہوتا ہے۔
یہاں تک جو گفتگو ہوئی، اُس کا مقصد دراصل یہ ہے کہ قومی سطح پر جو صورتِ حال ہمیں درپیش ہے، اُسے سمجھا جائے۔ ملک کے سیاسی راہ نما، سول سروس اور افواج کے ذمہ دار لوگوں کو بھی ان سے ضرور واقف ہونا چاہیے، اور امید رکھنی چاہیے کہ وہ اپنے اپنے دائرے میں ذمے دارانہ کردار بھی ادا کرنے کے لیے کوشاں ہوں گے۔ تاہم اس حقیقت سے بھی ہم میں سے ہر آدمی کو باخبر ہونا چاہیے کہ فورتھ جنریشن وارفیئر کے حالات میں سیاست دانوں، اشرافیہ کے اہل کاروں اور افواج سے وابستہ افراد کی تمام تر کوششوں کے باوجود کسی ملک و قوم کی بقا کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ عوام میں قومی شعور کو عام کیا جائے۔ ہر فرد یہ سمجھے کہ وہ محاذِ جنگ پر ہے اور اسے نہ صرف اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی بقا کے لیے یہ جنگ لڑنی ہے، بلکہ اپنے سماج کا تحفظ بھی کرنا ہے۔
ہم بہت پیچھے نہیں جاتے، بس چالیس برس کے عرصے کو مڑ کر دیکھ لیتے ہیں۔ 1970ء کی دہائی کے آخری برسوں میں ہم امریکا کے اتحادی تھے اور اس کے ساتھ مل کر روس کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے۔ یہ جنگ ہماری نہیں تھی۔ ہم پرائی آگ میں کود پڑے تھے۔ ہمارا قومی بیانیہ اس جنگ کو اسلام کی جنگ بتاتا تھا۔ اسے امتِ مسلمہ کی بقا اور استحکام کی جنگ کہا گیا تھا۔ ہم اپنے ہمسائے افغانستان کو ہمسایہ نہیں، بلکہ ماں جایا سمجھ رہے تھے۔ اُس وقت صرف ہمارا سیاسی بیانیہ ہی یہ نہیں کہتا تھا، بلکہ عالی سیاسی بیانیہ بھی یہی تھا کہ روس جو ایک اشتراکی یا لامذہب طاقت تھا، وہ ہمارے دینی پڑوسی سے نبرد آزما تھا۔ وہاں قبضہ جمانا چاہتا تھا۔ اس کے بعد اسے وسطی اور جنوبی ایشیا کا رخ کرنا تھا۔
ہم اس لامذہب طاقت کے فاشسٹ عزائم کے خلاف اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کررہے تھے جن کی فوج میں مدرسوں کے کم عمر اور معصوم نوجوان جوق در جوق شامل تھے۔ یہ سادہ لوح اور دنیا کے نشیب و فراز سے ناآشنا لوگ تھے۔ انھیں تو یہ تک معلوم نہ تھا کہ پہاڑوں سے اُدھر زمین کا رنگ کچھ اور ہے، اور ہوائیں شمال سے نہیں مغربی رُخ سے چلتی ہیں۔ یہ جنگ تن دہی سے لڑی گئی۔ ہمارا جذبہ اور بہادری سرخ رو ٹھہری۔ جنگ جیت لی گئی۔ سپرپاور کے گھٹنے ٹوٹ گئے۔ اس کے اندر پھوٹ پڑگئی۔ اس کی سیاست، معیشت اور ریاست تینوں کو گزند پہنچی۔ اس کی شکست نے عالمی منظرنامہ بدل دیا۔ دنیا یک قطبی ہوگئی۔ طاقت کا توازن ختم ہوگیا۔ اس کے بعد دیکھنے والوں نے حیرت زدہ اور افسردہ آنکھوں سے دیکھا کہ دنیا میں جنگل کی حکومت کے مظاہرے عام ہوگئے۔
یہی وقت تھا جب حلیفوں اور اتحادیوں نے بوجھل دل کے ساتھ یہ دیکھا کہ اب سپر پاور کو اپنے ساتھیوں کی ضرورت نہیں رہی، لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ دنیا میں ہمیشہ سے ایسا ہوتا آیا ہے، افراد کی ہی نہیں قوموں کی زندگی میں۔ کسی ہدف کو حاصل کرنے کے لیے بنائے گئے رشتے اس روز بے معنی ہوجاتے ہیں جس روز ہدف حاصل ہوجاتا ہے۔
ٹھیک ہے، لیکن اب اُن سادہ لوح اتحادیوں کا کیا کیجیے جنھوں نے جان پر کھیل کر یہ بازی جیتی تھی، وہ تو سپرپاور کو ہمیشہ کے لیے اپنا سمجھ بیٹھے تھے، اور الطاف و عنایات کے عادی ہوگئے تھے۔ اُن کے اشارۂ ابرو پر ہتھیاروں اور ڈالرز کی پیٹیاں بھر کر ہی نہیں بھیجی جاتی تھیں، بلکہ نئی ٹیکنالوجی کی آسائشیں اور کام و دہن کی سرشاری کے لیے کیا کیا نعمتیں نذر گزاری جاتی تھیں۔ خیر، پہلے شکوہ شکایت دو طرفہ ہوا اور پھر کشاکش کا سلسلہ چل نکلا۔ اس کے بعد کیا ہوا، یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ حال کا منظرنامہ ہے۔
ایک بار پھر دنیا بدل گئی۔ ہمارا بیانیہ بھی بدل گیا، صرف بیانیہ نہیں، حالات، واقعات، تجربات سب کچھ بدل گیا۔ اب ہم پھر سپرپاور کے اتحادی تھے۔ ہمیں ایک بار پھر جنگ کا سامنا تھا، لیکن اب یہ پرائی آگ نہیں تھی۔ اب یہ ہماری اپنی جنگ تھی۔ بقا کی جنگ، لیکن اس بار ہم بہت خوش دلی سے اس جنگ میں ساتھی نہیں بنے ہیں۔ ہم پر دباؤ تھا کہ ہم ساتھ دیں گے تو دوست ورنہ ہمیں دشمن سمجھا جائے گا۔ ساتھ تو ہمیں دینا ہی تھا، مگر سوچنا چاہیے کہ آخر کیوں دینا تھا؟ صرف خارجی دباؤ نہیں تھا اس کے لیے، ہمارے تو اپنے بہت سے داخلی دباؤ ہیں۔ مثلاً یہ کہ جنگ ہمارے اپنے گھر آنگن تک چلی آئی تھی۔ اس آگ کی لپٹیں ہمارے درودیوار کو کھا رہی تھیں۔ ہمارے بچے، جوان، سپاہی، محافظ، معصوم لوگ اس آگ کی نذر ہورہے تھے۔
اس دباؤ کو بھی تو دیکھیے کہ اپنے پڑوسیوں سے اب ہمارا رشتہ اعتماد کا نہیں رہا۔ دونوں طرف اور دور تک بے اعتباری پھیل چکی ہے۔ ہمسائے تو ماں جائے ہوتے ہیں۔ اگر ان سے مغائرت پیدا ہوجائے تو دھڑکے پھر دل کی دھڑکنوں میں اتر آتے ہیں۔ ہمیں اب یہی ماجرا پیش ہے۔
بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی۔ آدمی ہو یا قوم، کھڑا ہونے کے لیے تو ریڑھ کی ہڈی چاہیے ہوتی ہے۔ کسی ملک و قوم کے لیے ریڑھ ہڈی اُس کی معیشت ہوتی ہے۔ اکانومی میں دم ہو تو ملک سپرپاور کی دھونس دھمکی میں نہیں آتا، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے۔ برسوں حالتِ جنگ میں رہتا ہے اور پھر دامن جھاڑ کر یوں کھڑا ہوجاتا ہے، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے، لیکن ہم کیا مثال سامنے رکھیں، ہم نے تو کشکول اٹھایا ہوا ہے۔ ہمارے یہاں تو بچہ دنیا میں آکر پہلا سانس لیتا ہے اور لگ بھگ سوا لاکھ روپے کا مقروض ہوجاتا ہے۔ ہمارے سیاست داں امداد اور قرضوں کی رقم بیرونِ ملک ذاتی اکاؤنٹ میں پہنچواتے، محل بناتے اور ذاتی کاروبار چلاتے ہیں۔ سو ایسے میں کیسی معیشت، کہاں کی اکانومی اور کیا ریڑھ کی ہڈی۔
سوچیے تو واقعی کتنی باتیں ہیں کہ حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے اور دل ڈوب ڈوب جاتا ہے۔ تو پھر کیا کریں؟ خودکشی کرلیں؟ حرام حلال کا مسئلہ نہیں، لیکن خودکشی سے کام نہیں چل سکتا۔ اس لیے کہ بات صرف ہماری ذات کی نہیں ہے۔ اصل مسئلہ تو اب ہمارے بچوں کا ہے۔ ہم ہاتھ پاؤں چھوڑ کر پڑجائیں یا خودکشی کرلیں، بات ایک ہے۔ ہمارے اس عمل کا بھگتان ہمارے بچوں کو بھگتنا ہوگا۔ اس لیے اب ہمیں مرنے کا نہیں جینے کا سوال درپیش ہے۔ ضروری ہے کہ جینے کا سامان کیا جائے، زندگی کا راستہ نکالا جائے۔ اپنے لیے بھی اور اپنے بچوں کے لیے بھی۔
کیا ایسا ممکن ہے؟ یقینا ممکن ہے۔ دنیا تو نام ہی امکانات کا ہے۔ مایوسی مذہب میں ہی نہیں، تہذیب، زندگی، محبت- سب جگہ حرام ہے۔ زندگی کا پہلا تقاضا ہی حوصلہ ہے۔ اس کے بغیر زندگی ممکن نہیں۔ تدبیر کی جائے تو تقدیر بھی ساتھ دینے لگتی ہے۔ راستے نکل آتے ہیں۔
چلیے تو پھر دیکھتے ہیں کہ کیا کرنا چاہیے؟ سب سے پہلے حقیقت تسلیم کی جاتی ہے، پھر اقدامات کی باری آتی ہے۔ ٹھیک ہے، فورتھ جنریشن وارفیئر قوموں اور ملکوں کو اندر سے کھوکھلا کردیتی ہے۔ عراق، مصر اور شام کی حالیہ مثالیں سامنے ہیں، لیکن ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں جرمنی، چین اور ایران کی مثال کو سامنے رکھنا چاہیے، جہاں یہ حکمتِ عملی ناکام ہوگئی۔ اس لیے کہ ان جگہوں پر اس کا مقابلہ قومی شعور اور اجتماعی طرزِ احساس سے ہوا۔ پس ثابت ہوا کہ قومی شعور اور اجتماعی طرزِ احساس گہرا اور مستحکم ہو تو یہ حکمتِ عملی کارگر نہیں ہوسکتی۔
قومی شعور اور اجتماعی طرزِ احساس کو کیا چیز مستحکم کرتی ہے؟ خوداعتمادی۔ ہر شک و شبہ سے بالا تر خود اعتمادی۔ ہمارے لوگ اور ادارے بہت اچھا کام نہیں کررہے، ماننا چاہیے، لیکن انھیں شک کی نگاہ سے دیکھنا، ان کی اصلاح کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ ہمیں اصلاح کی راہ نکالنی چاہیے۔ تشکیک اور مایوسی نہیں پھیلانی چاہیے۔ گروہی، لسانی، صوبائی اور مسلکی اختلافات پہلے بھی تو تھے۔ ہم ان کے ساتھ بہ آسانی زندگی گزار رہے تھے۔ اب ہم نے انھیں ناقابلِ برداشت اور مرنے جینے کا سوال کیوں بنالیا ہے؟ عدم برداشت کے رویے کا پھیلاؤ اجتماعی خودکشی کے مترادف ہوتا ہے۔ ہمیں ان باتوں کو سمجھنا ہے، اور وہ کرنا ہے جو ہمارے قومی اور اجتماعی اتحاد کا باعث ہو۔ وہ نہیں کرنا جس سے دشمن کے مقاصد کی تکمیل ہو۔