ساتواں فارمولا
آنے والا دور پاکستانی عوام کے لیے فیصلہ کن ہے۔ انھیں طے کرنا ہے کہ ان کے معیار پر کون سا فارمولا پورا اترتا ہے
طاہر القادری نے پاکستان کی سیاست میں ہلچل مچادی ہے۔ پہلے جلسے اور پھر اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان۔ پاکستان کے انتخابی نظام میں تبدیلی کا فارمولا لے کر آئے ہیں ڈاکٹر صاحب۔ ان کی باتوں کو میڈیا، عوام اور سیاسی رہنما اہمیت دے رہے ہیں۔ باتوں کی سچائی کو مانا جارہا ہے لیکن ٹائمنگ اور طریقہ کار پر شکوک کا اظہار کیا جارہا ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے ''کسی ڈاکٹر کو جمہوریت کا پیٹ چاک نہیں کرنے دیں '' والی بات کہہ کر تمام سیاسی رہنماؤں کی جانب سے فرض کفایہ ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ قادری صاحب کا فارمولا ملکی سیاست کا پہلا فارمولا نہیں۔ اس سے قبل چھ فارمولے پاکستان میں پیش کیے جاچکے ہیں۔ تین مکمل طور پر اور 2 کو جزوی طور پر آزمایا بھی جاچکا ہے۔ آئیے پہلے پاکستان میں پیش کیے گئے فارمولوں پر نظر دوڑانے کے بعد پھر طاہر القادری کے فارمولے کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں۔
ایوب خان پہلے حکمران تھے جو ایک فارمولا لے کر پاکستان میں آئے، اقتدار پر قبضے سے پہلے وہ غیرملکی ہوٹلوں میں ان فارمولوں پر غور کرتے رہے ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ مستحکم اور پائیدار فوجی حکومت ہو، ڈنڈے کے زور پر عوام کو درست کیا جائے، جب اصلاحات کے بعد خوشحالی آئے گی تو عوام خودبخود اس لیڈر کو شرف قبولیت بخشیں گے۔ عوام کی نبض پر ہاتھ نہ ہونے کے سبب ایوب کو رسوا ہوکر ملک کا اقتدار چھوڑنا پڑا۔ بھوک گوارا کرنے لیکن سیاسی آزادی پر سودا نہ کرنے والے عوام نے فوجی سربراہ کو احتجاجی تحریک کے بعد رخصت کیا۔ اس دور کی ترقی کو انگریزوں کی ترقی کی مانند قرار دیا گیا۔
اس فارمولے کو لے کریحییٰ، ضیاء اور مشرف بھی برسر اقتدار آئے لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ لوگ ایوب کے بعد کسی عوامی لیڈر کے منتظر تھے۔بھٹو عوامی لیڈر بن کر سامنے آئے، ماؤ کی طرح کی کیپ اور ہٹلر کا سا انداز تقریر۔ بھٹو نے ایوب والی خامی دور کردی کہ وہ عوامی رہنما تھے ، کوئی فوجی جنرل نہیں۔ بھٹو کا دور عوامی خوشحالی کا دور نہ بن سکا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد کی معاشی مشکلات سر پر تھیں۔ بھٹو نے سوشلزم نافذ کرنے کے لیے ملک کے صنعتی اور تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لے لیا۔ ان کے اس فیصلے نے ملک کو معاشی طور پر پیچھے کردیا۔ تاجر و صنعت کار بھٹو کے خلاف ہوگئے، سیاسی پارٹیاں نہ بھٹو کا متبادل لاسکیں اور نہ بھٹو انھیں کھلے سیاسی میدان میں شکست دے سکے۔
ان دو خامیوں نے 77 کے الیکشن کے بعد احتجاجی تحریک کو ہوا دی۔ بھٹو نے علماء کو خوش کرنے کے لیے جمعہ کی چھٹی اور شراب و ریس پر پابندی عائد کی، لیکن وقت ہاتھ سے نکل گیا۔ ''روٹی، کپڑا اور مکان'' کا خوشحالی دینے والا نعرہ آرزو، تمنا، خواہش تک ہی محدود رہا۔ یوں یہ دوسرا فارمولا ہے جو پاکستانی سیاست میں لاگو ہوچکا ہے۔ پیپلز پارٹی اس کے بعد کئی مرتبہ برسراقتدار آچکی ہے۔ یہ فارمولا کس حد تک پاکستانی حد تک پاکستانی سیاست میں کامیاب رہا اس کا فیصلہ مورخین کریں گے۔
نواز شریف کو تیسرے فارمولے کا موجد کہا جاسکتا ہے۔ بھٹو، شریف اور فوج نے پاکستان پر حکومت کرکے اپنے نظریات کو لاگو کرنے کی کوشش کی ہے۔ نواز شریف نے ڈیمز، سڑکوں اور پلوں کے ذریعے خوشحالی کے دور کا آغاز کیا۔ یہ فارمولا آزاد تجارت اور صنعتکاروں کو رعایت دینے کا فارمولا تھا۔ نواز شریف دو مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم بن کر اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے رہے۔
پنجاب میں کئی مرتبہ حکمرانی نے اس فارمولے میں مزید نکھار پیدا کیا۔ پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے والا یہ فارمولا کس حد تک پاکستانیوں میں خوشحالی لاسکا؟ یہ تاریخ کا بہت بڑا سوال ہے۔ کامیابی اور ناکامی پر دو طرفہ دلائل ہیں۔ شہری پنجاب کی ترقی، کرپشن سے پاک ماحول، میرٹ پر نوکریوں کے دعوے ہیں تو دوسری طرف تھانہ، پٹواری کلچر ختم نہ کرنا، ڈاکٹروں کی ہڑتالیں، دواؤں سے اموات اورگڈگورننس، دانش اسکول، لیپ ٹاپ اور سستی روٹی کے پروجیکٹس سوالیہ نشان ہیں۔ یہ تین فارمولے ہیں جو ملک پر مکمل طور پر رائج کیے جاچکے ہیں۔ ان فارمولوں کے موجدین کو پاکستان میں مکمل اختیارات کے ساتھ حکومت کا موقع ملا ہے۔ اگلے دو فارمولے جزوی طور پر نافذ رہے ہیں۔
الطاف حسین کی قیادت میں ایم کیو ایم چوتھے فارمولے کے بانی ہیں۔متوسط طبقے کی حکومت اور جاگیرداروں و سرمایہ داروں سے نجات اس فارمولے کے بنیادی اجزاء ہیں۔ متحدہ کو کراچی و حیدر آباد کی میئر شپ دو دو مرتبہ ملی ہیں۔ اس کے علاوہ سندھ و وفاق میں اس کے وزراء کا ہونا اس فارمولے پر جزوی عملدرآمد کے مواقعے کہلائے جاسکتے ہیں۔ ایم کیو ایم کو بھی پاکستان کی وزارت عظمیٰ یا کسی صوبے کی سربراہی کا موقع نہیں ملا۔ یہ نہیں کہاجاسکتا کہ انھیں اپنے نظریے پر عملدرآمد کا بھرپور موقع ملا ہے۔ مہاجر قومیت سے ابتدائی جدوجہد ایم کیو ایم کے راستے کی رکاوٹ اور پاؤں کی زنجیر ہے۔ جزوی اقتدار کے ساتھ جزوی عملدرآمد تاریخ کے حوالے ہے۔ ایک اور فارمولا ایسا ہے جسے مکمل اقتدار نہیں ملا اور یہ اب تک صرف کتابوں تک محدود ہے۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی نے جماعت اسلامی قائم کرکے تین اجزاء پر مشتمل فارمولا دیا۔ اس کی پہلی شق کالجز اور یونیورسٹیز سے فارغ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ہوں جو امور مملکت چلاسکیں۔ ان کی دوسری خوبی یہ ہو کہ وہ اسلام کی اتنی تعلیم حاصل کریں کہ حلال و حرام میں فرق کرسکیں۔ تیسری بات کہ کردار کے لحاظ سے انھیں اتنا مضبوط بنادیا جائے کہ جماعت کے ارکان کو نہ خریدا جاسکے، نہ دبایا جاسکے اور نہ جھکایا جاسکے۔ یہ فارمولا اب تک کتابوں میں ہے یا جزوی طور پر لاگو ہوا ہے۔
کراچی کی حد تک تین مرتبہ میئر شپ اور کبھی کبھار پنجاب و خیبر پختونخوا کی وازرتیں یا 9 ماہ کے لیے ضیاء الحق کا ساتھ۔ یوں جماعت اسلامی اپنی ان خوبیوں کے باوجود مکمل طور پر ملک میں برسر اقتدار نہیں آسکی۔ ایسے ہی ملتے جلتے فارمولے پر ترکی اور مصر میں حکومتیں قائم ہوچکی ہیں۔ چوتھے و پانچویں فارمولے عملدرآمد کے منتظر ہیں۔ یوں ایم کیو ایم اپنے قائد کی سرکردگی میں اور جماعت اپنے آئین کی روشنی میں متوسط طبقے اور پڑھے لکھے عناصر کی پارٹیاں ہیں جنھیں جزوی طور پر اقتدار ملا ہے۔ تین مکمل اقتدار، دو جزوی اقتدار کے علاوہ ایک ایسی قوت ہے جسے ابھی آزمایا نہیں گیا۔
عمران کی پارٹی واحد پارٹی ہے جو کبھی برسراقتدار نہیں رہی۔ انصاف پر مبنی معاشرہ، گڈگورننس، آزاد خارجہ پالیسی، ٹیکس سب سے وصول کرنے کی پالیسی لے کر وہ میدان میں آئے ہیں۔ ایک اسپتال اور ایک یونیورسٹی کے علاوہ تحریک انصاف کے سربراہ ورلڈکپ جتوا کر ٹیم کو لڑانا وہ اپنے کریڈٹ پر لیتے ہیں۔ کپتان کے مخالفین ملک اور ٹیم کے معاملات کو چلانے کو الگ الگ گردانتے ہیں۔ تحریک انصاف واحد پارٹی ہے جو کلی یا جزوی طور پر کبھی برسراقتدار نہیں رہی، نوجوانوں کی بات کرنے والی یہ پارٹی ملکی سیاست میں چھٹے فارمولے کی بانی ہے۔
ایک دو تین۔ ایک کبھی پاورمیں نہ آنے والی اور اچھی حکومت دینے کا دعویٰ کرنے والی پارٹی ہمارے سامنے ہے۔ دو پارٹیاں ایسی ہیں جو متوسط طبقے کی نمایندگی کی دعویدار ہیں، جو جزوی طور پر اقتدار میں رہی ہیں۔ تین فارمولے فوج، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ہیں جن کا دوران حکومت نصف صدی پر محیط ہے۔ ساتواں فارمولا، طاہر القادری سامنے ہیں، وہ انتخابی نظام میں اصلاحات اور جاگیرداروں، وڈیروں سرمایہ داروں کی اجارہ داری کے خلاف ہیں۔ ایسی ہی باتیں ایم کیو ایم، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی بھی کر رہی ہیں۔ آنے والا دور پاکستانی عوام کے لیے فیصلہ کن ہے۔ انھیں طے کرنا ہے کہ ان کے معیار پر کون سا فارمولا پورا اترتا ہے۔ انھیں فوج، نواز شریف اور بھٹو کے فارمولے پسند ہیں یا مولانا مودودی، الطاف حسین اور عمران خان کے فارمولے یا ان کی سمجھ میں آرہا ہے طا
مولانا فضل الرحمن نے ''کسی ڈاکٹر کو جمہوریت کا پیٹ چاک نہیں کرنے دیں '' والی بات کہہ کر تمام سیاسی رہنماؤں کی جانب سے فرض کفایہ ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ قادری صاحب کا فارمولا ملکی سیاست کا پہلا فارمولا نہیں۔ اس سے قبل چھ فارمولے پاکستان میں پیش کیے جاچکے ہیں۔ تین مکمل طور پر اور 2 کو جزوی طور پر آزمایا بھی جاچکا ہے۔ آئیے پہلے پاکستان میں پیش کیے گئے فارمولوں پر نظر دوڑانے کے بعد پھر طاہر القادری کے فارمولے کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں۔
ایوب خان پہلے حکمران تھے جو ایک فارمولا لے کر پاکستان میں آئے، اقتدار پر قبضے سے پہلے وہ غیرملکی ہوٹلوں میں ان فارمولوں پر غور کرتے رہے ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ مستحکم اور پائیدار فوجی حکومت ہو، ڈنڈے کے زور پر عوام کو درست کیا جائے، جب اصلاحات کے بعد خوشحالی آئے گی تو عوام خودبخود اس لیڈر کو شرف قبولیت بخشیں گے۔ عوام کی نبض پر ہاتھ نہ ہونے کے سبب ایوب کو رسوا ہوکر ملک کا اقتدار چھوڑنا پڑا۔ بھوک گوارا کرنے لیکن سیاسی آزادی پر سودا نہ کرنے والے عوام نے فوجی سربراہ کو احتجاجی تحریک کے بعد رخصت کیا۔ اس دور کی ترقی کو انگریزوں کی ترقی کی مانند قرار دیا گیا۔
اس فارمولے کو لے کریحییٰ، ضیاء اور مشرف بھی برسر اقتدار آئے لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ لوگ ایوب کے بعد کسی عوامی لیڈر کے منتظر تھے۔بھٹو عوامی لیڈر بن کر سامنے آئے، ماؤ کی طرح کی کیپ اور ہٹلر کا سا انداز تقریر۔ بھٹو نے ایوب والی خامی دور کردی کہ وہ عوامی رہنما تھے ، کوئی فوجی جنرل نہیں۔ بھٹو کا دور عوامی خوشحالی کا دور نہ بن سکا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد کی معاشی مشکلات سر پر تھیں۔ بھٹو نے سوشلزم نافذ کرنے کے لیے ملک کے صنعتی اور تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لے لیا۔ ان کے اس فیصلے نے ملک کو معاشی طور پر پیچھے کردیا۔ تاجر و صنعت کار بھٹو کے خلاف ہوگئے، سیاسی پارٹیاں نہ بھٹو کا متبادل لاسکیں اور نہ بھٹو انھیں کھلے سیاسی میدان میں شکست دے سکے۔
ان دو خامیوں نے 77 کے الیکشن کے بعد احتجاجی تحریک کو ہوا دی۔ بھٹو نے علماء کو خوش کرنے کے لیے جمعہ کی چھٹی اور شراب و ریس پر پابندی عائد کی، لیکن وقت ہاتھ سے نکل گیا۔ ''روٹی، کپڑا اور مکان'' کا خوشحالی دینے والا نعرہ آرزو، تمنا، خواہش تک ہی محدود رہا۔ یوں یہ دوسرا فارمولا ہے جو پاکستانی سیاست میں لاگو ہوچکا ہے۔ پیپلز پارٹی اس کے بعد کئی مرتبہ برسراقتدار آچکی ہے۔ یہ فارمولا کس حد تک پاکستانی حد تک پاکستانی سیاست میں کامیاب رہا اس کا فیصلہ مورخین کریں گے۔
نواز شریف کو تیسرے فارمولے کا موجد کہا جاسکتا ہے۔ بھٹو، شریف اور فوج نے پاکستان پر حکومت کرکے اپنے نظریات کو لاگو کرنے کی کوشش کی ہے۔ نواز شریف نے ڈیمز، سڑکوں اور پلوں کے ذریعے خوشحالی کے دور کا آغاز کیا۔ یہ فارمولا آزاد تجارت اور صنعتکاروں کو رعایت دینے کا فارمولا تھا۔ نواز شریف دو مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم بن کر اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے رہے۔
پنجاب میں کئی مرتبہ حکمرانی نے اس فارمولے میں مزید نکھار پیدا کیا۔ پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے والا یہ فارمولا کس حد تک پاکستانیوں میں خوشحالی لاسکا؟ یہ تاریخ کا بہت بڑا سوال ہے۔ کامیابی اور ناکامی پر دو طرفہ دلائل ہیں۔ شہری پنجاب کی ترقی، کرپشن سے پاک ماحول، میرٹ پر نوکریوں کے دعوے ہیں تو دوسری طرف تھانہ، پٹواری کلچر ختم نہ کرنا، ڈاکٹروں کی ہڑتالیں، دواؤں سے اموات اورگڈگورننس، دانش اسکول، لیپ ٹاپ اور سستی روٹی کے پروجیکٹس سوالیہ نشان ہیں۔ یہ تین فارمولے ہیں جو ملک پر مکمل طور پر رائج کیے جاچکے ہیں۔ ان فارمولوں کے موجدین کو پاکستان میں مکمل اختیارات کے ساتھ حکومت کا موقع ملا ہے۔ اگلے دو فارمولے جزوی طور پر نافذ رہے ہیں۔
الطاف حسین کی قیادت میں ایم کیو ایم چوتھے فارمولے کے بانی ہیں۔متوسط طبقے کی حکومت اور جاگیرداروں و سرمایہ داروں سے نجات اس فارمولے کے بنیادی اجزاء ہیں۔ متحدہ کو کراچی و حیدر آباد کی میئر شپ دو دو مرتبہ ملی ہیں۔ اس کے علاوہ سندھ و وفاق میں اس کے وزراء کا ہونا اس فارمولے پر جزوی عملدرآمد کے مواقعے کہلائے جاسکتے ہیں۔ ایم کیو ایم کو بھی پاکستان کی وزارت عظمیٰ یا کسی صوبے کی سربراہی کا موقع نہیں ملا۔ یہ نہیں کہاجاسکتا کہ انھیں اپنے نظریے پر عملدرآمد کا بھرپور موقع ملا ہے۔ مہاجر قومیت سے ابتدائی جدوجہد ایم کیو ایم کے راستے کی رکاوٹ اور پاؤں کی زنجیر ہے۔ جزوی اقتدار کے ساتھ جزوی عملدرآمد تاریخ کے حوالے ہے۔ ایک اور فارمولا ایسا ہے جسے مکمل اقتدار نہیں ملا اور یہ اب تک صرف کتابوں تک محدود ہے۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی نے جماعت اسلامی قائم کرکے تین اجزاء پر مشتمل فارمولا دیا۔ اس کی پہلی شق کالجز اور یونیورسٹیز سے فارغ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ہوں جو امور مملکت چلاسکیں۔ ان کی دوسری خوبی یہ ہو کہ وہ اسلام کی اتنی تعلیم حاصل کریں کہ حلال و حرام میں فرق کرسکیں۔ تیسری بات کہ کردار کے لحاظ سے انھیں اتنا مضبوط بنادیا جائے کہ جماعت کے ارکان کو نہ خریدا جاسکے، نہ دبایا جاسکے اور نہ جھکایا جاسکے۔ یہ فارمولا اب تک کتابوں میں ہے یا جزوی طور پر لاگو ہوا ہے۔
کراچی کی حد تک تین مرتبہ میئر شپ اور کبھی کبھار پنجاب و خیبر پختونخوا کی وازرتیں یا 9 ماہ کے لیے ضیاء الحق کا ساتھ۔ یوں جماعت اسلامی اپنی ان خوبیوں کے باوجود مکمل طور پر ملک میں برسر اقتدار نہیں آسکی۔ ایسے ہی ملتے جلتے فارمولے پر ترکی اور مصر میں حکومتیں قائم ہوچکی ہیں۔ چوتھے و پانچویں فارمولے عملدرآمد کے منتظر ہیں۔ یوں ایم کیو ایم اپنے قائد کی سرکردگی میں اور جماعت اپنے آئین کی روشنی میں متوسط طبقے اور پڑھے لکھے عناصر کی پارٹیاں ہیں جنھیں جزوی طور پر اقتدار ملا ہے۔ تین مکمل اقتدار، دو جزوی اقتدار کے علاوہ ایک ایسی قوت ہے جسے ابھی آزمایا نہیں گیا۔
عمران کی پارٹی واحد پارٹی ہے جو کبھی برسراقتدار نہیں رہی۔ انصاف پر مبنی معاشرہ، گڈگورننس، آزاد خارجہ پالیسی، ٹیکس سب سے وصول کرنے کی پالیسی لے کر وہ میدان میں آئے ہیں۔ ایک اسپتال اور ایک یونیورسٹی کے علاوہ تحریک انصاف کے سربراہ ورلڈکپ جتوا کر ٹیم کو لڑانا وہ اپنے کریڈٹ پر لیتے ہیں۔ کپتان کے مخالفین ملک اور ٹیم کے معاملات کو چلانے کو الگ الگ گردانتے ہیں۔ تحریک انصاف واحد پارٹی ہے جو کلی یا جزوی طور پر کبھی برسراقتدار نہیں رہی، نوجوانوں کی بات کرنے والی یہ پارٹی ملکی سیاست میں چھٹے فارمولے کی بانی ہے۔
ایک دو تین۔ ایک کبھی پاورمیں نہ آنے والی اور اچھی حکومت دینے کا دعویٰ کرنے والی پارٹی ہمارے سامنے ہے۔ دو پارٹیاں ایسی ہیں جو متوسط طبقے کی نمایندگی کی دعویدار ہیں، جو جزوی طور پر اقتدار میں رہی ہیں۔ تین فارمولے فوج، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ہیں جن کا دوران حکومت نصف صدی پر محیط ہے۔ ساتواں فارمولا، طاہر القادری سامنے ہیں، وہ انتخابی نظام میں اصلاحات اور جاگیرداروں، وڈیروں سرمایہ داروں کی اجارہ داری کے خلاف ہیں۔ ایسی ہی باتیں ایم کیو ایم، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی بھی کر رہی ہیں۔ آنے والا دور پاکستانی عوام کے لیے فیصلہ کن ہے۔ انھیں طے کرنا ہے کہ ان کے معیار پر کون سا فارمولا پورا اترتا ہے۔ انھیں فوج، نواز شریف اور بھٹو کے فارمولے پسند ہیں یا مولانا مودودی، الطاف حسین اور عمران خان کے فارمولے یا ان کی سمجھ میں آرہا ہے طا