فلمی دنیا پہلا حصہ
فلم بینوں کو سینما ہال تک لانے کے لیے تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے
CHITRAL:
بعض کتابیں ایسی ہوتی ہیں جو انسان کے دل و دماغ کو جھنجوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ خاص کر فلمی دنیا سے متعلق یادداشتیں اور فلم انڈسٹری سے جڑے لوگوں کی بے حسی، خود غرضی اور لالچ کے علاوہ کچھ لوگوں کی انسان دوستی بھی حیران کر دیتی ہے۔ ہم سب نے پرانی فلمیں ذوق و شوق سے دیکھی ہیں، ان کے سدا بہارگیت اور رقص بھی دیکھے ہیں اور 90ء کی دہائی اور اس کے بعد کی فلمیں بھی دیکھی ہیں۔
سنگیت بھی سنا اور رقص بھی دیکھے ہیں۔ فلم بینوں کے دلوں پر جو فلمیں آج بھی نقش ہیں وہ زیادہ تر پرانی فلمیں اور پرانے گانے ہی ہیں۔ اس وقت جب مختصر سے سازوں کے ساتھ لافانی گیت تخلیق ہوئے۔ جن کے ری میکس آج تک بن رہے ہیں۔ ایک خاص بات پرانی فلموں کی یہ کہ ہیروئن کو کبھی مختصر لباس میں نہیں دکھایا گیا۔
وحیدہ رحمن جیسی سپر اسٹار کو ایک فلم میں بلاؤز کے بٹن پیچھے سے لگاتے ہوئے دکھانا تھا، لیکن اداکارہ نے یہ سین کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر ڈائریکٹر کی خوشامد کے بعد وہ یہ سین اس طرح کرنے پر راضی ہوئیں کہ پہلے ان کے لیے اسکن کلرکا بلاؤز سلوایا گیا۔ جسے وحیدہ نے پہنا اور اس بلاؤز کے اوپر فلم کی شوٹنگ والا بلاؤز پہنا، تب وہ کیمرے کے سامنے کھڑی ہوئیں اور بیک سے کیمرے نے مطلوبہ سین پکچرائز کروایا۔ فلم کا نام اس وقت ذہن میں نہیں ہے لیکن یہ واقعہ وحیدہ رحمن کے حوالے سے ریکارڈ پر ہے۔
اس کے علاوہ اپنے دورکی نامور اور مقبول ہیروئنوں کو دیکھیے جیسے مدھو بالا، کامنی کوشل، مینا کماری، مسرت نذیر، راکھی، شمیم آراء، ریکھا، صبیحہ خانم، نیئرسلطانہ، زیبا بیگم، ثریا، گیتا بالی، نمی، نرگس، وجنتی مالا، سمیتا پاٹل، نوتن، شبانہ اعظمی اور نور جہاں۔ ان ہیروئنوں نے کبھی عریانی کا سہارا نہیں لیا، پھر بھی نہ صرف ان کی فلمیں آج تک لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہیں بلکہ اگر آپ اور پیچھے چلے جائیں جو کہ پری چہرہ نسیم (سائرہ بانوکی والدہ) جہاں آراء کجن، انوری، رینوکا دیوی (بیگم خورشید مرزا) وغیرہ، تو وہاں بھی آپ کو عریانی اور فحاشی کسی سین میں دکھائی نہیں دے گی۔
ثابت یہ ہوا کہ کسی بھی فلم کی کامیابی کے لیے ہیروئن کی کم لباسی اور عریانی سے لبریز سین ضروری نہیں، کہانی اگر جاندار ہے، موسیقی مضبوط ہے، ڈائریکٹر ہنر مند ہے تو فلمیں ضرور کامیاب ہوتی ہیں اور فلم بینوں کو سینما ہال تک کھینچ کے لاتی ہیں۔
پچھلے دورکی بہ نسبت نئے دورکی فلمیں اول تو کوئی دیکھتا ہی نہیں کہ یہ فلمیں فیملی کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھی جا سکتیں۔ دوسرے یہ کہ پاکستانی فلموں میں جب سے گنڈا سا، کلہاڑی، بندوق اور تشدد آیا ہے اس نے صاحب ذوق فلم بینوں کو سینما ہال جانے سے روک دیا ہے۔ البتہ ذہنی طور پر قلاش اور سطحی جذبات رکھنے والوں کے ذوق و اخلاق کو اس طرح تباہ کیا ہے کہ آئے دن معصوم بچیوں کے ساتھ آبروریزی کے واقعات کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے اخلاقی جرائم کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ فلمیں، ڈرامے اور ٹیلی فلمیں کس طرح نوجوان نسل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس کے لیے صرف دو لوگوں کا حوالہ کافی ہوگا۔
پہلا برصغیر کے نامور اور مشہور اداکار دلیپ کمارکا جن کا ہیئر اسٹائل نوجوانوں میں اس حد تک مقبول تھا کہ ایک ہیئر اسٹائل کا نام ہی ''دلیپ کٹ'' پڑ گیا تھا۔ دوسرا حوالہ وحید مراد کا کہ جن کے انداز کو نوجوانوں نے خوب اپنایا۔
فلم بینوں کو سینما ہال تک لانے کے لیے تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اول مضبوط اسکرپٹ (2) جاندار موسیقی سچویشن کے لحاظ سے (3) اداکاروں کا انتخاب اور مضبوط اسکرین پلے۔ بد قسمتی سے انڈیا اور پاکستان میں اب صرف عریانی، فحاشی اور ذومعنی مکالموں کا زور ہے۔ ہماری فلم انڈسٹری کو تو مولاجٹ اور بھاری بھرکم ہیروئن چٹ کر گئی۔ ایسی بھاری بھرکم کہ جس کے کودنے سے کئی سال کے لیے زمین بنجر ہو جائے۔
ادھر بھارت میں صرف عریانی اور سفلی جذبات کو ابھارنے والے سین اور ڈانس تہلکہ مچائے ہوئے ہیں۔ چونکہ وہ بہت بڑا ملک ہے 28 صوبوں پر مشتمل، لہٰذا کوئی فلم خسارے میں نہیں جاتی، فنانسرکا سرمایہ واپس آ جاتا ہے۔ لیکن یہاں معاملہ برعکس ہے ۔ ثقہ لوگ فلمی دنیا سے دور جا چکے ہیں جو طبقہ فلمیں بنا رہا ہے خصوصاً پنجابی اور پشتو فلمیں وہ ہر قیمت پر اپنا سرمایہ معہ منافع کے واپس لینا جانتے ہیں۔ اس لیے ایسے مناظر فلموں میں شامل کرتے ہیں جس سے وہ لوگ سینما ہال تک آئیں جنھیں خفیہ طور پر پولیس کی سرپرستی میں جگہ جگہ فحش فلمیں دیکھنے کی عادت ہے۔
ایسی فلموں کا سرمایہ منافع کے ساتھ واپس تو آ جاتا ہے لیکن جو اثرات یہ فلمیں نوجوان نسل پہ مرتب کرتی ہیں اس کے نظارے پیزا پوائنٹ، انٹرنیٹ کیفے، شیشہ بار، پارک اور ریستورانوں کے علاوہ عام زندگی میں بھی ملنے لگے ہیں اور ٹیلی ویژن کے غیر معیاری ڈرامے بھی اس رویے کی زد میں ہیں۔ گھروں سے بھاگنا، کورٹ میرج کرنا، تیزاب پھینک دینا، مرضی کی شادی کے مخالف والدین کے آگے بد تمیزی اور خود سری سے پیش آنا وغیرہ وغیرہ۔
آج میرا موضوع فلمی دنیا کی بے حسی تھا، لیکن بات سے بات نکلی تو کہیں کی کہیں پہنچ گئی۔ اس موضوع کو اگلے کالم کے لیے اٹھا رکھتے ہیں، لیکن ایک بات ضرور کہنا چاہوںگی کہ ادب اور فلمیں بھی سرحد کی قید سے آزاد ہوتی ہیں۔ یہ انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
ایک وقت تھا کہ لوگ قطار میں کھڑے ہو کر ٹکٹ گھر کی کھڑکی کھلنے کا انتظار کرتے تھے۔ بعض من چلے بستر وہیں لگا لیتے تھے، تا کہ جونہی کھڑکی کھلے وہ ان خوش نصیبوں میں شامل ہو جائیں جنھوں نے فلم کا پہلا شو دیکھا۔ فلم ''آن'' کے لیے جو انڈیا کی پہلی رنگین فلم تھی کچھ ایسا ہی حال سننے میں آیا تھا۔ پاکستان سے لوگ باقاعدہ ویزا لے کر فلم 'پاکیزہ، مغل اعظم اور 'گنگا جمنا' دیکھنے بھارت گئے تھے۔ ان تینوں فلموں کے موسیقار نوشاد علی تھے جن کے گیتوں کی لازوال موسیقی آج بھی موسیقی کے شیدائیوں کے دلوں پہ راج کرتی ہے اور کانوں میں رس گھولتی ہے۔
(جاری ہے)
بعض کتابیں ایسی ہوتی ہیں جو انسان کے دل و دماغ کو جھنجوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ خاص کر فلمی دنیا سے متعلق یادداشتیں اور فلم انڈسٹری سے جڑے لوگوں کی بے حسی، خود غرضی اور لالچ کے علاوہ کچھ لوگوں کی انسان دوستی بھی حیران کر دیتی ہے۔ ہم سب نے پرانی فلمیں ذوق و شوق سے دیکھی ہیں، ان کے سدا بہارگیت اور رقص بھی دیکھے ہیں اور 90ء کی دہائی اور اس کے بعد کی فلمیں بھی دیکھی ہیں۔
سنگیت بھی سنا اور رقص بھی دیکھے ہیں۔ فلم بینوں کے دلوں پر جو فلمیں آج بھی نقش ہیں وہ زیادہ تر پرانی فلمیں اور پرانے گانے ہی ہیں۔ اس وقت جب مختصر سے سازوں کے ساتھ لافانی گیت تخلیق ہوئے۔ جن کے ری میکس آج تک بن رہے ہیں۔ ایک خاص بات پرانی فلموں کی یہ کہ ہیروئن کو کبھی مختصر لباس میں نہیں دکھایا گیا۔
وحیدہ رحمن جیسی سپر اسٹار کو ایک فلم میں بلاؤز کے بٹن پیچھے سے لگاتے ہوئے دکھانا تھا، لیکن اداکارہ نے یہ سین کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر ڈائریکٹر کی خوشامد کے بعد وہ یہ سین اس طرح کرنے پر راضی ہوئیں کہ پہلے ان کے لیے اسکن کلرکا بلاؤز سلوایا گیا۔ جسے وحیدہ نے پہنا اور اس بلاؤز کے اوپر فلم کی شوٹنگ والا بلاؤز پہنا، تب وہ کیمرے کے سامنے کھڑی ہوئیں اور بیک سے کیمرے نے مطلوبہ سین پکچرائز کروایا۔ فلم کا نام اس وقت ذہن میں نہیں ہے لیکن یہ واقعہ وحیدہ رحمن کے حوالے سے ریکارڈ پر ہے۔
اس کے علاوہ اپنے دورکی نامور اور مقبول ہیروئنوں کو دیکھیے جیسے مدھو بالا، کامنی کوشل، مینا کماری، مسرت نذیر، راکھی، شمیم آراء، ریکھا، صبیحہ خانم، نیئرسلطانہ، زیبا بیگم، ثریا، گیتا بالی، نمی، نرگس، وجنتی مالا، سمیتا پاٹل، نوتن، شبانہ اعظمی اور نور جہاں۔ ان ہیروئنوں نے کبھی عریانی کا سہارا نہیں لیا، پھر بھی نہ صرف ان کی فلمیں آج تک لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہیں بلکہ اگر آپ اور پیچھے چلے جائیں جو کہ پری چہرہ نسیم (سائرہ بانوکی والدہ) جہاں آراء کجن، انوری، رینوکا دیوی (بیگم خورشید مرزا) وغیرہ، تو وہاں بھی آپ کو عریانی اور فحاشی کسی سین میں دکھائی نہیں دے گی۔
ثابت یہ ہوا کہ کسی بھی فلم کی کامیابی کے لیے ہیروئن کی کم لباسی اور عریانی سے لبریز سین ضروری نہیں، کہانی اگر جاندار ہے، موسیقی مضبوط ہے، ڈائریکٹر ہنر مند ہے تو فلمیں ضرور کامیاب ہوتی ہیں اور فلم بینوں کو سینما ہال تک کھینچ کے لاتی ہیں۔
پچھلے دورکی بہ نسبت نئے دورکی فلمیں اول تو کوئی دیکھتا ہی نہیں کہ یہ فلمیں فیملی کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھی جا سکتیں۔ دوسرے یہ کہ پاکستانی فلموں میں جب سے گنڈا سا، کلہاڑی، بندوق اور تشدد آیا ہے اس نے صاحب ذوق فلم بینوں کو سینما ہال جانے سے روک دیا ہے۔ البتہ ذہنی طور پر قلاش اور سطحی جذبات رکھنے والوں کے ذوق و اخلاق کو اس طرح تباہ کیا ہے کہ آئے دن معصوم بچیوں کے ساتھ آبروریزی کے واقعات کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے اخلاقی جرائم کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ فلمیں، ڈرامے اور ٹیلی فلمیں کس طرح نوجوان نسل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس کے لیے صرف دو لوگوں کا حوالہ کافی ہوگا۔
پہلا برصغیر کے نامور اور مشہور اداکار دلیپ کمارکا جن کا ہیئر اسٹائل نوجوانوں میں اس حد تک مقبول تھا کہ ایک ہیئر اسٹائل کا نام ہی ''دلیپ کٹ'' پڑ گیا تھا۔ دوسرا حوالہ وحید مراد کا کہ جن کے انداز کو نوجوانوں نے خوب اپنایا۔
فلم بینوں کو سینما ہال تک لانے کے لیے تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اول مضبوط اسکرپٹ (2) جاندار موسیقی سچویشن کے لحاظ سے (3) اداکاروں کا انتخاب اور مضبوط اسکرین پلے۔ بد قسمتی سے انڈیا اور پاکستان میں اب صرف عریانی، فحاشی اور ذومعنی مکالموں کا زور ہے۔ ہماری فلم انڈسٹری کو تو مولاجٹ اور بھاری بھرکم ہیروئن چٹ کر گئی۔ ایسی بھاری بھرکم کہ جس کے کودنے سے کئی سال کے لیے زمین بنجر ہو جائے۔
ادھر بھارت میں صرف عریانی اور سفلی جذبات کو ابھارنے والے سین اور ڈانس تہلکہ مچائے ہوئے ہیں۔ چونکہ وہ بہت بڑا ملک ہے 28 صوبوں پر مشتمل، لہٰذا کوئی فلم خسارے میں نہیں جاتی، فنانسرکا سرمایہ واپس آ جاتا ہے۔ لیکن یہاں معاملہ برعکس ہے ۔ ثقہ لوگ فلمی دنیا سے دور جا چکے ہیں جو طبقہ فلمیں بنا رہا ہے خصوصاً پنجابی اور پشتو فلمیں وہ ہر قیمت پر اپنا سرمایہ معہ منافع کے واپس لینا جانتے ہیں۔ اس لیے ایسے مناظر فلموں میں شامل کرتے ہیں جس سے وہ لوگ سینما ہال تک آئیں جنھیں خفیہ طور پر پولیس کی سرپرستی میں جگہ جگہ فحش فلمیں دیکھنے کی عادت ہے۔
ایسی فلموں کا سرمایہ منافع کے ساتھ واپس تو آ جاتا ہے لیکن جو اثرات یہ فلمیں نوجوان نسل پہ مرتب کرتی ہیں اس کے نظارے پیزا پوائنٹ، انٹرنیٹ کیفے، شیشہ بار، پارک اور ریستورانوں کے علاوہ عام زندگی میں بھی ملنے لگے ہیں اور ٹیلی ویژن کے غیر معیاری ڈرامے بھی اس رویے کی زد میں ہیں۔ گھروں سے بھاگنا، کورٹ میرج کرنا، تیزاب پھینک دینا، مرضی کی شادی کے مخالف والدین کے آگے بد تمیزی اور خود سری سے پیش آنا وغیرہ وغیرہ۔
آج میرا موضوع فلمی دنیا کی بے حسی تھا، لیکن بات سے بات نکلی تو کہیں کی کہیں پہنچ گئی۔ اس موضوع کو اگلے کالم کے لیے اٹھا رکھتے ہیں، لیکن ایک بات ضرور کہنا چاہوںگی کہ ادب اور فلمیں بھی سرحد کی قید سے آزاد ہوتی ہیں۔ یہ انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
ایک وقت تھا کہ لوگ قطار میں کھڑے ہو کر ٹکٹ گھر کی کھڑکی کھلنے کا انتظار کرتے تھے۔ بعض من چلے بستر وہیں لگا لیتے تھے، تا کہ جونہی کھڑکی کھلے وہ ان خوش نصیبوں میں شامل ہو جائیں جنھوں نے فلم کا پہلا شو دیکھا۔ فلم ''آن'' کے لیے جو انڈیا کی پہلی رنگین فلم تھی کچھ ایسا ہی حال سننے میں آیا تھا۔ پاکستان سے لوگ باقاعدہ ویزا لے کر فلم 'پاکیزہ، مغل اعظم اور 'گنگا جمنا' دیکھنے بھارت گئے تھے۔ ان تینوں فلموں کے موسیقار نوشاد علی تھے جن کے گیتوں کی لازوال موسیقی آج بھی موسیقی کے شیدائیوں کے دلوں پہ راج کرتی ہے اور کانوں میں رس گھولتی ہے۔
(جاری ہے)