مفادات کے مگر مچھ
مجھے اپنے دوست اختر جمال کے ’’اکیڈمی برائے اصلاح بالغاں‘‘ پراجیکٹ میں بڑی حکمت نظر آتی ہے
HARIPUR:
دھوکے باز شخص عموماً دوسرے فریق کو لوٹنے اور نقصان پہنچانے کی غرض سے یہ حرکت کرتا ہے جب کہ خود فریبی اپنی ہی ذات کا نقصان کرنے کا سبب بنتی ہے لہٰذا اگر یہ فعل حکومتی سطح پر ایک پالیسی کے تحت عمل میں آئے تو وہ لازماً خود فریبی اور دھوکہ دہی کے زمرے میں آئے گا۔
حکومت پاکستان کی سرکاری پوزیشن کے مطابق ملک میں خواندگی کی شرح چالیس فیصد سے زیادہ ہے اور خواندہ یعنی پڑھا لکھا ہر وہ شخص خواندہ ہے جو کسی بھی زبان میں محض اپنا نام لکھ لے۔ اس منطق کے مطابق چونکہ سرکاری خواندہ بننے کے لیے کچھ پڑھ کر سنا دینا اور سمجھ لینا یا پھر لکھ کر اپنا مافی الضمیر بتاسکنا شرط نہیں ہے اس لیے جب تک کسی کو اپنا نام لکھ لینے کی پریکٹس نہ کرائی جائے گی اسے اپنے نام کی پہچان بھی نہیں ہوسکتی۔ یعنی اگر ایک استاد کے ذمے کسی جاہل مطلق کو سرکاری خواندہ کی کیٹگری میں ڈالنے کی ڈیوٹی لگادی جائے اور وہ ستم ظریف استاد اگر اس ناخواندہ کو صرف ''وزیرتعلیم'' لکھ لینے کی پریکٹس کرادے تو یہ سرکاری خواندہ شخص ساری عمر اپنا نام ''وزیر تعلیم'' ہی لکھتا رہے گا۔
استاد کی مرضی ہے کہ وہ اردو، ترکی، انگریزی، جرمن، چینی یا کسی بھی زبان میں شاگرد کو ایسی جعلسازی سکھا دے۔ میں نے تیس سال قبل اپنے ایک ملازم نور زماں کیانی کو انگریزی میں اپنا نام لکھنے کی پریکٹس کرائی تھی۔ اگر میں اب بھی اسے پچاس جگہ دستخط کرنے کے لیے کہوں تو فوٹو اسٹیٹ مشین کی کاپی تک پریشان ہوجائے لیکن کیانی آج بھی اپنے والد کا نام نہیں لکھ سکتا لیکن وہ سرکاری ریکارڈ میں خواندہ ہے۔
جن ممالک نے علوم اور معیشت میں ترقی کی ہے۔ انھوں نے کئی برائیوں، جھوٹ، فریب، منافقت وغیرہ کو ترک کرنے کے عزم کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کرنے کو فوقیت دی ہے۔ خواندگی سے مراد جعلسازی کی بجائے حقیقی پڑھا لکھا ہونا لیا ہے بلکہ تعلیم کے علاوہ تربیت تہذیب اور ہنر مندی پر بھی توجہ دی ہے۔
بڑے بڑے کام تو سرکار کیا ہی کرتی ہے مجھے اپنے ایک دوست اختر جمال کا پلان شروع میں تو مضحکہ خیز لگا کہ وہ ایک ''اکیڈمی برائے اصلاح بالغاں'' قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے کیونکہ اس کا خیال تھا کہ اگرچہ بچوں اورجوانوں کے لیے اچھی تعلیم کا مطلب مہنگی تعلیم اور ناقص کا مطلب سرکاری اداروں کی تعلیم لیا جاتا ہے لیکن اس وقت تعلیم بالغاں زیادہ ضروری ہوگئی ہے اور اس کے لیے وہ نصاب بھی تیار کررہا ہے۔ میں نے اسے مشورہ دیا کہ ملک میں متمول گھرانوں کے بچے مہنگے پرائیویٹ اسکولوں اور کالجوں میں امپورٹڈ سلیبس والی تعلیم حاصل کرتے ہیں، درمیانی حیثیت کے بچے سرکاری اداروں میں سرکاری نصاب تعلیم کی کتب پڑھتے ہیں۔
بڑے شہروں سے دور دیہات کے اسکولوں میں عمارت، کتاب اور استاد کے بغیر نظام تعلیم رائج ہے جب کہ بے شمار مدارس میں بیرونی و اندرونی امداد کی فنڈنگ سے مسلک کی بنیاد پر ترتیب دیا ہوا مخصوص نصاب بھی پڑھایا جاتا ہے۔ لہٰذا اگر اختر جمال تعلیم کے میدان میں انقلابی تبدیلی کا خواہاں ہے تو وہ برابر کے مواقعے اور یکساں سلیبس کے لیے جدوجہد کرے۔ وہ ہنسا اور کہنے لگا جو نصاب وہ ترتیب دینے کا ارادہ رکھتا ہے اس کا اسکول کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ نصاب نہ ولایتی ہے نہ دیسی اور نہ ہی دینی۔ اس کا منشا و مقصد لوگوں کو انسان بنانا ہے۔
ہمارے اس دوست نے اپنی مجوزہ ''اکیڈمی برائے اصلاح بالغاں'' کا سلیبس لوگوں کی معاشرتی زندگی اور ان کے پیشوں کو مدنظر رکھ کر تربیت دینا شروع کیا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ وہ اپنے جیسے درجن بھر دیوانے دوست اکٹھے کرکے جلد ہی اسے لانچ کرلے گا۔ میرے دریافت کرنے پر اس نے پڑھنے کے لیے جو نامکمل خاکہ سلیبس کی تیاری کے لیے مجھے دکھایا کچھ اس طرح تھا۔
(1) سرکاری ملازم عہد کریں کہ صرف قانون ضابطہ اخلاق اور پالیسی کی کسوٹی پر پورا اترنے والے احکامات پر عملدرآمد کریں گے۔
(2) عدلیہ سے منسلک افراد خدا کے نظام عدل کو ذہن میں رکھتے ہوئے بلا خوف و خطر مخلوق خدا کے مابین انصاف کریں گے۔
(3) پارلیمان کے ممبر عوام سے کیے وعدوں کا پاس کریں گے اور ضمیر کا سودا کیے بغیر ووٹ کی امانت کو اپنے جان و مال سے عزیز رکھیں گے۔
(4) حکمران عوام کو اپنی اولاد کی طرح عزیز رکھتے ہوئے ان کے جائز حقوق کی حفاظت کریں گے۔
(5) جاگیردار اور زمیندار جان لیں کہ ساری زمینوں کا مالک رب ہے جب کہ وہ صرف امین اور نگران بنائے گئے ہیں اور ان کا جو کارندہ ان میں ہل چلاتا ہے وہ ان کے اور مالک ارض و سما کے درمیان رابطے کا پل ہے۔
(6) کارخانہ دار مزدور کا معاوضہ بروقت ادا کرنے کے علاوہ اپنے سرمائے اور مزدور کی محنت کے درمیان توازن قائم رکھتے ہوئے مزدوری کی رقم کا تعین کریں۔
(7) مذہب سے متعلق کاموں کا فریضہ ادا کرنے والے اسے کاروبار کا ذریعہ نہ بنائیں، تفرقہ و فساد سے لوگوں کو بچائیں، اختلافی مقامات پر رہنمائی کرکے الگ ہوجائیں، فریق بن کر گروہ بندی سے اجتناب کریں۔
(8) ڈاکٹر اور وکیل جسمانی معاشی اور معاشرتی فساد کی دیانتدارانہ تشخیص کریں اور حق محنت کے عوض مریض کے عارضے اور مقدمے کی طوالت کو ذریعہ معاش نہ بنائیں۔
(9) تاجر اور دکاندار اس مغالطے میں نہ رہیں کہ ملاوٹ اور گراں فروشی ان کے گاہکوں تک محدود رہے گی۔ اس بدی کے چکر کو اپنی حد ہی میں روک دیں ورنہ اس بدی کا دائرہ مکمل ہوکر لازماً ان کے اپنے گھر تک آئے گا۔
(10) پولیس، عدلیہ اور انتظامیہ کے لوگ اپنے قریبی عزیزوں کو تھانے کچہری کا رخ کرنے کی بجائے معمولی تنازعے آؤٹ آف کورٹ طے کرلینے کا مشورہ اس لیے دیتے ہیں کہ انھیں معلوم ہے وکیل، جج، عدالتی اہل کار، پولیس ان سب کا روزگار مقدمہ بازوں کے جھگڑوں سے وابستہ ہوتا ہے۔ پنجائت کا نظام بیشتر تنازعوں کا خرچہ اور پینڈا حیرت انگیز حد تک کم کردیتا ہے۔
مجھے اپنے دوست اختر جمال کے ''اکیڈمی برائے اصلاح بالغاں'' پراجیکٹ میں بڑی حکمت نظر آتی ہے لیکن جن لوگوں کے حوالے سے اسے لانچ کیا جانا مقصود ہے وہی تو اسے ناکام بنانے میں پیش پیش ہوں گے۔ ہمارے بچوں کو خواندگی علم اور تعلیم کی برکات کا شعور ہو جائے تو وہ تعلیم کے حصول کو زندگی کا مقصد بنالیں لیکن ان پڑھ جاہل بالغوں کے پڑھے لکھے سرپرست، ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے وہ بالغ جن کی اصلاح کے لیے یہ پراجیکٹ زیر تجویز ہے کبھی اسے ٹیک آف کرتے یا کامیاب ہوتے دیکھنا نہیں چاہیں گے۔ وہی تو اس سفر میں راستے کا پتھر ہیں۔ وہ دراصل اپنے مفادات کے مگر مچھ ہیں۔
دھوکے باز شخص عموماً دوسرے فریق کو لوٹنے اور نقصان پہنچانے کی غرض سے یہ حرکت کرتا ہے جب کہ خود فریبی اپنی ہی ذات کا نقصان کرنے کا سبب بنتی ہے لہٰذا اگر یہ فعل حکومتی سطح پر ایک پالیسی کے تحت عمل میں آئے تو وہ لازماً خود فریبی اور دھوکہ دہی کے زمرے میں آئے گا۔
حکومت پاکستان کی سرکاری پوزیشن کے مطابق ملک میں خواندگی کی شرح چالیس فیصد سے زیادہ ہے اور خواندہ یعنی پڑھا لکھا ہر وہ شخص خواندہ ہے جو کسی بھی زبان میں محض اپنا نام لکھ لے۔ اس منطق کے مطابق چونکہ سرکاری خواندہ بننے کے لیے کچھ پڑھ کر سنا دینا اور سمجھ لینا یا پھر لکھ کر اپنا مافی الضمیر بتاسکنا شرط نہیں ہے اس لیے جب تک کسی کو اپنا نام لکھ لینے کی پریکٹس نہ کرائی جائے گی اسے اپنے نام کی پہچان بھی نہیں ہوسکتی۔ یعنی اگر ایک استاد کے ذمے کسی جاہل مطلق کو سرکاری خواندہ کی کیٹگری میں ڈالنے کی ڈیوٹی لگادی جائے اور وہ ستم ظریف استاد اگر اس ناخواندہ کو صرف ''وزیرتعلیم'' لکھ لینے کی پریکٹس کرادے تو یہ سرکاری خواندہ شخص ساری عمر اپنا نام ''وزیر تعلیم'' ہی لکھتا رہے گا۔
استاد کی مرضی ہے کہ وہ اردو، ترکی، انگریزی، جرمن، چینی یا کسی بھی زبان میں شاگرد کو ایسی جعلسازی سکھا دے۔ میں نے تیس سال قبل اپنے ایک ملازم نور زماں کیانی کو انگریزی میں اپنا نام لکھنے کی پریکٹس کرائی تھی۔ اگر میں اب بھی اسے پچاس جگہ دستخط کرنے کے لیے کہوں تو فوٹو اسٹیٹ مشین کی کاپی تک پریشان ہوجائے لیکن کیانی آج بھی اپنے والد کا نام نہیں لکھ سکتا لیکن وہ سرکاری ریکارڈ میں خواندہ ہے۔
جن ممالک نے علوم اور معیشت میں ترقی کی ہے۔ انھوں نے کئی برائیوں، جھوٹ، فریب، منافقت وغیرہ کو ترک کرنے کے عزم کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کرنے کو فوقیت دی ہے۔ خواندگی سے مراد جعلسازی کی بجائے حقیقی پڑھا لکھا ہونا لیا ہے بلکہ تعلیم کے علاوہ تربیت تہذیب اور ہنر مندی پر بھی توجہ دی ہے۔
بڑے بڑے کام تو سرکار کیا ہی کرتی ہے مجھے اپنے ایک دوست اختر جمال کا پلان شروع میں تو مضحکہ خیز لگا کہ وہ ایک ''اکیڈمی برائے اصلاح بالغاں'' قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے کیونکہ اس کا خیال تھا کہ اگرچہ بچوں اورجوانوں کے لیے اچھی تعلیم کا مطلب مہنگی تعلیم اور ناقص کا مطلب سرکاری اداروں کی تعلیم لیا جاتا ہے لیکن اس وقت تعلیم بالغاں زیادہ ضروری ہوگئی ہے اور اس کے لیے وہ نصاب بھی تیار کررہا ہے۔ میں نے اسے مشورہ دیا کہ ملک میں متمول گھرانوں کے بچے مہنگے پرائیویٹ اسکولوں اور کالجوں میں امپورٹڈ سلیبس والی تعلیم حاصل کرتے ہیں، درمیانی حیثیت کے بچے سرکاری اداروں میں سرکاری نصاب تعلیم کی کتب پڑھتے ہیں۔
بڑے شہروں سے دور دیہات کے اسکولوں میں عمارت، کتاب اور استاد کے بغیر نظام تعلیم رائج ہے جب کہ بے شمار مدارس میں بیرونی و اندرونی امداد کی فنڈنگ سے مسلک کی بنیاد پر ترتیب دیا ہوا مخصوص نصاب بھی پڑھایا جاتا ہے۔ لہٰذا اگر اختر جمال تعلیم کے میدان میں انقلابی تبدیلی کا خواہاں ہے تو وہ برابر کے مواقعے اور یکساں سلیبس کے لیے جدوجہد کرے۔ وہ ہنسا اور کہنے لگا جو نصاب وہ ترتیب دینے کا ارادہ رکھتا ہے اس کا اسکول کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ نصاب نہ ولایتی ہے نہ دیسی اور نہ ہی دینی۔ اس کا منشا و مقصد لوگوں کو انسان بنانا ہے۔
ہمارے اس دوست نے اپنی مجوزہ ''اکیڈمی برائے اصلاح بالغاں'' کا سلیبس لوگوں کی معاشرتی زندگی اور ان کے پیشوں کو مدنظر رکھ کر تربیت دینا شروع کیا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ وہ اپنے جیسے درجن بھر دیوانے دوست اکٹھے کرکے جلد ہی اسے لانچ کرلے گا۔ میرے دریافت کرنے پر اس نے پڑھنے کے لیے جو نامکمل خاکہ سلیبس کی تیاری کے لیے مجھے دکھایا کچھ اس طرح تھا۔
(1) سرکاری ملازم عہد کریں کہ صرف قانون ضابطہ اخلاق اور پالیسی کی کسوٹی پر پورا اترنے والے احکامات پر عملدرآمد کریں گے۔
(2) عدلیہ سے منسلک افراد خدا کے نظام عدل کو ذہن میں رکھتے ہوئے بلا خوف و خطر مخلوق خدا کے مابین انصاف کریں گے۔
(3) پارلیمان کے ممبر عوام سے کیے وعدوں کا پاس کریں گے اور ضمیر کا سودا کیے بغیر ووٹ کی امانت کو اپنے جان و مال سے عزیز رکھیں گے۔
(4) حکمران عوام کو اپنی اولاد کی طرح عزیز رکھتے ہوئے ان کے جائز حقوق کی حفاظت کریں گے۔
(5) جاگیردار اور زمیندار جان لیں کہ ساری زمینوں کا مالک رب ہے جب کہ وہ صرف امین اور نگران بنائے گئے ہیں اور ان کا جو کارندہ ان میں ہل چلاتا ہے وہ ان کے اور مالک ارض و سما کے درمیان رابطے کا پل ہے۔
(6) کارخانہ دار مزدور کا معاوضہ بروقت ادا کرنے کے علاوہ اپنے سرمائے اور مزدور کی محنت کے درمیان توازن قائم رکھتے ہوئے مزدوری کی رقم کا تعین کریں۔
(7) مذہب سے متعلق کاموں کا فریضہ ادا کرنے والے اسے کاروبار کا ذریعہ نہ بنائیں، تفرقہ و فساد سے لوگوں کو بچائیں، اختلافی مقامات پر رہنمائی کرکے الگ ہوجائیں، فریق بن کر گروہ بندی سے اجتناب کریں۔
(8) ڈاکٹر اور وکیل جسمانی معاشی اور معاشرتی فساد کی دیانتدارانہ تشخیص کریں اور حق محنت کے عوض مریض کے عارضے اور مقدمے کی طوالت کو ذریعہ معاش نہ بنائیں۔
(9) تاجر اور دکاندار اس مغالطے میں نہ رہیں کہ ملاوٹ اور گراں فروشی ان کے گاہکوں تک محدود رہے گی۔ اس بدی کے چکر کو اپنی حد ہی میں روک دیں ورنہ اس بدی کا دائرہ مکمل ہوکر لازماً ان کے اپنے گھر تک آئے گا۔
(10) پولیس، عدلیہ اور انتظامیہ کے لوگ اپنے قریبی عزیزوں کو تھانے کچہری کا رخ کرنے کی بجائے معمولی تنازعے آؤٹ آف کورٹ طے کرلینے کا مشورہ اس لیے دیتے ہیں کہ انھیں معلوم ہے وکیل، جج، عدالتی اہل کار، پولیس ان سب کا روزگار مقدمہ بازوں کے جھگڑوں سے وابستہ ہوتا ہے۔ پنجائت کا نظام بیشتر تنازعوں کا خرچہ اور پینڈا حیرت انگیز حد تک کم کردیتا ہے۔
مجھے اپنے دوست اختر جمال کے ''اکیڈمی برائے اصلاح بالغاں'' پراجیکٹ میں بڑی حکمت نظر آتی ہے لیکن جن لوگوں کے حوالے سے اسے لانچ کیا جانا مقصود ہے وہی تو اسے ناکام بنانے میں پیش پیش ہوں گے۔ ہمارے بچوں کو خواندگی علم اور تعلیم کی برکات کا شعور ہو جائے تو وہ تعلیم کے حصول کو زندگی کا مقصد بنالیں لیکن ان پڑھ جاہل بالغوں کے پڑھے لکھے سرپرست، ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے وہ بالغ جن کی اصلاح کے لیے یہ پراجیکٹ زیر تجویز ہے کبھی اسے ٹیک آف کرتے یا کامیاب ہوتے دیکھنا نہیں چاہیں گے۔ وہی تو اس سفر میں راستے کا پتھر ہیں۔ وہ دراصل اپنے مفادات کے مگر مچھ ہیں۔