نبی ؐآخرالزماں کی عظمت

ہندوستان کے بارے میں ایک زمانے سے یہ پیش گوئی سننے میں آ رہی ہے کہ مستقبل میں پورا ملک مسلمان ہونے والا ہے

usmandamohi@yahoo.com

سیرت نگاری صرف قلمکاری نہیں، یہ سراسرعقیدت ومحبت کا معاملہ ہے۔ یہ نبیؐ کی محبت میں دل سے ابلنے والا جذبات کا لاوا ہے جو دل سے نکل کر قرطاس بیضا پر خوشبو اور چمک پھیلاتا چلا جاتا ہے۔ یہ تبلیغ دین کا موثر طریقہ بھی ہے اوراجروثواب کے حصول کا ذریعہ بھی ہے۔

صاحبان علم وفا حضورؐ کے عشق میں سرشار اپنے عمیق مطالعے اورتحقیق کی بنیاد پر چودہ سو برس سے سیرت مبارکہ پر کتابیں تصنیف کرتے چلے آرہے ہیں۔ دنیا کے تمام ہی خطوں میں بسے مسلمان سیرت پاک پر لکھ کر اپنا دینی فریضہ نبھا رہے ہیں اور حضورؐ سے محبت کا ثبوت فراہم کر رہے ہیں۔

اسی ضمن میں ایک بہترین کتاب حال ہی میں منظرعام پرآئی ہے۔ یہ کتاب جسے ''رسول اعظمؐ'' کا عظیم نام دیا گیا ہے، سیرت پر لکھی گئیں دیگر کتابوں سے انفرادیت کی حامل ہے۔ اسے قاری کے لیے واقعاتی انداز میں تحریر کرکے انتہائی دلچسپ اور دلفریب بنا دیا گیا ہے۔اس سعادت کو حاصل کرنے والے ملک کے معروف ادیب، شاعر، نقاد، نامور ناول نگار اوردرجنوں کتابوں کے مصنف خیال آفاقی ہیں۔

آپ کے والد قبلہ صوفی علاؤ الدین نقشبندیؒ اپنے وقت کے عظیم المرتبت عالم دین، عاشق رسولؐ اور سلسلہ طریقت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز تھے۔ خیال آفاقی نے اس بے مثال کتاب کو اپنے والد ماجد کی ہدایت پر ہی رقم کرنا شروع کیا تھا۔ اس سے قبل آفاقی صاحب کئی ناول اور افسانوں کی کتابیں تحریرکرکے بہت نام کما چکے تھے مگر والد ماجد کی نظر میں یہ کوئی کمال نہیں تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے فرزند ارجمند کے قلم سے ایسی قابل قدر لافانی تحریر بھی عمل میں آجائے کہ وہ روز حشر ان کا اور ان کے فرزند کا وسیلہ نجات بنا سکے۔ سو سعادت مند بیٹے نے اپنے والد کی اس فرمائش کو بھی پورا کر ڈالا۔

ابتدا میں یہ تحریرکراچی کے ایک موقر ماہنامے ''حیا'' میں قسط وار چھپنا شروع ہوئی تھی اس رسالے میں اس کی سیکڑوں قسطیں شایع ہوئیں جو عوام الناس کی پسندیدہ تحریریں ثابت ہوئیں اور پھر عوام کے ہی بے حد اصرار پر اسے کتابی شکل میں شایع کیا گیا ہے۔ یہ تیرہ سو سے زیادہ صفحات کی ضخیم کتاب ہے جسے نہایت خوبصورتی اور نفاست سے شایع کیا گیا ہے۔

آج کل اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف لکھنا مغربی ممالک میں ایک فیشن بن گیا ہے۔ وہاں حضورؐ کی ناموس کے خلاف کتابوں اور پمفلٹس کے علاوہ خاکہ نگاری کو بھی عام کیا جا رہا ہے گوکہ اس سے مسلمانوں کی کھلی دل آزاری ہو رہی ہے مگر اس کا کوئی تدارک نہیں کیا جا رہا ہے۔ تمام ہی عالمی امن کی تنظیمیں حتیٰ کہ اقوام متحدہ تک اس مغربی دہشتگردی پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔

فرانس میں حکومت کی سرپرستی میں بدنام زمانہ میگزین چارلی ایبڈو نے مسلمانوں کی دل آزاری کا جو سلسلہ بڑی ڈھٹائی سے جاری رکھا ہوا تھا آخر اسے غیرت مند مسلمان نوجوان نے نشان عبرت بنادیا تھا۔اس کے بعد اس کی تضحیک کا یہ سلسلہ ختم ہوجانا چاہیے تھا مگر افسوس کہ مغربی ممالک نے اسے آزادی اظہارکا سرٹیفکیٹ عطا کردیا۔ جس سے اس مسلم آزار سلسلے کو مزید مہمیز مل رہی ہے۔ مگر اسلام کے خلاف یہ ناسمجھ جتنی بھی دشمنی کر رہے ہیں اس پر اشاعت اسلام پر منفی اثر پڑنے کے بجائے اسلام وہاں کے لوگوں کے دلوں کو اتنا ہی زیادہ چھو رہا ہے۔


نبیؐ کے دین کا ڈنکا تو چودہ سو برس سے بج رہا ہے اور تاقیامت بجتا رہے گا۔ ماضی میں بھی اس کی آواز کو روکنے یا کم کرنے کے لیے کوششیں کی گئی ہیں مگر اس کا راستہ روکنے والے خود ہی حلقہ بگوش اسلام ہوچکے ہیں۔ اس وقت مغرب کے کچھ لوگوں کو اس کی آواز بہت کھٹک رہی ہے مگر وہیں سے یہ تازہ خبر آئی ہے کہ اسلام اگلے پچاس برسوں میں یعنی 2070ء تک دنیا کا سب سے بڑا مذہب بننے والا ہے۔

عیسائیت جو اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مذہب کہلاتا ہے وہ دوسرے نمبر پر آ جائے گا۔ باقی رہا تیسرا الہامی مذہب یہودیت تو اس کے ماننے والے تو بہت ہی مختصر ہیں اور پھر دیگر غیر الہامی مذاہب تو آہستہ آہستہ خودبخود ہی گھٹتے جا رہے ہیں مگر ان کا کوئی دشمن نہیں ہے جو انھیں مٹانے کے لیے زور لگا رہا ہو۔ تاہم اسلام وہ دین ہے جسے نقصان پہنچانے کے لیے دنیا کی کئی طاقتیں پورا زور لگا رہی ہیں مگر ان ہی ممالک میں اسلام کی روشنی تیزی سے پھیلتی چلی جا رہی ہے۔

ہندوستان کے بارے میں ایک زمانے سے یہ پیش گوئی سننے میں آ رہی ہے کہ مستقبل میں پورا ملک مسلمان ہونے والا ہے شاید اس بات پر یقین کرنے والے کم ہی لوگ ہوں گے کیونکہ بھارت جیسا اسلام دشمن ملک جہاں آر ایس ایس اور اس جیسی کئی مسلم دشمن تنظیمیں موجود ہوں وہاں بھلا ایسا کیسے ممکن ہوسکے گا مگر واہ ری خدا کی شان کہ آج وہاں جگہ جگہ ہندو دھرم کے داعی سادھو اور پنڈت مسلمانوں کے جلسوں اور محفلوں میں کھلے عام اسلام کی تعریفیں ہی نہیں کر رہے بلکہ اسے الہامی مذہب تسلیم کر رہے ہیں۔

کہاں تو یہ سادھو اور پنڈت مسلمانوں کے دشمن اور اسلام کے کٹر انکاری تھے اور آج اسلامی کتابوں اور خاص طور پر قرآن مجید کا ذوق و شوق سے مطالعہ کر رہے ہیں۔ اس وقت بھارتی حکومت ہندوؤں کے تیزی سے اسلام قبول کرنے پر سخت پریشان ہے۔ ادھر یورپ میں بھی اسلام مقبول ترین مذہب بن چکا ہے خاص طور پر وہاں کی خواتین میں یہ بے حد مقبول ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ واضح ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جو عزت و مرتبہ عطا فرمایا ہے وہ دنیا کے کسی اور مذہب نے نہیں دیا۔

آج وہاں کے معاشرے میں عورت ایک دل بہلانے والی شے بن کر رہ گئی ہے۔ چند دن قبل جب ٹرمپ نے سات مسلم ممالک کے مسلمانوں پر امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کی تھی تو اسے ہٹانے کے لیے کئی امریکی عیسائی خواتین نے پرزور احتجاج کیا تھا اور دھمکی دی تھی کہ اگر پابندی نہیں ہٹائی گئی تو وہ مسلمان ہونے کا اعلان کردیں گی۔ ان خواتین میں امریکا کی سابق وزیرخارجہ میڈیلن البرائٹ بھی شامل تھیں۔ سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی سالی تو پہلے ہی اپنی بیٹیوں سمیت حلقہ بگوش اسلام ہوچکی ہیں اور اب وہ تبلیغ اسلام کا فریضہ بھی انجام دے رہی ہیں۔

اسلام سے دشمنی تو خود ہمارے ملک میں بھی کی جا رہی ہے۔ کچھ بلاگرز حضورؐ اور آپ کے رفقا کی شان کے خلاف گستاخانہ مواد فیس بک وغیرہ پر لوڈ کر رہے ہیں مگر ان لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس سے اسلام کا چہرہ کسی طرح بھی گہنایا نہیں جاسکتا۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ہمارے ہاں جو بھی اسلام اور ناموس رسالت کے خلاف کارروائیاں ہو رہی ہیں وہ باہر کی اسلام دشمن قوتیں روپے پیسے کا لالچ دے کرکروا رہی ہیں۔ کاش کہ ہمارے لوگ اب غیروں کا آلہ کار بننے سے گریز کرکے خود کو مصیبت میں ڈالنے اور معاشرے کو تباہ ہونے سے بچائیں۔

خیال آفاقی سے گزارش ہے کہ وہ اب خلفائے راشدین کے بارے میں بھی ''رسول اعظمؐ'' جیسی دلچسپ اور بصیرت افروز تصانیف رقم کرکے دین کی ترویج میں ممد ومعاون ثابت ہوں۔
Load Next Story