نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں فتح پاکستان ہاکی میں تازہ ہوا کا جھونکا
گرین شرٹس کو ہاکی ایونٹ سے باہر کرنے میں انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کے صدر نریندر بٹرا کا بڑا ہاتھ ہے۔
DALLAS:
یہ 4دسمبر1994ء کی سہانی صبح ہے، پاکستان اور ہالینڈ کی ہاکی ٹیمیں سڈنی کے ہوم بش سٹیڈیم میں آمنے سامنے ہیں، مقررہ وقت تک مقابلہ 1-1 گول سے برابر رہا، پنالٹی سٹروک پر گول کیپر منصوراحمد نے حریف سائیڈ کے پلیئر جیرون ڈیلمی کی گول کرنے کی کوشش ناکام بنائی تو پاکستان فائنل مقابلہ4-3 سے جیت کر چوتھی بار ورلڈ کپ کا ٹائٹل اپنے نام کر چکا تھا۔
گراؤنڈ میں عید کا سماں تھا، قومی کھلاڑیوں نے کپتان شہباز احمد سینئر کو اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھا تھا، کمنٹریٹر انتہائی جذباتی انداز میں کہہ رہا تھا، پاکستان ایک بار پھر ہاکی کا عالمی چیمپئن بن گیا، سٹیڈیم میں موجود ہزاروں تماشائی بھی گرین شرٹس کی کارکردگی پر واہ ، واہ کر رہے تھے، ان میں سینکڑوں پرستار پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ تصاویر بنانے اور آٹوگراف لینے کے لیے بے چین تھے، گرین شرٹس جہاں بھی جاتے، گورے تماشائی انہیں روک کر کہتے، یو آر لیجنڈ آف ہاکی۔
ورلڈ کپ شروع ہونے سے قبل سابق اولمپئنز کا ایک دھڑا یہ کہتا نظر آیا کہ یہ ٹیم ایک چائے کا کپ نہیں جیت سکتی، عالمی کپ کیا جیتے گی؟ لیکن گرین شرٹس نے یہ اندازے، دعوے اور قیاس آرائیاں غلط ثابت کر دکھائیں، پاکستان ٹیم کا عالمی چیمپئن بننا کوئی نئی بات نہیں تھی کیونکہ اس سے پہلے بھی پاکستانی ٹیم نے 3 بار عالمی کپ کا ٹائٹل اپنے نام کرنے کا اعزاز حاصل کیا تھا، پہلا ہاکی ورلڈ کپ1971ء میں سپین کے شہر بارسلونا میں ہوا، پاکستانی ٹیم میگا ایونٹ کا ابتدائی ایڈیشن ہی لے اڑی۔
ارجنٹائن کے بیونس آئرس میں 1978ء میں ہونے والے ورلڈ کپ میں بھی دوسری بار چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا، اسی طرح اختر رسول چوہدری کی کپتانی میں پاکستانی ٹیم نے بھارتی شہر ممبئی ورلڈ کپ 1982ء بھی جیت کر تیسری بار عالمی کپ جیتا، کوئی سوچ سکتا تھا کہ ہاکی کی سپر پاور پاکستانی ٹیم پر ایسا وقت بھی آئے گا کہ ہالینڈ کے شہر ہیگ میں شیڈول ورلڈکپ 2014 میں گرین شرٹس شرکت سے ہی محروم رہیں گے اور انہیں بھارتی شہر بھوبینشیور میں 2018ء میں ہونے والے عالمی ایونٹ کا حصہ بننے کے لیے کوالیفائنگ راؤنڈ بھی کھیلنا پڑے گا۔
اووروں سے کیا شکوہ اور شکایت کرنا، ہم نے جو بویا کاٹ لیا، جب فیڈریشن عہدیداروں، کھلاڑیوں، کوچز اور سلیکٹرز کی نیتوں میں ہی فتور ہوگا تو نتائج اسی طرح کے ہی آئیں گے، راقم کو اچھی طرح یاد ہے کہ پی ایچ ایف کا ایک سیکرٹری اکثر کہا کرتا تھا کہ ہمارے پاس 25 سے 30 کھلاڑیوں کا ہی پول موجود ہے، انہیں پلیئرز میں سے قومی سکواڈز تشکیل دینا پڑتے ہیں تو عالمی سطح پر قومی کھیل میں بہتری کیسے آ سکتی ہے؟ ان صاحب سے کسی نے پوچھنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ کھلاڑیوں کی تعداد بڑھانا کس کی ذمہ داری ہے؟
ایک اور سیکرٹری ایسے بھی تھے جو کبھی قومی ٹیم میں گزارے گئے اپنے سنہری دور سے کبھی باہر ہی نہیں نکلتے تھے، اپنے آفس میں بیٹھ کر اپنے کارناموں کو گنواتے رہتے اور ان کے درباری اور خوشامدی ''واہ، واہ'' کہہ کر اپنے کام نکلواتے نظر آتے رہتے، ایک اور سیکرٹری ایسا بھی تھا کہ جس کے دور میں سیکرٹری پی ایچ ایف کے عہدے کی اہمیت کسی کلب سطح کے عہدے سے بھی کم نظر آئی۔
تاریخ شاہد ہے کہ آسمان کی بلندیوں سے زمین کی پستیوں پرگرنا اور گر کر سنبھلنا قومی ٹیم کا خاصا رہا ہے،1982ء کے ممبئی ورلڈ کپ میں قومی ٹیم چیمپئن بنتی ہے تو لندن میں شیڈول عالمی کپ 1986ء میں قومی ٹیم 12 ٹیموں کے میگا ایونٹ میں 11ویں نمبر پر آتی ہے اور 1990ء میں لاہور میں ہونے والے ورلڈ کپ کا فائنل بھی کھیلتی ہے، پاکستانی ہاکی ٹیم کی صورتحال اس وقت یہ ہے کہ ہم نہ صرف ورلڈکپ، اولمپکس کی دوڑ سے باہر ہیں بلکہ اس وقت دنیا کے تمام بڑے ایونٹس کے دروازے بھی گرین شرٹس پر بند ہو چکے ہیں اور اب عالم یہ ہے کہ قومی ٹیم تاریخ کی بدترین رینکنگ یعنی چودھویں پوزیشن پر ہے۔
1994ء کے ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کے زیادہ تر کھلاڑی اس وقت پاکستان ہاکی فیڈریشن کا حصہ ہیں، کپتان شہباز احمد سینئر سیکرٹری فیڈریشن، نوید عالم ڈائریکٹر ڈومیسٹک اینڈ ڈویلپمنٹ ہیں، خواجہ محمد جنید سینئر ٹیم کے ہیڈکوچ اور طاہر زمان جونیئر ٹیم کے چیف کوچ ہیں،کامران اشرف انڈر18 ٹیم کے چیف کوچ ہیں، اسی سکواڈ کا حصہ بننے والے بیشتر دوسرے پلیئرز بھی کسی نہ کسی طرح فیڈریشن کے ساتھ وابستہ ہیں۔
آسٹریلیا میں پاکستان کو قومی چیمپئن بنوانے والے یہ پلیئرز ایک بار پھر قومی کھیل کو اس کا اصل مقام واپس دلانے کے لیے پی ایچ ایف کے پلیٹ فارم پر جمع ہیں اوران سابق اولمپئنز کی کوششیں خاصی حد تک کامیاب بھی ہوئی ہیں، پاکستان اور آسٹریلیا کی ہاکی فیڈریشنوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت پاکستان کی جونیئر اور سینئر ٹیمیں آسٹریلیا کا دورہ کریں گے اور اس کے تمام اخراجات ہاکی آسٹریلیا برداشت کرے گی۔
پاکستان ہاکی ٹیم 2018ء کو بھارتی شہر بھوبینشور میں شیڈول ورلڈکپ کا حصہ بننے رواں برس انگلینڈ میں شیڈول ورلڈ کپ کوالیفائنگ راؤنڈ کا چیلنج درپیش ہے، ایونٹ کی تیاریوں کے لیے پاکستان ہاکی ٹیم انٹرنیشنل دورے پر ہے، گرین شرٹس نے ابتدائی مرحلے میں نیوزی لینڈ کے خلاف پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں حصہ لیا اور عالمی رینکنگ میں آٹھویں نمبر پر براجمان میزبان ٹیم کے خلاف سیریز 2-1 سے اپنے نام کی۔ گو سیریز کے پہلے میچ میں پاکستانی ٹیم کو سنسنی خیز مقابلے کے بعدشکست کا سامنا رہا تاہم سیریز کے آخری 4 میچوں میں پاکستانی ٹیم کے کھیل کی جس قدر بھی تعریف کی جائے، کم ہے، سیریز کے ان میچوں کے دوران کپتان عبدالحسیم کے علاوہ ابوبکر محمود، علیم بلال اور دوسرے جونیئر کھلاڑیوں کا کھیل نمایاں رہا، کیویز کے خلاف نوجوان پلیئرز کی عمدہ کارکردگی کا کریڈٹ پی ایچ ایف کے ڈائریکٹر ڈومیسٹک اینڈ ڈویلمپنٹ نوید عالم کو ضرور ملنا چاہیے جو باصلاحیت کھلاڑیوں کی کھیپ تیار کرنے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں کھیل میں بہتری کے آثار اپنی جگہ لیکن میگا ایونٹ سے عین قبل پاکستانی ٹیم کو سلطان اذلان شاہ ہاکی کپ سے نکال کر انگلینڈ کو شامل کرنا تشویشناک ہے، ایک وقت ایسا بھی تھا جب سلطان اذلان شاہ ہاکی کپ میں پاکستانی ٹیم کی شرکت کو قابل فخر سمجھا جاتا تھا، ملائیشین عوام کی گرین شرٹس کے ساتھ محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایونٹ کے مقابلوں کے دوران مقامی تماشائی اپنے ملک کے بعد سب سے زیادہ سپورٹ گرین شرٹس کی ہی کیا کرتے تھے، اب ایونٹ کا حصہ بنانے کے بعد اچانک پاکستانی ٹیم کو نکال باہر کرنے پر سب کو حیرت ہوئی ہے۔
ذرائع کے مطابق گرین شرٹس کو ہاکی ایونٹ سے باہر کرنے میں انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کے صدر نریندر بٹرا کا بڑا ہاتھ ہے حالانکہ آئی ایچ ایف کے انتخابات میں پی ایچ ایف نے دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے ان کے حق ووٹ دیا تھا، اس نیکی کا بدلہ وہ پاکستانی ہاکی کے خلاف انٹرنیشنل سازشوں کا جال پھیلا کر دے رہے ہیں۔
ہاکی مبصرین کے مطابق نریندر بٹرا انتہا پسند ہندؤں کی پالیسی پر عمل پیرا کرتے ہوئے نہ صرف پاک، بھارت ہاکی سیریز کے مخالف بلکہ ان کی کوشش ہے کہ انٹرنیشنل سطح پر بھی پاکستانی ٹیم کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جائے، اب وقت آ گیا ہے کہ انٹرنیشنل ہاکی میں زندہ رہنے کے لیے پی ایچ ایف حکام کو اپنی آنکھیں اورکان دونوںکھلے رکھنا ہوں گے۔
یہ 4دسمبر1994ء کی سہانی صبح ہے، پاکستان اور ہالینڈ کی ہاکی ٹیمیں سڈنی کے ہوم بش سٹیڈیم میں آمنے سامنے ہیں، مقررہ وقت تک مقابلہ 1-1 گول سے برابر رہا، پنالٹی سٹروک پر گول کیپر منصوراحمد نے حریف سائیڈ کے پلیئر جیرون ڈیلمی کی گول کرنے کی کوشش ناکام بنائی تو پاکستان فائنل مقابلہ4-3 سے جیت کر چوتھی بار ورلڈ کپ کا ٹائٹل اپنے نام کر چکا تھا۔
گراؤنڈ میں عید کا سماں تھا، قومی کھلاڑیوں نے کپتان شہباز احمد سینئر کو اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھا تھا، کمنٹریٹر انتہائی جذباتی انداز میں کہہ رہا تھا، پاکستان ایک بار پھر ہاکی کا عالمی چیمپئن بن گیا، سٹیڈیم میں موجود ہزاروں تماشائی بھی گرین شرٹس کی کارکردگی پر واہ ، واہ کر رہے تھے، ان میں سینکڑوں پرستار پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ تصاویر بنانے اور آٹوگراف لینے کے لیے بے چین تھے، گرین شرٹس جہاں بھی جاتے، گورے تماشائی انہیں روک کر کہتے، یو آر لیجنڈ آف ہاکی۔
ورلڈ کپ شروع ہونے سے قبل سابق اولمپئنز کا ایک دھڑا یہ کہتا نظر آیا کہ یہ ٹیم ایک چائے کا کپ نہیں جیت سکتی، عالمی کپ کیا جیتے گی؟ لیکن گرین شرٹس نے یہ اندازے، دعوے اور قیاس آرائیاں غلط ثابت کر دکھائیں، پاکستان ٹیم کا عالمی چیمپئن بننا کوئی نئی بات نہیں تھی کیونکہ اس سے پہلے بھی پاکستانی ٹیم نے 3 بار عالمی کپ کا ٹائٹل اپنے نام کرنے کا اعزاز حاصل کیا تھا، پہلا ہاکی ورلڈ کپ1971ء میں سپین کے شہر بارسلونا میں ہوا، پاکستانی ٹیم میگا ایونٹ کا ابتدائی ایڈیشن ہی لے اڑی۔
ارجنٹائن کے بیونس آئرس میں 1978ء میں ہونے والے ورلڈ کپ میں بھی دوسری بار چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا، اسی طرح اختر رسول چوہدری کی کپتانی میں پاکستانی ٹیم نے بھارتی شہر ممبئی ورلڈ کپ 1982ء بھی جیت کر تیسری بار عالمی کپ جیتا، کوئی سوچ سکتا تھا کہ ہاکی کی سپر پاور پاکستانی ٹیم پر ایسا وقت بھی آئے گا کہ ہالینڈ کے شہر ہیگ میں شیڈول ورلڈکپ 2014 میں گرین شرٹس شرکت سے ہی محروم رہیں گے اور انہیں بھارتی شہر بھوبینشیور میں 2018ء میں ہونے والے عالمی ایونٹ کا حصہ بننے کے لیے کوالیفائنگ راؤنڈ بھی کھیلنا پڑے گا۔
اووروں سے کیا شکوہ اور شکایت کرنا، ہم نے جو بویا کاٹ لیا، جب فیڈریشن عہدیداروں، کھلاڑیوں، کوچز اور سلیکٹرز کی نیتوں میں ہی فتور ہوگا تو نتائج اسی طرح کے ہی آئیں گے، راقم کو اچھی طرح یاد ہے کہ پی ایچ ایف کا ایک سیکرٹری اکثر کہا کرتا تھا کہ ہمارے پاس 25 سے 30 کھلاڑیوں کا ہی پول موجود ہے، انہیں پلیئرز میں سے قومی سکواڈز تشکیل دینا پڑتے ہیں تو عالمی سطح پر قومی کھیل میں بہتری کیسے آ سکتی ہے؟ ان صاحب سے کسی نے پوچھنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ کھلاڑیوں کی تعداد بڑھانا کس کی ذمہ داری ہے؟
ایک اور سیکرٹری ایسے بھی تھے جو کبھی قومی ٹیم میں گزارے گئے اپنے سنہری دور سے کبھی باہر ہی نہیں نکلتے تھے، اپنے آفس میں بیٹھ کر اپنے کارناموں کو گنواتے رہتے اور ان کے درباری اور خوشامدی ''واہ، واہ'' کہہ کر اپنے کام نکلواتے نظر آتے رہتے، ایک اور سیکرٹری ایسا بھی تھا کہ جس کے دور میں سیکرٹری پی ایچ ایف کے عہدے کی اہمیت کسی کلب سطح کے عہدے سے بھی کم نظر آئی۔
تاریخ شاہد ہے کہ آسمان کی بلندیوں سے زمین کی پستیوں پرگرنا اور گر کر سنبھلنا قومی ٹیم کا خاصا رہا ہے،1982ء کے ممبئی ورلڈ کپ میں قومی ٹیم چیمپئن بنتی ہے تو لندن میں شیڈول عالمی کپ 1986ء میں قومی ٹیم 12 ٹیموں کے میگا ایونٹ میں 11ویں نمبر پر آتی ہے اور 1990ء میں لاہور میں ہونے والے ورلڈ کپ کا فائنل بھی کھیلتی ہے، پاکستانی ہاکی ٹیم کی صورتحال اس وقت یہ ہے کہ ہم نہ صرف ورلڈکپ، اولمپکس کی دوڑ سے باہر ہیں بلکہ اس وقت دنیا کے تمام بڑے ایونٹس کے دروازے بھی گرین شرٹس پر بند ہو چکے ہیں اور اب عالم یہ ہے کہ قومی ٹیم تاریخ کی بدترین رینکنگ یعنی چودھویں پوزیشن پر ہے۔
1994ء کے ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کے زیادہ تر کھلاڑی اس وقت پاکستان ہاکی فیڈریشن کا حصہ ہیں، کپتان شہباز احمد سینئر سیکرٹری فیڈریشن، نوید عالم ڈائریکٹر ڈومیسٹک اینڈ ڈویلپمنٹ ہیں، خواجہ محمد جنید سینئر ٹیم کے ہیڈکوچ اور طاہر زمان جونیئر ٹیم کے چیف کوچ ہیں،کامران اشرف انڈر18 ٹیم کے چیف کوچ ہیں، اسی سکواڈ کا حصہ بننے والے بیشتر دوسرے پلیئرز بھی کسی نہ کسی طرح فیڈریشن کے ساتھ وابستہ ہیں۔
آسٹریلیا میں پاکستان کو قومی چیمپئن بنوانے والے یہ پلیئرز ایک بار پھر قومی کھیل کو اس کا اصل مقام واپس دلانے کے لیے پی ایچ ایف کے پلیٹ فارم پر جمع ہیں اوران سابق اولمپئنز کی کوششیں خاصی حد تک کامیاب بھی ہوئی ہیں، پاکستان اور آسٹریلیا کی ہاکی فیڈریشنوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت پاکستان کی جونیئر اور سینئر ٹیمیں آسٹریلیا کا دورہ کریں گے اور اس کے تمام اخراجات ہاکی آسٹریلیا برداشت کرے گی۔
پاکستان ہاکی ٹیم 2018ء کو بھارتی شہر بھوبینشور میں شیڈول ورلڈکپ کا حصہ بننے رواں برس انگلینڈ میں شیڈول ورلڈ کپ کوالیفائنگ راؤنڈ کا چیلنج درپیش ہے، ایونٹ کی تیاریوں کے لیے پاکستان ہاکی ٹیم انٹرنیشنل دورے پر ہے، گرین شرٹس نے ابتدائی مرحلے میں نیوزی لینڈ کے خلاف پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں حصہ لیا اور عالمی رینکنگ میں آٹھویں نمبر پر براجمان میزبان ٹیم کے خلاف سیریز 2-1 سے اپنے نام کی۔ گو سیریز کے پہلے میچ میں پاکستانی ٹیم کو سنسنی خیز مقابلے کے بعدشکست کا سامنا رہا تاہم سیریز کے آخری 4 میچوں میں پاکستانی ٹیم کے کھیل کی جس قدر بھی تعریف کی جائے، کم ہے، سیریز کے ان میچوں کے دوران کپتان عبدالحسیم کے علاوہ ابوبکر محمود، علیم بلال اور دوسرے جونیئر کھلاڑیوں کا کھیل نمایاں رہا، کیویز کے خلاف نوجوان پلیئرز کی عمدہ کارکردگی کا کریڈٹ پی ایچ ایف کے ڈائریکٹر ڈومیسٹک اینڈ ڈویلمپنٹ نوید عالم کو ضرور ملنا چاہیے جو باصلاحیت کھلاڑیوں کی کھیپ تیار کرنے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں کھیل میں بہتری کے آثار اپنی جگہ لیکن میگا ایونٹ سے عین قبل پاکستانی ٹیم کو سلطان اذلان شاہ ہاکی کپ سے نکال کر انگلینڈ کو شامل کرنا تشویشناک ہے، ایک وقت ایسا بھی تھا جب سلطان اذلان شاہ ہاکی کپ میں پاکستانی ٹیم کی شرکت کو قابل فخر سمجھا جاتا تھا، ملائیشین عوام کی گرین شرٹس کے ساتھ محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایونٹ کے مقابلوں کے دوران مقامی تماشائی اپنے ملک کے بعد سب سے زیادہ سپورٹ گرین شرٹس کی ہی کیا کرتے تھے، اب ایونٹ کا حصہ بنانے کے بعد اچانک پاکستانی ٹیم کو نکال باہر کرنے پر سب کو حیرت ہوئی ہے۔
ذرائع کے مطابق گرین شرٹس کو ہاکی ایونٹ سے باہر کرنے میں انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کے صدر نریندر بٹرا کا بڑا ہاتھ ہے حالانکہ آئی ایچ ایف کے انتخابات میں پی ایچ ایف نے دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے ان کے حق ووٹ دیا تھا، اس نیکی کا بدلہ وہ پاکستانی ہاکی کے خلاف انٹرنیشنل سازشوں کا جال پھیلا کر دے رہے ہیں۔
ہاکی مبصرین کے مطابق نریندر بٹرا انتہا پسند ہندؤں کی پالیسی پر عمل پیرا کرتے ہوئے نہ صرف پاک، بھارت ہاکی سیریز کے مخالف بلکہ ان کی کوشش ہے کہ انٹرنیشنل سطح پر بھی پاکستانی ٹیم کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جائے، اب وقت آ گیا ہے کہ انٹرنیشنل ہاکی میں زندہ رہنے کے لیے پی ایچ ایف حکام کو اپنی آنکھیں اورکان دونوںکھلے رکھنا ہوں گے۔