گڈ گورننس کے لیے ہمیں اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہو گا جسٹس امیر ہانی مسلم
ہر فیصلہ اس خوف سے کیا کہ کہیں الله کی پکڑ نہ ہو جائے، جسٹس امیر ہانی مسلم
سپریم کورٹ کے جسٹس امیر ہانی مسلم کا کہنا ہے کہ انصاف اللہ کی ذات کرتی ہے جب کہ ججز تو دنیاوی لحاظ سے مقبول و غیر مقبول فیصلے کرتے ہیں اور گڈ گورننس کے لئے ہمیں اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہو گا۔
سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن حیدرآباد کی جانب سے اپنے اعزاز میں منعقدہ الوداعی عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس امیرہانی مسلم کا کہنا تھا کہ ہر فیصلہ اس خوف سے کیا کہ کہیں الله کی پکڑ نہ ہو جائے، انصاف صرف الله کی ذات کرتی ہے جبکہ ججز دنیاوی لحاظ سے مقبول اور غیر مقبول فیصلے کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے بعض فیصلوں سے حکومت سندھ کو پریشانی ہوئی لیکن ہمارے فیصلے گڈ گورننس کے لیے تھے، صوبائی حکومت کو اس بات پر سراہتا ہوں کہ پانی کے معاملے پر اس نے سپریم کورٹ کی بات مانی اور ٹاسک فورس تشکیل دی۔
جسٹس امیر ہانی نے کہا کہ نچلی سطح پر خرابیاں ہونے کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے معاملات بھی اعلیٰ عدلیہ تک پہنچتے ہیں، ہمارے یہاں اداروں کو مضبوط نہیں کیا گیا، اگر ادارے مضبوط ہوں اور کلکٹر و ڈپٹی کلکٹر اپنی سطح پر ہی مسائل حل کریں تو چھوٹے چھوٹے معاملات اعلی عدلیہ تک نہ جائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ معاملات حل نہ ہونے میں کچھ مسائل اور کچھ ذاتی مفادات رکاوٹ بنتے ہیں، گورننس کو بہتر کرنے کے لیے ہمیں اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہوگا۔
سپریم کورٹ کے جج کا کہنا تھا کہ بے نظیربھٹو کی شہادت کے بعد کوشش کی کہ سندھ کا ریوینیو ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہوجائے، 31 مارچ کو ریٹائرڈ ہو رہا ہوں لیکن یہ کام مکمل نہیں ہو سکا جبکہ پنجاب میں ریوینیو ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہو چکا ہے۔
اس موقع پر چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس احمد علی شیخ نے کہا کہ حیدرآباد سے بڑی یادیں وابستہ ہیں، اس شہر کی گلیاں میرے لیے ساجن کی گلیاں ہیں، جس طرح شہر حیدرآباد کی شامیں میٹھی اور پیاری ہیں اس طرح حیدرآباد بار بھی میٹھی اور پیاری ہے۔ عشائیے میں سپریم کورٹ کے ججز صاحبان جسٹس فیصل عرب، جسٹس سجاد علی شاہ کے علاوہ سندھ ہائی کورٹ اور ماتحت عدالتوں کے دیگر ججز صاحبان بھی شریک ہوئے۔
سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن حیدرآباد کی جانب سے اپنے اعزاز میں منعقدہ الوداعی عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس امیرہانی مسلم کا کہنا تھا کہ ہر فیصلہ اس خوف سے کیا کہ کہیں الله کی پکڑ نہ ہو جائے، انصاف صرف الله کی ذات کرتی ہے جبکہ ججز دنیاوی لحاظ سے مقبول اور غیر مقبول فیصلے کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے بعض فیصلوں سے حکومت سندھ کو پریشانی ہوئی لیکن ہمارے فیصلے گڈ گورننس کے لیے تھے، صوبائی حکومت کو اس بات پر سراہتا ہوں کہ پانی کے معاملے پر اس نے سپریم کورٹ کی بات مانی اور ٹاسک فورس تشکیل دی۔
جسٹس امیر ہانی نے کہا کہ نچلی سطح پر خرابیاں ہونے کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے معاملات بھی اعلیٰ عدلیہ تک پہنچتے ہیں، ہمارے یہاں اداروں کو مضبوط نہیں کیا گیا، اگر ادارے مضبوط ہوں اور کلکٹر و ڈپٹی کلکٹر اپنی سطح پر ہی مسائل حل کریں تو چھوٹے چھوٹے معاملات اعلی عدلیہ تک نہ جائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ معاملات حل نہ ہونے میں کچھ مسائل اور کچھ ذاتی مفادات رکاوٹ بنتے ہیں، گورننس کو بہتر کرنے کے لیے ہمیں اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہوگا۔
سپریم کورٹ کے جج کا کہنا تھا کہ بے نظیربھٹو کی شہادت کے بعد کوشش کی کہ سندھ کا ریوینیو ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہوجائے، 31 مارچ کو ریٹائرڈ ہو رہا ہوں لیکن یہ کام مکمل نہیں ہو سکا جبکہ پنجاب میں ریوینیو ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہو چکا ہے۔
اس موقع پر چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس احمد علی شیخ نے کہا کہ حیدرآباد سے بڑی یادیں وابستہ ہیں، اس شہر کی گلیاں میرے لیے ساجن کی گلیاں ہیں، جس طرح شہر حیدرآباد کی شامیں میٹھی اور پیاری ہیں اس طرح حیدرآباد بار بھی میٹھی اور پیاری ہے۔ عشائیے میں سپریم کورٹ کے ججز صاحبان جسٹس فیصل عرب، جسٹس سجاد علی شاہ کے علاوہ سندھ ہائی کورٹ اور ماتحت عدالتوں کے دیگر ججز صاحبان بھی شریک ہوئے۔