پاک افغان سرحد پر موثر نگرانی کا نظام
پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی کی وارداتوں کا تانا بانا افغانستان میں موجود دہشتگردوں سے جا ملا ہے
HONG KONG:
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ہفتے کو مہمند اور اورکزئی ایجنسی میں پاک افغان سرحدی علاقے کے دورے کے موقع پر کہا کہ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں ہماری پہلی ترجیح باجوڑ اور مہمند ایجنسی کے حساس ترین علاقے ہیں جہاں خطرات زیادہ ہیں' سرحد پر تکنیکی بنیادوں پر نگرانی کا جدید نظام بھی نصب کر دیا گیا جب کہ فضائی نگرانی بھی کی جا رہی ہے' پاک فوج مادر وطن کے دفاع اور امن پسند پاکستانی قبائل کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔
آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف کو بارڈر سیکیورٹی مینجمنٹ' سرحد پار سے دہشتگردوں کے خطرات اور حالیہ حملوں کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ سورن اور کلایہ میں اگلے مورچوں پر تعینات فوجی جوانوں سے گفتگو میں آرمی چیف نے ان کی آپریشنل تیاریوں پر اطمینان کا اظہار کیا اور سرحد پار سے دہشتگردوں کے حملوں کا موثر جواب دینے اور ان کے بلند حوصلے کو سراہا۔
پاکستان نے شمال مغربی سرحد پر دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے نگرانی کے انتظامات کیے چونکہ افغانستان کے ساتھ طویل اور دشوار گزار پہاڑی علاقہ ہونے کے باعث سرحد کی نگرانی میں مشکلات پیش آ رہی تھیں جس کا فائدہ دہشتگردوں کو پہنچ رہا تھا۔ افغانستان کی جانب سے بھی سرحدی نگرانی کا میکنزم کمزور ہونے کے باعث دہشتگردوں کے حوصلے بلند ہوئے اور وہ مشکل پہاڑی علاقہ ہونے کے باعث کہیں نہ کہیں سے چھپ چھپا کر سرحد پار کر جاتے ہیں۔
پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی کی وارداتوں کا تانا بانا افغانستان میں موجود دہشتگردوں سے جا ملا ہے اور یہ واضح ہو گیا ہے کہ یہ دہشتگرد ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت بڑے منظم انداز میں پاکستان کو دہشتگردی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ پاکستان نے بارہا افغان حکومت کو تمام صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے اس سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے علاقے میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کرے' ان کے تربیتی کیمپ نیست و نابود کر دے اور سرحدی نگرانی کا میکنزم بنائے تاکہ دہشتگردوں کی سرحد پار آمد و رفت کو روکا جا سکے لیکن افغان حکومت اس سلسلے میں موثر اقدامات نہیں اٹھا سکی۔
تمام حالات و واقعات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد بالآخر پاکستانی عسکری و سیاسی قیادت نے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے خلاف پاکستان اور افغانستان کے اندر بعض حلقوں کی جانب سے آوازیں بلند ہوئیں مگر یہ حلقے تمام تر مخالفت کے باوجود دہشتگردی روکنے کا کوئی موثر لائحہ عمل پیش نہیں کر سکے۔ اب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا عمل شروع ہو گیا ہے، یقیناً یہ ایک صائب اقدام ہے جس کی تحسین کی جانی چاہیے، چونکہ پاک افغان سرحد پر باجوڑ اور مہمند ایجنسی ہائی تھریٹ زونز ہیں اس لیے سب سے پہلے یہاں باڑ لگانے کو ترجیح دی گئی۔
افغانستان میں جب بھی دہشتگردی کی کوئی کارروائی رونما ہوتی ہے تو وہ بلا کم و کاست پاکستان پر اس کا الزام دھر دیتا ہے جب کہ پاکستان نے ہمیشہ یہ کہتے ہوئے اس کی تردید کی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی بھی دوسرے ملک میں دہشتگردی کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔ پاکستان تو خود دہشتگردی کا شکار ہے اور وہ بڑے پیمانے پر دہشتگردوں کے خلاف جنگ کر رہا ہے' پہلے اس نے شمالی وزیرستان میں ضرب عضب کے ذریعے دہشتگردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل کی اب ملک بھر میں چھپے ہوئے دہشتگردوں کا سراغ لگانے اور انھیں کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے ردالفساد کے نام پر آپریشن کا عمل تیزی سے جاری ہے۔
پاکستانی سیکیورٹی اداروں نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بے مثال قربانیاں دی ہیں جس پر پوری قوم کو فخر ہے، ہمارے فوجی جوان مشکل ترین حالات میں بھی اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر سرحدوں کی حفاظت کر رہے اور دہشتگردوں کے حملوں کا موثر جواب دے رہے ہیں۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی دہشتگردوں کے خلاف فوجی جوانوں کی کارکردگی کو سراہا اور شہادت پانے والوں کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی اداروں اور پاکستانی عوام کی عظیم قربانیوں پر ہمیں فخر ہے جو انھوں نے ملک کو فسادیوں سے پاک کرنے کے حوالے سے دیں۔ اب سرحد پر باڑ لگنے' نگرانی کے جدید آلات کی تنصیب اور فضائی نگرانی کے بعد دہشتگردوں کی بلا رکاوٹ آمد و رفت پر قابو پانے میں خاطر خواہ مدد ملے گی اور دہشتگردوں کے لیے بھی چھپ چھپا کر سرحد پار کرنا آسان نہیں رہے گا۔ اس کا فائدہ پاکستان اور افغانستان دونوں کو ہو گا۔
اسی حقیقت کی جانب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ موثر سرحدی نظام دونوں برادر اسلامی ملکوں کے مفاد میں ہے' پاک افغان سرحد پر دوطرفہ بارڈر مینجمنٹ میکنزم کے لیے افغان حکام کے ساتھ بات چیت اور کوششیں جاری ہیں۔ سرحد پر سیکیورٹی میکنزم کے قیام کے بعد محفوظ اور پرامن سرحد کا جو منظرنامہ سامنے آئے گا اس کا فائدہ پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان کو بھی پہنچے گا۔
پاکستان بارہا یہ اعلان کر چکا ہے کہ پرامن افغانستان اس کے مفاد میں ہے اور اس کی ہر ممکن کوشش ہے کہ افغانستان میں دہشتگردوں کا خاتمہ اور امن کی راہ ہموار ہو۔ فاٹا کی ترقی اور امن پسند قبائلیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے واضح کیا کہ پاک فوج مادر وطن کے دفاع اور محب وطن قبائل کی حفاظت اور تحفظ کے لیے تمام اقدامات کرے گی' فاٹا کو قومی دھارے میں لانا قوم کے وسیع تر مفاد میں ہے اور اسی مقصد کے لیے ترقیاتی کام تیزی سے کیے جا رہے ہیں تا کہ پائیدار امن اور استحکام قائم ہو۔
ادھر بھارت نے بھی پاکستان اور بنگلہ دیش کے ساتھ بین الاقوامی سرحد کو جلد سیل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ پورا خطہ ہی دہشتگردی کے حوالے سے مسائل کا شکار ہے جس سے نمٹنے کے لیے حفاظتی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ افغان حکومت کو بھی سرحد پر باڑ لگانے اور اس کی نگرانی کا نظام موثر بنانے کے لیے پاکستان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرنا چاہیے یہ اس کے مفاد میں بھی ہے۔ دہشتگردی کے خاتمے اور قیام امن کے بغیر خطے میں معاشی ترقی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ہفتے کو مہمند اور اورکزئی ایجنسی میں پاک افغان سرحدی علاقے کے دورے کے موقع پر کہا کہ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں ہماری پہلی ترجیح باجوڑ اور مہمند ایجنسی کے حساس ترین علاقے ہیں جہاں خطرات زیادہ ہیں' سرحد پر تکنیکی بنیادوں پر نگرانی کا جدید نظام بھی نصب کر دیا گیا جب کہ فضائی نگرانی بھی کی جا رہی ہے' پاک فوج مادر وطن کے دفاع اور امن پسند پاکستانی قبائل کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔
آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف کو بارڈر سیکیورٹی مینجمنٹ' سرحد پار سے دہشتگردوں کے خطرات اور حالیہ حملوں کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ سورن اور کلایہ میں اگلے مورچوں پر تعینات فوجی جوانوں سے گفتگو میں آرمی چیف نے ان کی آپریشنل تیاریوں پر اطمینان کا اظہار کیا اور سرحد پار سے دہشتگردوں کے حملوں کا موثر جواب دینے اور ان کے بلند حوصلے کو سراہا۔
پاکستان نے شمال مغربی سرحد پر دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے نگرانی کے انتظامات کیے چونکہ افغانستان کے ساتھ طویل اور دشوار گزار پہاڑی علاقہ ہونے کے باعث سرحد کی نگرانی میں مشکلات پیش آ رہی تھیں جس کا فائدہ دہشتگردوں کو پہنچ رہا تھا۔ افغانستان کی جانب سے بھی سرحدی نگرانی کا میکنزم کمزور ہونے کے باعث دہشتگردوں کے حوصلے بلند ہوئے اور وہ مشکل پہاڑی علاقہ ہونے کے باعث کہیں نہ کہیں سے چھپ چھپا کر سرحد پار کر جاتے ہیں۔
پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی کی وارداتوں کا تانا بانا افغانستان میں موجود دہشتگردوں سے جا ملا ہے اور یہ واضح ہو گیا ہے کہ یہ دہشتگرد ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت بڑے منظم انداز میں پاکستان کو دہشتگردی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ پاکستان نے بارہا افغان حکومت کو تمام صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے اس سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے علاقے میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کرے' ان کے تربیتی کیمپ نیست و نابود کر دے اور سرحدی نگرانی کا میکنزم بنائے تاکہ دہشتگردوں کی سرحد پار آمد و رفت کو روکا جا سکے لیکن افغان حکومت اس سلسلے میں موثر اقدامات نہیں اٹھا سکی۔
تمام حالات و واقعات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد بالآخر پاکستانی عسکری و سیاسی قیادت نے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے خلاف پاکستان اور افغانستان کے اندر بعض حلقوں کی جانب سے آوازیں بلند ہوئیں مگر یہ حلقے تمام تر مخالفت کے باوجود دہشتگردی روکنے کا کوئی موثر لائحہ عمل پیش نہیں کر سکے۔ اب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا عمل شروع ہو گیا ہے، یقیناً یہ ایک صائب اقدام ہے جس کی تحسین کی جانی چاہیے، چونکہ پاک افغان سرحد پر باجوڑ اور مہمند ایجنسی ہائی تھریٹ زونز ہیں اس لیے سب سے پہلے یہاں باڑ لگانے کو ترجیح دی گئی۔
افغانستان میں جب بھی دہشتگردی کی کوئی کارروائی رونما ہوتی ہے تو وہ بلا کم و کاست پاکستان پر اس کا الزام دھر دیتا ہے جب کہ پاکستان نے ہمیشہ یہ کہتے ہوئے اس کی تردید کی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی بھی دوسرے ملک میں دہشتگردی کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔ پاکستان تو خود دہشتگردی کا شکار ہے اور وہ بڑے پیمانے پر دہشتگردوں کے خلاف جنگ کر رہا ہے' پہلے اس نے شمالی وزیرستان میں ضرب عضب کے ذریعے دہشتگردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل کی اب ملک بھر میں چھپے ہوئے دہشتگردوں کا سراغ لگانے اور انھیں کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے ردالفساد کے نام پر آپریشن کا عمل تیزی سے جاری ہے۔
پاکستانی سیکیورٹی اداروں نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بے مثال قربانیاں دی ہیں جس پر پوری قوم کو فخر ہے، ہمارے فوجی جوان مشکل ترین حالات میں بھی اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر سرحدوں کی حفاظت کر رہے اور دہشتگردوں کے حملوں کا موثر جواب دے رہے ہیں۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی دہشتگردوں کے خلاف فوجی جوانوں کی کارکردگی کو سراہا اور شہادت پانے والوں کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی اداروں اور پاکستانی عوام کی عظیم قربانیوں پر ہمیں فخر ہے جو انھوں نے ملک کو فسادیوں سے پاک کرنے کے حوالے سے دیں۔ اب سرحد پر باڑ لگنے' نگرانی کے جدید آلات کی تنصیب اور فضائی نگرانی کے بعد دہشتگردوں کی بلا رکاوٹ آمد و رفت پر قابو پانے میں خاطر خواہ مدد ملے گی اور دہشتگردوں کے لیے بھی چھپ چھپا کر سرحد پار کرنا آسان نہیں رہے گا۔ اس کا فائدہ پاکستان اور افغانستان دونوں کو ہو گا۔
اسی حقیقت کی جانب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ موثر سرحدی نظام دونوں برادر اسلامی ملکوں کے مفاد میں ہے' پاک افغان سرحد پر دوطرفہ بارڈر مینجمنٹ میکنزم کے لیے افغان حکام کے ساتھ بات چیت اور کوششیں جاری ہیں۔ سرحد پر سیکیورٹی میکنزم کے قیام کے بعد محفوظ اور پرامن سرحد کا جو منظرنامہ سامنے آئے گا اس کا فائدہ پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان کو بھی پہنچے گا۔
پاکستان بارہا یہ اعلان کر چکا ہے کہ پرامن افغانستان اس کے مفاد میں ہے اور اس کی ہر ممکن کوشش ہے کہ افغانستان میں دہشتگردوں کا خاتمہ اور امن کی راہ ہموار ہو۔ فاٹا کی ترقی اور امن پسند قبائلیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے واضح کیا کہ پاک فوج مادر وطن کے دفاع اور محب وطن قبائل کی حفاظت اور تحفظ کے لیے تمام اقدامات کرے گی' فاٹا کو قومی دھارے میں لانا قوم کے وسیع تر مفاد میں ہے اور اسی مقصد کے لیے ترقیاتی کام تیزی سے کیے جا رہے ہیں تا کہ پائیدار امن اور استحکام قائم ہو۔
ادھر بھارت نے بھی پاکستان اور بنگلہ دیش کے ساتھ بین الاقوامی سرحد کو جلد سیل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ پورا خطہ ہی دہشتگردی کے حوالے سے مسائل کا شکار ہے جس سے نمٹنے کے لیے حفاظتی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ افغان حکومت کو بھی سرحد پر باڑ لگانے اور اس کی نگرانی کا نظام موثر بنانے کے لیے پاکستان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرنا چاہیے یہ اس کے مفاد میں بھی ہے۔ دہشتگردی کے خاتمے اور قیام امن کے بغیر خطے میں معاشی ترقی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔