آبی وسائل کا دن

پانچ افراد پر مشتمل خاندان کو ماہوار چار سے پانچ ہزار کا الگ اضافی خرچ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔

وہ بھی کیا دن تھے جب بابا کریم بخش روزانہ میونسپل کمیٹی کے لگائے ہوئے نلکے سے ہمارے سرکاری اسکول میں نصب لوہے کی ٹنکی بھر دیتے تھے اور ہم سب کلاس فیلوز ہاتھوں کے چلوؤں میں پانی بھر کر پیا کرتے تھے۔ اس وقت نہ کوئی ہائی جینک کوالٹی سوپ ہوتا تھا کہ ہم پہلے پانچ سیکنڈ ہاتھ دھو لیں، نہ منرل واٹر (پانی) ہوتا تھا اور مزے کی بات یہ تھی کوئی بیمار بھی نہیں ہوتا تھا۔ اس وقت کب ہمارے بڑوں نے یہ سوچا ہوگا کہ ہماری اگلی نسلوں کو بوتلوں میں پانی خرید کر پینا ناگزیر ہوجائے گا۔

آج اس قدر مہنگائی کے دور میں جب کھانے کا انتظام ہی عوام پر بھاری ہے۔ پانی بھی خرید کر پینا بجٹ کو مزید بھاری کردیتا ہے۔ پانچ افراد پر مشتمل خاندان کو ماہوار چار سے پانچ ہزار کا الگ اضافی خرچ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔

اگر حکومت صرف پانی کی جانب سنجیدگی سے توجہ دے دے تو عوام پرکچھ تو بوجھ کم ہوگا۔ ہم جابجا دیکھتے ہیں کہ خواتین، بچے، بوڑھے سبھی بالٹی، کین، کنستر اور ڈبے اٹھائے پانی لینے کے لیے سرگرداں ہیں، پورے شہر کو ٹینکرمافیا کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ جن کے پاس استطاعت ہے وہ ٹینکر مافیا کو چار گنا زیادہ رقم ادا کرکے پانی خرید سکتے ہیں، وہ غریب کہاں جائیں جن کی گزر اوقات بمشکل ہوتی ہے۔

کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ کے لگ بھگ ہو چکی ہے، شہر کی یومیہ پانی کی ضرورت 1100 ملین گیلن ہے، جب کہ اسے روزانہ صرف 650 ملین گیلن پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔ کراچی کے بعض علاقے تو لگتا ہے اب بھی قیام پاکستان سے قبل کی زندگی جی رہے ہیں۔

آئی آئی چندریگر روڈ جیسی شہر کی مصروف ترین شاہراہ پر آج بھی انگریزوں کے زمانے سے چلا آ رہا (پکھالی سسٹم) نظام، چمڑے کے مشکیزے میں پانی بھر کر بیچا جاتا ہے۔ ہم اب بھی گدھا گاڑی پر پانی کی ٹنکی چڑھائے کنستروں کے حساب سے پانی فروخت کر رہے ہیں۔ یہ ان علاقوں کا احوال ہے جہاں کراچی کے تمام بڑے آفس و دفاتر موجود ہیں، روزانہ کروڑوں کا کاروبار ہوتا ہے، حکومت کو لاکھوں میں ٹیکس ادا کیا جاتا ہے۔

تاریخ کہتی ہے کہ پانی کی اہمیت کا قصہ پانچ ہزار سال پرانا ہے، پانی کو محفوظ کرنے کا سلسلہ حضرت یوسف علیہ السلام سے شروع ہوا، جب والی مصر کے حکم پر آپ کو ملک میں آنے والے قحط سے بچاؤ کے لیے نگران مقرر کیا گیا اور آپ نے اناج و غلہ کے ساتھ پانی کا بھی بہت بڑا ذخیرہ آنے والے برسوں کے لیے محفوظ کر لیا۔ اس کے بعد تو یہ سلسلہ چل نکلا، بارش نہ ہونے کی صورت میں تالاب، نہر اور کنویں کھود کر پانی محفوظ کیا جانے لگا۔


اگر ہم اسلامی تاریخ پر بھی نظر ڈالیں تو اوائل اسلام کے زمانے میں مسلمان و دیگر قبائل کے لوگ پانی کے حصول میں سرگرداں رہتے تھے اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت بیحد مشہور ہے جس میں انھوں نے مکہ کے سب سے بڑے (آبی ذخیرہ) کنواں کو ایک یہودی سے منہ مانگے داموں خرید کر اسے بلا تفریق مذہب تمام مکہ والوں کے لیے وقف کر دیا تھا۔ یہ ان کی سخاوت کی بے شمار مثالوں میں سے ایک خوبصورت مثال ہے۔

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے بابرکت شہر مکہ کو آب زم زم کا معجزہ عطا فرمایا، جس کے شفا بخش پانی سے سیکڑوں انسان تاقیامت مستفید ہوتے رہیںگے۔ انسانوں نے بھی ہمیشہ پانی کے قریب نئی بستیاں بسائیں کہ آب اور حیات کا سلسلہ دنیا کی بقا کے لیے لازم و ملزوم ہے۔

اس وقت دنیا کے 184 ممالک کے درمیان 200 دریا مشترکہ ہیں، ان سب کے درمیان پانی کی تقسیم کو لے کر تنازعات بھی برسوں پرانے ہیں، جس طرح دریائے اردن کو لے کر اسرائیل، لبنان، اردن اور فلسطین کے درمیان اور دجلہ کی خاطر ترکی، شام اور عراق، جب کہ دریائے نیل کے پانی کے لیے مصر، ایتھوپیا اور سوڈان کے درمیان پانی کی تقسیم پر جھگڑے ایک مستقل مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ پانی کی قلت سے دنیا کے بیشتر ممالک پریشان ہیں، عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کے دو بلین افراد صاف پانی سے محروم ہیں۔ 2050ء میں جب دنیا کی آبادی نو بلین کا ہندسہ پار کر لے گی تو حالات مزید سنگین ہو جائیں گے۔

پانی جنگی ہتھیار بھی ہے اور کسی ملک کی خوشحالی اور ترقی کا اہم سبب بھی ہے، اس کے اصراف سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے، لیکن اس کے باوجود کہیں اگر پائپ لائن پھٹ جائے تو تدارک کے ناکافی انتظامات کی وجہ سے کافی سارا پانی ضایع ہو جاتا ہے۔ اس وقت ہمارے ملک کو واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ اور استعمال شدہ پانی کو دوبارہ کارآمد بنانے کے پلانٹس کی اشد ضرورت ہے۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں لاکھوں لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہوں، خون پانی سے بھی ارزاں ہو گیا ہو، وہاں عوام مستقبل کی منصوبہ بندی پر کس طرح صرف نظر کر سکتے ہیں۔ بیشتر ترقی یافتہ ممالک آنے والے دنوں کی جامع حکمت عملی میں مصروف عمل ہیں، مگر یہ ہماری بدقسمتی بھی ہے کہ پاکستان اپنے بیش بہا وسائل کے باوجود مشکلات کا شکار ہے۔ جب بارش نہ ہو تو ہم قحط سالی کا شکار ہو جاتے ہیں اور اگر باران رحمت برس پڑے تو ہم اس ذخیرے کو محفوظ کرنے کے بجائے سیلاب کے ہاتھوں ہلاکتوں سے پریشان ہوتے ہیں۔

اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہماری حکومت کو موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ بھارت ہمارے آبی وسائل پر قابض ہونے کے لیے درجنوں ڈیم بنا رہا ہے، تا کہ ہماری زرعی زمینوں کو بنجر کر سکے۔ ہمارا ملک جو سات دریاؤں کی سرزمین ہے، اپنے وسائل کو بروئے کار لانے کی جانب ہمیں خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث آیندہ آنے والے برسوں میں آبی مسائل کی ٹھوس منصوبہ بندی کر کے ہم بھی ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔
Load Next Story