بلوچستان حکومت برطرف گورنر راج نافذ
ہزارہ برادری کیخلاف مقدمات بھی واپس لینے کا اعلان، وزیراعظم کا کوئٹہ میں دھرنے کے شرکا سے اظہار تعزیت
وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے بلوچستان حکومت کو برطرف کرتے ہوئے دو ماہ کیلیے گورنر راج نافذ کردیا ہے۔
کوئٹہ میں دن بھر اجلاسوں اور مشاورت کے بعد رات گئے علمدار روڈ پر 86لاشوں سمیت گزشتہ تین دنوں سے دھرنا دینے والے ارکان سے ملاقات کی اور اعلان کیا کہ وفاقی حکومت نے بلوچستان بھر میں آرٹیکل 234نافذ کردیا ہے جس کے تحت موجودہ گورنر نواب ذوالفقار مگسی صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہوں گے۔ امن و امان کیلیے وفاقی حکومت گورنر کی مدد کرے گی۔ انھوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ ہزارہ کمیونٹی کیخلاف درج کیے گئے مقدمات ختم کردیے جائیں گے۔
اس موقع پر ہزارہ کمیونٹی کے دھرنے کے شرکا نے مطالبہ کیا کہ کم از کم کوئٹہ میں فوج تعینات کی جائے جس پر وزیراعظم نے کہا کہ آئین کے مطابق انتظامیہ جب چاہے گی اپنی مدد کیلیے فوج کو طلب کرسکے گی انھوں نے کہاکہ امن و امان کیلیے ایف سی کو پولیس کے اختیارات دے دیے گئے ہیں اور کور کمانڈر ایف سی کی براہ راست نگرانی کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ ہزارہ کمیونٹی کے افراد اپنے مسائل سے گورنر اور ایف سی کو آگاہ کریں ان پر فوری ایکشن لیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ بم دھماکوں کے زخمیوں کو طبی امداد کیلیے مکمل تعاون کیا جائے گا اور جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو معاوضے دیے جائیں گے۔
قتل ازیں ہزارہ کمیونٹی کے افراد نے اپنے خلاف ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں سے آگاہ کیا جس پر وزیراعظم نے کہا کہ ان کے پاس دہشت گردی کے شکار ہونے والے افراد سے دکھ کا اظہار کرنے کیلیے الفاظ نہیں۔ وہ صدر آصف علی زرداری سمیت پوری حکومت کی طرف سے اظہار تعزیت کرتا ہوں۔ بعد ازاں ہزارہ کمیونٹی کے سربراہ قیوم چنگیزی نے کہا کہ آپ کا شکریہ کہ آپ نے چوروں سے ہماری جان چھڑائی، انھیں اس کی وجہ بتائی جائے کہ کوئٹہ میں فوج کیوں نہیں بلائی جاسکتی انھوں نے کہا کہ وزیراعظم کے اعلانات پر عمل کے نوٹیفکیشن کے بعد ہی وہ دھرنا ختم کریں گے اور میتوں کو سپرد خاک کریں گے۔ قبل ازیں وزیر اعظم راجا پرویز اشرف نے کوئٹہ میں ٹارگٹڈ آپریشن کی منظوری دی۔
ہفتے کو صدر مملکت کی ہدایت پر وزیر اعظم کوئٹہ پہنچے ان کے سیاسی مشیر اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین سمیت دیگر مشیر بھی ان کے ہمراہ تھے۔ وزیر اعظم نے کوئٹہ پہنچنے کے بعد گورنر ہاؤس میں ایک اعلیٰ سطح اجلاس کی صدارت کی جس میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ اور وفاقی وزیر پوسٹل سروسز سردار عمرگورگیج، صوبائی کابینہ سمیت پولیس اورایف سی کے اعلیٰ حکام بھی موجود تھے، اس موقع پر کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں ٹارگٹڈ آپریشن کا فیصلہ کیا گیا، ایمرجنسی نافذ کرنے کے آپشنز بھی زیر غور آئے۔ وزیر اعظم نے وزیر اعلی کی وطن واپسی میں تاخیر پر برہمی کااظہارکیا جبکہ انھوں نے بلوچستان کے سینئر وزیر مولانا واسع کو بھی کراچی سے فوری طور پر کوئٹہ پہنچے کی ہدایت کی۔
مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق وزیر اعظم نے کوئٹہ سے بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے اے این پی کے رہنما اسفند یار ولی، چوہدری شجاعت، پرویز الہیٰ، گورنر سندھ، الطاف حسین، اسرار اللہ زہری اور دیگر رہنمائوں سے بلوچستان کے مسئلہ پر مختلف آپشنز پر مشاورت کی، تمام رہنمائوں نے بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کی حمایت کی ہے۔ وزیر اعظم سے متحدہ کے قائد الطاف حسین نے بھی ٹیلی فون پر رابطہ کر کے بلوچستان میں گورنرراج نافذ کرنے کامطالبہ کیا۔ متحدہ قومی موومنٹ کے اعلامیے کے مطابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے الطاف حسین کو بلوچستان کے وزیراعلیٰ اور صوبائی حکومت کو برطرف کرنے اور گورنر راج نافذ کرکے دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔
بی این پی عوامی کے رہنما اسرار اللہ زہری نے کہا کہ وہ کوئی غیر آئینی طریقہ قبول نہیں کریں گے۔ ایکسپریس نیوز کے ڈائریکٹر کرنٹ افئیرز مظہر عباس کے مطابق گورنر بلوچستان کو امن و امان کے قیام کے لیے فوج کو طلب کرنے کا اختیار ہو گا۔ ثناء نیوز کے مطابق بلوچستان میں آئین کے آرٹیکل 232کے تحت گورنر راج لگایا گیا اس ضمن میں کل 15جنوری کو صوبائی اسمبلی سے قرارداد منظور کی جائے گی، اسمبلی کی سفارش پر صدر مملکت صوبائی حکومت کو برطرف کرتے ہوئے گورنر راج کے نفاذ کا حکم جاری کر یں گے۔ دریں اثنا کراچی سے اسٹاف رپورٹر کے مطابق صدر آصف علی زرداری نے بلوچستان میں گورنر راج لگانے کی منظوری دے دی۔
آئین کے آرٹیکل234 کے تحت بلوچستان میں گورنر راج صدر آصف علی زرداری نے صوبے میں گورنرنواب ذوالفقار مگسی کے ایڈوائس پر لگایا ہے ۔ ذرائع کے مطابق صدر آصف علی زرداری نے اتوار کو صدارتی کیمپ آفس بلاول ہاؤس سے ملک کی سیاسی صورتحا ل خصوصاً مولانا طاہر القادری کے لانگ مارچ اور کوئٹہ کی صورتحال سے وزیراعظم راجا پرویزا شرف سمیت وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک گورنر بلوچستان سمیت مختلف وفاقی وزراء اور سیاسی رہنماؤں سے رابطے کیے، ذرائع کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی صورتحال پر صدر اور وزیر اعظم کے درمیاں کئی مرتبہ رابطہ ہوا جس کے دوران وزیر اعظم نے بلوچستان کی صورتحال سے متعلق چوہدری شجاعت ، مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین، اے این پی کے سربراہ اسفند یار یا رخان، جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر قائدین کے ساتھ ہونے والی مشاورت سے آگاہ کیا۔
صدر نے گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار مگسی سے بھی رابطہ کیا اور انہیں کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے مربوط انتظامات کی ہدایت دی، صدر نے وفاقی اور بلوچستان حکومت سے ہدایت کی کہ کوئٹہ دھماکوں کے شہداء کے لواحقین کو مالی معاوضہ فراہم کیا جائے، ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے بلوچستان کے معاملے سے گورنر راج سے متعلق صدر زرداری سے بات چیت کی اور اعلان سے متعلق گرین سگنل کے بعد کوئٹہ میں دھرنے کے شرکا سے ملاقات کی، ذرائع کے مطابق صدر زرداری نے لانگ مارچ کے حوالے سے بھی معلومات حاصل کرتے رہے، صدر نے رحمان ملک کو فون کرکے شرکاء کی جان و مان کی حفاظت کی ہدایت کی ۔
کوئٹہ میں دن بھر اجلاسوں اور مشاورت کے بعد رات گئے علمدار روڈ پر 86لاشوں سمیت گزشتہ تین دنوں سے دھرنا دینے والے ارکان سے ملاقات کی اور اعلان کیا کہ وفاقی حکومت نے بلوچستان بھر میں آرٹیکل 234نافذ کردیا ہے جس کے تحت موجودہ گورنر نواب ذوالفقار مگسی صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہوں گے۔ امن و امان کیلیے وفاقی حکومت گورنر کی مدد کرے گی۔ انھوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ ہزارہ کمیونٹی کیخلاف درج کیے گئے مقدمات ختم کردیے جائیں گے۔
اس موقع پر ہزارہ کمیونٹی کے دھرنے کے شرکا نے مطالبہ کیا کہ کم از کم کوئٹہ میں فوج تعینات کی جائے جس پر وزیراعظم نے کہا کہ آئین کے مطابق انتظامیہ جب چاہے گی اپنی مدد کیلیے فوج کو طلب کرسکے گی انھوں نے کہاکہ امن و امان کیلیے ایف سی کو پولیس کے اختیارات دے دیے گئے ہیں اور کور کمانڈر ایف سی کی براہ راست نگرانی کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ ہزارہ کمیونٹی کے افراد اپنے مسائل سے گورنر اور ایف سی کو آگاہ کریں ان پر فوری ایکشن لیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ بم دھماکوں کے زخمیوں کو طبی امداد کیلیے مکمل تعاون کیا جائے گا اور جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو معاوضے دیے جائیں گے۔
قتل ازیں ہزارہ کمیونٹی کے افراد نے اپنے خلاف ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں سے آگاہ کیا جس پر وزیراعظم نے کہا کہ ان کے پاس دہشت گردی کے شکار ہونے والے افراد سے دکھ کا اظہار کرنے کیلیے الفاظ نہیں۔ وہ صدر آصف علی زرداری سمیت پوری حکومت کی طرف سے اظہار تعزیت کرتا ہوں۔ بعد ازاں ہزارہ کمیونٹی کے سربراہ قیوم چنگیزی نے کہا کہ آپ کا شکریہ کہ آپ نے چوروں سے ہماری جان چھڑائی، انھیں اس کی وجہ بتائی جائے کہ کوئٹہ میں فوج کیوں نہیں بلائی جاسکتی انھوں نے کہا کہ وزیراعظم کے اعلانات پر عمل کے نوٹیفکیشن کے بعد ہی وہ دھرنا ختم کریں گے اور میتوں کو سپرد خاک کریں گے۔ قبل ازیں وزیر اعظم راجا پرویز اشرف نے کوئٹہ میں ٹارگٹڈ آپریشن کی منظوری دی۔
ہفتے کو صدر مملکت کی ہدایت پر وزیر اعظم کوئٹہ پہنچے ان کے سیاسی مشیر اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین سمیت دیگر مشیر بھی ان کے ہمراہ تھے۔ وزیر اعظم نے کوئٹہ پہنچنے کے بعد گورنر ہاؤس میں ایک اعلیٰ سطح اجلاس کی صدارت کی جس میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ اور وفاقی وزیر پوسٹل سروسز سردار عمرگورگیج، صوبائی کابینہ سمیت پولیس اورایف سی کے اعلیٰ حکام بھی موجود تھے، اس موقع پر کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں ٹارگٹڈ آپریشن کا فیصلہ کیا گیا، ایمرجنسی نافذ کرنے کے آپشنز بھی زیر غور آئے۔ وزیر اعظم نے وزیر اعلی کی وطن واپسی میں تاخیر پر برہمی کااظہارکیا جبکہ انھوں نے بلوچستان کے سینئر وزیر مولانا واسع کو بھی کراچی سے فوری طور پر کوئٹہ پہنچے کی ہدایت کی۔
مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق وزیر اعظم نے کوئٹہ سے بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے اے این پی کے رہنما اسفند یار ولی، چوہدری شجاعت، پرویز الہیٰ، گورنر سندھ، الطاف حسین، اسرار اللہ زہری اور دیگر رہنمائوں سے بلوچستان کے مسئلہ پر مختلف آپشنز پر مشاورت کی، تمام رہنمائوں نے بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کی حمایت کی ہے۔ وزیر اعظم سے متحدہ کے قائد الطاف حسین نے بھی ٹیلی فون پر رابطہ کر کے بلوچستان میں گورنرراج نافذ کرنے کامطالبہ کیا۔ متحدہ قومی موومنٹ کے اعلامیے کے مطابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے الطاف حسین کو بلوچستان کے وزیراعلیٰ اور صوبائی حکومت کو برطرف کرنے اور گورنر راج نافذ کرکے دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔
بی این پی عوامی کے رہنما اسرار اللہ زہری نے کہا کہ وہ کوئی غیر آئینی طریقہ قبول نہیں کریں گے۔ ایکسپریس نیوز کے ڈائریکٹر کرنٹ افئیرز مظہر عباس کے مطابق گورنر بلوچستان کو امن و امان کے قیام کے لیے فوج کو طلب کرنے کا اختیار ہو گا۔ ثناء نیوز کے مطابق بلوچستان میں آئین کے آرٹیکل 232کے تحت گورنر راج لگایا گیا اس ضمن میں کل 15جنوری کو صوبائی اسمبلی سے قرارداد منظور کی جائے گی، اسمبلی کی سفارش پر صدر مملکت صوبائی حکومت کو برطرف کرتے ہوئے گورنر راج کے نفاذ کا حکم جاری کر یں گے۔ دریں اثنا کراچی سے اسٹاف رپورٹر کے مطابق صدر آصف علی زرداری نے بلوچستان میں گورنر راج لگانے کی منظوری دے دی۔
آئین کے آرٹیکل234 کے تحت بلوچستان میں گورنر راج صدر آصف علی زرداری نے صوبے میں گورنرنواب ذوالفقار مگسی کے ایڈوائس پر لگایا ہے ۔ ذرائع کے مطابق صدر آصف علی زرداری نے اتوار کو صدارتی کیمپ آفس بلاول ہاؤس سے ملک کی سیاسی صورتحا ل خصوصاً مولانا طاہر القادری کے لانگ مارچ اور کوئٹہ کی صورتحال سے وزیراعظم راجا پرویزا شرف سمیت وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک گورنر بلوچستان سمیت مختلف وفاقی وزراء اور سیاسی رہنماؤں سے رابطے کیے، ذرائع کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی صورتحال پر صدر اور وزیر اعظم کے درمیاں کئی مرتبہ رابطہ ہوا جس کے دوران وزیر اعظم نے بلوچستان کی صورتحال سے متعلق چوہدری شجاعت ، مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین، اے این پی کے سربراہ اسفند یار یا رخان، جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر قائدین کے ساتھ ہونے والی مشاورت سے آگاہ کیا۔
صدر نے گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار مگسی سے بھی رابطہ کیا اور انہیں کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے مربوط انتظامات کی ہدایت دی، صدر نے وفاقی اور بلوچستان حکومت سے ہدایت کی کہ کوئٹہ دھماکوں کے شہداء کے لواحقین کو مالی معاوضہ فراہم کیا جائے، ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے بلوچستان کے معاملے سے گورنر راج سے متعلق صدر زرداری سے بات چیت کی اور اعلان سے متعلق گرین سگنل کے بعد کوئٹہ میں دھرنے کے شرکا سے ملاقات کی، ذرائع کے مطابق صدر زرداری نے لانگ مارچ کے حوالے سے بھی معلومات حاصل کرتے رہے، صدر نے رحمان ملک کو فون کرکے شرکاء کی جان و مان کی حفاظت کی ہدایت کی ۔