بھارت کی سیاست اور بی جے پی
صوبائی اسمبلی کے حالیہ انتخابات میں بی جے پی کے ہاتھوں کانگریس کی عبرت ناک شکست ایک بہت بڑا حادثہ ہے
بھارت کے سب سے بڑے صوبے اتر پردیش میں جو یو پی کے نام سے زیادہ جانا پہچانا جاتا ہے، صوبائی اسمبلی کے حالیہ انتخابات میں بی جے پی کے ہاتھوں کانگریس کی عبرت ناک شکست ایک بہت بڑا حادثہ ہے۔ایک زمانہ تھا جب سارے ہندوستان میں کانگریس کا طوطی بولتا تھا اوریوپی جس کے اب تین ٹکڑے ہوگئے ہیں کانگریس کا گڑھ ہوا کرتا تھا۔ یوپی کے مسلمان کانگریس کا ووٹ بینک کہلاتے تھے مگر رفتہ رفتہ کانگریس کا زوال شروع ہوگیا ۔
ہماری آنکھوں میں آج بھی وہ منظر محفوظ ہے جب ہندوستان کے ایک بزرگ سیاستدان سی راج گوپال آچاریہ عرف راجہ جی دلی کے مشہورومعروف کمپنی باغ میں شام ڈھلے سورج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ پیش گوئی فرما رہے تھے کہ وہ دن دور نہیں جب ڈوبتے ہوئے سورج کی طرح کانگریس کے اقتدار کا سورج بھی غروب ہوجائے گا۔انجام کار راج گوپال آچاریہ کی پیش گوئی کچھ ہی عرصے بعد درست ثابت ہوئی ۔ ہندوتوا کے فلسفے کے علم بردار یوگی آدتیہ ناتھ نے بحیثیت وزیر اعلیٰ اترپردیش اپنے عہدے کا حلف اٹھالیا۔
یوگی آدتیہ ناتھ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کے لیے بدنام ہے۔ اس کا تعلق اسی گورکھ پور سے ہے جس نے اردو کے ممتاز شاعر اور انسان دوست رگھوپتی سہائے فراق کو جنم دیا تھا۔ یوگی نے امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے بعض مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر عاید کی جانے والی پابندیوں کے الزام کو سراہا تھا۔ یوگی کو فرقہ وارانہ فسادات، اقدام قتل اور قبرستانوں میں بلااجازت گھس جانے جیسے جرائم کی پاداش میں گرفتار بھی کیا جاچکا ہے۔ حالات کی ستم ظریفی ہی کہا جاسکتا ہے کہ آدتیہ ناتھ جیسے انتہائی متعصب شخص کو اترپردیش جیسے صوبے کا وزیر اعلیٰ بنادیا گیا ہے جہاں مسلم آبادی کا تناسب بیس فیصد ہے۔
دریں اثنا یوپی کے مشہورومعروف قصبہ دیوبند سے صوبائی اسمبلی کے لیے منتخب ہونے والے بی جے پی کے امیدوار برجیش سنگھ نے شوشہ چھوڑ دیا ہے کہ وہ اس امرکو یقینی بنائیں گے کہ صوبے کی نئی اسمبلی اس قصبے کے موجودہ نام دیوبند کو تبدیل کرکے دیو ورند رکھ دے۔ انھوں نے اس تبدیلی کے تانے بانے مہابھارت کے دور سے جوڑنے کی مذموم کوشش کی ہے۔ دنیا جانتی اور مانتی ہے کہ دیوبند اپنے دارالعلوم کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ برجیش سنگھ بی جے پی کے ٹکٹ پر گزشتہ 21 برسوں میں اس حلقہ انتخاب سے یوپی کی صوبائی اسمبلی کے لیے منتخب ہونے والے پہلے امیدوار ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ دیوبند کے اس حلقہ انتخاب میں مسلمانوں کا تناسب 30 فیصد ہے۔ اترپردیش کی صوبائی اسمبلی میں سبقت کے لحاظ سے یہ بی جے پی کا ابھی آغاز ہے۔
اترپردیش کی وزارت اعلیٰ کا چارج سنبھالنے کے صرف دو ہی دن بعد آدتیہ ناتھ نے بھارت کے ایوان زیریں لوک سبھا میں بھی حاضری دی جس کے وہ ممبر ہیں۔ ان کے ایوان میں داخل ہوتے ہی ان کے حامیوں نے ان کا بڑا پرجوش سواگت کیا اور جے شری رام کے نعرے لگائے۔ تاہم اپوزیشن رکن رام موہن نائیڈو نے انھیں مبارکباد پیش کرنے سے گریزکیا۔ لوک سبھا کی اسپیکر سمترا مہاجن، یوگی کا سواگت کرنے والوں میں پیش پیش تھیں اور انھوں نے 44 سالہ رکن پارلیمان کا نام مقررین کی فہرست میں شامل کرلیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اترپردیش کے نئے وزیر اعلیٰ ''سب کا ساتھ' سب کا وکاس'' کے نعرے پر عمل پیرا ہوں گے یعنی ''سب کا ساتھ' سب کی ترقی''۔ دراصل یہ نعرہ وزیر اعظم نریندر مودی کی ایجاد ہے جو سراسر فریب اور فراڈ ہے۔
اترپردیش منقسم ہوجانے کے باوجود اب بھی بھارت کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور پورے ملک پر اس کی حکمرانی کی ایک طویل تاریخ ہے جس میں بھارت کے اولین وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو سے لے کر لال بہادر شاستری، اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی جیسے بڑے بڑے مشہور نام شامل ہیں۔ اس اسمبلی کے ممبران کی تعداد بھی ہندوستان کی دیگر صوبائی اسمبلیوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے یعنی 403۔ حالیہ انتخابات میں بی جے پی نے 312 نشستیں حاصل کی ہیں جوکہ ایک بہت بڑی تعداد اور بھاری اکثریت ہے۔
لیکن بی جے پی کے ان امیدواروں میں مسلمان امیدوار ایک بھی نہیں ہے جو بی جے پی کی اسلام دشمنی اور مسلمانوں سے شدید نفرت اور انتہائی تعصب کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے کسی طرح سے بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ یہ مسٹر نقوی اور این جے اکبر جیسے نام نہاد مسلمانوں کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے جو اب بھی اس مسلم شکن ہندو انتہا پسند سیاسی جماعت کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں۔ یوگی جی کی کابینہ میں مہندرا سنگھ نامی ایک سکھ وزیر بھی شامل ہیں جب کہ 20 فیصد مسلم آبادی والے اترپردیش میں سکھوں کی آبادی کا تناسب 0.39 فیصد ہے۔
اتر پردیش میں بی جے پی کی حالیہ کھڑکی توڑ کامیابی نے بہت سے نئے خدشات پیدا کردیے ہیں جن میں سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ یوپی کے مسلمانوں پر عرصہ حیات مزید تنگ کردیا جائے گا اور مسلم کش فسادات کے امکانات اور بھی بڑھ جائیں گے۔ اس حوالے سے تازہ ترین خبر یہ ہے کہ مغربی اترپردیش کے ایک شہر ہاتھرس میں ابھی حال ہی میں فرقہ پرست شرپسندوں نے گوشت کی دکانوں پر دھاوا بول دیا۔ باور کیا جاتا ہے کہ یہ کارروائی یوپی کے نئے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ان احکامات کا نتیجہ ہے کہ مذبح خانوں کی تعداد کم سے کم کی جائے اورگائے کی اسمگلنگ کی روک تھام کی جائے۔ گزشتہ چند روز کے دوران الٰہ آباد، بنارس، آگرہ اور غازی آباد میں کئی مذبح خانے بند کیے جاچکے ہیں۔
ادھر 21 مارچ بروز منگل انڈین سپریم کورٹ نے ایودھیا کی بابری مسجد اور رام جنم بھومی کے قضیہ میں یہ تجویز پیش کردی کہ اس مذہبی اور جذباتی تنازعے کو عدالت کے بجائے باہمی مذاکرات کے ذریعے آپس میں مل بیٹھ کر باہمی رضامندی اور افہام و تفہیم سے حل کیا جائے۔ عدالت عظمیٰ کے سربراہ چیف جسٹس جے ایس کھیہر نے جو بذات خود مذہباً سکھ ہیں اپنی جانب سے ثالثی کی پیشکش بھی کردی ہے۔ نریندر مودی کے اپنے صوبے گجرات میں کامیابی کے بعد اب بھارت کے سب سے بڑے صوبے اترپردیش میں زبردست کامیابی کے اثرات ہندوستان کے 2019 میں ہونے والے آیندہ عام انتخابات پر بھی پڑیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت کے آیندہ حالات کیا کروٹ لیتے ہیں۔
ہماری آنکھوں میں آج بھی وہ منظر محفوظ ہے جب ہندوستان کے ایک بزرگ سیاستدان سی راج گوپال آچاریہ عرف راجہ جی دلی کے مشہورومعروف کمپنی باغ میں شام ڈھلے سورج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ پیش گوئی فرما رہے تھے کہ وہ دن دور نہیں جب ڈوبتے ہوئے سورج کی طرح کانگریس کے اقتدار کا سورج بھی غروب ہوجائے گا۔انجام کار راج گوپال آچاریہ کی پیش گوئی کچھ ہی عرصے بعد درست ثابت ہوئی ۔ ہندوتوا کے فلسفے کے علم بردار یوگی آدتیہ ناتھ نے بحیثیت وزیر اعلیٰ اترپردیش اپنے عہدے کا حلف اٹھالیا۔
یوگی آدتیہ ناتھ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کے لیے بدنام ہے۔ اس کا تعلق اسی گورکھ پور سے ہے جس نے اردو کے ممتاز شاعر اور انسان دوست رگھوپتی سہائے فراق کو جنم دیا تھا۔ یوگی نے امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے بعض مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر عاید کی جانے والی پابندیوں کے الزام کو سراہا تھا۔ یوگی کو فرقہ وارانہ فسادات، اقدام قتل اور قبرستانوں میں بلااجازت گھس جانے جیسے جرائم کی پاداش میں گرفتار بھی کیا جاچکا ہے۔ حالات کی ستم ظریفی ہی کہا جاسکتا ہے کہ آدتیہ ناتھ جیسے انتہائی متعصب شخص کو اترپردیش جیسے صوبے کا وزیر اعلیٰ بنادیا گیا ہے جہاں مسلم آبادی کا تناسب بیس فیصد ہے۔
دریں اثنا یوپی کے مشہورومعروف قصبہ دیوبند سے صوبائی اسمبلی کے لیے منتخب ہونے والے بی جے پی کے امیدوار برجیش سنگھ نے شوشہ چھوڑ دیا ہے کہ وہ اس امرکو یقینی بنائیں گے کہ صوبے کی نئی اسمبلی اس قصبے کے موجودہ نام دیوبند کو تبدیل کرکے دیو ورند رکھ دے۔ انھوں نے اس تبدیلی کے تانے بانے مہابھارت کے دور سے جوڑنے کی مذموم کوشش کی ہے۔ دنیا جانتی اور مانتی ہے کہ دیوبند اپنے دارالعلوم کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ برجیش سنگھ بی جے پی کے ٹکٹ پر گزشتہ 21 برسوں میں اس حلقہ انتخاب سے یوپی کی صوبائی اسمبلی کے لیے منتخب ہونے والے پہلے امیدوار ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ دیوبند کے اس حلقہ انتخاب میں مسلمانوں کا تناسب 30 فیصد ہے۔ اترپردیش کی صوبائی اسمبلی میں سبقت کے لحاظ سے یہ بی جے پی کا ابھی آغاز ہے۔
اترپردیش کی وزارت اعلیٰ کا چارج سنبھالنے کے صرف دو ہی دن بعد آدتیہ ناتھ نے بھارت کے ایوان زیریں لوک سبھا میں بھی حاضری دی جس کے وہ ممبر ہیں۔ ان کے ایوان میں داخل ہوتے ہی ان کے حامیوں نے ان کا بڑا پرجوش سواگت کیا اور جے شری رام کے نعرے لگائے۔ تاہم اپوزیشن رکن رام موہن نائیڈو نے انھیں مبارکباد پیش کرنے سے گریزکیا۔ لوک سبھا کی اسپیکر سمترا مہاجن، یوگی کا سواگت کرنے والوں میں پیش پیش تھیں اور انھوں نے 44 سالہ رکن پارلیمان کا نام مقررین کی فہرست میں شامل کرلیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اترپردیش کے نئے وزیر اعلیٰ ''سب کا ساتھ' سب کا وکاس'' کے نعرے پر عمل پیرا ہوں گے یعنی ''سب کا ساتھ' سب کی ترقی''۔ دراصل یہ نعرہ وزیر اعظم نریندر مودی کی ایجاد ہے جو سراسر فریب اور فراڈ ہے۔
اترپردیش منقسم ہوجانے کے باوجود اب بھی بھارت کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور پورے ملک پر اس کی حکمرانی کی ایک طویل تاریخ ہے جس میں بھارت کے اولین وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو سے لے کر لال بہادر شاستری، اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی جیسے بڑے بڑے مشہور نام شامل ہیں۔ اس اسمبلی کے ممبران کی تعداد بھی ہندوستان کی دیگر صوبائی اسمبلیوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے یعنی 403۔ حالیہ انتخابات میں بی جے پی نے 312 نشستیں حاصل کی ہیں جوکہ ایک بہت بڑی تعداد اور بھاری اکثریت ہے۔
لیکن بی جے پی کے ان امیدواروں میں مسلمان امیدوار ایک بھی نہیں ہے جو بی جے پی کی اسلام دشمنی اور مسلمانوں سے شدید نفرت اور انتہائی تعصب کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے کسی طرح سے بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ یہ مسٹر نقوی اور این جے اکبر جیسے نام نہاد مسلمانوں کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے جو اب بھی اس مسلم شکن ہندو انتہا پسند سیاسی جماعت کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں۔ یوگی جی کی کابینہ میں مہندرا سنگھ نامی ایک سکھ وزیر بھی شامل ہیں جب کہ 20 فیصد مسلم آبادی والے اترپردیش میں سکھوں کی آبادی کا تناسب 0.39 فیصد ہے۔
اتر پردیش میں بی جے پی کی حالیہ کھڑکی توڑ کامیابی نے بہت سے نئے خدشات پیدا کردیے ہیں جن میں سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ یوپی کے مسلمانوں پر عرصہ حیات مزید تنگ کردیا جائے گا اور مسلم کش فسادات کے امکانات اور بھی بڑھ جائیں گے۔ اس حوالے سے تازہ ترین خبر یہ ہے کہ مغربی اترپردیش کے ایک شہر ہاتھرس میں ابھی حال ہی میں فرقہ پرست شرپسندوں نے گوشت کی دکانوں پر دھاوا بول دیا۔ باور کیا جاتا ہے کہ یہ کارروائی یوپی کے نئے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ان احکامات کا نتیجہ ہے کہ مذبح خانوں کی تعداد کم سے کم کی جائے اورگائے کی اسمگلنگ کی روک تھام کی جائے۔ گزشتہ چند روز کے دوران الٰہ آباد، بنارس، آگرہ اور غازی آباد میں کئی مذبح خانے بند کیے جاچکے ہیں۔
ادھر 21 مارچ بروز منگل انڈین سپریم کورٹ نے ایودھیا کی بابری مسجد اور رام جنم بھومی کے قضیہ میں یہ تجویز پیش کردی کہ اس مذہبی اور جذباتی تنازعے کو عدالت کے بجائے باہمی مذاکرات کے ذریعے آپس میں مل بیٹھ کر باہمی رضامندی اور افہام و تفہیم سے حل کیا جائے۔ عدالت عظمیٰ کے سربراہ چیف جسٹس جے ایس کھیہر نے جو بذات خود مذہباً سکھ ہیں اپنی جانب سے ثالثی کی پیشکش بھی کردی ہے۔ نریندر مودی کے اپنے صوبے گجرات میں کامیابی کے بعد اب بھارت کے سب سے بڑے صوبے اترپردیش میں زبردست کامیابی کے اثرات ہندوستان کے 2019 میں ہونے والے آیندہ عام انتخابات پر بھی پڑیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت کے آیندہ حالات کیا کروٹ لیتے ہیں۔