چھوٹے سے مالیر کوٹلہ کی بڑی سی کہانی

مالیر کوٹلہ ریاست کی کہانی ایک افسانوی و فلمی کہانی کی طرح ہے اور اس کی جڑیں تاریخ میں پیوست ہیں۔

پچھلے ہفتے ایک خبر نگاہ سے گذری جو میرے حساب سے تو بہت اہم ہے بھلے اسے میڈیا اہمیت دے نہ دے۔ بھارتی پنجاب میں پہلی بار کسی مسلمان کو مکمل وزیر کے طور پر امریندر سنگھ کی نئی کانگریسی حکومت نے کابینہ میں شامل کیا ہے۔اس وزیر کا نام رضیہ سلطانہ ہے اور ان کا تعلق سابق ریاست مالیر کوٹلہ سے ہے۔رضیہ تیسری بار پنجاب اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی ہیں۔امریندر سنگھ کی گذشتہ حکومت میں وہ چیف پارلیمانی سیکریٹری تھیں۔ان کے شوہر محمد مصطفیٰ پنجاب ہیومین رائٹس کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل ہیں۔اس سے قبل مالیر کوٹلہ کی نشست سے سابق نواب افتخار علی خان اور ان کی اہلیہ ساجدہ بیگم کامیاب ہوتے رہے۔فرزانہ عالم بھی اس نشست سے ایک بار جیت چکی ہیں۔

تقسیم ِ برصغیر سے قبل انیس سو اکتالیس میں متحدہ ہندوستان کی آخری مردم شماری کے مطابق جو علاقے اس وقت بھارتی پنجاب میں شامل ہیں وہاں مسلم آبادی کا اوسط تناسب تیس فیصد تھا۔تقسیم کے بعد انیس سو اکیاون میں بھارت میں جو پہلی مردم شماری ہوئی اس کے مطابق پنجاب کی تیس فیصد مسلم آبادی گھٹ کے ڈیڑھ فیصد تک رہ گئی۔ یہی حال پاکستان میں شامل ہونے والے مسلم اکثریتی مغربی پنجاب کا بھی ہوا جہاں پارٹیشن سے قبل غیر مسلم آبادی پچیس سے تیس فیصد کے درمیان تھی مگر پارٹیشن کے نتیجے میں ایک فیصد تک رہ گئی۔اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ستر برس پہلے پارٹیشن کے نتیجے میں پنجاب کے دونوں حصوں سے ہر مذہب کے ماننے والوں کی کتنی عظیم نقلِ مکانی اور مار کاٹ ہوئی۔مگر اس وقت ہمارا فوکس بھارتی پنجاب کے مسلمان ہیں۔

انیس سو چھیاسٹھ میں پنجاب کو مزید دو صوبوں میں بانٹ دیا گیا یعنی پنجاب اور ہریانہ۔مشترکہ دارلحکومت چندی گڑھ قرار پایا۔دو ہزار گیارہ کی مردم شماری کے مطابق پنجاب کی دو کروڑ اسی لاکھ آبادی میں مسلمانوں کا تناسب ایک اعشاریہ ترانوے فیصد ہے۔اس میں وہ مزدور بھی شامل ہیں جنہوں نے پچھلے تیس برس کے دوران یو پی اور بہار سے زرعی و صنعتی مزدوری کی خاطر پنجاب نقل مکانی کی۔

پنجاب میں واحد مسلم اکثریتی قصبہ مالیر کوٹلہ ہے۔ یہاں کی ایک لاکھ پینتیس ہزار آبادی میں مسلمانوں کا تناسب ساٹھ فیصد ہے اور پنجاب کابینہ کی پہلی مسلمان وزیر ( رضیہ سلطانہ ) کا تعلق اسی شہر سے ہے۔مالیر کوٹلہ ریاست کی کہانی ایک افسانوی و فلمی کہانی کی طرح ہے اور اس کی جڑیں تاریخ میں پیوست ہیں۔

روایت ہے کہ جب دلی پر افغان نژاد سلطان بہلول لودھی کی حکومت تھی تو افغانستان سے چودہ سو سڑسٹھ میں ایک بزرگ شیخ صدر الدین جہاں حیدر شیروانی تشریف لائے اور سرہند کے علاقے میں ایک ٹیکری پر قیام کیا۔کچھ عرصے بعد بہلول لودھی کے لشکر کا گذر ہوا اور یہاںپڑاؤ کیا۔بہلول کی ملاقات شیخ صدر الدین سے ہوئی اور پوچھا کہ میں جس مہم پر جا رہا ہوں اس میں کامیابی ہوگی یا ناکامی۔شیخ نے کہا کامیاب لوٹو گے۔واپسی پر بہلول نے کامیابی کی خوشی میں ایک شاہی گھوڑا بطور تحفہ شیخ کی نذر کیا اور دلی روانہ ہوگیا۔شیخ نے وہ گھوڑا ذبح کر کے لنگر میں ڈلوا دیا۔سلطان تک جب خبر پہنچی تو خاصا ملول ہوا اور خود یہاں تک پہنچا اور اپنے رنج کا اظہار کیا۔شیخ نے کہا میری کٹیا سے باہر نکل کے دیکھ۔ جو گھوڑا اچھا لگے لے جا۔بہلول نے دیکھا کہ چاروں طرف ویسے ہی گھوڑے چر رہے ہیں جیسا گھوڑا اس نے شیخ کو تحفے میں دیا تھا۔بہلول نے اپنی ایک لڑکی کی شادی شیخ سے کر دی اور جہیز میں یہ علاقہ بخشا جو مالیر کوٹلہ کہلایا۔شیخ کے تین لڑکے ہوئے۔شیخ صدر الدین کا مزار شہر کے بیچوں بیچ ہے جہاں مارچ سے جون تک ہر چودھویں کے چاند پر میلہ لگتا ہے۔اس میں ہر مذہب کا ماننے والا شریک ہوتا ہے۔

سن سولہ سو پچھتر میں اورنگ زیب نے بغاوت کے الزام میں سکھوں کے نویں گرو تیج بہادر سنگھ کا سر قلم کردیا۔ تیج بہادر سنگھ کے نوسالہ فرزند گوبند سنگھ نے دسویں گرو کی گدی سنبھالی اور مغلوں سے لڑائی کو جاری رکھا۔گرو گوبند سنگھ نے سولہ سو ننانوے میں خالصہ پنت کی بنیاد رکھی۔سترہ سو چار میں آنند پور کے مقام پر گرو کی فوج مغلوں کے گھیرے میں آگئی۔دو لڑکے لڑتے ہوئے مارے گئے۔گرو کے خاندان کے بقیہ افراد کو آنند پور سے بحفاظت نکلنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔لیکن جیسے ہی گرو کی والدہ ماتا گجری گرو کے دو چھوٹے بیٹوں نو سالہ فتح سنگھ اور سات سالہ زور آور سنگھ کو لے کر نکلیں تو مغل کمانڈر وزیر خان کے دستوں نے انھیں حراست میں لے لیا۔

روایت ہے کہ جب کمانڈر وزیر خان نے گرو گوبند سنگھ کے دونوں کمسن بیٹوں کو سزائے موت دینے کا فیصلہ کیا تو مالیر کوٹلہ کے نواب شیر محمد خان بھی وہیں موجود تھے۔ انھوں نے وزیر خان سے کہا کہ اسلام عورتوں اور بچوں پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر ان بچوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تو ہر لحاظ سے ظلم ہوگا۔مگر دونوں بچوں کو بہرحال امان نہیں ملی۔انھیں دیوار میں چنوا دیا گیا اور ان کی دادی ماتا گجری صدمے سے جاں بحق ہوگئیں۔


روپوش گرو گوبند سنگھ تک جب یہ خبر پہنچی تو روا یت ہے کہ انھوں نے زمین پر پڑی ایک شاخ اٹھاتے ہوئے کہا جیسی یہ شاخ ہری ہے شیر محمد خان اور اس کی اولاد بھی ہری بھری رہے۔وہ دن اور آج کا دن سکھوں کی نظر میں مالیر کوٹلہ نے دائمی احترام حاصل کر لیا۔اس احترام کی سب سے بڑی آزمائش انیس سو سینتالیس تھا۔ ہر طرف مار کاٹ جاری تھی مگر کسی بلوائی کو مالیر کوٹلہ کی حدود میں گھسنے کی ہمت نہیں ہوئی۔یہ ریاست کئی ماہ تک اردگرد سے پناہ لینے والے لٹے پٹے مسلمانوں کے لیے ایک ٹرانزٹ کیمپ بنی رہی۔ چار سے پانچ لاکھ مسلمانوں کو مالیر کوٹلے والوں نے فوج اور پولیس کے تعاون سے سرحد پار کرانے کا کام کیا۔خود مالیر کوٹلہ سے بہت کم مسلمانوں نے پاکستان ہجرت کی۔شاہی خاندان کے کچھ لوگ پاکستان گئے اور کہا جاتا ہے کہ لاہور اور مظفر گڑھ میں آباد ہوئے۔

دو ہزار نو کے لوک سبھا انتخابات کی کوریج کے سلسلے میں مجھے مالیر کوٹلہ جانے کا اتفاق ہوا۔بھارت کے دیگر علاقوں کی نسبت میں نے یہاں کے مسلمانوں کو زیادہ آسودہ حال پایا۔یہ شہر فرنیچر اور لوہے کے سامان کا مرکز ہے اور پنجاب کا ویجیٹیبل کیپیٹل کہلاتا ہے۔سابق نوابین کے مزارات اچھی حالت میں ہیں۔ انیس سو ایک میں نواب احمد علی کے دور میں بنا موتی بازار اب بھی جدیدیت کی دستبرد سے خاصا محفوظ ہے۔موہن جنرل اسٹور کے برابر حسن ٹیلرز اور اس سے ملا ہوا لابھ سنگھ پریتم سنگھ گارمنٹس مجھے آج بھی یاد ہے۔

شاہی عیدگاہ بھی دیکھنے کی چیز ہے۔یہاں عیدین کی نمازیں صوبے کے مفتی اعظم پڑھاتے ہیں اور وزیرِ اعلی بھی ضرور آتا ہے بھلے اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو۔پٹیالہ کی پنجاب یونیورسٹی کے تحت یہاں نواب شیر محمد خان انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانس اسٹڈیز بھی ہے جس میں اردو، فارسی اور عربی میں ایم فل تک تدریس و تحقیق کا انتظام ہے۔ایک مسلم فٹ بال کلب ہے جو بھارت کے ہر اہم ٹورنامنٹ میں شامل ہوتا ہے اور جیتتا بھی ہے۔

مالیر کوٹلہ سے ذرا باہر پلونڈ کلاں کے گاؤں میں میرا کی درگاہ ہے جسے عرفِ عام میں بے بے کا دربار کہا جاتا ہے۔یہاں ایک نانک پنتھی فقیر گا رہا تھا۔

جد لوگ کہن بدکار تے رولا مک جاندا اے

جدوں اندروں چھڑ جان تار تے رولا مک جاندا اے

جد رسیا من جائے یار تے رولا مک جاندا اے

 
Load Next Story