سائنس مذہب اور منطق
مذہب کے اندر سائنس ہے اور سائنس کے اندر مذہب
ہم ابتدا میں چند باتیں فرض کرلیتے ہیں، مثال کے طور پر1: جب سائنس نہیں تھی تو مذہب اس کے حصے کی ذمے داری نبھاتا تھا۔ 2: جب سائنس پیدا ہوئی تو ایمانیات یقین کے درجے میں داخل ہونا شروع ہوگئی۔ (بحوالہ مضمون: سائنس اور مذہب کے تعلق پر ایک غلط فہمی کا ازالہ، ادریس آزاد)
ان دونوں مفروضوں کو ملاکر دیکھنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مذہب کے اندر سائنس ہے اور سائنس کے اندر مذہب۔ لیکن ترتیب وار دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سائنس پہلے موجود نہیں تھی اور اس کا کام مذہب انجام دیا کرتا تھا۔ اس عمل کے دوران رفتہ رفتہ سائنس نے جنم لیا، یعنی سائنس مذہب کے اندر سے پیدا ہوئی۔ اب ان دونوں نقطہ ہائے نظر میں واضح تضاد نظر آتا ہے۔
اگر پہلے سائنس موجود نہیں تھی تو مذہب کس حیثیت میں مظاہر فطرت کی وضاحت کیا کرتا تھا۔ یا تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ سائنس، مذہب کے ساتھ ساتھ موجود رہی ہے اور اس کے اندر اپنی موجودی کا ثبوت دیتی آرہی ہے، یا پھر یہ کہنا پڑے گا کہ سائنس کا کام مذہب نے کبھی نہیں کیا۔ سائنس کا مذہب کے اندر پہلے سے موجود ہونے کا مطلب ہے کہ سائنس خود مذہب ہے۔ اس صورت میں سائنس اور مذہب کے مابین تصادم نہیں ابھرنا چاہیے۔ سائنس کے جتنے قضایا ہیں، ان سے مذہب کو کسی قسم کے اختلاف کی گنجایش باقی نہیں رہ پاتی۔ دونوں کے بنیادی اصول اور مطمع نظر بھی یکساں ہونے چاہئیں۔ لیکن مذہب اور سائنس کی اس وحدت کا سب سے کمزور نکتہ یہ ہے کہ سائنس مذہب کے مطمع نظر کو ثابت کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے۔
دونوں کا مطمع نظر ایک ہونے کے سبب ظاہری سطح پر ان کی تفریق کا جواز اس وقت باقی نہیں رہ پاتا جب مابعدالطبیعات کو ثابت کرنے کے سلسلے میں سائنس کی ناکامی سامنے آتی ہے۔ جب مابعدالطبیعات کا سوال باقی رہتا ہے، ایمانیات یقین کے درجے میں داخل نہیں ہوپاتی تو سائنس کو سائنس کہنے کا جواز باقی نہیں رہتا، بلکہ حقیقت میں مذہب کو سائنس کا نام دے کر پیش کیا جاتا ہے کیوں کہ دونوں کی بنیاد میں صرف عقیدہ باقی رہتا ہے۔ اگر سائنس پہلے سے موجود نہیں تھی، اگر سائنس کی پیدایش مذہب سے نہیں ہوئی ہے تو پھر ان دونوں کا وجود خودمختارانہ حیثیت میں کام کرتا ہے اور مذہب نے سائنس کا کام کبھی نہیں کیا۔ اس صورت میں سائنس کی پیدایش کا تعلق براہ راست مظاہر فطرت سے جڑتا ہے، جب ایک سسٹم کے تحت فطرت کا مطالعہ شروع کیا جاتا ہے۔
سائنس فکری و عملی سرگرمی ہے، جو مادے کے ساتھ مشاہداتی و تجرباتی تعلق رکھتی ہے۔ مذہب مادے پر تجربے کی اجازت اس لیے دیتا ہے کہ اس کے خالق کی قدرت کو بیان کیا جائے۔ کیا مذہب خود اپنے اندر اپنے تصورات کو کسی قسم کی تجرباتی لیبارٹری میں لے جائے جانے کی اجازت دیتا ہے۔ مذہب خدا کے وجود کا دعویٰ کرکے اس پر مظاہر فطرت کی تخلیق کی نوعیت کو بطور دلیل پیش کرتا ہے۔ ہم جانتے ہیں مابعدالطبیعاتی تصورات پر صرف فکری سطح پر بات کی جاسکتی ہے، انھیں کسی تجرباتی لیبارٹری میں نہیں لے جایا جاسکتا۔ اس لیے 'خالق کی قدرت' ایسا معاملہ ہے جسے تجربیت سے ثابت کرنا ممکن نہیں ہے۔
یہ خیال کہ کائنات میں موجود نشانیوں سے مابعدالطبیعات کی طرف بڑھا جاسکتا ہے، دراصل اس نوعیت کا ہے جس کا یہ مفہوم نکلتا ہے کہ سائنس اور مذہب کے رشتے سے مابعدالطبیعات کو جانا جاسکتا ہے۔ اگرچہ اس قسم کے کسی امکانی رشتے کی حقیقت پر اوپر بات ہوچکی ہے، اس پر ایک اور طرح سے نگاہ ڈالتے ہیں۔ مذہب کی عمارت عقیدے کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہے جس میں حرکت جوہر سے مظہر/کائنات کی طرف ہوتی ہے۔ جوہر ہی مستقل اور حتمی ہوتا ہے، مظہر غیر حتمی اور فنا پذیر ہے۔ سائنس کے قضایا حواس پر استوار ہوتے ہیں جس میں معلوم سے نامعلوم کی طرف سفر ہوتا ہے اور نامعلوم کو معلوم کے ذریعے جانا جاتا ہے۔
مذہب کی عمارت میں جوہر کی حتمیت کو تعقل کے ذریعے ہی معلوم کیا جاتا ہے اور اس کی مابعد الطبیعاتی سطح اسی طرح برقرار رہتی ہے۔ سائنس اپنے حسی تجربے سے معلوم کے ذریعے نامعلوم کو معلوم بنادیتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب سائنس مذہب کے ساتھ اختلاط کرے گا تو کیا نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے۔ جواب سادہ ہے کہ عقیدے کی سیڑھی چڑھنے کے بعد بھی سائنس آخری نتیجے میں مفروضے یعنی نامعلوم کی طرف پلٹ آتی ہے۔ عقیدے کی سیڑھی پر موجود انسان استشہاد/ سائنس کی منزل پر آکر بھی عقیدے کے دائرے سے نکل نہیں پاتا۔ اگر ہم علامہ اقبال والی ترتیب کو فرض کرلیں کہ پہلے اعتقادی، پھر اجتہادی اور پھر استشہادی مقامات آتے ہیں (مضمون: علامہ اقبال کے اسلامی عقائد کا تنقیدی جائزہ، ادریس آزاد) تو ان کی فی الذات موجودگی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ایک منزل سے دوسری منزل پر پہنچنے کے لیے لازمی ہے کہ پہلی منزل کی نفی کی جائے کیوں کہ عقیدے میں فکر کی گنجایش نہیں ہوتی اور مذکورہ مضمون کی رو سے وہ خودبھی اس نکتے سے متفق نظر آتے ہیں۔
اعتقاد کی نفی سے اجتہاد کی منزل آتی ہے اور پھر اجتہاد کی نفی سے استشہاد کی منزل۔ اجتہاد کی منزل میں اعتقاد موجود رہتا ہے، اور استشہاد کی منزل میں اعتقاد اور اجتہاد دونوں موجود ہوتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اعتقاد دراصل ایک سیڑھی کی مانند ہے جو اجتہاد اور استشہاد کی منزلوں تک پہنچاتا ہے۔ سائنس کی منزل پر عقیدہ موجود رہتا ہے' فنا نہیں ہوتا' اور عقیدہ ہر قسم کے اجتہاد اور استشہاد کی نفی کرتا ہے۔ یعنی استشہاد/سائنس کے اندر موجود عقیدہ خود استشہاد/سائنس کی نفی کرتا رہتا ہے جس کے سبب وہ اس مقصود تک نہیں پہنچ پاتی جس کی طرف اولین صورت میں عقیدہ اشارہ کرتا ہے۔ مابعد الطبیعات کا قضیہ اسی طرح برقرار رہتا ہے اور تجربیت کے ذریعے جس کی طرف بڑھنے کا امکان دکھایا گیا تھا وہ خودبخود عقلیت کے دائرے میں داخل ہوجاتا ہے۔
ایک نکتہ یہ ہے کہ مظاہر فطرت سے مابعد الطبیعات تک پہنچنے کا قضیہ فرض کرنے میں کوئی 'مسئلہ' نہیں ہے۔ مسئلہ وہاں ہے جہاں اسے منطقی یا فلسفیانہ سطح پر توضیح کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔ جب ہم سائنسی' منطقی یا فلسفیانہ دائرے کے اندر اس کے اپنے طریقے کار کو نظر انداز کرکے کوئی 'قضیہ' زیر بحث لاتے ہیں۔ اگر میرے پاس عقیدہ ہے تو میں آنکھیں (یعنی دماغ کی) بند کرکے مذہبکو سچ اور درست تسلیم کرلوں گا۔ یہ مجھ سے تفقہ کے لیے کہتا ہے۔ میں اسے بھی سمجھتا ہوں کہ یہ اندھے عقیدے کو مظاہر فطرت کا سہارا فراہم کرنا چاہتا ہے۔ اس میں بھی کوئی 'مسئلہ' نہیں ہے۔ یہ جب سمجھنے کے لیے نشانیاں دکھاتا ہے تو وہ تجربی سے زیادہ تعقلی' مابعد الطبیعاتی ہوتی ہیں۔ یعنی مظاہر فطرت میں مابعد الطبیعاتی موجودی کی طرف اشارہ کرنا ہوتا ہے۔
''اْس وقت ہم نے حکم دیا کہ مقتول کی لاش کو اس کے ایک حصے سے ضرب لگاؤ دیکھو اس طرح اللہ مْردوں کو زندگی بخشتا ہے اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھو'' [2:73] (تفہیم القرآن)
قرآن کا تقاضا ہے کہ میں آنکھیں بند کرکے اس پر ایمان لاؤں۔ پھر اسی قرآن کا تقاضا ہوتا ہے کہ میں مظاہر فطرت پر قرآن کے بتائے ہوئے خالق کے حوالے سے غور بھی کروں۔ میں ان تقاضوں کو مانتا ہوں لیکن میرے ماننے اور غور کرنے کے نتیجے کے درمیان ایک مابعد الطبیعاتی خط بہر صورت موجود رہتی ہے اور جو کبھی نہیں مٹتی۔ چناں چہ جب ہم اس مذہبی اصول سے باہر نکل کر سائنسی، منطقی اور فلسفیانہ اصول کے دائرے میں داخل ہوتے ہیں تو وہاں آگے بڑھنے کا طریقہ کار پھر الہٰیاتی نہیں رہتا بلکہ زمینی ہوجاتا ہے۔
ان دونوں مفروضوں کو ملاکر دیکھنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مذہب کے اندر سائنس ہے اور سائنس کے اندر مذہب۔ لیکن ترتیب وار دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سائنس پہلے موجود نہیں تھی اور اس کا کام مذہب انجام دیا کرتا تھا۔ اس عمل کے دوران رفتہ رفتہ سائنس نے جنم لیا، یعنی سائنس مذہب کے اندر سے پیدا ہوئی۔ اب ان دونوں نقطہ ہائے نظر میں واضح تضاد نظر آتا ہے۔
اگر پہلے سائنس موجود نہیں تھی تو مذہب کس حیثیت میں مظاہر فطرت کی وضاحت کیا کرتا تھا۔ یا تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ سائنس، مذہب کے ساتھ ساتھ موجود رہی ہے اور اس کے اندر اپنی موجودی کا ثبوت دیتی آرہی ہے، یا پھر یہ کہنا پڑے گا کہ سائنس کا کام مذہب نے کبھی نہیں کیا۔ سائنس کا مذہب کے اندر پہلے سے موجود ہونے کا مطلب ہے کہ سائنس خود مذہب ہے۔ اس صورت میں سائنس اور مذہب کے مابین تصادم نہیں ابھرنا چاہیے۔ سائنس کے جتنے قضایا ہیں، ان سے مذہب کو کسی قسم کے اختلاف کی گنجایش باقی نہیں رہ پاتی۔ دونوں کے بنیادی اصول اور مطمع نظر بھی یکساں ہونے چاہئیں۔ لیکن مذہب اور سائنس کی اس وحدت کا سب سے کمزور نکتہ یہ ہے کہ سائنس مذہب کے مطمع نظر کو ثابت کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے۔
دونوں کا مطمع نظر ایک ہونے کے سبب ظاہری سطح پر ان کی تفریق کا جواز اس وقت باقی نہیں رہ پاتا جب مابعدالطبیعات کو ثابت کرنے کے سلسلے میں سائنس کی ناکامی سامنے آتی ہے۔ جب مابعدالطبیعات کا سوال باقی رہتا ہے، ایمانیات یقین کے درجے میں داخل نہیں ہوپاتی تو سائنس کو سائنس کہنے کا جواز باقی نہیں رہتا، بلکہ حقیقت میں مذہب کو سائنس کا نام دے کر پیش کیا جاتا ہے کیوں کہ دونوں کی بنیاد میں صرف عقیدہ باقی رہتا ہے۔ اگر سائنس پہلے سے موجود نہیں تھی، اگر سائنس کی پیدایش مذہب سے نہیں ہوئی ہے تو پھر ان دونوں کا وجود خودمختارانہ حیثیت میں کام کرتا ہے اور مذہب نے سائنس کا کام کبھی نہیں کیا۔ اس صورت میں سائنس کی پیدایش کا تعلق براہ راست مظاہر فطرت سے جڑتا ہے، جب ایک سسٹم کے تحت فطرت کا مطالعہ شروع کیا جاتا ہے۔
سائنس فکری و عملی سرگرمی ہے، جو مادے کے ساتھ مشاہداتی و تجرباتی تعلق رکھتی ہے۔ مذہب مادے پر تجربے کی اجازت اس لیے دیتا ہے کہ اس کے خالق کی قدرت کو بیان کیا جائے۔ کیا مذہب خود اپنے اندر اپنے تصورات کو کسی قسم کی تجرباتی لیبارٹری میں لے جائے جانے کی اجازت دیتا ہے۔ مذہب خدا کے وجود کا دعویٰ کرکے اس پر مظاہر فطرت کی تخلیق کی نوعیت کو بطور دلیل پیش کرتا ہے۔ ہم جانتے ہیں مابعدالطبیعاتی تصورات پر صرف فکری سطح پر بات کی جاسکتی ہے، انھیں کسی تجرباتی لیبارٹری میں نہیں لے جایا جاسکتا۔ اس لیے 'خالق کی قدرت' ایسا معاملہ ہے جسے تجربیت سے ثابت کرنا ممکن نہیں ہے۔
یہ خیال کہ کائنات میں موجود نشانیوں سے مابعدالطبیعات کی طرف بڑھا جاسکتا ہے، دراصل اس نوعیت کا ہے جس کا یہ مفہوم نکلتا ہے کہ سائنس اور مذہب کے رشتے سے مابعدالطبیعات کو جانا جاسکتا ہے۔ اگرچہ اس قسم کے کسی امکانی رشتے کی حقیقت پر اوپر بات ہوچکی ہے، اس پر ایک اور طرح سے نگاہ ڈالتے ہیں۔ مذہب کی عمارت عقیدے کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہے جس میں حرکت جوہر سے مظہر/کائنات کی طرف ہوتی ہے۔ جوہر ہی مستقل اور حتمی ہوتا ہے، مظہر غیر حتمی اور فنا پذیر ہے۔ سائنس کے قضایا حواس پر استوار ہوتے ہیں جس میں معلوم سے نامعلوم کی طرف سفر ہوتا ہے اور نامعلوم کو معلوم کے ذریعے جانا جاتا ہے۔
مذہب کی عمارت میں جوہر کی حتمیت کو تعقل کے ذریعے ہی معلوم کیا جاتا ہے اور اس کی مابعد الطبیعاتی سطح اسی طرح برقرار رہتی ہے۔ سائنس اپنے حسی تجربے سے معلوم کے ذریعے نامعلوم کو معلوم بنادیتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب سائنس مذہب کے ساتھ اختلاط کرے گا تو کیا نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے۔ جواب سادہ ہے کہ عقیدے کی سیڑھی چڑھنے کے بعد بھی سائنس آخری نتیجے میں مفروضے یعنی نامعلوم کی طرف پلٹ آتی ہے۔ عقیدے کی سیڑھی پر موجود انسان استشہاد/ سائنس کی منزل پر آکر بھی عقیدے کے دائرے سے نکل نہیں پاتا۔ اگر ہم علامہ اقبال والی ترتیب کو فرض کرلیں کہ پہلے اعتقادی، پھر اجتہادی اور پھر استشہادی مقامات آتے ہیں (مضمون: علامہ اقبال کے اسلامی عقائد کا تنقیدی جائزہ، ادریس آزاد) تو ان کی فی الذات موجودگی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ایک منزل سے دوسری منزل پر پہنچنے کے لیے لازمی ہے کہ پہلی منزل کی نفی کی جائے کیوں کہ عقیدے میں فکر کی گنجایش نہیں ہوتی اور مذکورہ مضمون کی رو سے وہ خودبھی اس نکتے سے متفق نظر آتے ہیں۔
اعتقاد کی نفی سے اجتہاد کی منزل آتی ہے اور پھر اجتہاد کی نفی سے استشہاد کی منزل۔ اجتہاد کی منزل میں اعتقاد موجود رہتا ہے، اور استشہاد کی منزل میں اعتقاد اور اجتہاد دونوں موجود ہوتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اعتقاد دراصل ایک سیڑھی کی مانند ہے جو اجتہاد اور استشہاد کی منزلوں تک پہنچاتا ہے۔ سائنس کی منزل پر عقیدہ موجود رہتا ہے' فنا نہیں ہوتا' اور عقیدہ ہر قسم کے اجتہاد اور استشہاد کی نفی کرتا ہے۔ یعنی استشہاد/سائنس کے اندر موجود عقیدہ خود استشہاد/سائنس کی نفی کرتا رہتا ہے جس کے سبب وہ اس مقصود تک نہیں پہنچ پاتی جس کی طرف اولین صورت میں عقیدہ اشارہ کرتا ہے۔ مابعد الطبیعات کا قضیہ اسی طرح برقرار رہتا ہے اور تجربیت کے ذریعے جس کی طرف بڑھنے کا امکان دکھایا گیا تھا وہ خودبخود عقلیت کے دائرے میں داخل ہوجاتا ہے۔
ایک نکتہ یہ ہے کہ مظاہر فطرت سے مابعد الطبیعات تک پہنچنے کا قضیہ فرض کرنے میں کوئی 'مسئلہ' نہیں ہے۔ مسئلہ وہاں ہے جہاں اسے منطقی یا فلسفیانہ سطح پر توضیح کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔ جب ہم سائنسی' منطقی یا فلسفیانہ دائرے کے اندر اس کے اپنے طریقے کار کو نظر انداز کرکے کوئی 'قضیہ' زیر بحث لاتے ہیں۔ اگر میرے پاس عقیدہ ہے تو میں آنکھیں (یعنی دماغ کی) بند کرکے مذہبکو سچ اور درست تسلیم کرلوں گا۔ یہ مجھ سے تفقہ کے لیے کہتا ہے۔ میں اسے بھی سمجھتا ہوں کہ یہ اندھے عقیدے کو مظاہر فطرت کا سہارا فراہم کرنا چاہتا ہے۔ اس میں بھی کوئی 'مسئلہ' نہیں ہے۔ یہ جب سمجھنے کے لیے نشانیاں دکھاتا ہے تو وہ تجربی سے زیادہ تعقلی' مابعد الطبیعاتی ہوتی ہیں۔ یعنی مظاہر فطرت میں مابعد الطبیعاتی موجودی کی طرف اشارہ کرنا ہوتا ہے۔
''اْس وقت ہم نے حکم دیا کہ مقتول کی لاش کو اس کے ایک حصے سے ضرب لگاؤ دیکھو اس طرح اللہ مْردوں کو زندگی بخشتا ہے اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھو'' [2:73] (تفہیم القرآن)
قرآن کا تقاضا ہے کہ میں آنکھیں بند کرکے اس پر ایمان لاؤں۔ پھر اسی قرآن کا تقاضا ہوتا ہے کہ میں مظاہر فطرت پر قرآن کے بتائے ہوئے خالق کے حوالے سے غور بھی کروں۔ میں ان تقاضوں کو مانتا ہوں لیکن میرے ماننے اور غور کرنے کے نتیجے کے درمیان ایک مابعد الطبیعاتی خط بہر صورت موجود رہتی ہے اور جو کبھی نہیں مٹتی۔ چناں چہ جب ہم اس مذہبی اصول سے باہر نکل کر سائنسی، منطقی اور فلسفیانہ اصول کے دائرے میں داخل ہوتے ہیں تو وہاں آگے بڑھنے کا طریقہ کار پھر الہٰیاتی نہیں رہتا بلکہ زمینی ہوجاتا ہے۔