کیسی گرفتاری کیسی رہائی
پی ٹی آئی اپنے پنجے مضبوط گاڑھنے کے لیے ادھر ادھر بہت کوششیں کر رہی ہیں
KARACHI:
سندھ کے دو اہم سیاسی رہنماؤں کی ڈرامائی گرفتاری اور پھر رہائی نے سیاسی حلقوں میں کھلبلی مچا دی ہے۔ایم کیو ایم کے فاروق ستار جو کسی شادی کی تقریب میں شرکت کے بعد جا رہے تھے کہ انھیں گرفتارکر لیا گیا۔ یہ خاموش گرفتاری کس زمرے میں آتی ہے، اس کا علم تو ابھی تک ہو نہیں سکا لیکن انھیں کچھ دیرگرفتار رکھنے کے بعد چھوڑ دینے کا عمل بھی نہایت پراسرار ہے، آخر ایسا کیا کیوںکیا گیا؟ فاروق ستار کی گرفتاری ان کی سیاسی پارٹی کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی تھی لیکن پھر چھوڑ دینا، اس کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آخر اس پکڑ دھکڑ سے کس قسم کے نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس کے برخلاف فاروق ستار کی مقبولیت میں شاید کچھ اثر آیا ہو لیکن ان کے جلسے میں سرد مہری کے رویے نے بھی یہ بات ظاہرکر دی کہ اب معاملہ کسی بھی طرف سے جوشیلا نہیں ہے کیا یہ سب ٹوپی ڈراما تھا کہ جس کی ساری ایڈیٹنگ بے توجہی کی نظرہو گئی۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی کے شرجیل میمن کی گرفتاری بھی ایک سسپینس سے بھرپور ڈراما تھا۔ یہ بھی طے شدہ تھا کہ شرجیل میمن کو اسلام آباد اترنا ہے تا کہ پنجاب پولیس کی حرکت سے شوشا چھوڑنے کا موقع ملے اور ایسا ہی ہوا۔ سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے روایتی انداز سے شرجیل میمن کو اپنے ساتھ چلنے پر مجبورکیا گو شرجیل صاحب سارے بندوبست پہلے سے ہی طے کر کے آئے تھے لیکن یہاں آ کر پتہ چلا کہ الٹی ہو گئی سب تدبیریں۔
پھر بھی گرفتاری کے عمل سے جتنا فائدہ پیپلزپارٹی کو پہنچنا تھا اس سے خاطر خواہ ہی فائدہ ملا کیونکہ جس کرپشن کے سیلاب کو عبور کر کے وہ پردیس نکل گئے تھے اس کے پیچھے پیپلزپارٹی کے لیے خفت و شرمندگی تھی جس کا مداوا کرنا اس وقت خاص دشوار نظر آ رہا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ پیپلزپارٹی کی بڑھتی طاقت نے بہت سے التوا میں پڑے کاموں کو نمٹانے کا موقع دیا۔ شرجیل میمن بھی دو ارب روپے کی بڑی کھیرکو ایک چھوٹے سے پیالے میں انڈیل کر اب صاف شفاف نکھرے، نکھرے سے ہو گئے ہیں کیا اس طرح آصف علی زرداری ان کی پرزور خطابت سے فائدے اٹھا سکتے ہیں یا یہ کسی اور کھیر کو سیدھا کرنے کا ذریعہ ہے۔
بہرحال جس عدالتی کارروائی سے بچنے کے لیے شرجیل میمن ملک سے باہر چلے گئے تھے ایک خاص وقت کے بعد اسی عدالتی بینچوں کے سامنے اپنے آپ کو پیش کرنا اور پھرکلیئر چٹ کا حاصل کرنا کچھ سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے یا پھر صرف وقت کی کشتی کو کسی کنارے لگانا ہی ایک مقصد تھا، کیونکہ ہمارے یہاں عوامی حلقوں کی یادداشت خاصی کمزور ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے طوفانوں کو محض کاغذکی کشتی سمجھ کراڑا دیتے ہیں۔
گرفتار تو کیا گیا تھا، فاروق ستار کو بھی کہ جن کی شرافت کے قائل تو بہت سے ہیں لیکن الزامات اور مقدمات کی فہرست ہے کہ کبھی ادھر تو کبھی ادھر سیاسی ستاروں کی بھیڑ چال میں فاروق ستار کی وفاداری پر سوال تو نہیں اٹھتے لیکن خدا جانے کہ اسٹیبلشمنٹ نے کیوں پکڑا اور کیوں چھوڑا۔ البتہ اسی مختصر سی گرفتاری میں ان کے چاہنے والے اور سیاسی ورکرز نے انھیں نہیں چھوڑا شاید کہ جیسے کہتے ہیں ناں کہ کمپنی کی مشہوری کے لیے اب ندی کے دوسرے الگ الگ یہ ایک ہوئے تو کیسے ایسے ہی کچھ حال ہے۔ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کا جو الگ الگ ہو کر بھی خوب ساتھ ساتھ بہتے ہیں اس روانی میں پی ٹی آئی نے بھی ہم سفر بننے کی کوشش تو خوب کی تھی لیکن عمران اسماعیل کے کیا کہنے بہت نکلے میرے ارمان پھر بھی کم نکلے۔
پی ٹی آئی اپنے پنجے مضبوط گاڑھنے کے لیے ادھر ادھر بہت کوششیں کر رہی ہیں لیکن سوائے کے پی کے کے کہیں اور زور نہ چل سکا لیکن ان کے اپنے علاقے میں بھی کارکردگی اس حد تک نہیں رہی کہ واہ واہ کا شور اٹھے، پھر تبدیلی تو آئی نہیں نا۔ بات وہیںسے شروع کرتے ہیں کہ سندھ کے دو بڑے سیاسی کرداروں کی گرفتاری کیسے عمل میں آئی۔ شرجیل میمن کی اس موقعے پرگرفتاری سندھ کی مظلومیت کا واویلا اور شریف خاندان پر اٹھنے والے سوالات بہت سے حلقوں میں بے چینی تو پیدا کر چکے ہیں لیکن بس اسی حد تک کہ جن دنوں میمن صاحب کی گرفتاری عمل میں آئی اور نیوز چینلز پر خبریں چلیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پنجاب بڑا صوبہ ہونے کے باعث بڑے بڑے فائدے بھی سمیٹ لیتا ہے لیکن شہباز شریف جیسے متحرک وزیراعلیٰ کی بدولت یہ فائدے بلاشبہ پنجاب کی عوام میں تقسیم بھی ہوتے ہیں، کام بھی نظر آتا ہے اور یہ فرق اس وقت زیادہ واضح ہوتا ہے کہ جب کراچی میں کچرے اور گندگی کا رونا رویا جاتا ہے۔ غربت اسی قدر کہ کوڑا اٹھانے کے لیے فنڈز نہیں یا یوں کہہ لیں:
میں کام کروں کس کے لیے
میں کچرہ اٹھاؤں کس کے لیے
کیونکہ کراچی کا ووٹ بینک جس جس علاقے میں ہے، وہاں وہاں کی صورت حال نہایت خراب تھی خدا بھلا کرے ان لوگوں کا کہ جو اپنے خاکروب سمیت کچرہ اٹھانے کے لیے ساز و سامان فراہم کر رہے ہیں۔ کیونکہ جن لوگوں کے ذمے یہ کام تھا وہ ووٹ تو لینے میں کامیاب ہو گئے لیکن حکومتی اداروں سے فنڈز لینے میں؟ اب نئے الیکشن سے پہلے مردم شماری کے ذریعے خاصی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیںگی۔ دیکھیے کہ یہ اب اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ کیونکہ ''کانڑا مجھے بھائے ناں۔کانڑے بناء چین آئے ناں'' کے تحت ندی کے دو کنارے ساتھ ساتھ کئی الیکشنز سے بہتے آ رہے تھے اب کیا ہو گا؟ کیا اس نئے الیکشن میں بھی یا کوئی نئی حکمت عملی اختیار کرنے کی تیاریاں ہیں، ویسے ندی کے کسی بھی سرے میں پی ٹی آئی کو ہم سفر بنانے کی خواہش سندھ سے ابھرتی نظر تو نہیں آتی۔
سندھ کے دو اہم سیاسی رہنماؤں کی ڈرامائی گرفتاری اور پھر رہائی نے سیاسی حلقوں میں کھلبلی مچا دی ہے۔ایم کیو ایم کے فاروق ستار جو کسی شادی کی تقریب میں شرکت کے بعد جا رہے تھے کہ انھیں گرفتارکر لیا گیا۔ یہ خاموش گرفتاری کس زمرے میں آتی ہے، اس کا علم تو ابھی تک ہو نہیں سکا لیکن انھیں کچھ دیرگرفتار رکھنے کے بعد چھوڑ دینے کا عمل بھی نہایت پراسرار ہے، آخر ایسا کیا کیوںکیا گیا؟ فاروق ستار کی گرفتاری ان کی سیاسی پارٹی کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی تھی لیکن پھر چھوڑ دینا، اس کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آخر اس پکڑ دھکڑ سے کس قسم کے نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس کے برخلاف فاروق ستار کی مقبولیت میں شاید کچھ اثر آیا ہو لیکن ان کے جلسے میں سرد مہری کے رویے نے بھی یہ بات ظاہرکر دی کہ اب معاملہ کسی بھی طرف سے جوشیلا نہیں ہے کیا یہ سب ٹوپی ڈراما تھا کہ جس کی ساری ایڈیٹنگ بے توجہی کی نظرہو گئی۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی کے شرجیل میمن کی گرفتاری بھی ایک سسپینس سے بھرپور ڈراما تھا۔ یہ بھی طے شدہ تھا کہ شرجیل میمن کو اسلام آباد اترنا ہے تا کہ پنجاب پولیس کی حرکت سے شوشا چھوڑنے کا موقع ملے اور ایسا ہی ہوا۔ سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے روایتی انداز سے شرجیل میمن کو اپنے ساتھ چلنے پر مجبورکیا گو شرجیل صاحب سارے بندوبست پہلے سے ہی طے کر کے آئے تھے لیکن یہاں آ کر پتہ چلا کہ الٹی ہو گئی سب تدبیریں۔
پھر بھی گرفتاری کے عمل سے جتنا فائدہ پیپلزپارٹی کو پہنچنا تھا اس سے خاطر خواہ ہی فائدہ ملا کیونکہ جس کرپشن کے سیلاب کو عبور کر کے وہ پردیس نکل گئے تھے اس کے پیچھے پیپلزپارٹی کے لیے خفت و شرمندگی تھی جس کا مداوا کرنا اس وقت خاص دشوار نظر آ رہا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ پیپلزپارٹی کی بڑھتی طاقت نے بہت سے التوا میں پڑے کاموں کو نمٹانے کا موقع دیا۔ شرجیل میمن بھی دو ارب روپے کی بڑی کھیرکو ایک چھوٹے سے پیالے میں انڈیل کر اب صاف شفاف نکھرے، نکھرے سے ہو گئے ہیں کیا اس طرح آصف علی زرداری ان کی پرزور خطابت سے فائدے اٹھا سکتے ہیں یا یہ کسی اور کھیر کو سیدھا کرنے کا ذریعہ ہے۔
بہرحال جس عدالتی کارروائی سے بچنے کے لیے شرجیل میمن ملک سے باہر چلے گئے تھے ایک خاص وقت کے بعد اسی عدالتی بینچوں کے سامنے اپنے آپ کو پیش کرنا اور پھرکلیئر چٹ کا حاصل کرنا کچھ سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے یا پھر صرف وقت کی کشتی کو کسی کنارے لگانا ہی ایک مقصد تھا، کیونکہ ہمارے یہاں عوامی حلقوں کی یادداشت خاصی کمزور ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے طوفانوں کو محض کاغذکی کشتی سمجھ کراڑا دیتے ہیں۔
گرفتار تو کیا گیا تھا، فاروق ستار کو بھی کہ جن کی شرافت کے قائل تو بہت سے ہیں لیکن الزامات اور مقدمات کی فہرست ہے کہ کبھی ادھر تو کبھی ادھر سیاسی ستاروں کی بھیڑ چال میں فاروق ستار کی وفاداری پر سوال تو نہیں اٹھتے لیکن خدا جانے کہ اسٹیبلشمنٹ نے کیوں پکڑا اور کیوں چھوڑا۔ البتہ اسی مختصر سی گرفتاری میں ان کے چاہنے والے اور سیاسی ورکرز نے انھیں نہیں چھوڑا شاید کہ جیسے کہتے ہیں ناں کہ کمپنی کی مشہوری کے لیے اب ندی کے دوسرے الگ الگ یہ ایک ہوئے تو کیسے ایسے ہی کچھ حال ہے۔ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کا جو الگ الگ ہو کر بھی خوب ساتھ ساتھ بہتے ہیں اس روانی میں پی ٹی آئی نے بھی ہم سفر بننے کی کوشش تو خوب کی تھی لیکن عمران اسماعیل کے کیا کہنے بہت نکلے میرے ارمان پھر بھی کم نکلے۔
پی ٹی آئی اپنے پنجے مضبوط گاڑھنے کے لیے ادھر ادھر بہت کوششیں کر رہی ہیں لیکن سوائے کے پی کے کے کہیں اور زور نہ چل سکا لیکن ان کے اپنے علاقے میں بھی کارکردگی اس حد تک نہیں رہی کہ واہ واہ کا شور اٹھے، پھر تبدیلی تو آئی نہیں نا۔ بات وہیںسے شروع کرتے ہیں کہ سندھ کے دو بڑے سیاسی کرداروں کی گرفتاری کیسے عمل میں آئی۔ شرجیل میمن کی اس موقعے پرگرفتاری سندھ کی مظلومیت کا واویلا اور شریف خاندان پر اٹھنے والے سوالات بہت سے حلقوں میں بے چینی تو پیدا کر چکے ہیں لیکن بس اسی حد تک کہ جن دنوں میمن صاحب کی گرفتاری عمل میں آئی اور نیوز چینلز پر خبریں چلیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پنجاب بڑا صوبہ ہونے کے باعث بڑے بڑے فائدے بھی سمیٹ لیتا ہے لیکن شہباز شریف جیسے متحرک وزیراعلیٰ کی بدولت یہ فائدے بلاشبہ پنجاب کی عوام میں تقسیم بھی ہوتے ہیں، کام بھی نظر آتا ہے اور یہ فرق اس وقت زیادہ واضح ہوتا ہے کہ جب کراچی میں کچرے اور گندگی کا رونا رویا جاتا ہے۔ غربت اسی قدر کہ کوڑا اٹھانے کے لیے فنڈز نہیں یا یوں کہہ لیں:
میں کام کروں کس کے لیے
میں کچرہ اٹھاؤں کس کے لیے
کیونکہ کراچی کا ووٹ بینک جس جس علاقے میں ہے، وہاں وہاں کی صورت حال نہایت خراب تھی خدا بھلا کرے ان لوگوں کا کہ جو اپنے خاکروب سمیت کچرہ اٹھانے کے لیے ساز و سامان فراہم کر رہے ہیں۔ کیونکہ جن لوگوں کے ذمے یہ کام تھا وہ ووٹ تو لینے میں کامیاب ہو گئے لیکن حکومتی اداروں سے فنڈز لینے میں؟ اب نئے الیکشن سے پہلے مردم شماری کے ذریعے خاصی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیںگی۔ دیکھیے کہ یہ اب اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ کیونکہ ''کانڑا مجھے بھائے ناں۔کانڑے بناء چین آئے ناں'' کے تحت ندی کے دو کنارے ساتھ ساتھ کئی الیکشنز سے بہتے آ رہے تھے اب کیا ہو گا؟ کیا اس نئے الیکشن میں بھی یا کوئی نئی حکمت عملی اختیار کرنے کی تیاریاں ہیں، ویسے ندی کے کسی بھی سرے میں پی ٹی آئی کو ہم سفر بنانے کی خواہش سندھ سے ابھرتی نظر تو نہیں آتی۔