بلوچستان میں گورنر راج
علمدار روڈ پر بے گناہوں کی زندگی سے کھیلنے والوں کا مقصد فرقہ واریت اور ایک کمیونٹی کی نسل کشی ہے۔
KARACHI:
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے اتوار کو کوئٹہ میں ہزارہ منگول کمیونٹی کے دھرنے میںبیٹھے مظاہرین سے ملاقات کے بعد بلوچستان میں گورنر راج نافذ کرنے کا اعلان کر دیا۔ صوبے میں آئین کے آرٹیکل 234 نافذ کر کے صوبائی حکومت کو برطرف کر دیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ گورنر ذوالفقار مگسی صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہوں گے۔
وفاقی حکومت انھیں مکمل مدد فراہم کرے گی۔ وزیراعظم نے اس عزم کا اعادہ بھی کیا کہ سانحہ علمدار روڈ کے ذمے داروں کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ کور کمانڈر تمام معاملات کی براہ راست نگرانی کریں گے۔ ایف سی کے پاس پولیس کے مکمل اختیارات ہوں گے۔ حکومت فوج کو سول انتظامیہ کی مدد کے لیے کسی بھی وقت طلب کر سکتی ہے۔ وزیراعظم نے ہزارہ منگول برادری کے تمام مطالبات تسلیم کرتے ہوئے ان کے خلاف تمام مقدمات ختم کرنے کا اعلان بھی کر دیا۔ وزیراعظم کے اعلان کے بعد ہزارہ کمیونٹی نے اپنا دھرنا ختم کر دیا۔
یوں جمعے کو سے جاری بحران بلوچستان میں گورنر راج کی صورت میں ختم ہو گیا۔ دھرنے کے بعد ملک بھر میں جو صورتحال پیدا ہو گئی تھی' اس کا نتیجہ یہی برآمد ہونا تھا۔بلوچستان کی صورتحال خاصے عرصے سے خراب چلی آرہی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان پہلے ہی یہ کہہ چکی ہے کہ صوبائی حکومت صوبے میں امن قائم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔بلوچستان اسمبلی کے ارکان نے بھی ذمے داری کا مظاہرہ نہیں کیا اور وزیراعلی پر عدم اعتماد نہیں کیا۔ اب دھرنے نے حکومت کو ایکشن لینے پر مجبور کر دیا۔
صدر کوئٹہ یکجہتی کونسل نے کہا کہ ہمارے تمام مطالبات مان لیے گئے ہیں، اب ہمارا کوئی مطالبہ نہیں رہا۔ شہداء کے لواحقین کے تمام مطالبات پورے ہو چکے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو یہ معاملہ طے ہوگیا ہے لیکن بہت سے سوال پیدا بھی کر گیا ہے ۔ادھر ہزارہ برادری کے رہنما قیوم چنگیزی کی باتیں انتہائی توجہ کی مستحق ہیں ۔ اخبارات میں ان کے حوالے سے یہ بات شایع ہوئی ہے کہ صوبائی وزیر داخلہ نے اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ ٹارگٹ کلنگ میں وزراء ملوث ہیں۔
زائرین کے خلاف زیادہ تر واقعات وزیراعلیٰ بلوچستان کے آبائی علاقوں میں ہوئے، ان مظالم کی وجہ سے ان کی کمیونٹی کے افراد ہجرت کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ قیوم چنگیزی نے کہا کہ پانچ سال کے دوران ہمارے 11 سو افراد کو شہید کیا گیا جب کہ 6 ہزار سے زائد افراد کو زخمی کیا گیا۔کوئٹہ میں ہماری آبادی تقریباً 6 لاکھ ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کے گھر کے باہر زائرین کو جلایا گیا' وزیراعلیٰ کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ ہم سے تعزیت کرتے۔ یہ یقیناً المناک صورتحال ہے' صرف ایک کمیونٹی کے گیارہ سو بے گناہ افراد کا مارے جانا' صوبائی حکومت کے ماتھے پر ایسا داغ ہے جسے کبھی نہیں دھویا جا سکتا۔
چند روز قبل کوئٹہ میں ہونے والے بم دھماکوں کے بارے میں گورنر بلوچستان نے اشارہ دیا تھا کہ صوبے کے حالات خراب کرنے میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے۔ ملک میں جس بڑے پیمانے پر دہشت گردی کی کارروائیاں ہو رہی ہیں، اس میں بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ ذمے دار حکام کئی بار اس امر کی جانب اشارہ کر چکے ہیں کہ بیرونی ہاتھ دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔اصل سوال یہ ہے کہ اس معاملے میں بھی کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔قومی اسمبلی کو اعتماد میں لیا گیا نہ سینیٹ کو اور نہ ہی سپریم کورٹ میں اس حوالے سے ٹھوس شواہد پیش کیے گئے ۔
اسی طرح اندرونی عنصر کو تلاش کرنے کی بھی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی۔ایسا لگتا ہے کہ بلوچستان کو شر پسندوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ دہشت گرد کھلے عام سرکاری اہلکاروں پر حملہ آور ہورہے ہیں۔ کوئٹہ میں سانحہ علمدار میںپولیس افسر اور اہلکار بھی شہید ہوئے، افسوس احتجاج میں ان کی قربانی پس منظر میں چلی گئی۔ سیاستدان اپنی مصلحتوں کے اسیر ہیں،لیکن بلوچستان جل رہا ہے۔ پاکستان میں دہشت گرد مختلف روپ اور بہروپ میں کارروائیاں کررہے ہیں۔کوئٹہ میں ایف سی کو نشانہ بنانے والے گروپ کے مقاصد اور ہیں جب کہ علمدار روڈ پر بے گناہوں کی زندگی سے کھیلنے والوں کا مقصد فرقہ واریت اور ایک کمیونٹی کی نسل کشی ہے تاکہ یہ کمیونٹی یہاں سے ہجرت کر جائے۔ ہم پہلے بھی انھی سطور میں یہ رائے دے چکے ہیں کہ پاکستان میں ایک نہیں متعدد دہشت گرد گروہ کام کر رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں اگر تحریک طالبان سرگرم عمل ہے تو بلوچستان میں قوم پرستی کے نام پر مسلح گروہ موجود ہیں۔ یہاں بعض مقامی بااثر گروپ بھی تخریب کاری میں ملوث ہیں۔ ان تنظیموں اور گروہوں کے مقاصد مختلف ہو سکتے ہیں لیکن ان کا ہدف ایک ہے۔ یہ ہدف حکومت پاکستان کو مفلوج کرنا ہے۔ حکومت مفلوج ہوتی ہے تو پھر اس کا اثر ریاست کے وجود پر پڑنے کا خطرہ ہے۔ دہشت گرد گروہ ایک جانب فوج' ایف سی اور پولیس پر حملہ آور ہیں تو دوسری طرف فرقہ وارانہ، نسلی اور لسانی اختلافات کو ہوا دینے کے لیے قتل و غارت گری کر رہے ہیں۔ یہ صورت حال پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ اب اس میں کوئی شبہ نہیں رہا کہ پاکستان کو اس وقت سب سے زیادہ خطرہ ملک کے اندر سرگرم عمل دہشت گرد گروہوں سے ہے، جب تک ان کا خاتمہ نہیں کیا جاتا، ملک میں امن و امان کا قیام ممکن نہیں ہے۔ بلوچستان میں گورنر راج کا نفاذ آئین کے مطابق ہے۔
ابتدائی طور پر اسے دو ماہ کے لیے نافذ کیا گیا۔ اگر ضرورت پڑی تو اسے اگلے دو ماہ کے لیے بڑھایا بھی جا سکتا ہے۔ اب جب کہ موجودہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرنے والی ہیں' اس قسم کا اقدام ہونا تو نہیں چاہیے تھا لیکن اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ اقدام ثمر آور ثابت ہو' صوبے کے گورنر کو آہنی عزم کے ساتھ دہشت گردوں' تخریب کاروں اور فرقہ پرستوں کے خلاف آپریشن کرنا چاہیے' اس مقصد کے لیے پاک فوج کی بھرپور مدد انھیں حاصل ہے۔
بلوچستان میں امن اسی وقت قائم ہو سکتا ہے جب قبائلی عصبیت اور سیاسی مصلحت کو خاطر میں نہ لایا جائے۔ قانون کو ہاتھ میں لینے والا خواہ کوئی قبائلی سردار ہو یا کسی کالعدم فرقہ پرست تنظیم کا رکن ہو یا کسی قوم پرست تحریک کا رکن ہو' اسے کسی قسم کی رعایت نہیں ملنی چاہیے۔ اسی طریقے سے بلوچستان میں امن قائم ہو سکتا ہے۔
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے اتوار کو کوئٹہ میں ہزارہ منگول کمیونٹی کے دھرنے میںبیٹھے مظاہرین سے ملاقات کے بعد بلوچستان میں گورنر راج نافذ کرنے کا اعلان کر دیا۔ صوبے میں آئین کے آرٹیکل 234 نافذ کر کے صوبائی حکومت کو برطرف کر دیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ گورنر ذوالفقار مگسی صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہوں گے۔
وفاقی حکومت انھیں مکمل مدد فراہم کرے گی۔ وزیراعظم نے اس عزم کا اعادہ بھی کیا کہ سانحہ علمدار روڈ کے ذمے داروں کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ کور کمانڈر تمام معاملات کی براہ راست نگرانی کریں گے۔ ایف سی کے پاس پولیس کے مکمل اختیارات ہوں گے۔ حکومت فوج کو سول انتظامیہ کی مدد کے لیے کسی بھی وقت طلب کر سکتی ہے۔ وزیراعظم نے ہزارہ منگول برادری کے تمام مطالبات تسلیم کرتے ہوئے ان کے خلاف تمام مقدمات ختم کرنے کا اعلان بھی کر دیا۔ وزیراعظم کے اعلان کے بعد ہزارہ کمیونٹی نے اپنا دھرنا ختم کر دیا۔
یوں جمعے کو سے جاری بحران بلوچستان میں گورنر راج کی صورت میں ختم ہو گیا۔ دھرنے کے بعد ملک بھر میں جو صورتحال پیدا ہو گئی تھی' اس کا نتیجہ یہی برآمد ہونا تھا۔بلوچستان کی صورتحال خاصے عرصے سے خراب چلی آرہی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان پہلے ہی یہ کہہ چکی ہے کہ صوبائی حکومت صوبے میں امن قائم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔بلوچستان اسمبلی کے ارکان نے بھی ذمے داری کا مظاہرہ نہیں کیا اور وزیراعلی پر عدم اعتماد نہیں کیا۔ اب دھرنے نے حکومت کو ایکشن لینے پر مجبور کر دیا۔
صدر کوئٹہ یکجہتی کونسل نے کہا کہ ہمارے تمام مطالبات مان لیے گئے ہیں، اب ہمارا کوئی مطالبہ نہیں رہا۔ شہداء کے لواحقین کے تمام مطالبات پورے ہو چکے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو یہ معاملہ طے ہوگیا ہے لیکن بہت سے سوال پیدا بھی کر گیا ہے ۔ادھر ہزارہ برادری کے رہنما قیوم چنگیزی کی باتیں انتہائی توجہ کی مستحق ہیں ۔ اخبارات میں ان کے حوالے سے یہ بات شایع ہوئی ہے کہ صوبائی وزیر داخلہ نے اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ ٹارگٹ کلنگ میں وزراء ملوث ہیں۔
زائرین کے خلاف زیادہ تر واقعات وزیراعلیٰ بلوچستان کے آبائی علاقوں میں ہوئے، ان مظالم کی وجہ سے ان کی کمیونٹی کے افراد ہجرت کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ قیوم چنگیزی نے کہا کہ پانچ سال کے دوران ہمارے 11 سو افراد کو شہید کیا گیا جب کہ 6 ہزار سے زائد افراد کو زخمی کیا گیا۔کوئٹہ میں ہماری آبادی تقریباً 6 لاکھ ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کے گھر کے باہر زائرین کو جلایا گیا' وزیراعلیٰ کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ ہم سے تعزیت کرتے۔ یہ یقیناً المناک صورتحال ہے' صرف ایک کمیونٹی کے گیارہ سو بے گناہ افراد کا مارے جانا' صوبائی حکومت کے ماتھے پر ایسا داغ ہے جسے کبھی نہیں دھویا جا سکتا۔
چند روز قبل کوئٹہ میں ہونے والے بم دھماکوں کے بارے میں گورنر بلوچستان نے اشارہ دیا تھا کہ صوبے کے حالات خراب کرنے میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے۔ ملک میں جس بڑے پیمانے پر دہشت گردی کی کارروائیاں ہو رہی ہیں، اس میں بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ ذمے دار حکام کئی بار اس امر کی جانب اشارہ کر چکے ہیں کہ بیرونی ہاتھ دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔اصل سوال یہ ہے کہ اس معاملے میں بھی کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔قومی اسمبلی کو اعتماد میں لیا گیا نہ سینیٹ کو اور نہ ہی سپریم کورٹ میں اس حوالے سے ٹھوس شواہد پیش کیے گئے ۔
اسی طرح اندرونی عنصر کو تلاش کرنے کی بھی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی۔ایسا لگتا ہے کہ بلوچستان کو شر پسندوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ دہشت گرد کھلے عام سرکاری اہلکاروں پر حملہ آور ہورہے ہیں۔ کوئٹہ میں سانحہ علمدار میںپولیس افسر اور اہلکار بھی شہید ہوئے، افسوس احتجاج میں ان کی قربانی پس منظر میں چلی گئی۔ سیاستدان اپنی مصلحتوں کے اسیر ہیں،لیکن بلوچستان جل رہا ہے۔ پاکستان میں دہشت گرد مختلف روپ اور بہروپ میں کارروائیاں کررہے ہیں۔کوئٹہ میں ایف سی کو نشانہ بنانے والے گروپ کے مقاصد اور ہیں جب کہ علمدار روڈ پر بے گناہوں کی زندگی سے کھیلنے والوں کا مقصد فرقہ واریت اور ایک کمیونٹی کی نسل کشی ہے تاکہ یہ کمیونٹی یہاں سے ہجرت کر جائے۔ ہم پہلے بھی انھی سطور میں یہ رائے دے چکے ہیں کہ پاکستان میں ایک نہیں متعدد دہشت گرد گروہ کام کر رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں اگر تحریک طالبان سرگرم عمل ہے تو بلوچستان میں قوم پرستی کے نام پر مسلح گروہ موجود ہیں۔ یہاں بعض مقامی بااثر گروپ بھی تخریب کاری میں ملوث ہیں۔ ان تنظیموں اور گروہوں کے مقاصد مختلف ہو سکتے ہیں لیکن ان کا ہدف ایک ہے۔ یہ ہدف حکومت پاکستان کو مفلوج کرنا ہے۔ حکومت مفلوج ہوتی ہے تو پھر اس کا اثر ریاست کے وجود پر پڑنے کا خطرہ ہے۔ دہشت گرد گروہ ایک جانب فوج' ایف سی اور پولیس پر حملہ آور ہیں تو دوسری طرف فرقہ وارانہ، نسلی اور لسانی اختلافات کو ہوا دینے کے لیے قتل و غارت گری کر رہے ہیں۔ یہ صورت حال پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ اب اس میں کوئی شبہ نہیں رہا کہ پاکستان کو اس وقت سب سے زیادہ خطرہ ملک کے اندر سرگرم عمل دہشت گرد گروہوں سے ہے، جب تک ان کا خاتمہ نہیں کیا جاتا، ملک میں امن و امان کا قیام ممکن نہیں ہے۔ بلوچستان میں گورنر راج کا نفاذ آئین کے مطابق ہے۔
ابتدائی طور پر اسے دو ماہ کے لیے نافذ کیا گیا۔ اگر ضرورت پڑی تو اسے اگلے دو ماہ کے لیے بڑھایا بھی جا سکتا ہے۔ اب جب کہ موجودہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرنے والی ہیں' اس قسم کا اقدام ہونا تو نہیں چاہیے تھا لیکن اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ اقدام ثمر آور ثابت ہو' صوبے کے گورنر کو آہنی عزم کے ساتھ دہشت گردوں' تخریب کاروں اور فرقہ پرستوں کے خلاف آپریشن کرنا چاہیے' اس مقصد کے لیے پاک فوج کی بھرپور مدد انھیں حاصل ہے۔
بلوچستان میں امن اسی وقت قائم ہو سکتا ہے جب قبائلی عصبیت اور سیاسی مصلحت کو خاطر میں نہ لایا جائے۔ قانون کو ہاتھ میں لینے والا خواہ کوئی قبائلی سردار ہو یا کسی کالعدم فرقہ پرست تنظیم کا رکن ہو یا کسی قوم پرست تحریک کا رکن ہو' اسے کسی قسم کی رعایت نہیں ملنی چاہیے۔ اسی طریقے سے بلوچستان میں امن قائم ہو سکتا ہے۔