التحریر اسکوائر کا ایکشن ری پلے
پاکستان میں عرب بہار برپا کرنے کی کوششوں کا آغاز سال ڈیڑھ سال پہلے ہو گیا تھا لیکن اس میں کامیابی نہیں ہو رہی تھی۔
KARACHI:
پاکستان میں سیاسی حالات اتنے غیر یقینی ہو گئے ہیں کہ کچھ پتہ نہیں چلتا کہ آیندہ کیا ہونے والا ہے۔ طاہر القادری کا دھرنا کیا رنگ لائے گا' اس کے بارے میں فی الحال اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ جو قوتیں شیخ الاسلام کے پردے میں سرگرم ہیں' ان کا ایجنڈا موجودہ سیٹ اپ کا بوریا بستر گول کرنا ہے۔ یہ ایجنڈا پورا ہوتا ہے یا نہیں' اس کا پتہ زیادہ نہیں ایک دو ہفتوں میں ہی چل جائے گا۔
پاکستان میں ایک ڈیڑھ ہفتے سے معنی خیز سرگرمیاں ہو رہی ہیں' کوئٹہ میں ہزارہ منگول کمیونٹی نے جس انداز میں احتجاج کیا' اس کی پاکستان میں مثال نہیں ملتی' یہ احتجاج بلاآخر کامیاب ہوا اور بلوچستان میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔ طاہر القادری کی سرگرمیاں بھی انھی ایام میں شروع ہوئیں اور اب وہ اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو گئی ہیں' ادھر کنٹرول لائن پر حالات خراب ہو گئے' پاکستان اور بھارت کے درمیان خوشگوار تعلقات کی جو ہوائیں چل رہی تھیں' وہ رک گئی ہیں۔ اب فضا حبس آلود ہو چکی ہے۔ نامعلوم کیوں لیکن مجھے یہ سب ایک ہی سلسلے کی کڑیاں لگتی ہیں۔
ذرا طاہر القادری صاحب کے مطالبات پر غور کریں۔ وطن واپسی پر ان کا ایجنڈا محض انتخابی اصلاحات تک محدود تھا۔ اب ان کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت یعنی سسٹم کے خاتمے تک وہ اسلام آباد میں اپنا دھرنا جاری رکھیں گے۔ درمیان میں وہ مختلف بیانات بھی دیتے رہے جن میں ایک یہ بھی تھا کہ انھیں نگران حکومت کی ذمے داری دی گئی تو وہ اسے نبھانے کے لیے تیار ہوں گے۔ ممکن ہے یہ بات ان کے مینڈیٹ سے زیادہ ہو اس لیے انھوں نے بعد میں ایسا اظہار نہیں کیا۔ طاہر القادری اسلام آباد کو التحریر اسکوائر قرار دیتے ہیں اور مجھے بھی یہ قاہرہ کے التحریر اسکوائر کا نقشہ ہی لگتا ہے۔
اسے ہم التحریر اسکوائر کا ایکشن ری پلے کہہ سکتے ہیں۔ مصر میں سب جانتے تھے کہ التحریر اسکوائر کا نقشہ بنانے میں اخوان المسلمون پیش پیش تھی لیکن جب مصر کی دیگر سیاسی قوتوں نے دیکھا کہ التحریر اسکوائر کا نقشہ کامیاب ہو جائے گا تو پھر وہاں کے سیکولر حلقے البرادعی کی سربراہی میں اس میں شامل ہو گئے۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ طاہر القادری اسلام آباد میں دھرنا دیں اور جب اسے کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہوا دیکھیں تو ایم کیو ایم اور ق لیگ اس میں باقاعدہ شامل ہو جائیں اور اس کے بعد عمران خان بھی اس میں شامل ہو جائیں کیونکہ یہ تینوں پہلے ہی طاہر القادری کے خیالات اور مطالبات کے حامی ہیں۔
اگر ایسا منظر نظام تشکیل پا گیا تو آخری لمحوں میں مجھے ایسا لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ والے ہی اس سے باہر رہ جائیں گے۔میں تو اپنے ان جمہوریت نواز رہنمائوں کو یہی کہہ سکتا ہوں' جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سو جا۔ زردرای صاحب تو اپنی ٹرم تقریباً پوری کر چکے ہیں' اصل نقصان میاں صاحب کو ہو گا۔
پاکستان میں عرب بہار برپا کرنے کی کوششوں کا آغاز سال ڈیڑھ سال پہلے ہو گیا تھا لیکن اس میں کامیابی نہیں ہو رہی تھی۔ گزرے سال کے شروع ہوتے ہی عمران خان کے سونامی سے یہ امیدیں پیدا ہو گئی تھیں کہ دونوں بڑی پارٹیوں سے جان چھوٹ جائے گی لیکن کپتان ان امیدوں پر پورا نہیں اترا۔ قصہ یوں ہوا کہ کپتان نے جارحانہ اننگز یہ سمجھ کر شروع کی کہ ابھی کافی اوور باقی ہیں۔ جب تک انھیں صورت حال کا صحیح انداز ہوتا وکٹیں کافی گر چکی تھیں اور ابھی کافی اوور باقی پڑے ہوئے تھے۔
کھیل ہاتھ سے نکلتا محسوس ہوا تو آخری دائو آزمانے کا فیصلہ کیا گیا اور محترم خان صاحب کی جگہ عزت مآب علامہ صاحب کو میدان میں اتار دیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف نے اکبر بگٹی کو مخاطب کرتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ ایسی جگہ سے میزائل فائر ہو گا کہ جس کا تم سوچ بھی نہیں سکتے۔ طاہر القادری بھی ایسا سیاسی میزائل ہے جس کے بارے میں آصف زرداری اور میاں نواز شریف سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ علامہ صاحب اب میدان میں ہیں اور تب تک یہ میدان چھوڑنے کو تیار نہیں جب تک حکومت کو گھر نہیں بھجوا دیا جاتا۔
شروع میں ہزارہ منگول کمیونٹی کے احتجاج کی بات ہوئی۔ ان کے احتجاج کا نتیجہ یہ نکلا کہ وزیر اعظم کو کوئٹہ جا کر ان کے دھرنے میں شریک ہونا پڑا اور ان کے مطالبے پر بلوچستان حکومت کو برطرف کر کے گورنر راج نافذ کرنا پڑا۔ کمال اتفاق ہے کہ علامہ صاحب نے لاہور سے لانگ مارچ شروع کرتے ہوئے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ بلوچستان حکومت کو برطرف کیا جائے۔ یوں انھوں نے پہلا پوائنٹ اسکور کر لیا۔ ہزارہ کمیونٹی کا احتجاج تین دن سے جاری تھا' سپریم کورٹ بلوچستان حکومت کو نا اہل قرار دے چکی تھی لیکن افسوس وفاقی حکومت نے اس طرف توجہ نہیں دی۔
اس موقع پر بلوچستان حکومت برطرف کر کے پیپلز پارٹی نے اپنی کمزوری ظاہر کر دی ہے۔ مضبوط ترین دیوار میں بھی پہلی دراڑ پڑ جائے تو پھر اس کی شکست و ریخت شروع ہو جاتی ہے۔ اس حکومت کی بنیاد تو ویسے بھی مضبوط نہیں ہے۔ اس کا زیادہ دیر قائم رہنا مجھے تو نظر نہیں آ رہا۔
میرا خیال ہے سب کچھ اسکرپٹ کے مطابق ہو رہا ہے۔ ایک صاحب کشف دوست کہہ رہا تھاکہ 23جنوری سے حالات ٹھیک ہونا شروع ہو جائیں گے۔ طاہر القادری اپنا رول نبھا کر شاید واپس چلے جائیں' اسکرپٹ کے مطابق نئے کردار سامنے آئیں گے اور التحریر اسکوائر کی کامیابی کے بعد اس ملک کی تقدیر سنبھال لیں گے۔ یہ میرا تجزیہ' خیال یا استدلال ہے' اگر ایسا ہوتا ہے تو بہت سے لوگ خوش ہوں گے لیکن میں خوشی محسوس نہیں کرو ںگا' جمہوریت کی کشتی پانچ برس سے طوفانی لہرو ں پر سفر کر رہی ہے' میں سمجھتا ہوں کہ اس کشتی کو ساحل تک پہنچنا چاہیے' کچھ لوگوں کو میاں نواز شریف سے خوف ہے اور بعض آصف علی زرداری سے ڈرتے ہیں۔ یہ بزدلیر حلقے اپنے مفادات بچانے کے لیے جمہوریت کو ہی ذبح کرنے پر تلے ہوئے ہیں' آصف علی زرداری اور نواز شریف سے ڈرنے والوں کو میرا مشورہ یہی ہے کہ انتخابی میدان میں آئیں اور انھیں عوام کی نظروں میں کرپٹ' دھوکے باز اور بے ایمان ثابت کریں' کسی طاہر القادری کے جبے میں چھپ کر وار کرنا بہادری ہے نہ حب الوطنی۔
پاکستان میں سیاسی حالات اتنے غیر یقینی ہو گئے ہیں کہ کچھ پتہ نہیں چلتا کہ آیندہ کیا ہونے والا ہے۔ طاہر القادری کا دھرنا کیا رنگ لائے گا' اس کے بارے میں فی الحال اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ جو قوتیں شیخ الاسلام کے پردے میں سرگرم ہیں' ان کا ایجنڈا موجودہ سیٹ اپ کا بوریا بستر گول کرنا ہے۔ یہ ایجنڈا پورا ہوتا ہے یا نہیں' اس کا پتہ زیادہ نہیں ایک دو ہفتوں میں ہی چل جائے گا۔
پاکستان میں ایک ڈیڑھ ہفتے سے معنی خیز سرگرمیاں ہو رہی ہیں' کوئٹہ میں ہزارہ منگول کمیونٹی نے جس انداز میں احتجاج کیا' اس کی پاکستان میں مثال نہیں ملتی' یہ احتجاج بلاآخر کامیاب ہوا اور بلوچستان میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔ طاہر القادری کی سرگرمیاں بھی انھی ایام میں شروع ہوئیں اور اب وہ اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو گئی ہیں' ادھر کنٹرول لائن پر حالات خراب ہو گئے' پاکستان اور بھارت کے درمیان خوشگوار تعلقات کی جو ہوائیں چل رہی تھیں' وہ رک گئی ہیں۔ اب فضا حبس آلود ہو چکی ہے۔ نامعلوم کیوں لیکن مجھے یہ سب ایک ہی سلسلے کی کڑیاں لگتی ہیں۔
ذرا طاہر القادری صاحب کے مطالبات پر غور کریں۔ وطن واپسی پر ان کا ایجنڈا محض انتخابی اصلاحات تک محدود تھا۔ اب ان کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت یعنی سسٹم کے خاتمے تک وہ اسلام آباد میں اپنا دھرنا جاری رکھیں گے۔ درمیان میں وہ مختلف بیانات بھی دیتے رہے جن میں ایک یہ بھی تھا کہ انھیں نگران حکومت کی ذمے داری دی گئی تو وہ اسے نبھانے کے لیے تیار ہوں گے۔ ممکن ہے یہ بات ان کے مینڈیٹ سے زیادہ ہو اس لیے انھوں نے بعد میں ایسا اظہار نہیں کیا۔ طاہر القادری اسلام آباد کو التحریر اسکوائر قرار دیتے ہیں اور مجھے بھی یہ قاہرہ کے التحریر اسکوائر کا نقشہ ہی لگتا ہے۔
اسے ہم التحریر اسکوائر کا ایکشن ری پلے کہہ سکتے ہیں۔ مصر میں سب جانتے تھے کہ التحریر اسکوائر کا نقشہ بنانے میں اخوان المسلمون پیش پیش تھی لیکن جب مصر کی دیگر سیاسی قوتوں نے دیکھا کہ التحریر اسکوائر کا نقشہ کامیاب ہو جائے گا تو پھر وہاں کے سیکولر حلقے البرادعی کی سربراہی میں اس میں شامل ہو گئے۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ طاہر القادری اسلام آباد میں دھرنا دیں اور جب اسے کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہوا دیکھیں تو ایم کیو ایم اور ق لیگ اس میں باقاعدہ شامل ہو جائیں اور اس کے بعد عمران خان بھی اس میں شامل ہو جائیں کیونکہ یہ تینوں پہلے ہی طاہر القادری کے خیالات اور مطالبات کے حامی ہیں۔
اگر ایسا منظر نظام تشکیل پا گیا تو آخری لمحوں میں مجھے ایسا لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ والے ہی اس سے باہر رہ جائیں گے۔میں تو اپنے ان جمہوریت نواز رہنمائوں کو یہی کہہ سکتا ہوں' جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سو جا۔ زردرای صاحب تو اپنی ٹرم تقریباً پوری کر چکے ہیں' اصل نقصان میاں صاحب کو ہو گا۔
پاکستان میں عرب بہار برپا کرنے کی کوششوں کا آغاز سال ڈیڑھ سال پہلے ہو گیا تھا لیکن اس میں کامیابی نہیں ہو رہی تھی۔ گزرے سال کے شروع ہوتے ہی عمران خان کے سونامی سے یہ امیدیں پیدا ہو گئی تھیں کہ دونوں بڑی پارٹیوں سے جان چھوٹ جائے گی لیکن کپتان ان امیدوں پر پورا نہیں اترا۔ قصہ یوں ہوا کہ کپتان نے جارحانہ اننگز یہ سمجھ کر شروع کی کہ ابھی کافی اوور باقی ہیں۔ جب تک انھیں صورت حال کا صحیح انداز ہوتا وکٹیں کافی گر چکی تھیں اور ابھی کافی اوور باقی پڑے ہوئے تھے۔
کھیل ہاتھ سے نکلتا محسوس ہوا تو آخری دائو آزمانے کا فیصلہ کیا گیا اور محترم خان صاحب کی جگہ عزت مآب علامہ صاحب کو میدان میں اتار دیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف نے اکبر بگٹی کو مخاطب کرتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ ایسی جگہ سے میزائل فائر ہو گا کہ جس کا تم سوچ بھی نہیں سکتے۔ طاہر القادری بھی ایسا سیاسی میزائل ہے جس کے بارے میں آصف زرداری اور میاں نواز شریف سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ علامہ صاحب اب میدان میں ہیں اور تب تک یہ میدان چھوڑنے کو تیار نہیں جب تک حکومت کو گھر نہیں بھجوا دیا جاتا۔
شروع میں ہزارہ منگول کمیونٹی کے احتجاج کی بات ہوئی۔ ان کے احتجاج کا نتیجہ یہ نکلا کہ وزیر اعظم کو کوئٹہ جا کر ان کے دھرنے میں شریک ہونا پڑا اور ان کے مطالبے پر بلوچستان حکومت کو برطرف کر کے گورنر راج نافذ کرنا پڑا۔ کمال اتفاق ہے کہ علامہ صاحب نے لاہور سے لانگ مارچ شروع کرتے ہوئے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ بلوچستان حکومت کو برطرف کیا جائے۔ یوں انھوں نے پہلا پوائنٹ اسکور کر لیا۔ ہزارہ کمیونٹی کا احتجاج تین دن سے جاری تھا' سپریم کورٹ بلوچستان حکومت کو نا اہل قرار دے چکی تھی لیکن افسوس وفاقی حکومت نے اس طرف توجہ نہیں دی۔
اس موقع پر بلوچستان حکومت برطرف کر کے پیپلز پارٹی نے اپنی کمزوری ظاہر کر دی ہے۔ مضبوط ترین دیوار میں بھی پہلی دراڑ پڑ جائے تو پھر اس کی شکست و ریخت شروع ہو جاتی ہے۔ اس حکومت کی بنیاد تو ویسے بھی مضبوط نہیں ہے۔ اس کا زیادہ دیر قائم رہنا مجھے تو نظر نہیں آ رہا۔
میرا خیال ہے سب کچھ اسکرپٹ کے مطابق ہو رہا ہے۔ ایک صاحب کشف دوست کہہ رہا تھاکہ 23جنوری سے حالات ٹھیک ہونا شروع ہو جائیں گے۔ طاہر القادری اپنا رول نبھا کر شاید واپس چلے جائیں' اسکرپٹ کے مطابق نئے کردار سامنے آئیں گے اور التحریر اسکوائر کی کامیابی کے بعد اس ملک کی تقدیر سنبھال لیں گے۔ یہ میرا تجزیہ' خیال یا استدلال ہے' اگر ایسا ہوتا ہے تو بہت سے لوگ خوش ہوں گے لیکن میں خوشی محسوس نہیں کرو ںگا' جمہوریت کی کشتی پانچ برس سے طوفانی لہرو ں پر سفر کر رہی ہے' میں سمجھتا ہوں کہ اس کشتی کو ساحل تک پہنچنا چاہیے' کچھ لوگوں کو میاں نواز شریف سے خوف ہے اور بعض آصف علی زرداری سے ڈرتے ہیں۔ یہ بزدلیر حلقے اپنے مفادات بچانے کے لیے جمہوریت کو ہی ذبح کرنے پر تلے ہوئے ہیں' آصف علی زرداری اور نواز شریف سے ڈرنے والوں کو میرا مشورہ یہی ہے کہ انتخابی میدان میں آئیں اور انھیں عوام کی نظروں میں کرپٹ' دھوکے باز اور بے ایمان ثابت کریں' کسی طاہر القادری کے جبے میں چھپ کر وار کرنا بہادری ہے نہ حب الوطنی۔