ہوش اڑا دیے
پاکستان کی کل آبادی کا 63 فیصد 25 سال سے کم عمر پر مشتمل ہے جو تقریباً 10 کروڑ 36 لاکھ بنتے ہیں.
فقروفاقہ، تنگ دستی، بے روزگاری اورمعاشی بدحالی بڑی ہی ایمان لیوا اور ہوش و حواس کو خراب کردینے والی آزمائشیں ہیں، بھوک، فاقہ اور بے روزگاری میں مبتلا ہوجانے والے شخص کے لیے اپنے ایمان و اخلاق کی حفاظت جوئے شیر لانے سے بھی زیادہ کٹھن اور صبر آزما کام ہے۔ دولت کی فراوانی اور خوش حالی میں داد عیش دینے والوں کو کیا اندازہ ہوسکتا ہے کہ ان ایمان شکن مصائب میں گرفتار ہونے والوں پر کیا گزرتی ہے ڈوبنے والے کی دلی کیفیت اور پریشانی کا احساس اس شخص کو کیا ہوسکتا ہے جو دریا کی موجوں سے دور ساحل پر مامون و محفوظ کھڑا ڈوبنے والے کا تماشہ دیکھ رہا ہو۔ رزق دینے والی صرف خدا کی ذات ہے روزی میں تنگی اور کشادگی صرف اسی کے قبضے میں ہے وہی ہر ایک کو روزی پہنچارہا ہے نہ یہ ممکن ہے کہ آپ اپنی محنت، جانفشانی اور تدبیر و حکمت سے جتنی روزی چاہیں حاصل کرلیں اور نہ خدا کے سوا کسی اور کی یہ طاقت ہے کہ وہ آپ کو روزی دے سکے یا آپ سے آپ کی روزی روک سکے، رزق کی کمپنیاں صرف خدا کے پاس ہیں اور وہی جس کو جتنا چاہتا ہے دیتا ہے، ہر جاندار کی روزی اس نے اپنے ذمے لے رکھی ہے۔
''زمین پر چلنے والے ہر جاندار کی روزی اللہ ہی نے اپنے ذمے لی ہے'' (سورۃ ھود)
اگر کسی وقت آپ تنگدستی میں مبتلا ہوجائیں، معاشی بدحالی کا شکار ہوجائیں یا آپ کی لگی روزی کوئی چھین لے تو اس سے ہراساں ہونے کی کیا گنجائش، رزق تو نہ کسی خاص ذریعے حیلے پر منحصر ہے نہ کسی دوسرے انسان کے قبضے میں ہے وہ تو صرف اس کے ہی قبضے میں ہے جس نے آپ کی روزی کی ذمے داری لی ہے رزق کی ذمے داری صرف اور صرف خدا تعالیٰ کے سپرد ہے۔
کسی بھی انسان کو اس بات کی اجازت ہرگز نہیں کہ وہ اپنی غربت سے تنگ آکر غلط ذرایع اختیار کرے، کسی انسان کا حق مارے، ظلم و زیادتیاں کرے، تنگی اور کشادگی کا دارومدار آپ کی تدبیر، محنت اور کوشش پر ہی نہیں ہے بلکہ خدا کے فیصلے پر ہے۔ آدمی جب بھی کسی مصیبت میں گرفتار ہو تو وہ اپنے فکر وعمل کا ضرور جائزہ لے بعض اوقات کسی معاملے میں دین کی صحیح تعلیمات سے ناواقفیت اور صحیح تصور سے لاعلمی کے نتیجے میں بھی آدمی غلط روش اختیار کرلیتا ہے اور خواہ مخواہ ایک مصیبت میں گرفتار ہوکر دنیوی پریشانی بھی مول لیتا ہے اور دینی خسارے میں بھی مبتلا ہوتا ہے۔
اس وقت ملک میں معاشی بدحالی کا دور دورہ ہے، غربت بڑھتی جارہی ہے، ہر لمحہ شہریوں کو آزمائش کا سامنا ہے، بے روزگاری نے جرم کی شرح میں اضافہ کردیا ہے، سب لوگ رزق کی تنگی سے تنگ آگئے ہیں اور ظلم و زیادتیاں کرتے پھرتے نظر آرہے ہیں، لوٹ مار، چوری ڈکیتیوں میں کئی گناہ اضافہ ہوچکا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارا قیمتی سرمایہ نوجوان ہیں جو بے روزگار ہیں، بڑی تعداد میں نوجوان لڑکوں کے پاس ڈگریاں تو موجود ہیں مگر اس کے باوجود روزگار نہیں ہے اور یہی بے روزگاری ان کو مجرم بنارہی ہے اپنے اور اپنے گھر والوں کے پیٹ کی بھوک کو ختم کرنے کے لیے وہ اب طرح طرح کے حربے استعمال کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور فقروفاقہ، بے روزگاری نے ان کے ہوش اڑادیے ہیں، ہمارے ملک میں بے روزگاری کی سب سے بڑی وجہ کرپشن ہے، ہمارے ملک میں اس وقت لوٹ مار کا بازار گرم ہے، ہر کوئی بڑی ہٹ دھرمی سے ایک دوسرے کے حق پر ڈاکا ڈال رہا ہے۔
وطن عزیز میں کرپشن کی کہانیوں پر ذرا محتاط ہوکر نظر ڈالی جائے تو لوٹ مار کا ایسا حیرت انگیز اور روح فرسا منظر نظر آتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اور قومی مال و متاع کو لوٹنے میں مرکزی کردار وہی لوگ ادا کر رہے ہیں جن کی ذمے داری ملک کے وسائل کو ان لٹیروں سے بچانا ہے ، بجلی کی قیمتوں میں اضافے نے دیہاڑی دار لوگوں کو کنڈا ڈالنے کے جرم پر آمادہ کردیا ہے جو یہ جرأت نہیں کرسکتے، اگر ان کے بل کی ادائیگی میں وقت مقررہ سے ایک دن بھی تاخیر ہوجائے تو اہلکار میٹر اتارنے آجاتے ہیں لیکن دستاویزات شواہد اور ناقابل تردید ریکارڈ کے مطابق صرف بجلی فراہم کرنے والے ادارے میں 90ارب روپے کی مالی بے ضابطگیاں موجود ہیں جس میں 60 کروڑ روپے کی وہ خطیر رقم بھی شامل ہے جو قواعد و ضوابط کے خلاف ورزی کرتے ہوئے زرمبادلہ کے طور پر خرچ کی گئی یہ اعداد وشمار اندازاً بیان نہیں کیے جارہے بلکہ یہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ کا ایک حصہ ہیں۔
بڑھتی ہوئی کرپشن، بے روزگاری کی اصل وجہ ہے ہمارے ملک میں اگر یہ پیسہ صحیح جگہ استعمال کیا جائے اوراس پیسے سے ایسے وسائل پیدا کیے جائیں جن سے بیروزگاری کا خاتمہ ہوسکے، ہمارے نوجوان ہمارا سرمایہ ہیں ان کے لیے روزگار فراہم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے ایک اہم ادارے میں کروڑوں روپے کی کرپشن کی نشاندہی کی ہے بیرون ممالک قانونی مدد فراہم کرنے والی کمپنیوں کو لاکھوں ڈالر اور پاؤنڈ اسٹرلنگ ادا کیے گئے لیکن ان کا کوئی ریکارڈ نہیں، بے نظیر بھٹو اور دیگر کے خلاف بیرون ملک مقدمات پر 13 کروڑ روپے کے لگ بھگ اخراجات کیے گئے کئی لاکھ ڈالرز کی خطیر رقوم نامعلوم افراد کو ادا کی گئیں، ایسے افراد کا کچھ اتا پتا نہیں، کرپشن پر اظہار افسوس کیا ہی جاتا ہے اور کرنا بھی چاہیے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ ہر سال اسی طرح منظرعام پر آتی ہے، قومی اسمبلی میں اس پر گرما گرم بحث بھی ہوتی ہے لیکن افسوس اور تشویش کا پہلو یہ ہے کہ یہ شوروغوغا صرف چند دن سنائی دیتا ہے اس کے بعد کوئی دوسرا گرما گرم یا سنگین مسئلہ اس شور پر غالب آجاتا ہے۔
یہی پیسہ ملک میں بیروزگاری ختم کرسکتا ہے، اتنا پیسہ جو ہر سال کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے اگر اس پیسے کو محفوظ کرلیا جائے تو ملک میں ایسے وسائل پیدا کیے جاسکتے ہیں جہاں ہمارے نوجوان جاب کرسکے، کماسکے، اگر ملک میں نوجوانوں کو نظرانداز کرتے رہے تو یہ ملک کے لیے خطرناک بات ثابت ہوگی اگر روزگار نہیں ہوگا تو ملک میں جرائم کی تعداد میں اضافہ ہوجائے گا اس وقت ملک کو صحیح اور ایسی پالیسی کی ضرورت ہے جس سے ملک ترقی کی طرف گامزن ہو ناکہ تباہی کی طرف بڑھے۔
حکومت کو جنگی بنیادوں پر نوجوانوں کے مسئلے مسائل کو حل کرنا چاہیے، یو این ڈی پی کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا 63 فیصد 25 سال سے کم عمر پر مشتمل ہے جو تقریباً 10 کروڑ 36 لاکھ بنتے ہیں پاکستان ان خوش نصیب ممالک میں شمار کیا جاتا ہے جہاں نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور افسوس ہمارے ملک میں نوجوانوں کو نظرانداز کیا جارہا ہے جو ملک کا قیمتی سرمایہ ہیں ہمارے مستقبل کا انحصار ان پر ہے مگر بدقسمتی سے ہمارا یہ قیمتی سرمایہ برباد ہورہا ہے، نظرانداز ہورہا ہے، نہ ان کے لیے کوئی پلاننگ کی گئی ہے نہ روزگار ہے، جس کی وجہ سے اب نوجوانوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے اور وہ رزق حاصل کرنے کے لیے الٹی سیدھی پلاننگ کرتے پھرتے ہیں، بے شک رزق خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے مگر وسیلے زمین پر ہوتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو اب نوجوانوں کا وسیلہ بننا ہوگا تاکہ بے روزگاری کا خاتمہ ممکن ہوسکے اور رزق کا حصول حلال اور آسان ہوسکے پاکستان کا اگر روشن مستقبل چاہیے تو نوجوانوں کے اندر سے مایوسیوں کو ختم کرنا ہوگا۔
چین واحد ملک ہے جس نے اپنے نوجوانوں کے ذریعے اپنے ملک کو ترقی دی ہے ہمیں بھی ان سے سیکھنا چاہیے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو ملک کی ترقی کے لیے کیسے استعمال کرسکتے ہیں، اگر چین اپنے نوجوانوں کے ذریعے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہوسکتا ہے تو ہم کیوں نہیں ترقی کرسکتے؟
ہمارے نوجوان سیاسی جلسے جلوسوں کی تعداد پوری کرنے کے لیے نہیں ہیں، یہ ہمارا مستقبل ہیں، ہم سب کو ان کے مسائل کے حل کے لیے سوچنا چاہیے، کوئی بھی ملک اس وقت ترقی نہیں کرسکتا جب تک وہاں کے معاشی مسائل کو حل نہ کیا جائے، معاشی مسائل کسی بھی ملک کو دیمک کی طرح کھا جاتے ہیں، ملک میں نوجوانوں کی مایوسیوں کا خاتمہ خوشحال پاکستان کی نوید ہوگی، حکومت پاکستان سے اپیل ہے کہ جنگی بنیادوں پر نوجوانوں کی بے روزگاری کا خاتمہ کرے اور ان کو روزگار فراہم کرے۔
''زمین پر چلنے والے ہر جاندار کی روزی اللہ ہی نے اپنے ذمے لی ہے'' (سورۃ ھود)
اگر کسی وقت آپ تنگدستی میں مبتلا ہوجائیں، معاشی بدحالی کا شکار ہوجائیں یا آپ کی لگی روزی کوئی چھین لے تو اس سے ہراساں ہونے کی کیا گنجائش، رزق تو نہ کسی خاص ذریعے حیلے پر منحصر ہے نہ کسی دوسرے انسان کے قبضے میں ہے وہ تو صرف اس کے ہی قبضے میں ہے جس نے آپ کی روزی کی ذمے داری لی ہے رزق کی ذمے داری صرف اور صرف خدا تعالیٰ کے سپرد ہے۔
کسی بھی انسان کو اس بات کی اجازت ہرگز نہیں کہ وہ اپنی غربت سے تنگ آکر غلط ذرایع اختیار کرے، کسی انسان کا حق مارے، ظلم و زیادتیاں کرے، تنگی اور کشادگی کا دارومدار آپ کی تدبیر، محنت اور کوشش پر ہی نہیں ہے بلکہ خدا کے فیصلے پر ہے۔ آدمی جب بھی کسی مصیبت میں گرفتار ہو تو وہ اپنے فکر وعمل کا ضرور جائزہ لے بعض اوقات کسی معاملے میں دین کی صحیح تعلیمات سے ناواقفیت اور صحیح تصور سے لاعلمی کے نتیجے میں بھی آدمی غلط روش اختیار کرلیتا ہے اور خواہ مخواہ ایک مصیبت میں گرفتار ہوکر دنیوی پریشانی بھی مول لیتا ہے اور دینی خسارے میں بھی مبتلا ہوتا ہے۔
اس وقت ملک میں معاشی بدحالی کا دور دورہ ہے، غربت بڑھتی جارہی ہے، ہر لمحہ شہریوں کو آزمائش کا سامنا ہے، بے روزگاری نے جرم کی شرح میں اضافہ کردیا ہے، سب لوگ رزق کی تنگی سے تنگ آگئے ہیں اور ظلم و زیادتیاں کرتے پھرتے نظر آرہے ہیں، لوٹ مار، چوری ڈکیتیوں میں کئی گناہ اضافہ ہوچکا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارا قیمتی سرمایہ نوجوان ہیں جو بے روزگار ہیں، بڑی تعداد میں نوجوان لڑکوں کے پاس ڈگریاں تو موجود ہیں مگر اس کے باوجود روزگار نہیں ہے اور یہی بے روزگاری ان کو مجرم بنارہی ہے اپنے اور اپنے گھر والوں کے پیٹ کی بھوک کو ختم کرنے کے لیے وہ اب طرح طرح کے حربے استعمال کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور فقروفاقہ، بے روزگاری نے ان کے ہوش اڑادیے ہیں، ہمارے ملک میں بے روزگاری کی سب سے بڑی وجہ کرپشن ہے، ہمارے ملک میں اس وقت لوٹ مار کا بازار گرم ہے، ہر کوئی بڑی ہٹ دھرمی سے ایک دوسرے کے حق پر ڈاکا ڈال رہا ہے۔
وطن عزیز میں کرپشن کی کہانیوں پر ذرا محتاط ہوکر نظر ڈالی جائے تو لوٹ مار کا ایسا حیرت انگیز اور روح فرسا منظر نظر آتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اور قومی مال و متاع کو لوٹنے میں مرکزی کردار وہی لوگ ادا کر رہے ہیں جن کی ذمے داری ملک کے وسائل کو ان لٹیروں سے بچانا ہے ، بجلی کی قیمتوں میں اضافے نے دیہاڑی دار لوگوں کو کنڈا ڈالنے کے جرم پر آمادہ کردیا ہے جو یہ جرأت نہیں کرسکتے، اگر ان کے بل کی ادائیگی میں وقت مقررہ سے ایک دن بھی تاخیر ہوجائے تو اہلکار میٹر اتارنے آجاتے ہیں لیکن دستاویزات شواہد اور ناقابل تردید ریکارڈ کے مطابق صرف بجلی فراہم کرنے والے ادارے میں 90ارب روپے کی مالی بے ضابطگیاں موجود ہیں جس میں 60 کروڑ روپے کی وہ خطیر رقم بھی شامل ہے جو قواعد و ضوابط کے خلاف ورزی کرتے ہوئے زرمبادلہ کے طور پر خرچ کی گئی یہ اعداد وشمار اندازاً بیان نہیں کیے جارہے بلکہ یہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ کا ایک حصہ ہیں۔
بڑھتی ہوئی کرپشن، بے روزگاری کی اصل وجہ ہے ہمارے ملک میں اگر یہ پیسہ صحیح جگہ استعمال کیا جائے اوراس پیسے سے ایسے وسائل پیدا کیے جائیں جن سے بیروزگاری کا خاتمہ ہوسکے، ہمارے نوجوان ہمارا سرمایہ ہیں ان کے لیے روزگار فراہم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے ایک اہم ادارے میں کروڑوں روپے کی کرپشن کی نشاندہی کی ہے بیرون ممالک قانونی مدد فراہم کرنے والی کمپنیوں کو لاکھوں ڈالر اور پاؤنڈ اسٹرلنگ ادا کیے گئے لیکن ان کا کوئی ریکارڈ نہیں، بے نظیر بھٹو اور دیگر کے خلاف بیرون ملک مقدمات پر 13 کروڑ روپے کے لگ بھگ اخراجات کیے گئے کئی لاکھ ڈالرز کی خطیر رقوم نامعلوم افراد کو ادا کی گئیں، ایسے افراد کا کچھ اتا پتا نہیں، کرپشن پر اظہار افسوس کیا ہی جاتا ہے اور کرنا بھی چاہیے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ ہر سال اسی طرح منظرعام پر آتی ہے، قومی اسمبلی میں اس پر گرما گرم بحث بھی ہوتی ہے لیکن افسوس اور تشویش کا پہلو یہ ہے کہ یہ شوروغوغا صرف چند دن سنائی دیتا ہے اس کے بعد کوئی دوسرا گرما گرم یا سنگین مسئلہ اس شور پر غالب آجاتا ہے۔
یہی پیسہ ملک میں بیروزگاری ختم کرسکتا ہے، اتنا پیسہ جو ہر سال کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے اگر اس پیسے کو محفوظ کرلیا جائے تو ملک میں ایسے وسائل پیدا کیے جاسکتے ہیں جہاں ہمارے نوجوان جاب کرسکے، کماسکے، اگر ملک میں نوجوانوں کو نظرانداز کرتے رہے تو یہ ملک کے لیے خطرناک بات ثابت ہوگی اگر روزگار نہیں ہوگا تو ملک میں جرائم کی تعداد میں اضافہ ہوجائے گا اس وقت ملک کو صحیح اور ایسی پالیسی کی ضرورت ہے جس سے ملک ترقی کی طرف گامزن ہو ناکہ تباہی کی طرف بڑھے۔
حکومت کو جنگی بنیادوں پر نوجوانوں کے مسئلے مسائل کو حل کرنا چاہیے، یو این ڈی پی کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا 63 فیصد 25 سال سے کم عمر پر مشتمل ہے جو تقریباً 10 کروڑ 36 لاکھ بنتے ہیں پاکستان ان خوش نصیب ممالک میں شمار کیا جاتا ہے جہاں نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور افسوس ہمارے ملک میں نوجوانوں کو نظرانداز کیا جارہا ہے جو ملک کا قیمتی سرمایہ ہیں ہمارے مستقبل کا انحصار ان پر ہے مگر بدقسمتی سے ہمارا یہ قیمتی سرمایہ برباد ہورہا ہے، نظرانداز ہورہا ہے، نہ ان کے لیے کوئی پلاننگ کی گئی ہے نہ روزگار ہے، جس کی وجہ سے اب نوجوانوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے اور وہ رزق حاصل کرنے کے لیے الٹی سیدھی پلاننگ کرتے پھرتے ہیں، بے شک رزق خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے مگر وسیلے زمین پر ہوتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو اب نوجوانوں کا وسیلہ بننا ہوگا تاکہ بے روزگاری کا خاتمہ ممکن ہوسکے اور رزق کا حصول حلال اور آسان ہوسکے پاکستان کا اگر روشن مستقبل چاہیے تو نوجوانوں کے اندر سے مایوسیوں کو ختم کرنا ہوگا۔
چین واحد ملک ہے جس نے اپنے نوجوانوں کے ذریعے اپنے ملک کو ترقی دی ہے ہمیں بھی ان سے سیکھنا چاہیے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو ملک کی ترقی کے لیے کیسے استعمال کرسکتے ہیں، اگر چین اپنے نوجوانوں کے ذریعے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہوسکتا ہے تو ہم کیوں نہیں ترقی کرسکتے؟
ہمارے نوجوان سیاسی جلسے جلوسوں کی تعداد پوری کرنے کے لیے نہیں ہیں، یہ ہمارا مستقبل ہیں، ہم سب کو ان کے مسائل کے حل کے لیے سوچنا چاہیے، کوئی بھی ملک اس وقت ترقی نہیں کرسکتا جب تک وہاں کے معاشی مسائل کو حل نہ کیا جائے، معاشی مسائل کسی بھی ملک کو دیمک کی طرح کھا جاتے ہیں، ملک میں نوجوانوں کی مایوسیوں کا خاتمہ خوشحال پاکستان کی نوید ہوگی، حکومت پاکستان سے اپیل ہے کہ جنگی بنیادوں پر نوجوانوں کی بے روزگاری کا خاتمہ کرے اور ان کو روزگار فراہم کرے۔