قیام امن کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت

روس اور ایران دونوں شام کے صدر بشار الاسد کے قریبی اتحادی ہیں

۔ فوٹو؛ فائل

دنیا کے مختلف خطے جس قدر انتشار اور انارکی کا شکار ہیں اس تناظر میں لازم ہوگیا ہے کہ اقوام عالم قیام امن کی مشترکہ کوششوں کے لیے ایک پیج پر آئیں اور دہشت گرد و شرپسند عناصر کے خلاف راست کارروائیاں عمل میںلاتے ہوئے دشمنان انسانیت کے خلاف صف آرا ہوں۔ اسی پیرائے میں افغانستان اور شام میں قیام امن کے لیے مشترکہ کوششیں جاری رکھنے پر روس اور ایران میں اتفاق رائے قائم ہونا خوش آیند ہے۔ روسی دارالحکومت ماسکو میں ایرانی صدر حسن روحانی کی اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پوتن کے ساتھ ملاقات میں کئی شعبوں میں تعاون پر اتفاق ہوا ہے۔

دونوں صدور کی اس ملاقات میں نہ صرف توانائی کے شعبے میں اشتراک عمل کو مزید فروغ دینے پر اتفاق کیا گیا بلکہ یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ شام اور افغانستان میں قیام امن کے لیے مشترکہ کوششیں بھی جاری رکھی جائیں گی۔ پوتن نے ان مذاکرات کے بعد کہا کہ ایران اور روس، بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے باہمی تعاون کو مزید مستحکم بنانے کا عمل جاری رکھیں گے۔


ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے روس کی جانب سے شام میں موجود دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے ایرانی فوجی مرکز استعمال کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ جواد ظریف کا کہنا تھا کہ روس اور ایران دونوں شام کے صدر بشار الاسد کے قریبی اتحادی ہیں اور گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران شامی تنازع کو ان کے حق میں کرنے کے لیے انھوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ افغانستان میں دہشت گرد اور شدت پسند گروہوں نے جو انارکی پھیلائی ہوئی ہے اس کے مضمرات سے پورا خطہ انتشار کی آگ میں جھلس رہا ہے، دوسری جانب شام میں بھی دہشت گرد گروہوں نے ایک عرصے سے اقتدار کی جنگ میں قتل و غارت کا قبیح سلسلہ شروع کر رکھا ہے، شام سے امن کی تلاش میں ہجرت کرنے والے مہاجرین پر ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے۔

دوسری جانب اردن کے بحر مردار میں عرب لیگ کے 28 ویں سربراہ اجلاس کے سلسلے میں عرب وزرائے خارجہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل احمد ابوال غیط نے عرب حکومتوں پر زور دیا کہ وہ شامی مسئلے کو دیگر طاقتوں پر چھوڑنے کے بجائے اسے حل کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کریں کیونکہ شام کا بحران خطے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ دہشت گردی کی بیخ کنی کے لیے عالمی تعاون اور اتحاد کی ضرورت آج سب سے زیادہ ہے۔
Load Next Story