سوشل میڈیا اور گستاخانہ کام
انگریزی زبان کا لاطینی لفظ میڈیا(media) دراصل لفظ (meduim) کی جمع ہے
انگریزی زبان کا لاطینی لفظ میڈیا(media) دراصل لفظ (meduim) کی جمع ہے، جو عام طور پر ذریعے کے طور پر استعمال ہوتا رہا اور موجودہ دور میں ماس کمیونیکیشن (پبلشنگ، براڈکاسٹنگ، انٹرنیٹ) کے حوالے سے زیادہ مقبول ہے' یعنی اظہار کا ایک ذریعہ۔ پہلے کتابوں، رسالوں، جریدوں اور اخبارات کے ذریعے عام طور پر خیالات کا اظہار یا معلومات فراہم کی جاتی تھیں، پھر ریڈیو ذریعہ بنا، ٹیلی وژن نے اس میں مزید کشش پیداکردی، جب انٹرنیٹ متعارف ہوا تو مزید آسانی پیدا ہوگئی۔ وہی چیزیں یا پروگرام جن کے لیے انتظارکرنا پڑتا تھا یا کسی وجہ سے رہ جاتے تھے،اب انٹرنیٹ کے ذریعے ایک کلک پر آ گئے۔
کسی بھی ملک میں معلوماتی یا تفریحی مواد ٹیکسٹ امیج اورویڈیوز کی شکل میں موجود ہوتا ہے، ہر اچھا مواد بھی مارکیٹ میں دستیاب ہے اور برا بھی، جو جسے درکار ہو وہ مطلوبہ مواد حاصل کرلیتا ہے۔ اسی طرح انٹرنیٹ پر بھی ٹیکسٹ امیج اور ویڈیوزکی شکل میں ہر قسم کا ڈیٹا موجود ہے اور جو جسے مطلوب ہوتا ہے' ڈھونڈ نکالتا ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ مادی شکل میں مواد قیمتاََ دستیاب ہوتا جب کہ انٹرنیٹ پر موجود ڈیٹا تقریباََ مفت۔اسی طرح اپنی ذہنی اختراعات کو مادی شکل میں عام افراد کے لیے دستیاب بناناخاصا مشکل اور مہنگا کام ہے جب کہ انٹرنیٹ (سوشل میڈیا) کے ذریعے انتہائی آسان اورسستا۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ مواد کی طباعت، اشاعت، نشریات اور فروغ کے حوالے سے قوانین کی حدود بھی آڑے آتی ہیں جب کہ انٹرنیٹ کے ذریعے پبلش کرنے سے ایسا کوئی خطرہ عام طور پر حائل نہیں ہوتا۔
طباعت واشاعت سے ٹی وی اور ریڈیو نشریات تک تو خیالات کا اظہار انتہائی محدود تھا، چند لوگ ہی اپنی تصانیف شایع یا اپنے خیالات الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے دوسروں تک پہنچا پاتے تھے' مگر انٹرنیٹ کے فروغ نے جہاں معلومات کے حصول کو سہل کیا وہیں' خیالات کے اظہارکو بھی انتہائی آسان بنادیا، یہاں تک کہ جو بھی شخص انٹرنیٹ سے آگہی اوراس تک رسائی رکھتا ہے' بڑی آسانی کے ساتھ اپنے خیالات لمحوں میں ہزاروں لاکھوں لوگوں تک پہنچاسکتا ہے اور دوسرے میڈیا کے مقابلے میں ہر کسی کو اپنے ظرف کے موافق جوہر دکھانے کا موقع بھرپور موقع پاس رکھتا ہے۔
بلاشبہ انٹرنیٹ پر بہت سا گند موجود ہے بلکہ بھرا پڑا ہے مگر اچھا اور سود مندمواد بھی بہت ہے، گندگی سے کہیں زیادہ' جہاں معلومات کا خزانہ بھی ہے اور تفریح کا سامان بھی، جہاں سیکھنے کے بھی بہت مواقعے ہیں اور سکھانے کے لیے بھی۔ گویا حاصل کرنے کے لیے بھی ایک جہان ہے اور بانٹنے کے لیے بھی۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی اپنی آزادی پر بغلیں بجاتا، اپنی حد سے نکل کر دوسرے کی حد میں جاپہنچتا ہے، یہ جانتے بوجھتے بھی کہ ہر شخص کی آزادی وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں دوسرے کی آزادی شروع ہوتی ہے۔ ہر کوئی اپنے خیالات کے اظہار کا حق اور آزادی رکھتا ہے مگر ہر معاشرے میں اس اظہار کے لیے حدود مقرر ہیں اورکوئی بھی معاشرہ آزادی اظہار رائے کی آڑ میں کسی دوسرے شخص مذہب یا عقیدے کی تحقیر کی اجازت نہیں دیتا، البتہ بعض معاشروں میں ایسے ضوابط کا معیار دہرا اور اطلاق حسب منشا کیا جاتا ہے۔
ہمارے یہاں بھی پچھلے چند ہفتوں سے توہین آمیز مواد پر مشتمل ڈیٹا کی انٹرنیٹ پر فراہمی پر بہت شور مچا ہوا ہے۔ ایک مقدمہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے، عدالتی دباؤ پر سرکاری مشینری بھی حرکت میں آئی ہوئی ہے، کچھ گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ نے اس حوالے سے لائحہ عمل ترتیب دینے کے لیے اہم قدم اٹھاتے ہوئے اسلامی ممالک کے سفیروں کا اجلاس بلایا، جس میں مسئلہ اقوام متحدہ کے فورم پر اٹھانے کے علاوہ سیکریٹری جنرل عرب لیگ اور او آئی سی کو ریفرنس بھیجنے کا بھی فیصلہ کیاگیا۔ عدالت عالیہ اور وزارت داخلہ ایسا مواد نہ ہٹانے کی صورت میں سوشل میڈیا ویب سائٹ فیس بک کو پاکستان میں بند کرنے کا عندیہ پہلے ہی دے چکے ہیں۔ یقینا عدالت عالیہ کا عزم امت مسلمہ کے لیے باعث فخر اور وزیرداخلہ کی دلچسپی قابل ستائش ہے' ہونا بھی چاہیے کہ مقتدر حلقوں ہی کی یہ ذمے داری ہے، نہ کہ عوام کی کہ سڑکوں پر احتجاج کرتے پھریں۔ یہاں ایک مقدمہ یہ بھی آکھڑا ہوتا ہے کہ ایسی واہیات باتوں کی تشہیر کا آخر مقصد کیا ہے؟ اور عام آدمی تک ایسی لغوباتوں کا پہنچایا جانا کیوں ضروری سمجھاجاتاہے؟
یقینا وہ لوگ سب سے پہلے قابل مذمت ہیں جو ایسے مواد تک جاپہنچتے ہیں اور پھران باتوں کوآگے پھیلا کر دوسرے لوگوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔ان احباب سے پوچھا جانا چاہیے کہ انھیں کس نے مجبورکیا کہ وہ وہاں جائیں' جہاں انھیںنہیں جانا چاہیے۔ پھر اگر بالفرض محال ایسا ہو ہی گیا، عمدا ہی سہی، مگریہ بات دوسروں تک پہنچا کر وہ کس کا کام آسان کرنا چاہتے ہیں؟
اس کی مثال بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی کی پیاری اور قابل احترام شخصیت جیسے والد یا پیر وغیرہ کی شان میں کوئی گستاخی کردے، گالی دے دی ہو یا برے القابات سے نوازا ہو اور یہ کام کرنے والا شخص دسترس میں بھی نہ ہو' توکیا کوئی غیرت مند شخص اس بات پر شور مچا کر یہ قصہ دوسروں کو بتاتا پھرے گا کہ فلاں جاہل نے اس کے بزرگوں کو گالیاں دی ہیں، اگر کسی شخص کے گھر کی خاتون کی کوئی قابل اعتراض جعلی تصویر یا جھوٹ پر مبنی جملے کسی ایسے مقام پر آویزاں کردے جہاں سے ہٹانے پر وہ قادر نہیں' تو کیا اس کی غیرت گوارا کرے گی کہ وہ دوسروں کو بتاتا پھرے...؟
ہرگزنہیں، اس کی غیرت یہ کبھی گوارا نہیں کرے گی کہ توہین سب پر عیاں ہو... کیوں؟، اس لیے کہ توہین جتنی پھیلے گی' اتنی ہی بڑھتی چلی جائے گی۔ اسی طرح، اس بات کی تکرار، جیسے کوئی آکر مذکورہ شخص سے دریافت کرے کہ آپ کے اباجان، آپ کی والدہ، بہن، بیٹی، بیوی کے بارے میں ایسا سناہے' تو کیا اس کی تکلیف بڑھ نہیں جائے گی؟، گویا توہین کا معاملہ جتنا پھیلائیں اتنا ہی بڑھتا اور تکلیف دہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
ایک فقہی بزرگ (شاید امام شافعی)کے حوالے سے واقعہ ہے کہ ایک روز کسی شخص نے آکر انھیں خبر دی کہ فلاں جگہ فلاں شخص نے آپ کو گالی دی، حضرت نے برہم ہوکر جواب دیا' اس نے خنجر ہوا میں اچھالا تھا، تو نے لاکر میرے سینے میں گھونپ دیا۔
اللہ تعالیٰ اور اس کے مقرب بندوں بالخصوص نبی کریم ﷺ کا مقام اور محبت توکسی مسلمان کے لیے اس کے ماں باپ اور اولاد سے بھی بڑھ کرہے اور اسی لیے مسلمانوں کو ایسی واہیات خبروں سے تکلیف پہنچتی ہے۔ ہاں البتہ صرف بااختیار شخصیات کو اس حوالے آگہی ہونی چاہیے تاکہ وہ جرم کی صحت سے متعلق معلومات حاصل کرکے ملزم کوکیفرکردار تک پہنچانے کی ذمے داری پوری کرسکیں۔ جب کہ عام لوگوں کے لیے ایسے مواد تک رسائی اوراسے دوسروں تک پہنچانا بھی قانونا جرم قرار دیا جانا چاہیے اور وہ افراد جو ایسی لغویات کی تشہیر اور فروغ کی وجہ بنیں انھیں بھی قانون کے تحت سخت سزا ملنی چاہیے۔
اگر حکومت اس حوالے سے ٹھوس قانون سازی کرلے اور ایسا مواد شیئر کرنے والوں ہی پر قانون کا اطلاق کردیا جائے تو یہ معاملہ دوبارہ سر نہیں اٹھائے گا جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ جو لوگ محض شہرت حاصل کرنے یا معاشرے میں فتنہ وفساد پیدا کرنے کے لیے یہ کام کرتے ہیں' ان کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ رہی بات ان ہستیوں کی جن سے متعلق یہ دقیانوسی باتیں گھڑی جاتی ہیں' ان کی شان بہت بلند ہے، یہ جاہل تو سورج کی روشنی کو میلا نہیں کرسکتے، ماسوائے فضا میں آلودگی بکھیر کر اپنی نظر کو دھوکا دے لیں، تو بھلا تمام جہانوں اور عزتوں کے مالک کے نورکو کیسے دھندلاسکتے ہیں؟ہاں البتہ پیارے نبیﷺ کے امتیوں کے د لوں کو دکھ پہنچا کر مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
کسی بھی ملک میں معلوماتی یا تفریحی مواد ٹیکسٹ امیج اورویڈیوز کی شکل میں موجود ہوتا ہے، ہر اچھا مواد بھی مارکیٹ میں دستیاب ہے اور برا بھی، جو جسے درکار ہو وہ مطلوبہ مواد حاصل کرلیتا ہے۔ اسی طرح انٹرنیٹ پر بھی ٹیکسٹ امیج اور ویڈیوزکی شکل میں ہر قسم کا ڈیٹا موجود ہے اور جو جسے مطلوب ہوتا ہے' ڈھونڈ نکالتا ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ مادی شکل میں مواد قیمتاََ دستیاب ہوتا جب کہ انٹرنیٹ پر موجود ڈیٹا تقریباََ مفت۔اسی طرح اپنی ذہنی اختراعات کو مادی شکل میں عام افراد کے لیے دستیاب بناناخاصا مشکل اور مہنگا کام ہے جب کہ انٹرنیٹ (سوشل میڈیا) کے ذریعے انتہائی آسان اورسستا۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ مواد کی طباعت، اشاعت، نشریات اور فروغ کے حوالے سے قوانین کی حدود بھی آڑے آتی ہیں جب کہ انٹرنیٹ کے ذریعے پبلش کرنے سے ایسا کوئی خطرہ عام طور پر حائل نہیں ہوتا۔
طباعت واشاعت سے ٹی وی اور ریڈیو نشریات تک تو خیالات کا اظہار انتہائی محدود تھا، چند لوگ ہی اپنی تصانیف شایع یا اپنے خیالات الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے دوسروں تک پہنچا پاتے تھے' مگر انٹرنیٹ کے فروغ نے جہاں معلومات کے حصول کو سہل کیا وہیں' خیالات کے اظہارکو بھی انتہائی آسان بنادیا، یہاں تک کہ جو بھی شخص انٹرنیٹ سے آگہی اوراس تک رسائی رکھتا ہے' بڑی آسانی کے ساتھ اپنے خیالات لمحوں میں ہزاروں لاکھوں لوگوں تک پہنچاسکتا ہے اور دوسرے میڈیا کے مقابلے میں ہر کسی کو اپنے ظرف کے موافق جوہر دکھانے کا موقع بھرپور موقع پاس رکھتا ہے۔
بلاشبہ انٹرنیٹ پر بہت سا گند موجود ہے بلکہ بھرا پڑا ہے مگر اچھا اور سود مندمواد بھی بہت ہے، گندگی سے کہیں زیادہ' جہاں معلومات کا خزانہ بھی ہے اور تفریح کا سامان بھی، جہاں سیکھنے کے بھی بہت مواقعے ہیں اور سکھانے کے لیے بھی۔ گویا حاصل کرنے کے لیے بھی ایک جہان ہے اور بانٹنے کے لیے بھی۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی اپنی آزادی پر بغلیں بجاتا، اپنی حد سے نکل کر دوسرے کی حد میں جاپہنچتا ہے، یہ جانتے بوجھتے بھی کہ ہر شخص کی آزادی وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں دوسرے کی آزادی شروع ہوتی ہے۔ ہر کوئی اپنے خیالات کے اظہار کا حق اور آزادی رکھتا ہے مگر ہر معاشرے میں اس اظہار کے لیے حدود مقرر ہیں اورکوئی بھی معاشرہ آزادی اظہار رائے کی آڑ میں کسی دوسرے شخص مذہب یا عقیدے کی تحقیر کی اجازت نہیں دیتا، البتہ بعض معاشروں میں ایسے ضوابط کا معیار دہرا اور اطلاق حسب منشا کیا جاتا ہے۔
ہمارے یہاں بھی پچھلے چند ہفتوں سے توہین آمیز مواد پر مشتمل ڈیٹا کی انٹرنیٹ پر فراہمی پر بہت شور مچا ہوا ہے۔ ایک مقدمہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے، عدالتی دباؤ پر سرکاری مشینری بھی حرکت میں آئی ہوئی ہے، کچھ گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ نے اس حوالے سے لائحہ عمل ترتیب دینے کے لیے اہم قدم اٹھاتے ہوئے اسلامی ممالک کے سفیروں کا اجلاس بلایا، جس میں مسئلہ اقوام متحدہ کے فورم پر اٹھانے کے علاوہ سیکریٹری جنرل عرب لیگ اور او آئی سی کو ریفرنس بھیجنے کا بھی فیصلہ کیاگیا۔ عدالت عالیہ اور وزارت داخلہ ایسا مواد نہ ہٹانے کی صورت میں سوشل میڈیا ویب سائٹ فیس بک کو پاکستان میں بند کرنے کا عندیہ پہلے ہی دے چکے ہیں۔ یقینا عدالت عالیہ کا عزم امت مسلمہ کے لیے باعث فخر اور وزیرداخلہ کی دلچسپی قابل ستائش ہے' ہونا بھی چاہیے کہ مقتدر حلقوں ہی کی یہ ذمے داری ہے، نہ کہ عوام کی کہ سڑکوں پر احتجاج کرتے پھریں۔ یہاں ایک مقدمہ یہ بھی آکھڑا ہوتا ہے کہ ایسی واہیات باتوں کی تشہیر کا آخر مقصد کیا ہے؟ اور عام آدمی تک ایسی لغوباتوں کا پہنچایا جانا کیوں ضروری سمجھاجاتاہے؟
یقینا وہ لوگ سب سے پہلے قابل مذمت ہیں جو ایسے مواد تک جاپہنچتے ہیں اور پھران باتوں کوآگے پھیلا کر دوسرے لوگوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔ان احباب سے پوچھا جانا چاہیے کہ انھیں کس نے مجبورکیا کہ وہ وہاں جائیں' جہاں انھیںنہیں جانا چاہیے۔ پھر اگر بالفرض محال ایسا ہو ہی گیا، عمدا ہی سہی، مگریہ بات دوسروں تک پہنچا کر وہ کس کا کام آسان کرنا چاہتے ہیں؟
اس کی مثال بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی کی پیاری اور قابل احترام شخصیت جیسے والد یا پیر وغیرہ کی شان میں کوئی گستاخی کردے، گالی دے دی ہو یا برے القابات سے نوازا ہو اور یہ کام کرنے والا شخص دسترس میں بھی نہ ہو' توکیا کوئی غیرت مند شخص اس بات پر شور مچا کر یہ قصہ دوسروں کو بتاتا پھرے گا کہ فلاں جاہل نے اس کے بزرگوں کو گالیاں دی ہیں، اگر کسی شخص کے گھر کی خاتون کی کوئی قابل اعتراض جعلی تصویر یا جھوٹ پر مبنی جملے کسی ایسے مقام پر آویزاں کردے جہاں سے ہٹانے پر وہ قادر نہیں' تو کیا اس کی غیرت گوارا کرے گی کہ وہ دوسروں کو بتاتا پھرے...؟
ہرگزنہیں، اس کی غیرت یہ کبھی گوارا نہیں کرے گی کہ توہین سب پر عیاں ہو... کیوں؟، اس لیے کہ توہین جتنی پھیلے گی' اتنی ہی بڑھتی چلی جائے گی۔ اسی طرح، اس بات کی تکرار، جیسے کوئی آکر مذکورہ شخص سے دریافت کرے کہ آپ کے اباجان، آپ کی والدہ، بہن، بیٹی، بیوی کے بارے میں ایسا سناہے' تو کیا اس کی تکلیف بڑھ نہیں جائے گی؟، گویا توہین کا معاملہ جتنا پھیلائیں اتنا ہی بڑھتا اور تکلیف دہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
ایک فقہی بزرگ (شاید امام شافعی)کے حوالے سے واقعہ ہے کہ ایک روز کسی شخص نے آکر انھیں خبر دی کہ فلاں جگہ فلاں شخص نے آپ کو گالی دی، حضرت نے برہم ہوکر جواب دیا' اس نے خنجر ہوا میں اچھالا تھا، تو نے لاکر میرے سینے میں گھونپ دیا۔
اللہ تعالیٰ اور اس کے مقرب بندوں بالخصوص نبی کریم ﷺ کا مقام اور محبت توکسی مسلمان کے لیے اس کے ماں باپ اور اولاد سے بھی بڑھ کرہے اور اسی لیے مسلمانوں کو ایسی واہیات خبروں سے تکلیف پہنچتی ہے۔ ہاں البتہ صرف بااختیار شخصیات کو اس حوالے آگہی ہونی چاہیے تاکہ وہ جرم کی صحت سے متعلق معلومات حاصل کرکے ملزم کوکیفرکردار تک پہنچانے کی ذمے داری پوری کرسکیں۔ جب کہ عام لوگوں کے لیے ایسے مواد تک رسائی اوراسے دوسروں تک پہنچانا بھی قانونا جرم قرار دیا جانا چاہیے اور وہ افراد جو ایسی لغویات کی تشہیر اور فروغ کی وجہ بنیں انھیں بھی قانون کے تحت سخت سزا ملنی چاہیے۔
اگر حکومت اس حوالے سے ٹھوس قانون سازی کرلے اور ایسا مواد شیئر کرنے والوں ہی پر قانون کا اطلاق کردیا جائے تو یہ معاملہ دوبارہ سر نہیں اٹھائے گا جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ جو لوگ محض شہرت حاصل کرنے یا معاشرے میں فتنہ وفساد پیدا کرنے کے لیے یہ کام کرتے ہیں' ان کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ رہی بات ان ہستیوں کی جن سے متعلق یہ دقیانوسی باتیں گھڑی جاتی ہیں' ان کی شان بہت بلند ہے، یہ جاہل تو سورج کی روشنی کو میلا نہیں کرسکتے، ماسوائے فضا میں آلودگی بکھیر کر اپنی نظر کو دھوکا دے لیں، تو بھلا تمام جہانوں اور عزتوں کے مالک کے نورکو کیسے دھندلاسکتے ہیں؟ہاں البتہ پیارے نبیﷺ کے امتیوں کے د لوں کو دکھ پہنچا کر مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔