فکسنگ کیس کی کارروائی بھی ’’فکسڈ‘‘
اب یہ بات سب پر عیاں ہو چکی کہ فکسنگ کیس کی کارروائی بھی ’’فکسڈ‘‘ ہے۔
''میں آپ سب کی آمد پر بہت شکرگزار ہوں''
دفتر آتے ہی جب ٹی وی پر عرفان کو پریس کانفرنس کے دوران یہ کہتے سنا تو ایسا لگا جیسے وہ کسی خوشی کی تقریب میں شریک اور مہمانوں کا شکریہ ادا کر رہے ہیں، مگر صرف میں ہی کیا سب ہی جانتے تھے کہ وہ بکیز کی پیشکش کا اعتراف مگر بورڈ کو نہ بتانے کی غلطی تسلیم کر لیں گے،اس پر انھیں کم سے کم سزا دے کر چھوڑ دیا جائے گا، بعد میں ایسا ہی ہوا، عرفان نے رٹے رٹائے جملے پڑھے اور پی سی بی میڈیا ڈپارٹمنٹ نے صحافیوں کو ان سے کوئی سوال بھی نہ کرنے دیا اور دکھاوے کی پریس کانفرنس ختم ہو گئی۔
اب یہ بات سب پر عیاں ہو چکی کہ فکسنگ کیس کی کارروائی بھی ''فکسڈ'' ہے،عرفان پربظاہر ایک سال کی پابندی لگائی گئی مگر درحقیقت وہ 6ماہ کی ہے، ڈومیسٹک سیزن اختتام پذیر ہے، ویسے بھی وہ کتنے میچز کھیلتے لہذا اس دوران آرام کا موقع مل جائے گا۔ شاید پی سی بی ان کے گھر پر سی سی ٹی وی کیمرے لگا کر رویہ چیک کرے گا جس کے بعد کرکٹ میں واپسی کی اجازت بھی مل جائے گی،وہ ویسے ہی ٹیم سے ان آؤٹ ہوتے رہتے ہیں، ویسٹ انڈیز سے یو اے ای کی ون ڈے سیریز میں بھی نہیں تھے، پھر فیملی ٹریجڈی کی وجہ سے آسٹریلیا کیخلاف ون ڈے سیریز سے بھی باہر رہے، چیمپئنز ٹرافی بھی نہ کھیلے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عرفان کو سزا دینے کیلیے اتنا انتظار کیوں کیا گیا؟ اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں کہ جب سب جانتے تھے کہ پیسر کے بکیز سے روابط رہے، چیئرمین بورڈ شہریارخان تک نے یہ بات کہی تھی کہ ''بکیز نے عرفان سے رابطہ کیا مگر انھوں نے رپورٹ نہ کی'' تو کیوں انھیں پوری پی ایس ایل کھیلنے دی گئی؟کس کی ایما پر واپس نہ بھیجا گیا؟ جب ایک جرم ہو گیا تو سزا کیلیے کسی ایونٹ کے ختم ہونے کا انتظار کرنا کہاں کا انصاف ہے،ابتدا میں بورڈ نے جو بلند وبانگ دعوے کیے وہ سب غلط ثابت ہوئے، لگتا ہے کہ اس کے پاس ملوث کرکٹرز کیخلاف ٹھوس ثبوت موجود نہیں، اسی ڈر سے خالد لطیف اور شرجیل خان کا معاملہ لٹکایا گیا۔
اب عرفان کو وعدہ معاف گواہ بنا کر ان کے بیان پر دونوں کو سخت سزا دے دی جائے گی، ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ پی سی بی کا اینٹی کرپشن یونٹ کیا کر رہا ہے؟ اس کیس میں بھی اگر آئی سی سی درمیان میں نہ پڑتی تو معاملہ دبا دیا جاتا، اب بھی کئی کھلاڑیوں پر شکوک مگر وہ آزاد ہیں، کئی تو ٹیم کے ساتھ ویسٹ انڈیز میں موجود ہیں، جس طرح ایف آئی اے کی تحقیقات رکوائی گئیں اور عرفان کیخلاف سخت ایکشن سے گریز کیا گیا، اس سے صاف ظاہر ہے کہ بورڈ حکام فکسنگ کیخلاف ''زیرو ٹالیرنس'' کے جھوٹے دعوے کرتے ہیں، اب پرانی فائلز بھی کھل رہی ہیں جس کی وجہ سے وسیم اکرم اور انضمام الحق متنازع ہو چکے،پی ایس ایل کی ساکھ ویسے ہی داؤ پر لگ چکی، اگلے سال بڑے پلیئرز سے معاہدوں میں بھی مشکل ہوگی، فکسنگ کے ڈر سے بورڈز اپنے کھلاڑیوں کو این او سی دیتے ہوئے سو بار سوچیں گے۔
ایسے میں کم از کم وسیم اکرم سے سفیر کی ذمہ داری واپس لے کر کسی کلین امیج کے حامل سابق کرکٹر کو سونپنی چاہیے،اسی طرح انضمام الحق کے لیے بھی اب چیف سلیکٹر کے عہدے پر رہنے کا کوئی جواز نہیں رہا، حالیہ دنوں میں ان کے اپنے سابق ساتھیوں نے الزامات کی بوچھاڑ کر دی ہے، اتنی اہم پوسٹ پر ان کا تقرر ٹھیک نہیں لگتا، آج ہی ایک سابق قومی کپتان نے واٹس ایپ پر عامر کی ویسٹ انڈیز روانگی سے قبل کی ایک تصویر بھیجی جس میں وہ قیمتی لباس پہنے لندن کے کسی مقام پر ''چھٹیوں'' سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، جس شہر میں انھیں اسپاٹ فکسنگ کی پاداش میں جیل کی سزا کاٹنا پڑی اب وہ شان سے وہاں گھوم رہے ہیں، مہنگی گاڑیاں اور دولت کی ریل پیل ہے۔
بس یہی وہ عوامل ہیں جس کی وجہ سے آپ نوجوانوں کو فکسنگ سے نہیں روک سکتے، پہلے ماضی کے ''سپراسٹارز'' اور اب عامر جیسی مثالیں انھیں ترغیب دلاتی ہیں کہ جو بھی کر لو، کچھ عرصے بعد سب بھول جائیں گے پھر شان سے زندگی گذارو، جب تک فکسرز کو نشانہ عبرت نہیں بنایا جاتا،ان کی جائیدادیں ضبط نہیں ہوتیں کوئی فرق نہیں پڑنے والا، مگر ہمارے ملک میں جہاں اربوں کی کرپشن کرنے والے سیاستدانوں کو سونے کے تاج پہنائے جاتے ہیں وہاں کرکٹرز کی غلطیاں اگر لوگ نظرانداز کر دیں تو کوئی حیرت کی بات نہیں ہے، معاملے سے توجہ ہٹانے کیلیے اچانک نت نئی کہانیاں چھیڑ دی جاتی ہیں جیسے ابھی حالیہ اسپاٹ فکسنگ کیس کا تذکرہ بھول کر1990کی باتیں سامنے لائی جانے لگیں جن سے اب کچھ حاصل نہیں ہو گا، پھر ہر کوئی جانتا ہے کہ بھارت آپ کے ساتھ کرکٹ نہیں کھیلے گا مگر اس سے سیریز کا شوشہ چھوڑ دیا گیا۔
اصل بات پی ایس ایل کیس ہے اس پر توجہ مرکوز رہنی چاہیے، جس طرح معاملے کو طول دیا جا رہا ہے اس سے یہ بات واضح ہو چکی کہ شاید کوئی بڑی پیش رفت نہ ہو، ایف آئی اے کے دفتر میں''روایتی تفتیش'' پر ہی کھلاڑی سارے راز اگل دیتے، ایسے میں کس کس پردہ نشین کے چہرے سے نقاب اٹھتا اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا، پھر ایونٹ کے ''سنسنی خیز میچز'' بھی زیرتفیش آتے اور انکشافات پی ایس ایل کو بھی بنگلہ دیش اور سری لنکن لیگز کی طرح لے ڈوبتے۔
آئی پی ایل تو اب مضبوط برانڈ بن چکی اس لیے فکسنگ اسکینڈل کے باوجود بچ گئی مگر پی ایس ایل ایسے جھٹکوں کی متحمل نہیں ہو سکتی، شاید اسی وجہ سے تحقیقات رکوا دی گئیں، ابھی بیچاری بالکل ہی بدحال ٹیم ویسٹ انڈیز سے سیریز جاری ہے ،پاکستانی شاہین اسے ہرا کر بڑا کارنامہ انجام دیں گے تو لوگ بالکل بھول جائیں گے کہ کوئی کرپشن کیس بھی سامنے آیا تھا، بورڈ کے حکمرانوں کے ذہن میں شاید یہی بات ہے، پھر ہمیں بھی ٹینشن لینے کی کیا ضرورت ہے،جو جیسا چل رہا ہے ویسا ہی چلنے دیں۔
دفتر آتے ہی جب ٹی وی پر عرفان کو پریس کانفرنس کے دوران یہ کہتے سنا تو ایسا لگا جیسے وہ کسی خوشی کی تقریب میں شریک اور مہمانوں کا شکریہ ادا کر رہے ہیں، مگر صرف میں ہی کیا سب ہی جانتے تھے کہ وہ بکیز کی پیشکش کا اعتراف مگر بورڈ کو نہ بتانے کی غلطی تسلیم کر لیں گے،اس پر انھیں کم سے کم سزا دے کر چھوڑ دیا جائے گا، بعد میں ایسا ہی ہوا، عرفان نے رٹے رٹائے جملے پڑھے اور پی سی بی میڈیا ڈپارٹمنٹ نے صحافیوں کو ان سے کوئی سوال بھی نہ کرنے دیا اور دکھاوے کی پریس کانفرنس ختم ہو گئی۔
اب یہ بات سب پر عیاں ہو چکی کہ فکسنگ کیس کی کارروائی بھی ''فکسڈ'' ہے،عرفان پربظاہر ایک سال کی پابندی لگائی گئی مگر درحقیقت وہ 6ماہ کی ہے، ڈومیسٹک سیزن اختتام پذیر ہے، ویسے بھی وہ کتنے میچز کھیلتے لہذا اس دوران آرام کا موقع مل جائے گا۔ شاید پی سی بی ان کے گھر پر سی سی ٹی وی کیمرے لگا کر رویہ چیک کرے گا جس کے بعد کرکٹ میں واپسی کی اجازت بھی مل جائے گی،وہ ویسے ہی ٹیم سے ان آؤٹ ہوتے رہتے ہیں، ویسٹ انڈیز سے یو اے ای کی ون ڈے سیریز میں بھی نہیں تھے، پھر فیملی ٹریجڈی کی وجہ سے آسٹریلیا کیخلاف ون ڈے سیریز سے بھی باہر رہے، چیمپئنز ٹرافی بھی نہ کھیلے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عرفان کو سزا دینے کیلیے اتنا انتظار کیوں کیا گیا؟ اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں کہ جب سب جانتے تھے کہ پیسر کے بکیز سے روابط رہے، چیئرمین بورڈ شہریارخان تک نے یہ بات کہی تھی کہ ''بکیز نے عرفان سے رابطہ کیا مگر انھوں نے رپورٹ نہ کی'' تو کیوں انھیں پوری پی ایس ایل کھیلنے دی گئی؟کس کی ایما پر واپس نہ بھیجا گیا؟ جب ایک جرم ہو گیا تو سزا کیلیے کسی ایونٹ کے ختم ہونے کا انتظار کرنا کہاں کا انصاف ہے،ابتدا میں بورڈ نے جو بلند وبانگ دعوے کیے وہ سب غلط ثابت ہوئے، لگتا ہے کہ اس کے پاس ملوث کرکٹرز کیخلاف ٹھوس ثبوت موجود نہیں، اسی ڈر سے خالد لطیف اور شرجیل خان کا معاملہ لٹکایا گیا۔
اب عرفان کو وعدہ معاف گواہ بنا کر ان کے بیان پر دونوں کو سخت سزا دے دی جائے گی، ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ پی سی بی کا اینٹی کرپشن یونٹ کیا کر رہا ہے؟ اس کیس میں بھی اگر آئی سی سی درمیان میں نہ پڑتی تو معاملہ دبا دیا جاتا، اب بھی کئی کھلاڑیوں پر شکوک مگر وہ آزاد ہیں، کئی تو ٹیم کے ساتھ ویسٹ انڈیز میں موجود ہیں، جس طرح ایف آئی اے کی تحقیقات رکوائی گئیں اور عرفان کیخلاف سخت ایکشن سے گریز کیا گیا، اس سے صاف ظاہر ہے کہ بورڈ حکام فکسنگ کیخلاف ''زیرو ٹالیرنس'' کے جھوٹے دعوے کرتے ہیں، اب پرانی فائلز بھی کھل رہی ہیں جس کی وجہ سے وسیم اکرم اور انضمام الحق متنازع ہو چکے،پی ایس ایل کی ساکھ ویسے ہی داؤ پر لگ چکی، اگلے سال بڑے پلیئرز سے معاہدوں میں بھی مشکل ہوگی، فکسنگ کے ڈر سے بورڈز اپنے کھلاڑیوں کو این او سی دیتے ہوئے سو بار سوچیں گے۔
ایسے میں کم از کم وسیم اکرم سے سفیر کی ذمہ داری واپس لے کر کسی کلین امیج کے حامل سابق کرکٹر کو سونپنی چاہیے،اسی طرح انضمام الحق کے لیے بھی اب چیف سلیکٹر کے عہدے پر رہنے کا کوئی جواز نہیں رہا، حالیہ دنوں میں ان کے اپنے سابق ساتھیوں نے الزامات کی بوچھاڑ کر دی ہے، اتنی اہم پوسٹ پر ان کا تقرر ٹھیک نہیں لگتا، آج ہی ایک سابق قومی کپتان نے واٹس ایپ پر عامر کی ویسٹ انڈیز روانگی سے قبل کی ایک تصویر بھیجی جس میں وہ قیمتی لباس پہنے لندن کے کسی مقام پر ''چھٹیوں'' سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، جس شہر میں انھیں اسپاٹ فکسنگ کی پاداش میں جیل کی سزا کاٹنا پڑی اب وہ شان سے وہاں گھوم رہے ہیں، مہنگی گاڑیاں اور دولت کی ریل پیل ہے۔
بس یہی وہ عوامل ہیں جس کی وجہ سے آپ نوجوانوں کو فکسنگ سے نہیں روک سکتے، پہلے ماضی کے ''سپراسٹارز'' اور اب عامر جیسی مثالیں انھیں ترغیب دلاتی ہیں کہ جو بھی کر لو، کچھ عرصے بعد سب بھول جائیں گے پھر شان سے زندگی گذارو، جب تک فکسرز کو نشانہ عبرت نہیں بنایا جاتا،ان کی جائیدادیں ضبط نہیں ہوتیں کوئی فرق نہیں پڑنے والا، مگر ہمارے ملک میں جہاں اربوں کی کرپشن کرنے والے سیاستدانوں کو سونے کے تاج پہنائے جاتے ہیں وہاں کرکٹرز کی غلطیاں اگر لوگ نظرانداز کر دیں تو کوئی حیرت کی بات نہیں ہے، معاملے سے توجہ ہٹانے کیلیے اچانک نت نئی کہانیاں چھیڑ دی جاتی ہیں جیسے ابھی حالیہ اسپاٹ فکسنگ کیس کا تذکرہ بھول کر1990کی باتیں سامنے لائی جانے لگیں جن سے اب کچھ حاصل نہیں ہو گا، پھر ہر کوئی جانتا ہے کہ بھارت آپ کے ساتھ کرکٹ نہیں کھیلے گا مگر اس سے سیریز کا شوشہ چھوڑ دیا گیا۔
اصل بات پی ایس ایل کیس ہے اس پر توجہ مرکوز رہنی چاہیے، جس طرح معاملے کو طول دیا جا رہا ہے اس سے یہ بات واضح ہو چکی کہ شاید کوئی بڑی پیش رفت نہ ہو، ایف آئی اے کے دفتر میں''روایتی تفتیش'' پر ہی کھلاڑی سارے راز اگل دیتے، ایسے میں کس کس پردہ نشین کے چہرے سے نقاب اٹھتا اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا، پھر ایونٹ کے ''سنسنی خیز میچز'' بھی زیرتفیش آتے اور انکشافات پی ایس ایل کو بھی بنگلہ دیش اور سری لنکن لیگز کی طرح لے ڈوبتے۔
آئی پی ایل تو اب مضبوط برانڈ بن چکی اس لیے فکسنگ اسکینڈل کے باوجود بچ گئی مگر پی ایس ایل ایسے جھٹکوں کی متحمل نہیں ہو سکتی، شاید اسی وجہ سے تحقیقات رکوا دی گئیں، ابھی بیچاری بالکل ہی بدحال ٹیم ویسٹ انڈیز سے سیریز جاری ہے ،پاکستانی شاہین اسے ہرا کر بڑا کارنامہ انجام دیں گے تو لوگ بالکل بھول جائیں گے کہ کوئی کرپشن کیس بھی سامنے آیا تھا، بورڈ کے حکمرانوں کے ذہن میں شاید یہی بات ہے، پھر ہمیں بھی ٹینشن لینے کی کیا ضرورت ہے،جو جیسا چل رہا ہے ویسا ہی چلنے دیں۔