بھارت سے تجارت زرعی وصنعتی شعبے کو تحفظ کی سفارش
ایم ایف این اسٹیٹس سے نقصان ہوگا، منفی فہرست میں بڑی فصلوں کو تحفظ دیا جائے۔
یوایس ایڈ کے تحت کی گئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ بھارت کو پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے سے پاکستانی صنعت وزراعت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
تحقیقی رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ ایم ایف این اسٹیٹس ریجیم کے تحت بھارت سے اسٹیل، آئرن، فارماسیوٹیکل اور زرعی اشیا کی درآمدات کیلیے ٹیرف کوٹہ طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت کیلیے پاکستانی برآمدات میں اضافہ ہوگا، پاکستانی مارکیٹ بھارت سے زیادہ کھلی ہے اور بھارت کو ایم ایف این اسٹیٹس دیے گئے پاکستان کی جانب سے 97 فیصد بھارتی مصنوعات کی تجارت لبرالائز کی جاچکی ہے، وزارت تجارت کو بھارت کو ایم ایف این اسٹیٹس دیے جانے سے قبل لبرالائز ٹریڈ کے اثرات کے حوالے سے اسٹڈی کرنی چاہیے۔
ایک اہلکار نے بتایا کہ یہ اسٹڈی جنوری 2013 میں کی گئی ہے جس سے وزارت تجارت کے بھارت کو ایم ایف این اسٹیٹس دینے کے منصوبے میں غلطیوں کی نشاندہی ہوئی ہے، یوایس ایڈ کی اسٹڈی نے ٹیکسٹائل، صنعت وزراعت سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے تحفظات کی تصدیق کردی ہے، تحقیق سے پتا چلا کہ بھارتی ٹریڈ ریجیم کے ذریعے پاکستانی برآمدی اشیا کیلیے کافی رکاوٹیں ڈالی گئی ہیں، پاکستان نے بھارتی برآمدات کے حوالے سے دہلی کو کافی کچھ دیا۔ ماہر اقتصادیات حفیظ پاشا نے رپورٹ میں لکھا کہ بھارت نے پاکستانی مصنوعات کیلیے تجارت کو صرف 43 فیصد آزاد بنایا جبکہ بھارت پاکستانی برآمدات کے ساتھ ترجیحی برتائو نہیں کر رہا۔
رپورٹ میں پاکستان کو منفی فہرست ختم نہ کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مقامی صنعت اور زرعی شعبے کے تحفظ کیلیے منفی فہرست کو مکمل ختم نہیں کرناچاہیے بڑی فصلوں کو تحفظ دینے کیلیے منفی فہرست کو مزید زرعی اشیا تک توسیع دینی چاہیے، کاشتکار برادری کو تحفظ دینے کیلیے بھارتی کاٹن ایکسپورٹ کیلیے کوٹہ سسٹم متعارف کرایا جانا چاہیے اور ٹیکسٹائل کے حوالے سے برابری پر بات ہونی چاہیے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت تقریباً تمام اشیا بشمول کھاد وبجلی پر سبسڈی دے رہا ہے، بھارتی صنعت کیلیے تجارت کے راستے کھولنے سے پاکستانی انڈسٹری متاثر ہوگی، اس لیے ایم ایف این ریجیم کے تحت صنعت کو پھلنے پھولنے کا موقع ملنا چاہیے۔
تحقیقی رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ ایم ایف این اسٹیٹس ریجیم کے تحت بھارت سے اسٹیل، آئرن، فارماسیوٹیکل اور زرعی اشیا کی درآمدات کیلیے ٹیرف کوٹہ طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت کیلیے پاکستانی برآمدات میں اضافہ ہوگا، پاکستانی مارکیٹ بھارت سے زیادہ کھلی ہے اور بھارت کو ایم ایف این اسٹیٹس دیے گئے پاکستان کی جانب سے 97 فیصد بھارتی مصنوعات کی تجارت لبرالائز کی جاچکی ہے، وزارت تجارت کو بھارت کو ایم ایف این اسٹیٹس دیے جانے سے قبل لبرالائز ٹریڈ کے اثرات کے حوالے سے اسٹڈی کرنی چاہیے۔
ایک اہلکار نے بتایا کہ یہ اسٹڈی جنوری 2013 میں کی گئی ہے جس سے وزارت تجارت کے بھارت کو ایم ایف این اسٹیٹس دینے کے منصوبے میں غلطیوں کی نشاندہی ہوئی ہے، یوایس ایڈ کی اسٹڈی نے ٹیکسٹائل، صنعت وزراعت سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے تحفظات کی تصدیق کردی ہے، تحقیق سے پتا چلا کہ بھارتی ٹریڈ ریجیم کے ذریعے پاکستانی برآمدی اشیا کیلیے کافی رکاوٹیں ڈالی گئی ہیں، پاکستان نے بھارتی برآمدات کے حوالے سے دہلی کو کافی کچھ دیا۔ ماہر اقتصادیات حفیظ پاشا نے رپورٹ میں لکھا کہ بھارت نے پاکستانی مصنوعات کیلیے تجارت کو صرف 43 فیصد آزاد بنایا جبکہ بھارت پاکستانی برآمدات کے ساتھ ترجیحی برتائو نہیں کر رہا۔
رپورٹ میں پاکستان کو منفی فہرست ختم نہ کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مقامی صنعت اور زرعی شعبے کے تحفظ کیلیے منفی فہرست کو مکمل ختم نہیں کرناچاہیے بڑی فصلوں کو تحفظ دینے کیلیے منفی فہرست کو مزید زرعی اشیا تک توسیع دینی چاہیے، کاشتکار برادری کو تحفظ دینے کیلیے بھارتی کاٹن ایکسپورٹ کیلیے کوٹہ سسٹم متعارف کرایا جانا چاہیے اور ٹیکسٹائل کے حوالے سے برابری پر بات ہونی چاہیے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت تقریباً تمام اشیا بشمول کھاد وبجلی پر سبسڈی دے رہا ہے، بھارتی صنعت کیلیے تجارت کے راستے کھولنے سے پاکستانی انڈسٹری متاثر ہوگی، اس لیے ایم ایف این ریجیم کے تحت صنعت کو پھلنے پھولنے کا موقع ملنا چاہیے۔